اصولِ اتحاد

550

جدوجہدِ آزادی کے دوران قائداعظم نے قومی شخصیت اور کردار کی تعمیر کے جو تین اصول پیش کیے ان میں اتحاد کو اوّلیت حاصل ہے۔ اتحاد اجتماعی زندگی کی بنیاد اور اس کا جوہرِ حقیقی ہے۔ اتحاد کے بغیر کوئی ہیئتِ اجتماعیہ وجود میں نہیں آسکتی نہ قائم رہ سکتی ہے‘ لیکن خود اتحاد کی بنیاد کیا ہے اور اتحاد کس طرح وجود میں آتا ہے‘ اس کا انحصار ہر معاشرے کی ساخت اور ہیت پر ہوتا ہے۔ مثلاً بعض معاشرے خاندانی اور نسلی رشتوں پر قائم ہوتے ہیں اور ان کا اتحاد خون‘ رنگ اور نسل سے وجود میں آتا ہے۔ یہ غالباً اتحاد کی سب سے پہلی اور ابتدائی شکل ہے۔ قبائلی علاقوں میں اتحاد کی یہی ابتدائی شکل پائی جاتی ہے۔ اتحاد کی دوسری شکل وہ ہے جس میں انسان اپنے ملک و وطن کے رشتے متحد ہوتے ہیں۔ ان میں اس زمین کا گہرا اور بنیادی احساس موجود ہوتا ہے جس پر وہ رہتے ہیں اور یہی احساس ان کے اتحاد کی بنیاد بنتا ہے۔ اتحاد کی تیسری اور زیادہ ترقی یافتہ صورت وہ ہے جو کسی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آتی ہے۔ ایسے معاشروں میں لوگ ایک مقصد کے ذریعے متحد ہوتے ہیں اور ان کا نصب العین انہیں ایک دوسرے سے وابستہ کرتا ہے‘ لیکن اتحاد کی سب سے مضبوط اور ترقی یافتہ صورت وہ ہے جس کی بنیاد کسی عقیدے پر ہوتی ہے۔ نظریے اور عقیدے میں فرق یہ ہی کہ نظریے انسانوں کے تخلیق کردہ ہوتے ہیں اور ماحول‘ وقت اور حالات کے ساتھ ادلتے بدلتے رہتے ہیں جب کہ عقیدے کا سرچشمہ وحی یا الہام ہوتا ہے اور وہ خدا کی طرف سے سمجھے جاتے ہیں۔ مسلمانوں مین اتحاد کی بنیاد عقیدہ ہے۔ دنیا کا کوئی انسان خواہ وہ کسی نسل‘ قوم‘ ملک سے تعلق رکھتا ہو‘ اسلام پر ایمان لاتے ہی مسلمانوں کا حصہ بن جاتا ہے۔ مسلمانوں کے اس اتحاد کی علامت کلمہ طیبہ ہے۔ مسلم اتحاد کی سب سے مضبوط بنیاد یہ ہے کہ مسلماں لا الٰہ الا اللہ‘ محمد رسول اللہ پر یقین رکھتے ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی سے ایک مرتبہ اس کے مسیحی حریفوں نے اپنی قوت کے اظہار کے لیے اپنے حمایتیوں کی تعداد بتائی تو سلطان نے جواب دیا میری قوت لا الٰہ الا اللہ ہے دنیا میں جہاں کہیں اس کلمے کا پڑھنے والا موجود ہے وہ میرا سپاہی ہے‘ لیکن کلمے کے اس بنیادی اور ماورائی اتحاد کے ساتھ اسلام اتحاد کی دوسری بنیادوں کو کبھی رد نہیں کرتا ہے۔ وہ انھیں ان کی جگہ رکھ کر اپنا تابع بنا لیتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمانوں کی خاندانی‘ قومی‘ مسلکی یک جہتی بھی اس اتحاد کے اندر کام کرتی رہتی ہے۔ مثلاً یوں تو تمام دنیا کے مسلمان اپنے عقیدے اور کلمے کی بنا پر ایک دوسرے سے متحد ہیں لیکن ایرانی‘ ترکی‘ عربی‘ مصری مسلمانوں کے لیے ان کی نسل‘ قومی اور وطنی بنیاددیں بھی موجود ہیں اور جب تک وہ اسلام اور اس کے مقاصد سے متصادم نہ ہوں اسلام ان کی نفی نہیں کرتا۔ برصغیر کے مسلمان مختِلف دور دراز علاقوں میں بٹے ہوئے تھے اور ان کے درمیان سرحدی‘ بلوچی‘ پنجابی‘ سندھی‘ بنگال‘ بہاری‘ دکنی وغیرہ کی حیثیت سے اتحاد کی مقامی بنیادیں بھی موجود تھیں‘ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ برصغیر کے مسلمانوںکی حیثیت سے اتحاد کے ایک وسیع تر دائرے میں شریک تھے‘ تحریک پاکستان میں برصغیر کے مسلمانوں کا یہی قومی اتحاد اپنی پوری قوت سے بہ روئے کار آیا تھا۔ قائداعظم نے جدوجہد آزادی میں جب قومی تربیت کے لیے اتحاد کا اصول پیش کیا تو اس کا مقصد یہی تھا کہ برصغیر کے مسلمان متحد ہو کر اپنے مقصد یعنی حصول پاکستان کی جدوجہد کریں۔ اب ایک گہرا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ اتحاد پیدا کیسے ہوتا ہے‘ کیا ہم اتحاد اس طرح پیدا کرتے ہیں جیسے کوئی ورزش کرتا ہے یا اتحاد ایک ایسا فطری عمل ہے جیسا خوش ہونا؟ دوسروں لفظوں میں اتحاد کوشش سے پیدا ہوتا ہے یا ایک کیفیت کا بے ساختہ اظہار ہے۔ ہمارے نزدیک اتحاد کی بنیاد احساس میں ہوتی ہے اور وہاں سے یہ بادِ صبح گاہی کے نم کی طرح ہیئتِ اجتماعیہ کے رگ و ریشے میں پھیلتا ہے۔ جس طرح ایک ماں باپ کی اولاد بالکل فطری طور پر ایک دوسرے سے اپنے رشتے کو محسوس کرتی ہے اور اس کی وجہ سے متحد ہوتی ہے اسی طرح ایک ہیئتِ اجتماعیہ بھی اپنے اتحاد کی بنیاد کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں جانتی ہے اور بے ساختہ رشتۂ اتحاد میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ اتحاد کی یہ فطری بنیاد موجود نہ ہو تو کسی بھی اجتماع کی درمیان کوئی اتحاد نہیں پیدا ہو سکتا۔ اب جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں اتحاد کی بنیاد نہ رنگ و نسل ہے نہ ملک و قوم‘ بلکہ عقیدہ ہی مسلمانوں کے اتحاد کی بنیاد ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہم اتحاد کی احساساتی بنیاد کا انکار کرتے ہیں بلکہ اس سے ہمارا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ مسلمان اپنے اتحاد کی بنیاد یعنی عقیدے کو اسی طرح محسوس کرتے ہیں جس طرح کوئی اور قوم کسی اور بنیاد کو محسوس کرتی ہے۔
فرق صرف یہ ہے کہ دوسری قوموں کا احساس ایک پیکرِ محسوس سے وابستہ ہوتا ہے جب کہ مسلمانوں کا احساس کسی ماورائی بنیاد کی تلاش کرتا ہے۔ کلمہ مسلمانوں کے اتحاد کی یہی ماورائی بنیاد ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ہی اسلام نے ایک مرکزِ محسوس کی ضرورت کو بھی نظرانداز نہیں کیا ہے‘ چنانچہ کلمے کی ماورائیت پر مسلمانوں کے اتحاد کی بنیاد رکھ اسلام نے اسے ایک مرکزِ محسوس یعنی خانہ کعبہ سے وابستہ کر دیا ہے۔ خانہ کعبہ جیسا کہ اقبال نے کہا ہے مسلمانوں کی اجتماعیت کی علامت اور اس کا مرکز ہے۔ یوں مسلمان کا کلمہ طیبہ اور خانہ کعبہ کے ذریعے ایک ایسے اتحاد کو حاصل کر سکتے ہیں جو دنیا کی کسی اور قوم یا معاشرے کو حاصل نہیں ہے۔
ہم مسلمانوں میں اتحاد کی بنیاد کو واضح کرنے کے ساتھ ہی یہ بھی بتا چکے ہیں کہ اتحاد پہلے احساس میں ہوتا ہے‘ پھر عمل میں اپنا اظہار کرتا ہے‘ چنانچہ اتحاد کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کوشش اور کاوش سے حاصل ہو‘ بلکہ خون کے رشتوں کی طرح ایک کیفیت کا بے ساختہ اظہار ہے۔ کسی بھی اجتماع کے افراد کے دلوں میں جب تک یہ احساس موجود ہوتا ہے وہ متحد رہتے ہیں‘ ورنہ بکھر جاتے ہیں‘ اب آپ پاکستان میں دیکھیے ہم اتحاد کے لیے کتنا شور مچاتے ہیں لیکن اتحاد صحرا میں آبِ تازہ کی طرح نایاب ہے‘ جب کہ تحریک پاکستان میں ہم خود بہ خود اس طرح متحد ہو گئے تھے جیسے لوہے کے ذرّے مقناطیس سے چمٹ جاتے ہیں۔ تب ایسا کیوں تھا‘ اب ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب دریافت کیے بغیر ہم قلب کی اس کیفیت کو جس نے دس کروڑ فرزندانِ توحید کو ایک جسمِ واحد میں تبدیل کر دیا تھا‘ دوبارہ حاصل نہیں کرسکتے۔ ابھی ہم نے اتحاد کی مثال کے طور پر خون کے رشتوں کا ذکرکیا تھا‘ لیکن کیاخون کے رشتوں میں بھی افتراق نہیں پیدا ہوتا؟ آپ دیکھتے ہیں کہ بھائی اور بھائی دشمن ہو جاتے ہیں اور باپ بیٹے میں اَن بن ہو جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ وہ کون سی چیزیں ہیں جو احساس کی اتنی مضبوط بنیادوں کو مہندم کر دیتی ہیں؟ اگر ہم اس سوال کا جواب دریافت کر لیں تو شاید ہم یہ معلوم کر سکیں گے کہ پاکستان میں عدم اتحاد کی موجودہ صورت حال کیوں پیدا ہوئی ہے۔ انسانوں میں اتحاد کی بنیاد روحانی اور افتراق کی بنیاد مادّی ہوتی ہے‘ بلکہ مادّی نام ہی ایسی حقیقت کا ہے جو تقسیم درتقسیم ہوتی چلی جاتی ہے۔ خون کے رشتوں میں افتراق کس بات سے پیدا ہوتا ہے‘ مادّی اغراض سے۔ جائداد‘ روپیہ‘ پیسہ‘ مکان اور ملکیت یہی تو چیزیں ہیں جو افتراق کی بنیاد بنتی ہیں۔ بھائی بھائی انہی کی وجہ سے تو ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔ یہی مادّی اغراض ایک خاندان کے افراد کی طرح ایک قوم کے افراد کو بھی ایک دوسرے سے الگ کرتی ہیں اور ان کے درمیان محبت کے بجائے منافرت‘ ہمدردی کے بجائے مغائرت اور اتحاد کے بجائے افتراق پیدا کرتی ہیں۔ انہی چیزوں کی وجہ سے انسانوں کی کیفیتِ قلب تبدیل ہو جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے سے گلے ملنے کے بجائے ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ تحریک پاکستان میں ہم متحد ہو گئے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی بنیاد روحانی تھی‘ ہم میں سے ہر شخص یہ سوچتا تھا کہ چاہے اس کا کچھ نقصان ہو جائے‘ لیکن اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچ جائے۔ ایک فرد دوسرے افراد کے بارے میں یہی سوچتا تھا۔ ایک علاقے کے لوگ دوسرے علاقے کے لوگوں کے بارے میں یہی سوچتے تھے۔ جب یہ احساس لوگوں میں عام ہوا اور فراوانی سے پھیلا تو دس کروڑ مسلمان ایک جسم اور ایک جان ہو گئے‘ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد یہ صورت باقی نہیں رہی۔ تحریک پاکستان کچھ ’’دینے‘‘ کی تحریک تھی۔ حصول پاکستان کے بعد ہم ’’لینے‘‘ کے پھیر میں پڑ گئے۔ اب ہم نے ایثار کے بجائے خود غرضی کو اختیار کر لیا اور یہ سوچنے کے بجائے کہ دوسروں کا بھلا ہو‘ ہمیں خود اپنے بھلے کی فکر ستانے لگی۔ دل کی یہ کیفیت بدلی تو ہمارا عمل بھی بدل گیا۔ اب ہم غرض کے بندے ہیں اور چھینا جھپٹی کے سوا اور کسی چیز میں یقین نہیں رکھتے۔ مادّی اغراض کی پرستش نے ہمارے دلوں کو پارہ پارہ کر دیا ہے اور ہمارے درمیان باہمی جلب منفعت کے سوا اور کوئی رشتہ باقی نہیں رہا ہے۔ اس حقیقت کو پوری طرح سمجھ لینے کے بعد ہمیں معلوم ہوجانا چاہیے کہ اتحاد اگر ہماری کوئی ضرورت ہو تو وہ اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی جب تک ہم اپنے دل کی اس کیفیت کو نہ بدلیں اور اس کو ہوس اور مادّی اغراض کی محبت سے پاک نہ کریں۔ ہم اتحاد‘ اتحاد کا کتنا ہی شور کیوں نہ مچائیں اور بقول شخصے اس کے لیے کتنی ہی ڈنڈ بیٹھک کریں‘ ہمارے دلوں کی کیفیت جب تک حرص و ہوس کا شکار رہے گی‘ اتحاد ہم سے اتنا ہی دور رہے گا جتنا قطبِ شمالی‘ قطبِ جنوبی سے دور ہے۔
پاکستان میںعدم اتحاد اور افتراق کی گرم بازاری جہاں ہمارے قلب کی کفیت میں فساد کی آئینہ دار ہے وہاں ہمارے ایمان کی ضعف کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ اسلام میں مفاد کا تصور مادّی مفاد سے مختلف ہے۔ اسلام کا مفاد اُخروی ہے جب کہ مادّی مفاد صرف دنیاوی ہوتا ہے۔ دنیاوی مفاد سے مسلمانوںکی ایسی وابستگی جو انہیں ہیئت اجتماعیہ کے اصل اصول سے بے گانہ کردے صرف اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ہمارا اپنے بنیادی عقائد پر ایمان کمزور ہو گیا ہے اور ہم آخرت کے بجائے صرف دنیا کو اپنا مقصود تصور کرنے لگے ہیں۔ قرآن حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں پر اپنی جن رحمتوں اور نعمتوں کا ذکر کیا ہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا ہے۔ دل جڑنے کی یہ کیفیت آخرت پر ایمان کا ایک پھل ہے۔
ہم دنیا اور صرف دنیا سے وابستہ ہو کر اللہ کے اس انعام سے محروم ہو گئے ہیں۔ جو قوم خدا کے بجائے مادّہ اور مادّی اغراض کو اپنا خدا بناتی ہے اس کا حشر اس سے مختلف نہیں ہو سکتا جو ہمارا ہے‘ اب آخر میں ایک سوال اور‘ کیا اتحاد ہمیں کسی عمل سے حاصل ہوسکتا ہے؟ مثلا کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے جو ہم تحریک پاکستان کی طرح متحد ہو جائیں؟ ہمارا جواب صرف یہ ہے ہاں ہم متحد ہو سکتے ہیں‘ لیکن اتحاد‘ اتحاد کا شور مچا کر نہیں‘ نہ اس کے لیے قاعدے اور ضابطے بنا کر‘ اتحاد کوئی لباس نہیں ہے کہ بازار سے خرید کر بس اوپر سے پہنا دیا جائے‘ ہمیں اس کے لیے ایک داخلی عمل کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا داخل عمل جو ہمارے دل کی کیفیت کو بدل دے‘ ہمیں اپنےاندر یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ زندگی سب کچھ لے لینے کا کا نام نہیں ہے‘ زندگی سب کچھ دے دینے کا نام ہے اور جو اپنے ایمان کے لیے‘ اپنے دل کی طہارت کے لیے‘ اپنے بھائیوں کے بھلے کے لیے دیتا ہے وہ کبھی خسارے میں نہیں رہتا کیوں کہ یہ زندگی کا قانون ہے کہ وہ دینے سے اور بڑھتےہیں۔ ہم اپنے دل کی کیفیت کو بدلیں‘ مادّی اغراض کے بجائے روحانی اغراض کے لیے کام کریں۔ دنیاوی فائدے کے بجائے اخروی مفاد پر نظر رکھیں تو اللہ کی رحمت سے ہم اس طرح متحد ہو سکتے ہیں جیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار۔
قائداعظم کے پیش کردہ قومی تربیت کے اصولوں میں دوسرا نمبر تنظیم کا ہے۔ تنظیم ایک سیاسی‘ فوجی اور دفتری اصطلاح ہے جس میں منظم طور پر کام کرنے‘ باقاعدگی سے عمل کرنے اور حکم کی پابندی کرنے کے مفاہیم شامل ہیں۔ تنظیم کی اہمیت اسی سے ظاہر ہے کہ اس کے بغیر معاشرے کا کوئی کام نظم و ضبط کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ا سلامی اصطلاح میں تنظیم کے لیے شریعت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ شریعت خارجی اعمال کے ضوابط کا مجموعہ ہے جو رد کی پوری زندگی کو ایک سانچے میں ڈھالتا ہے‘ لیکن خارجی تنظیم ہمیشہ ایک داخلی یا باطنی تنظیم کا تقاضا کرتی ہے جس کے بغیر خارجی تنظیم کے ضوابط بے روح اور مردہ ہو جاتے ہیں‘ فرد کی داخلی زندگی اس کی خارجی زندگی کی طرح تغیر کی زد میں رہتی ہے اس کے باطن میں بے لگام خواہشات اور سرکش اور منہ زور جذبات کے طوفان اٹھتے رہتے ہیں جو قید و بند سے آزاد ہو کر تخریب کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
داخلی تنظیم کے ذریعے فرد ان خواہشات اور جذبات کو قابو میں رکھتا ہے اور انہیںبے مہار آزادی سے بچاتا ہے۔ صرف خارجی تنظیم کے ذریعے عمل اس لیے نہیں ہو سکتا کہ کوئی خارجی ضابطہ داخلی تائید کے بغیر مضبوط اور مستحکم نہیں ہو سکتا۔ اس وقت ساری دنیا میں جو معاشرتی‘ اخلاقی اور اجتماعی انتشار پایا جاتا ہے وہ داخلی عدم تنظیم سے پیدا ہوا ہے۔ اپنے باطن میں ہر اصول اور ضابطے سے بے نیاز ہو کر فرد معاشرے کے ہر اصول کا باغی ہو گیا ہے اور نہ صرف معاشرے کے ضابطوں کو بلکہ خود معاشرے کو توڑ دینا چاہتا ہے۔ اس بات سے واضح طور پر یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ داخلی تنظیم کے بغیر صرف خارجی تنظیم سے معاشرے کا کام نہیں چل سکتا اور معاشرہ اپنے افراد کے تخریبی رجحانات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ا س بات کو ایک مثال سے واضح کیا جاسکتا ہے۔
آپ دیکھتے ہیں معاشرے میں لوگ ٹریفک کے اصولوں تک کی پابندی نہیں کرتے۔ روز حادثات ہوتے ہیں‘ نہ جانے کتنی قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ اخباروں میں شور مچایا جاتا ہے‘ ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے پروگرام کیے جاتے ہیں‘ حکومت ٹریفک کو درست کرنے کی مہم چلاتی ہے‘ پولیس کا پورا نظام موجود ہے‘ عدالتوں سے جرمانے اور سزائیں بھی ہو تی ہیں لیکن ان سب کے باوجود ٹریفک کا نظام خراب ہی ہوتا جاتا ہے‘ درست نہیں ہوتا۔ وجہ ظاہر ہے کارجی تنظیم داخلی تنظیم کے بغیر غیر مؤثر ہوگئی ہے‘ یعنی لوگ مختلف محرکات کی بنا پر خود ٹریفک کے نظام کی پیروی نہیں کرنا چاہتے‘ اس لیے کوئی ضابطہ انھیں اس پر عامل نہیں بنا سکتا۔ یہی حال زندگی کے سارے شعبوں کا ہے۔ جہاں تک خارجی تنظیم کا تعلق ہے اس کا پورا نظام زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہے‘ لیکن انسان اس نظام پر عمل کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو صرف خارجی تنظیم کیا کرسکتی ہے؟
رشوت نہ لینے کے ضابطے رشوت خوروں کو رشوت لینے سے باز نہیں رکھ سکتے۔ آپ ان کو رشوت سے روکنے کے لیے اور زیادہ سخت قوانین بنا دیجیے۔ ان قوانین پر عمل کرنے کے لیے نئی نئی ایجنسیاں قائم کر دیجیے‘ لیکن رشوت خوری کا انسداد نہیں ہو سکے گا کیوں کہ رشوت سے روکنے والے ادارے اور ایجنسیاں خود رشوت لینے لگیں گی۔ خارجی تنظیم ضروری ہے مگر داخلی تنظیم کے ساتھ۔ جس طرح معاشرے میں انتشار کی قوتیں برسر عمل رہتی ہیں اسی طرح انتشار فرد میں بھی اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ داخلی تنظیم کے معنی فرد کے باطن میں پیدا ہونے والے انتشار کو روکنا ہے۔ فرد کی داخلی زندگی میں یہ انتشار کس چیز سے پیدا ہوگا ہے۔ حرص و ہوس‘ غصہ‘ نفرت‘ خود غرضی اور خود پرستی۔ فرد کے خارجی اعمال‘ بیشتر انہی داخلی محرکات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ خارجی تنظیم کے ذریعے محرکات کو نہیں بدلا جا سکتا۔ زیادہ سے زیادہ ان کے خارجی اظہار کو روکا جا سکتا ہے جب کہ داخلی تنظیم کے معنی محرکات کوروکنا اور بدلنا ہے۔ فرد کی داخلی زندگی کتنی اہم ہے کہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتے جب تک وہ خود اسے بدلنا نہ چاہے۔ اس آیت شریف کے معنی یہی ہیں کہ انسانوں میں بڑی تبدیلیاں ہمیشہ پہلے ان کے نفس میںواقع ہوتی ہیں اور پھر وہاںسے خارج میں اپنا اظہار کرتی ہیں۔ نفس کی تبدیلی ہی حقیقی تبدیلی ہے۔ داخلی تنظیم نفس کی اسی تبدیلی کا عمل ہے۔ پچھلے صفحات میں ہم نے اتحاد کے عمل کو ایک کیفیتِ قلب کے بے ساختہ اظہار کا نتیجہ قرار دیا ہے داخلی تنظیم کیفیتِ قلب کو اعضا اور جوارح کے عمل میں بدلنے کا نام ہے۔ داخلی تنظیم کے ذریعے فرد کی دنیائے عمل ایک ایسی کہکشاں کی صورت اختیار کرلیتی ہے جس کا ہر ستارہ جذبِ باہمی سے قائم ہوتا ہے۔ حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ زندگی اپنے حوالوں میں اس وقت کوئی انقلاب نہیں برپا کرسکتی جب تک وہ اپنے نفسِ باطن میں انقلاب نہ برپا کرے۔ پاکستان کو ایک بہت بڑے داخلی انقلاب کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے باطن میں بدل کر ہی اپنے ظاہر کو بدل سکتے ہیں۔
قائداعظم کا تیسرا اصول یقین محکم یا ایمان ہے۔ حکیم الامت علامہ اقبال نے بھی یقین محکم پر بے انتہا زور دیا ہے اور کسی بھی قوم کی زندگی کے لیے اس کو ایک لازمی شرط قرار دیا ہے۔ اب یقین اور ایمان کوئی خارجی چیزیں نہیں ہیں‘ ان کا تعلق اتحاد اور تنظیم سے بھی زیادہ انسان کے باطن سے ہے۔ ایمان قلب کی ایک کیفیت ہے۔ قلب میںیہ کیفیت موجود ہو تو انسان اپنے خدا پر‘ اپنے نصب العین پر‘ خود اپنی ذات پر بھروسہ کرتا ہے اور اس کی مدد سے اپنی ساری قوتوں کو بہ روئے کار لاتا ہے۔ یقین کے مقابلے پر شک انسانی نفس میں تذبذب اور کشمکش کا آئینہ دار ہوتا ہے اور کبھی عمل کی کوئی مضبوط بنیاد فراہم نہیں کرسکتا۔ قائداعظم جب یقین محکم پر زور دیتے ہیں تو اس سے ان کی مراد نصب العین پر یقین سے ہوتی ہے۔ اقبال کے نزدیک بھی جو یقین محکم جہادِ زندگی کی شمشیروں میں سے ایک ہے وہ نصب العین پر اعتماد کا نام ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان پہلے اپنی زندگی کا ایک مقصد متعین کرے اور پھسر اس بات کی پوری چھان بین کرے کہ وہ مقصدَ انسانیت کی اعلیٰ اقدار سے متصادم تو نہیں ہے یا نوعِ انسانی کو بحیثیت مجموعی کوئی نقصان تو نہیں پہنچاتا؟ اور جب اسے معلوم ہو جائے کہ اس کا نصب العین انسانیت کے اعلیٰ مقاصد سے ہم آہنگ ہے اور انسانوں کے لیے خیر ہے تو پوری دل جمعی سے اس مقصد کے حصول کے لیے کوشش کرے۔ یہ یقین کہ کائنات اپنی اصل میں خیر ہے اور حق کے ذریعے وجود میں آئی ہے اور بالآخر خیر اور حق کو ظاہر کرتی ہے۔ انسانیت کے لیے ایک شرف کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان اس یقین کے بغیر نہ مذہب پر عمل کر سکتا ہے نہ اخلاق پر۔ خیر کی جدوجہد کائنات کے خیر ہونےکے یقین سے پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان سے پہلے ہم حصول پاکستان کے نصب العین پر متحد ہوئے ہیں۔ یقین تھا کہ پاکستان اسلام اور انسانیت کے لیے ایک خیر ہے۔ پاکستان کے معنی لا الٰہ الااللہ ہیں اور حصول پاکستان اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بلکہ پورے عالمِ اسلام کے لیے ایک امید ثابت ہوگا۔ اس سے بڑھ کر ہمیں اس بات کا بھی یقین تھا کہ حصول پاکستان کے ذریعے ہم انسانیت کے سامنے اسلام کا ایک ایسا نمونہ پیش کرسکیں گے جو ساری دنیا کو اس کے مسائل سے نجات دلا سکے گا۔ یہ ایک بہت بڑا نصب العین تھا اور اس نصب العین پر یقین محکم کے ذریعے قوم نے زندگی کی وہ توانائی حاصل کی جس نے برصغیر کے پورے مسلمانوں کو سیسہ پلائی دیوار کی طرح بنا دیا۔ قیام پاکستان کے بعد ہم جس مسئلے سے دوچار ہوئے ہیں وہ اس یقین محکم کے زوال کا نتیجہ ہے۔ اب ہمارے سامنے کوئی مقصد نہیں ہے۔ ہم روٹیوں اور بوٹیوں کے چکر میں پڑ گئے ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اپنی ناک سے آگے دیکھ سکے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ہمارے لیے بڑی ہوگئی ہیں اور بڑی بڑی باتوں کو ہم بھول گئے ہیں۔ ہمیںزندگی کے خیر ہونے پر یقین نہیں نہیں رہا یا پھر ہم نے خیر کا کوئی بہت چھوٹا تصور قائم کر لیا تھا۔ ایمرسن نے کہا ہے کہ انسان بڑی باتیں سوچ کر بڑا بنتا ہے اور قومیں بڑے نصب العین سے بڑی بنتی ہیں۔ حصول پاکستان کی جدوجہد میں ہم ایک بڑی قوم تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ہم چھوٹی قوموں سے بھی چھوٹے ہوگئے ہیں۔ یہ چھوٹا پن ہمارے اندر کیوں پیدا ہوا۔ یہ ہماری اجتماعی زندگی کا سب سے اہم سوال ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم تعداد میں کم ہیں‘ کیا ہمارے پاس زمین چھوٹی ہے‘ کیا ہمارے پاس وسائل محدود ہیں؟ بہت سے لوگ اس کا یہی جواب دیتے ہیں‘ لیکن انگریز جب اپنے چھوٹے سے ملک سے نکل کر ساری دنیا میں پھیلے تو کیا ان کی تعداد بہت زیادہ تھی یا ان کا ملک بہت بڑا تھا یا ان کے وسائل لامحدود تھے؟ یہی سوال سکندر یونانی کے یونان کے بارے میں ہے۔ کیا وہ ان معنوں میں کوئی بہت بڑی قوم تھے؟ دور کیوں جایئے صدرِ اسلام میں کیا عرب کوئی بہت بڑی قوت تھے؟
آبادی‘ ملک کا رقبہ‘ وسائل کی کمی یا زیادتی قوموں کی زندگی میں فیصلہ کن عناصر نہیں ہوتے‘ فیصلہ کن عنصر قوم کا نصب العین اور اس پر یقین اور یقینِ محکم کے ساتھ نصب العین کو حاصل کرنے کی جدوجہد ہوتا ہے۔ ہمیں یقین کرنا چاہیے کہ ہماری روح میں یہ عناصر موجود ہیں‘ زندگی کے لامحدود امکانات ہمارے سامنے کھلے ہوئے ہیں اور خدا کی نصرت ہر وقت ہماری مدد کے لیے تیار ہے۔ ہم نے اپنے قائد کی رہنمائی میں جن اصولوں کے تحت آزادی کا سفر طے کیا وہ کوئی وقتی بات نہیں تھی۔ اتحاد‘ تنظیم اور یقین محکم وقتی نہیں دائمی اصول ہیں اور جب کبھی ہم ان اصولوں کو اپنائیں گے‘ ان شاء اللہ ہماری منزل ہمارے قدموں کے نیچے ہوگی۔

حصہ