محمد بشیر چغتائی مرحوم

801

اپنے عہد کی ایک متحرک شخصیت

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ؒ سے پہلی ملاقات نے زندگی میں انقلاب برپا کردیا- عام نوجوانوں کی طرح اسلامی شعائر پر کبھی سنجیدگی سے نہ غور کیا اور نہ عمل – لاہور میں مولانا مودودی ؒ کے لان میں عصری مجلس کا اختتام ہوتا ہے مولانا مجمع کے طرف نظر دوڑاتے ہیں نظریں میرے اوپر جم جاتی ہیں چونکہ خود مولاناؒ اپنی علالت کے دوران وھیل چیئر پر نماز پڑھتے تھے اس لیے امامت کے لیے مجھے کہا جاتا ہے – میں نے دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ نمازِ عصر میں قرات بلند آواز سے نہیں ہوتی ورنہ تجوید کی غلطیاںنمایاں ہو جاتیں- محمد بشیر چغتائی مرحوم نے مولانا مودودیؒ سے اپنی پہلی ملاقات کا واقعہ تفصیل سے مجھے سنایا – اس ملاقات کا پہلا اثر یہ ہوا کہ نمازیں شعوری بیداری کے ساتھ ادا ہونے لگیں- بتانے لگے کہ اس کے بعدزندگی بھروہ تکبیر اولیٰ اور صف ِ اول کا اہتمام کرتے رہے-
واہ آرڈیننس فیکٹری ( نزد اسلام آباد) میں ملازمت کے سلسلے میں آمد ہوئی اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے- جماعت کے ایک متحرک رکن کی سرگرمیوں سے دفاعی پیداوار کے محکمے والے کیسے نظریں بند کرسکتے تھے- چنانچہ مجبوراً اً ٓپ کو یہ ملازمت چھوڑ کر خواجہ گلاس فیکٹری حسن ابدال میں ملازمت کرنی پڑی – آپ کا تعلق کوالٹی کنڑول کے شعبے سے تھا اور اس
سلسلے میں آپ نے جاپان سے سے بھی تربیت حاصل کی –
میرے والدِمرحوم صوفی غلام حسین اگرچہ صوفیائے کرام کے معتقد تھے لیکن اُن کی دوستی امیرِ جماعت اسلامی حسن ابدال مرحوم افضل خان سے تھی- اسی تعلق سے چغتائی صاحب سے بھی والدِ محترم کی دوستی ہوگئی اور ایک دن وہ مجھے جماعتِ اسلامی کی لائبریری میں لے گئے- ہزارہ روڈ حسن ابدال میں قائم جماعت کی لائبریری میں میری پہلی ملاقات چغتائی صاحب سے ہوتی ہے – پھر یہ دوستی تاحیات قائم رہتی ہے – مجھے چونکہ مطالعے کا بچپن سے شوق تھا اس لیے مولانا مودودیؒ کی کتابوں نے میرے ذہن میں دین کا مفہوم واضح کر دیا- شاید یہی وجہ تھی کہ مجھے بچپن ہی میں وہابی کا خطاب مل گیا-بعد میں پڑھائی کے سلسلے میں لاہور جانا ہوا اور پھر ملازمت کے لیے بیرونِ ملک- اس طرح چغتائی صاحب سے ایک عرصہ تک ملاقات نہ ہوسکی- کیا عجیب اتفاق ہے کہ پھرملاقات ہوئی تو کیسے – لالہ رُخ کی مسجد میں رمضان المبارک کے آخری ایام میں میرا نکاح پڑھایا جا رہا ہے اچانک وہاں چغتائی صاحب شریک ہو جاتے ہیں – پتا چلا آپ مسجد میں اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے-
میں سال ۲۰۰۲؁ ء میں جدہ میں جماعت کا رکن بنا اور پھرچغتائی صاحب سے مسلسل رابطہ رہا – آپ جب بھی سعودی عرب آتے ہمارے ہاں قیام کرتے اور مجھے اُن سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا-آپ کو پروجیکٹ منیجمنٹ کا تجربہ بھی تھااور شوق بھی – واہ میں مسجد اویس شہید بنوائی ، داراسلام اٹک میں بلڈنگ بنوائی ، حسن ابدال میں مسجد دار اسلام بنوائی اور فلٹریشن پلانٹ لگوایا- الخدمت ویلفیئر کمپلکس حسن ابدال کا کام جاری تھا جسے وہ جلد تکمیل کے مرحلہ تک لے جانا چاہتے تھے کہ آپ نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا-
سابق امیر ِ جماعت جدہ مولانا حبیب الرحمن سے چغتائی صاحب کا تعارف الخدمت ویلفیئر کمپلکس حسن ابدال کے حوالے سے ۲۰۱۸؁ ء میں ہوا- مولانا سفر و حضر میں اُن کے ساتھ رہے اور انہیں نہایت تجربہ کار ، انسان دوست اور مہمان نواز پایا – نہ صرف جماعتِ اسلامی کے کاموں سے آپ کی شرکت مثالی تھی بلکہ مقامی مسجد میں آپ انتہائی
دلچسپی لیتے -اتفاق سے پچھلے سال رکن جماعت عزیزم سید ولی اللہ حسینی جدہ سے اسلام آباد شفٹ ہو گئے اور الخدمت کے کاموں میں چغتائی صاحب کے ساتھ شریک ہوگئے- ولی اللہ حسینی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے چغتائی صاحب کی شخصیت میں صحابہ کرامؓ کی سیرت کی جھلک دیکھی –
چغتائی مرحوم سفر کے شوقین تھے – جاپان میں گاڑیوں کے کاروبار سے لے کر جماعت کے کاموں تک سارے معاملات دلچسپی سے بیان کرتے – طائف میں گئے تو مسجد عباس میں بیٹھ کر سیرتِ نبویﷺ پر مضمون لکھا- سنٹرل ایشاء کا یادگار سفرآخری عمر میں کیا-نہایت بے باک اور اور متحرک شخصیت کے مالک تھے – صبر کا یہ عالم ہے کہ کبھی جسمانی تکلیف کا ذکر نہ کیا- بس ایک دفعہ بتایا کہ راوالپنڈی میں امراضِ قلب کے مرکز کا میں نے کارڈ بنوا لیا ہے-آخری عمر میں واٹس ایپ Whatsapp پر قران و حدیث میں مزین کیلنڈر روزانہ بھیجا کرتے-اصلاحی تحریکی لٹریچر کا مطالعہ اور تقسیم آپ کا پسندیدہ مشغلہ تھا- مساجد میں لٹکانے کے لیے مسنون اذکار کے بینر سعودی عرب میں دیکھے اور پاکستان میں جاکر چھپوا کر تقسیم کرنے لگے- چہرے پر مسکراہٹ لئے خوش مزاجی کے ساتھ فریضہ اقامت ِدین آخری سانسوں تک نبھاتے رہے-
ایک دفعہ کہنے لگے – fail If you fail to plan you plan to (اگر آپ منصوبہ بندی میں ناکام ہوتے ہیں تو درحقیقت ناکامی کا منصوبہ بنا رہے ہیں) – آپ کامیاب زندگی کے لیے واقعی منصوبہ بندی کرتے- قران سے مثالی محبت تھی – اپنے پاس ذاتی قران رکھنے کی تلقین کرتے- عین اس وقت اپنے رب سے جا ملے جب کہ وہ خود آسمانِ زمین پر جلوہ افروز ہوتا ہے- تہجد کے وقت اٹھے ہیٹرچلایا وضو کیا اور تھوڑی دیر آرام کے لیے لیٹے اور جہانِ فانی سے مسکراتے ہوئے رخصت ہوگئے- سابق امیرجماعت جدہ مولانا حبیب الرحمان صاحب کا خیال ہے جنت دیکھ کر اُن کے چہرے پر وہ مسکراہٹ آئی ہوگی جو وہ قبر میں اپنے ساتھ لے گئے ہیں- آخر دم تک دین کے کاموں میں متحر ک رہے – چند دن کی علالت کے بعد داعی ٗ اجل کو لبیک کہہ دیا – اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔

حصہ