ترکی جو میں نے دیکھا

قسط نمبر 8

ترکی میں ابتدائی قیام

استنبول کے جدید اور شان دار ائرپورٹ پر ہمارا قیام بہت پُرسکون رہا، اور ہم ہی نہیں، ائرپورٹ پر موجود ہر شخص کے چہرے سے طمانیت، محبت، سکون اور راحت عیاں تھی۔ اجنبیت کے باوجود بے خوفی کا تاثر موجود تھا۔ عام دنوں میں اس ائرپورٹ پر بیک وقت ہزاروں لوگ موجود ہوتے ہیں، مگر نومبر 2020ء میں کورونا کے زیراثر دیگر ائرپورٹس کی طرح استنبول ائرپورٹ بھی خاصا ویران دکھائی دے رہا تھا۔ صرف ہم پاکستانی ہی ہر طرف پھیلے ہوئے تھے جو کورونا تو کیا ہر قسم کی زمینی و آسمانی آفت سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار اور بامراد بھی رہتے ہیں۔ یقیناً ہم میں سے ہر شخص کورونا سے پاک دامن لے کر ترکی کی طرف روانہ اور اس کی سرزمین پر اترا تھا۔ یہاں مجموعی طور پر نہ تو کورونا کا خوف تھا، نہ ہی کوئی دوسری بے سکونی اور بدنظمی۔ البتہ کورونا سے بچائو کے حفاظتی اقدامات پر اصرار اور اہتمام ضرور تھا، جس کا خیال رکھتے ہوئے ہم نے اگلی فلائٹ کے انتظار میں آرام، اطمینان، سکون، نظم و ضبط اور ہر قسم کے خوف و اندیشے سے بے نیاز ہوکر کچھ گھنٹے گزارے۔ اگرچہ زمین، سورج، ہوا، فضا اور اردگرد اپنے ہم وطن پاکستانی ہی تھے، گردوپیش کی یکسانیت کے باوجود ماحول یکسر بدلا ہوا اور محبت و اشتیاق سے لبریز تھا۔ فراغت کے ان لمحوں میں ترکی سے زیادہ اپنے پاکستانی بھائیوں، ہم سفروں اور پاکستان پر غور کرنے کا بھرپور موقع ملا۔ اس دوران جدید ترین ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال پاشا اور اس کے ترکی قومیت کے فروغ و استحکام اور خلافِ مذہب انقلابی اقدامات کا باب ذہن میں کھلنے لگا، مگر اُسے جہاز کی نشست، ماحول اور فراغتِ جسم و ذہن کے میسر آنے تک ملتوی کردیا۔

انطالیہ کی جانب پیش قدمی

انطالیہ، اناطولیہ، انطاکیہ ایک ہی شہر کے تین تاریخی نام ہیں، جو ترکی کے جنوب میں واقع اور قدیم رومی اور سلجوقی عہد کے حکمرانوں کا مرکز رہا۔ اِس وقت اس کا نام ’’انطالیہ“ مستعمل ہے۔ ’’طوروکسی“ پہاڑیوں کے دامن میں واقع یہ خوب صورت شہر نیلے پانیوں، خوب صورت ساحل، اس پر لنگرانداز سیکڑوں بادبانی جہازوں، چاروں طرف سر بہ فلک پہاڑیوں کے سرسبز و شاداب خطوں، سنہری دھوپ اور ساحل کی روپہلی ریت کے ساتھ دنیا بھر سے آنے والے مختلف رنگ و نسل اور قومیتوں کے بیک وقت ہزاروں سیاحوں کے ساتھ، سمندری جہازوں پر موجود رومی طرز کے ماحول، میزبانی اور آئو بھگت کے انداز کے سبب دنیا بھر میں مشہور و مقبول ترکی کا پانچواں شہر ہے جو بحیرۂ روم کے ساحل پر واقع ہے۔ نو، دس لاکھ آبادی کا یہ میٹروپولیٹن شہر ’’ترکی کی جنتِ سیاحت“ کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ سال 2020ء میں کورونا کی عالمی وبا کے باوجود یہاں ساڑھے تین ملین سیاح دنیا بھر سے آئے۔ یہاں کی ٹھنڈی اور واقعتاً دل فریب اور صاف ستھری ہوا، خوب صورت قدیم و جدید عمارات، درختوں، پودوں، سبزے سے آراستہ میدان، اور رنگ برنگے گھر اور معطر ہوائیں بلاشبہ اس قدر دل کش ہیں کہ بندہ مسحور ہو کر رہ جاتا ہے۔ کشادہ اور پختہ راستوں، سڑکوں اور عمارتوں پر نصب اور لہراتے ہوئے سرخ ترکی پرچم ایک عجیب منظر پیش کرتے ہیں۔ سارے ترکی میں یہ منظر ہر جگہ نظر آیا کہ پورے احترام و اکرام بلکہ التزام کے ساتھ جابجا ترک پرچم نصب کیے گئے، حتیٰ کہ فضائی یا بحری جہازوں پر، بازاروں، شاہراہوں اور پارکوں میں، دکانوں میں یا شہری و دیہاتی مسجدوں میں بلاشبہ ترک اپنے ملک، ابنائے وطن، اپنی اقدار و روایات، اپنی زبان اور قومیت سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے نظر آئے۔ ترک قومیت کا یہ جذبہ یقیناً مصطفیٰ کمال پاشا جو ’’اتاترک“ کے نام سے تاریخ کے صفحات پر رقم اور زندئہ جاوید ہوا، کا پیدا اور مستحکم کردہ ہےٍ جو ترک قوم کی مضبوط شناخت کا درجہ رکھتا ہے۔ ذرا تصور کیجیے تاحد ِ نظر نیلے پانیوں میں لہراتا اور بادِ مخالف سے ٹکراتا، نبرد آزما ہوتا اور اپنے وجود کو برقرار رکھتا سرخ ترک پرچم، قوم کی دشمن کے ساتھ کامیاب، مسلسل اور تاریخ ساز پنجہ آزمائی، شجاعت اور غلبے و تسلط کا اعلان و اظہار کرتا اور پیغام دیتا کیسا لگے گا! بلاشبہ ترک قوم کی یہی قومی تاریخ ہے کہ اس نے کبھی دشمن کے سامنے نہ سر نگوں کیا، نہ حالات کے تھپیڑوں کے سامنے خود کو بے بس ہونے دیا۔ تصوف کی تعلیم اور شجاعت کی تعمیل نے اسی لیے ترکوں کو تاریخ ہی نہیں صفحۂ ارض پر بھی زندئہ جاوید رکھا۔

جو دیکھا خواب، جو سنا فسانہ

۔’’انطالیہ“ بلاشبہ ایک پُرکشش شہر ہے جو صدیوں سے رومیوں کا مرکز ِ نگاہ رہا۔ اِسی کے ساحلوں سے رومی یہاں پہنچے اور انہوں نے اس کی بندرگاہ کو رسد اور نقل و حمل اور سفرکا ذریعہ بنایا۔ یہاں رومی دور کی کئی عمارات و محلات قابلِ دید ہیں۔ استنبول سے یہاں تک پہنچنےکے فضائی، برّی اور بحری تینوں راستے ہیں۔ برّی سفر کم و بیش آٹھ گھنٹے اور بحری بھی اتنے ہی وقت کا ہے، جب کہ فضائی سفر ایک گھنٹے کا ہے۔ اگر سمندری سفر کا مزا لینا ہے تو استنبول کے ساحل سے بحری جہاز پکڑئیے۔ اگر پہاڑوں، وادیوں، شہروں، دیہات کا زمینی نظارہ کرنا ہے تو آرام دہ بس میں سفر کیجیے، اور اگر شدتِ شوق کے جذبے اور قلت ِ وقت کے خدشے کے زیر اثر ہیں تو فضائی سفر کا راستہ اختیار کیجیے۔ ترکی میں اندرونِ ملک فضائی سفر یعنی ڈومیسٹک فلائٹس بہت ارزاں اور وافر ہیں۔
ترکی میں ہم انجان بھی تھے اور ’’بے زبان“ بھی، اور پکّے مسلم و مطیع، یعنی اپنے ٹور آپریٹر کے ہمہ پہلو پابند۔ اپنی ساری خود مختاری اور آزادی اُس کے سپرد تھی اور اسی میں بھلائی اور بہتری تھی۔ انہو ں نے ہمارے اندرونی سفر کے لیے فضائی راستے کا انتخاب کیا اور ہمیں دنیا کے سیاحوں کی محبوب منزل اور جنت ِ سیاحت تک جلدازجلد پہنچانے کا بندوبست کیا، اور ہم 3 نومبر کی سہ پہر کو استنبول ائرپورٹ پر چند گھنٹے کی دنیاوی برزخی زندگی (ٹرانزٹ) گزار کر جانب ِ انطالیہ ہوئے۔ کسی آپا دھاپی، بوکھلاہٹ، گھبراہٹ اور سفری الجھنوں کے بغیر نہایت آرام، سکون اور مزے سے انطالیہ کی پرواز پر سوار ہوئے۔ بورڈنگ کارڈ تو لاہور سے ہی مل گئے تھے اور سامانِ سفر کی ایک جہاز سے دوسرے جہاز تک منتقلی کی ذمہ داری بھی ترکش ائر لائن کی تھی، لہٰذا ہم ہلکے پھلکے، خراماں خراماں جنت ِ ارضی کی جانب سفر کے لیے جنت ِ فضائی کی جانب روانہ ہوئے۔

جدید ترکی کی تاریخ کا دروازہ دھڑ سے کھلا

استنبول ائرپورٹ پر جدید ترکی کے جس دروازے کو ہم نے کھلا چھوڑا تھا، جہاز میں بیٹھتے ہی اس نے متوجہ کیا۔ اس دروازے کو کھولا تو 1923ء کا وہ دل خراش منظر نظر آیا جب مصطفیٰ کمال پاشا نے متعدد الزامات لگاکر خلافت ِ عثمانیہ کے آخری سربراہ کو معزول کردیا اور چند ماہ میں ملک بدر کرکے خلافت ِ عثمانیہ کا صدیوں پر مشتمل تسلسل توڑ کر سقوطِ خلافت کا الم ناک باب رقم کردیا۔ اُس نے اُس ترک قومیت کی بنیاد ڈالی جس کے گہرے اثرات آج بھی ترک قوم، تاریخ، تہذیب اور معاشرت پر موجود بلکہ مضبوط ہیں۔
یہ 1924ء کا سال تھا، جب ترکی تاریخ نے نیا موڑ لیا اور فکر و تہذیب ِ مغرب نے فکر و تہذیب ِ اسلامی کے ساتھ معرکہ آرائی شروع کی۔ رفتہ رفتہ خلافت کے نشانات مٹائے جانے لگے، اسلام سے تعلق جرم ٹھیرا۔ خلیفۂ اسلام اور اس کے مددگاروں کی ترک بدری کا عمل شروع ہوا، اس کی جائداد اور دولت ضبط کرکے دشمنوں کے ٹکڑوں پر پلنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ ترکی کا قدیم دستور ختم کرکے نیا شہری دستور ترتیب دیا گیا۔ مساجد بند کردی گئیں، تقویم ہجری کے بجائے مغربی تقویم رائج کردی گئی۔ علما و خطبا پر پابندیاں لگا کر جمعہ کے خطبوں کو اسلامی تعلیمات کے بجائے جدید ترکی کے زرعی و صنعتی انقلاب کی مدح سرائی اور ترویج و اشاعت کے مواقع میں تبدیل کردیا گیا۔ ایاصوفیہ کو میوزیم میں تبدیل کیا گیا، استنبول کی دو بڑی مساجد کو بند کرکے ایک مسجد کو گودام میں تبدیل کیا گیا، اوقاف ختم اور مساجد پر تالے ڈال دیے گئے۔ دینی رجحانات رکھنا، دینی معاملات پر گفتگو کرنا، دینی تبلیغ و اشاعت اور دعوتِ اسلام جرم قرار دیے گئے، دینی تعلیم ممنوع کردی گئی۔ ترکی کا عربی رسم الخط ختم کرکے لاطینی رسم الخط جاری کیا گیا۔ سرکاری مناصب کے حلف ناموں میں اللہ کے نام کے بجائے اپنی عزت و شرف کی قسم کو اختیار کیا گیا۔ اب وفاداری خالق و مالک اور ربِّ کائنات کے بجائے ترک قوم اور اس کے تعصب کے ساتھ لازم ٹھیری۔ اسلامی شعائر تو بہ جبر اور بڑی سرعت کے ساتھ ممنوع قرار پائے۔ اذان پر پابندی، قرآن کا عربی متن، پردہ، مرد کی قوامیت، عربی، فارسی کے الفاظ، تراکیب و محاورات اور عالم اسلام سے یکسر قطع تعلق اس کے مختلف مظاہر ہیں۔

معاہدہ لوزان

۔1923ء میں بہ جبر و ستم ہونے والے غیر منصفانہ معاہدۂ لوزان نے ایک صدی کے لیے ترک قوم کی فکر و عمل کی ہر آزادی، حتیٰ کہ معاشی اور قومی و ملّی مفادات سلب کر لیے۔ اتاترک خود تو 1935 ءمیں وفات پا گیا، مگر ترک قوم کو آزادی، قومی تعصب، جدیدیت اور مادّیت کے ساتھ سیکولرازم کے لاعلاج مرض میں اس طرح مبتلا کر گیا کہ جہاں ترک قوم اپنے شان دار شجاعانہ، فاتحانہ اور حاکمانہ ماضی سے کٹ گئی، وہیں مغرب کے فکری، تہذیبی اور معاشی اثرات کے چنگل میں پھنس گئی۔ امت کے جسد ِ واحد کی زنجیر سے اس طرح علیحدہ ہوئی کہ یورپ کو تو ترکی میں مکمل غلبے و تسلط کا موقع ملا، مگر ترکی کو یورپی یونین میں شامل ہونے، آزادیِ رائے اور اپنے ہی مسلمہ و متعینہ جمہوری طور طریقوں اور سیاسی نظام کو آزادانہ طور پر اختیار کرنے سے محروم رکھا۔
قوم کا جدید راہنما اور ہیرو جہاں خود ایک لاعلاج مرض کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہوا، وہیں ساری قوم کو فکری و عملی طور پر اس طرح مفلوج کر گیا کہ ترک جو کبھی حاکمانہ اور فاتحانہ زندہ و بیدار قوم کی شان رکھتے تھے، ’’مردِ بیمار“ کے نام سے معروف اور پہچانے جانے لگے، اور تنگ نظر یورپیوں اور اُن کے زیر اثر ذرائع ابلاغ کا یہ ٹائٹل تاحال برقرار ہے اپنی تمام تر ترقی، جدت، اور جسمانی و فکری آزادی کے دعووں کے باوجود۔
بدقسمتی سے اہلِ یورپ نے کمال اتاترک کے ذریعے جدیدیت و قومیت کے نام پر ترکی کو اپنے سیاسی، معاشی، تہذیبی اور فکری تسلط سے بڑھ کر جنسی بے راہ روی اور عیاشی کا مرکز بنا دیا۔ ’’انطالیہ“ اسی لیے اُن کے نزدیک ’’بابِ جنت ِ ارضی“ قرار پایا۔
ہماری سیاحتِ ترکی کی پہلی منزل ہی ’’انطالیہ“ تھا، اور ہمارے اس سفرِ ترکی کا مقصد کمال اتاترک کا ترکی دیکھنا نہیں، اُن کے آثار و نشانات کی کھوج، دید اور قلب و نظر کی جِلا اور فکر و عمل کی اصلاح تھا جو آبا و اجداد کے کارناموں کے راوی و شاہد ہیں اور ہماری فلاح کے ضامن۔ جن کے بارے میں اہلِ دانش نے کہا تلک آثار ناتدل علینا۔ ”ہمارے یہ نشانات و مقامات ہمارے عالی شان ماضی اور عظمت ِ رفتہ کے گواہ ہیں“۔ ہم تو مٹ گئے، ہماری تاریخ تو مٹا دی گئی، مگر ہمارے یہ زندئہ جاوید کارنامے اور گواہ تا ابد ہماری عظمت ِ شان و شوکت کی دلیل اور راہنما بنے رہیں گے، لہٰذا ہمارے بعد ہمیں انہی آثار و نشانات میں تلاش کرنا۔
(جار ی ہے)