منتخب غزلیں

693

نظم :ذرا سی بات

امجد اسلام امجد

زندگی کے میلے میں خواہشوں کے ریلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے میں
وقت کی روانی ہے بخت کی گرانی ہے
سخت بے زمینی ہے سخت لا مکانی ہے
ہجر کے سمندر میں
تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے
تم کو جو سنانی ہے
بات گو ذرا سی ہے
بات عمر بھر کی ہے
عمر بھر کی باتیں کب دو گھڑی میں ہوتی ہیں
درد کے سمندر میں
ان گنت جزیرے ہیں بے شمار موتی ہیں
آنکھ کے دریچے میں تم نے جو سجایا تھا
بات اس دئے کی ہے
بات اس گلے کی ہے
جو لہو کی خلوت میں چور بن کے آتا ہے
لفظ کی فصیلوں پر ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے
زندگی سے لمبی ہے بات رت جگے کی ہے
راستے میں کیسے ہو
بات تخلیئے کی ہے
تخلیئے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے
پیار کرنے والوں کو اک نگاہ کافی ہے
ہو سکے تو سن جاؤ ایک روز اکیلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے ہیں
٭٭٭

آل احمد سرور

یوں جو افتاد پڑے ہم پہ وہ سہہ جاتے ہیں
ہاں کبھی بات جو کہنے کی ہے کہہ جاتے ہیں
نہ چٹانوں کی صلابت ہے نہ دریا کا جلال
لوگ تنکے ہیں جو ہر موج میں بہہ جاتے ہیں
یہ نئی نسل ہے اس واسطے خالی خالی
درد جتنے ہیں وہ باتوں ہی میں بہہ جاتے ہیں
آمد آمد کسی خورشید جہاں تاب کی ہے
پیشوائی کے لیے انجم و مہ جاتے ہیں
زندگی بن گئی دیوانوں کی اک دوڑ سرورؔ
ہم سے کتنے ہیں جو اس دوڑ میں رہ جاتے ہیں
٭٭٭

ترے انجام پہ رونا آیا

شکیل بدایونی

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ
منزل عشق میں ہر گام پہ رونا آیا
مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلۂ نوحہ گری
اس قدر گردش ایام پہ رونا آیا
جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ
مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا
٭٭٭

احسان دانش

آج بھڑکی رگ وحشت ترے دیوانوں کی
قسمتیں جاگنے والی ہیں بیابانوں کی
پھر گھٹاؤں میں ہے نقارۂ وحشت کی صدا
ٹولیاں بندھ کے چلیں دشت کو دیوانوں کی
آج کیا سوجھ رہی ہے ترے دیوانوں کو
دھجیاں ڈھونڈھتے پھرتے ہیں گریبانوں کی
روح مجنوں ابھی بیتاب ہے صحراؤں میں
خاک بے وجہ نہیں اڑتی بیابانوں کی
اس نے احسانؔ کچھ اس ناز سے مڑ کر دیکھا
دل میں تصویر اتر آئی پری خانوں کی
٭٭٭

شاہجہاں بانو یاد

عقل و دل کو ملا جلا رکھیے
ضابطے میں بھی رابطہ رکھیے
دوسرا شہر دوسرے ساتھی
دل بھی سینے میں دوسرا رکھیے
بند کر لیجے در سب آنکھوں کے
ذہن اپنا مگر کھلا رکھیے
اتنے پتھر نہ پھینکیے صاحب
واپسی کا تو راستہ رکھیے
کچھ بھی جینے کی آرزو ہے اگر
جان دینے کا حوصلہ رکھیے
دن سدا ایک سے نہیں رہتے
رات آئے گی کچھ بچا رکھیے
جو ہمارے ہوئے نہ اپنے یادؔ
ایسے لوگوں کو یاد کیا رکھیے

اعجاز رحمانی

اب کرب کے طوفاں سے گزرنا ہی پڑے گا
سورج کو سمندر میں اترنا ہی پڑے گا
فطرت کے تقاضے کبھی بدلے نہیں جاتے
خوشبو ہے اگر وہ تو بکھرنا ہی پڑے گا
پڑتی ہے تو پڑ جائے شکن اس کی جبیں پر
سچائی کا اظہار تو کرنا ہی پڑے گا
ہر شخص کو آئیں گے نظر رنگ سحر کے
خورشید کی کرنوں کو بکھرنا ہی پڑے گا
میں سوچ رہا ہوں یہ سر شہر نگاراں
یہ اس کی گلی ہے تو ٹھہرنا ہی پڑے گا
اب شانۂ تدبیر ہے ہاتھوں میں ہمارے
حالات کی زلفوں کو سنورنا ہی پڑے گا
اک عمر سے بے نور ہے یہ محفل ہستی
اعجازؔ کوئی رنگ تو بھرنا ہی پڑے گا
٭٭٭

حرف صداقت لکھنا

حبیب جالب

اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنا ہم کو
حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا
ہم نے جو بھول کے بھی شہہ کا قصیدہ نہ لکھا
شاید آیا اسی خوبی کی بدولت لکھنا
اس سے بڑھ کر مری تحسین بھلا کیا ہوگی
پڑھ کے نا خوش ہیں مرا صاحب ثروت لکھنا
دہر کے غم سے ہوا ربط تو ہم بھول گئے
سرو قامت کو جوانی کو قیامت لکھنا
کچھ بھی کہتے ہیں کہیں شہہ کے مصاحب جالبؔ
رنگ رکھنا یہی اپنا اسی صورت لکھنا

حصہ