سود

قسط نمبر 23

کاروباری اغراض کے لیے

اس کے بعد اُن قرضوں کا معاملہ لیجیے جو کاروباری لوگوں کو اپنے آئے دن کی ضروریات کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ موجودہ زمانہ میں ان مقاصد کے لیے یا تو بینکوں سے براہ راست قلیل المدت قرضے (Short Term Loan) حاصل کیے جاتے ہیں یا پھر ہنڈیاں (Exchange) بھنائی جاتی ہیں اور دونوں صورتوں میں بینک ایک ہلکی سی شرح سود اس پر لگاتے ہیں۔ یہ تجارت کی ایک ایسی اہم ضرورت ہے جس کے بغیر کوئی کام آج نہیں چل سکتا اس لیے جب کاروباری لوگ بندشِ سود کا نام سنتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے جو فکر لاحق ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ پھر رو ز مرہ کی ان ضروریات کے لیے قرض کیسے ملے گا؟ اگر بینک کو سود کا لالچ نہ ہو تو آخر وہ کیوں ہمیں قرض دے گا اور کیوں ہماری ہنڈیاں بھنائے گا؟
لیکن سوال یہ ہے کہ جن بینک کے پاس تمام رقومِ امانت بلا سود جمع ہوں اور جس کے پاس خود ان تاجروں کا بھی لاکھوں روپیہ بلاسود رکھا رہتا ہو‘ وہ آخر کیوں نہ ان کو بلا سود قرض دے اور کیوں نہ ان کی ہنڈیاں بھنائے؟ وہ اگر سیدھی طرح اس پر راضی نہ ہوگا تو تجارتی قانون کے ذریعے سے اس کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنے کھاتہ داروں (Customers) کو یہ سہولت بہم پہنچائے۔ اُس کے فرائض میں یہ چیز شامل ہونا چاہیے۔
درحقیقت اس کام کے لیے خود تاجروں کی اپنی رکھوائی ہوئی رقمیں ہی کافی ہو سکتی ہیں۔ لیکن ضرورت پڑ جانے پر کوئی مضائقہ نہیں اگر بینک اپنے دوسرے سرمایہ میں سے بھی تھوڑا بہت اس غرض کے لیے استعمال کرلے۔
بہرحال اصولاً یہ بات بالکل واجبی بھی ہے کہ جو سود لے نہیں رہا ہے وہ سود دے کیوں؟ اور اجتماعی معیشت کے نقطۂ نظر سے یہ مفید بھی ہے کہ تاجروں کو اپنی روز مرہ کی ضروریات کے لیے بلاسود قرض ملتا رہے۔
رہا یہ سوال کہ اگر اس لین دین میں بینک کو سود نہ ملے تو وہ اپنے مصارف کیسے پورے کرے گا؟ اس کا جواب یہ کہ جب چالو کھاتوں (Current account) کی ساری رقمیں بینک کے پاس بلاسود رہیں گی تو اس کے لیے انہی رقموں میں سے دست گرداں قرضے بلا سود دینا کوئی نقصان دہ معاملہ نہ رہے گا کیوں کہ اس صورت میں حساب کتاب اور دفتر داری کے جو تھوڑے بہت مصارف بینک کو برداشت کرنے ہوں گے ان سے کچھ زیادہ ہی فوائد وہ ان رقموں سے حاصل کر لے گا جو اس کے پاس جمع ہوں گی۔ تاہم بالفرض یہ طریقہ قابل عمل نہ ہو تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ بینک اپنی اس طرح کی خدمات کے لیے ایک ماہوار یا ششماہی فیس اپنے تمام تجارت پیشہ کھاتہ داروں پر عائد کر دے جو اس مد کے مصارف پورے کرنے کے لیے کافی ہو۔ سود کی بہ نسبت یہ فیس ان لوگوں کو زیادہ سستی پڑے گی اس لیے وہ بخوشی اسے گوارا کرلیں گے۔

حکومتوں کی غیر نفع آور ضروریات کے لیے

تیسری اہم مد ان قرضوں کی ہے جو حکومتوں کو بھی وقتی حوادث کے لیے اور کبھی غیر نفع آور ملکی ضروریات کے لیے اور کبھی جنگ کے لیے ہوتے ہیں۔ موجودہ نظامِ مالیات میں ان سب مقاصد کے لیے روپیہ تمام تر قرض اور وہ بھی سودی قرض کی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اسلامی نظام مالیات میں یہ عین ممکن ہوگا کہ اِدھر حکومت کی طرف سے ضرورت کا اظہار ہو اور اُدھر قوم کے افراد اور ادارے خود لا لا کر چندوں کے ڈھیر اس کے سامنے لگا دیں اس لیے کہ سود کی بندش اور زکوٰۃ کی تنظیم لوگوں کو اس قدر آسودہ اور مطمئن کر دے گی کہ اپنے اندوختے (Saving) اپنی حکومت کو یوں ہی دے دینے میں کوئی تامل نہ ہوگا۔اس پر بھی اگر بقدر ضرورت روپیہ نہ ملے تو حکومت قرض مانگے گی اور لوگ دل کھول کر اسے قرضِ حسن دیں گے لیکن اگر اس سے بھی ضروریات پوری نہ ہو سکیں تو اسلامی حکومت اپنا کام چلانے کے لیے حسب ذیل طریقے اختیار کر سکتی ہے:۔
-1 زکوٰۃ و خمس کی رقمیں استعمال کرے۔
-2 تمام بینکوں سے اُن کی رقومِ امانت کا ایک مخصوص حصہ حکماً بطور قرض طلب کرے جس کا اسے اتنا ہی حق پہنچتا ہے جتنا وہ افرادِ قوم سے لازمی فوجی خدمت (conscriptions) طلب کرنے اور لوگوں سے ان کی عمارتیں اور موٹریں اور دوسری چیزیں بزور حاصل کرنے (Requisition) کا حق رکھتی ہے۔
-3 بدرجۂ آخر وہ اپنی ضرورت کے مطابق نوٹ چھاپ کر بھی کام چلا سکتی ہے جو دراصل قوم ہی سے قرض لینے کی ایک دوسری صورت ہے۔ لیکن یہ محض ایک آخری چارۂ کار ہے جو بالکل ناگزیر حالات ہی میں اختیار کیا جاسکتا ہے کیوں کہ اس کی قباحتیں بہت زیادہ ہیں۔

بین الاقوامی ضروریات کے لیے

اب رہے بین الاقوامی قرضے‘ تو اس معاملے میں یہ بات تو بالکل ظاہر ہے کہ موجودہ سود خوار دنیا میں ہم قومی ضرورت کے موقع پرنہیں سے ایک پیسہ بلا سود قرض پانے کی توقع نہیں کر سکتے۔ اس پہلو میں تو ہم کو تمام تر کوشش یہی کرنی ہوگی کہ ہم بیرونی قوموں سے کوئی قرض نہ لیں‘ کم از کم اُس وقت تک تو ہرگز نہ لیں جب تک کہ ہم خود دوسروں کو اس امر کا نمونہ نہ دکھا دیں کہ ایک قوم اپنے ہمسایوں کو کس طرح بلا سود قرض دے سکتی ہے۔ رہا قرض دینے کا معاملہ تو جو بحث اس سے پہلے ہم کر چکے ہیں اس کے بعد شاید کسی صاحبِ نظر آدمی کو بھی یہ تسلیم کرنے میں تامل نہ ہوگا کہ اگر ایک دفعہ ہم نے ہمت کرکے اپنے ملک میں ایک صالح مالی نظام بندشِ سود اور تنظیم زکوٰۃ کی بنیاد پر قائم کر لیا تو یقینا بہت جلد ہماری مالی حالت اتنی اچھی ہو جائے گی کہ ہمیں نہ صرف خود باہر سے قرض لینے کی حاجت نہ ہوگی بلکہ ہم اپنے گردوپیش کی حاجت مند قوموں کو بلا سود قرض دینے کے قابل ہو جائیں گے اور جس روز ہم یہ نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں گے وہ دن دورِ جدید کی تاریخ میں صرف مالی اور معاشی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ سیاسی‘ تمدنی اور اخلاقی حیثیت سے بھی انقلاب انگیز ہوگا۔ اس وقت یہ امکان پیدا ہو جائے گا کہ ہمارا اور دوسری قوموں کا تمام لین دین غیر سودی بنیاد پر ہو یہ بھی ممکن ہوگا کہ دنیا کی قومیں یکے بعد دیگرے لیں گی اور بعید نہیں کہ وہ دن بھی ہم دیکھ سکیں جب بین الاقوامی رائے عام سود خوری کے خلاف بالاتفاق اسی نفرت کا ظہار کرنے لگے جس کا اظہار 1945ء میں برٹین ودوڈس کے معاملے پر انگلستان میں کیا گیا تھا۔ یہ محض ایک خیالی پلائو نہیں ہے‘ بلکہ فی الواقعی آج ایک خیالی پلائو نہیں ہے‘ بلکہ فی الواقع آج بھی دنیا کے سوچنے والے دماغ یہ ہی سوچ رہے ہیں کہ بین الاقوامی قرضوں پر سود لگنے سے دنیا کی سیاست اور معیشت دونوں پر نہایت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس طریقہ کو چھوڑ کر اگر خوش حال ممالک اپنی فاضل دولت کے ذریعے سے خستہ حال اور آفت رسیدہ ممالک کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانے کی مخلصانہ و ہمدردانہ کوشش کریں تو اس کا دہرا فائدہ ہوگا۔ سیاسی و تمدنی حیثیت ایک خستہ حال دیوالیہ ملک کا خون چوسنے کی بہ نسبت ایک خوش حال اور مال دار ملک کے ساتھ کاروبار کرنا بدرجہا زیادہ نافع ثابت ہوگا۔ یہ حکمت کی باتیں سوچنے والے سوچ رہے ہیں اور کہنے والے کہہ رہے ہیں‘ لیکن ساری کسر بس اس بات کی ہے کہ دنیا میں کوئی حکیم قوم ایسی ہو جو پہلے اپنے گھر سے سود خوری کو مٹائے اور آگے بڑھ کر بین الاقوامی لین دین سے اس لعنت کو خارج کرنے کی عملاً ابتدا کر دے۔

نفع آوراغراض کے لیے سرمایہ کی بہم رسانی

مالیات قرض کے بعد اب ایک نظر یہ بھی دیکھ لیجیے کہ ہمارے پیش نظر نظام میں کاروباری معاملات کیا شکل اختیار کریں گے۔ اس سلسلے میں جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں‘ سود کا انسداد لوگوں کے لیے یہ دروازہ تو قطعی بند کر دے گا کہ وہ محنت اور خطرہ (Risk) دونوں چیزوں سے بچ کر اپنے سرمائے کو تحفظ اور متعین منافع کی ضمانت کے ساتھ کسی کام میں لگا سکیں اور اس طرح زکوٰۃ ان کے لیے اس دروازے کو بھی بند کر دے گی کہ وہ اپنا سرمایہ روک رکھیں اور اس پر مارِ زر بن کر بیٹھ جائیں۔ مزید برآں ایک حقیقی اسلامی حکومت کی موجودگی میں لوگوں کے لیے عیاشیوں اور فضول خرچیوں کا دروازہ بھی کھلا نہ رہے گا کہ ان کی فاضل آمدنیاں اِدھر بہہ نکلیں۔ اس کے بعد لامحالہ ان تمام لوگوں کوجو ضرورت سے زائد آمدنی رکھتے ہوں‘ تین راستوں میں سے کوئی ایک راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔
-1 اگر وہ مزید آمدنی کے طالب نہ ہو تو اپنی بچت کو رفاہ عام کے کاموں میں صرف کریں‘ خواہ اس کی صورت یہ ہو کہ وہ خود کسی کارِ خیر پر اسے وقف کریں یا یہ ہو کہ قومی اداروں کو چندے اور عطیے دیں یا پھر یہ ہو کہ بے غرضانہ و مخلصانہ طریقہ سے اسلامی حکومت کے حوالے کر دیں تاکہ وہ اسے امور نافعہ اور ترقیاتِ عامہ میں اصلاح خلق کے کاموں پر صرف کرے۔ خصوصیت کے ساتھ آخری صورت کو لازماً ترجیح دی جائے گی اگر حکومت کا نظم و نسق ایسے کارکنوں کے ہاتھوں میں ہو جن کی دیانت اور فراست پر عموماً لوگوںکو بھروسہ ہو۔ اسی طرح اجتماعی مصالح اور ترقی و بہبود کے کاموں کے لیے حکومت کو اور دوسرے اجتماعی اداروںکو سرمائے کی ایک کثیر مقدار ہمیشہ مفت ملتی رہے گی جس کا سود یا منافع تو درکنار اصل ادا کرنے کے لیے بھی عوام الناس پر ٹیکسوں کا کوئی بار نہ پڑے گا۔
-2 اگر وہ مزید آمدنی کے طالب تو نہ ہوں‘ لیکن اپنی زائد از ضرورت دولت کو اپنے لیے محفوظ رکھنا چاہتے ہوں تو اسے بینک میں جمع کرا دیں اور بینک اس کو امانت میں رکھنے کے بجائے اپنے ذمہ قرض قرار دے۔ اس صورت میں بینک اس بات کا ضامن ہوگا کہ ان کی جمع کردہ رقم عندالطلب یا طے شدہ وقت پر انہیں واپس کر دے اور اس کے ساتھ بینک کو یہ حق ہوگا کہ قرض کی اس رقم کو کاروبار میں لگائے اور اس کا منافع حاصل کرے۔ اس منافع میں سے کوئی حصہ اسے کھاتہ داروں کو دینا نہ ہوگا بلکہ وہ کلیتاً بینک کا اپنا منافع ہوگا۔ امام ابو حنیفہؒ کی تجارت بہت بڑی حد تک اسی اسلامی اصول کی رہینِ منت تھی۔ ان کی دیانت اورغیر معمولی ساکھ کی وجہ سے لوگ اپنا روپیہ ان کے پاس حفاظت کے لیے رکھواتے تھے۔ امام صاحب اس روپے کو امانت میں رکھنے کے بجائے قرض کے طور پر لیتے اور اسے اپنے تجارتی کاروبار میں استعمال کرتے تھے۔ ان کے سوانح نگاروں کا بیان ہے کہ ان کی وفات کے وقت جب حساب کیا گیا تو ان کی فرم میں 5 کروڑ درہم کا سرمایہ اسی قاعدے کے مطابق لوگوں کی رکھوائی رقوم کا لگا ہوا تھا۔ اسلامی اصول یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے پاس امانت رکھوائے تو امین اسے استعمال نہیں کرسکتا‘ مگر امانت ضائع ہو جائے تو اس پر کوئی ضمان عائد نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اگر وہی مال قرض کے طور پر دیا جائے تو مدیون اسے استعمال کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق دار ہے اور وقت پر قرض ادا کرنے کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔ اسی قاعدے پر اب بھی بینک عمل کر سکتے ہیں۔
-3 اور اگر وہ اپنی پس انداز رقموں کو کسی نفع آور کام لگانے کے خواہش مند ہوں تو ان کے لیے اس چیز کے حصول کا صرف ایک راستہ کھلا ہوگا یہ کہ اپنی بچائی ہوئی رقموں کو مضاربت یا نفع و نقصان میں متناسب شرکت کے اصول پر نفع بخش کاموں میں میں لگائیں‘ خواہ حکومت کے توسط سے یا بینکوں کے توسط سے۔
خود لگانا چاہیں گے تو ان کو کسی کاروبار میں شرکت کی شرائط آپ طے کرنی ہوں گی جن میں ازروئے قانون اس امر کا تعین ضروری ہوگا کہ فریقین کے درمیان نفع و نقصان کی تقسیم کس تناسب سے ہوگی علیٰ ہذالقیاس مشترک سرمائے کی کمپنیوں میں بھی شرکت کی صورت صرف یہی ایک ہوگی کہ سیدھے سادھے حصے خرید لیے جائیں۔ بانڈ اور ڈبنچر اور اس طرح کی دوسری چیزیں‘ جن کے خریدار کو کمپنی سے ایک لگی بندھی آمدنی ملتی ہے‘ سرے سے موجود ہی نہ ہوں گی۔
حکومت کے توسط سے لگانا چاہیں گے تو انھیں امور نافع سے متعلق حکومت کی کسی اسکیم میں حصہ دار بننا ہوگا۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ حکومت برق آبی کی کوئی تجویز عمل میں لانا چاہتی ہے۔ وہ اس کا اعلان کرکے پبلک کو اس میں شرکت کی دعوت دے گی۔ جو اشخاص یا ادارے یا بینک اس میں سرمایہ دیں گے وہ حکومت کے ساتھ اس کے حصہ دار بن جائیں گے اور اس کے کاروباری منافع میں سے ایک طے شدہ تناسب کے مطابق حصہ پاتے رہیں گے۔ نقصان ہوگا تو اس کا بھی متناسب حصہ ان سب پر اور حکومت پر تقسیم ہو جائے گا اور حکومت اس امر کی بھی حق دار ہوگی کہ ایک ترتیب کے ساتھ بتدریج لوگوں کے حصے خود خریدتی چلی جائے یہاں تک کہ چالیس پچاس سال میں برق آبی کا وہ پورا کام خالص سرکاری ملک بن جائے۔
مگر موجودہ نظام کی طرح اس نظام میں بھی سب سے زیادہ قابل عمل اور مفید تیسری صورت ہی ہوگی‘ یعنی یہ کہ لوگ بینکوں کے توسط سے اپنا سرمایہ نفع بخش کاموں میں لگائیں اس لیے ہم اس کو ذرا زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کرنا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کے سامنے اس امر کی صاف تصویر آجائے کہ سود کو ساقط کرنے کے بعد بینکنگ کا کاروبار کس طرح چل سکتا ہے اور نفع کے طالب لوگ اس سے کس طرح متمتع ہو سکتے ہیں۔
(جاری ہے)

حصہ