عالمی یوم خواتین اور ہم خواتین

280

صبح سویرے آ نکھ کھلی اور موبائل پر ہماری نظر پڑی تو تاریخ دیکھ کر یہ خیال آ یا کہ اوہو آج تو ہمارا دن ہے جی یہ چاہا کہ یا ہو! کا نعرہ لگائیں اور بستر سے چھلانگ لگا کر اتریں۔ ہم نے سوچ لیا کہ آج ہمارا عالمی دن ہے تو بس آج کچھ نہیں کرنا بس آرام کرنا ہے۔ یہ سوچتے ہی میاں جی کو جھنجھوڑ ڈالا۔
’’اجی سنتے ہیں اگر آج ناشتہ کرنا ہے نا تو باہر سے لے آ ئیے گا۔‘‘
میاں جو پہلے ہی جھنجھوڑے جانے پر حواس باختہ تھے‘ اس افتاد کا سن کر مزید ہونق ہو گئے… ’’کیا کہہ رہی ہو بھئی! یہ صبح اٹھتے ہی خرچے کی باتیں شروع کر دیں۔ خدا کو مانو کیوں ننھی سی جان پر ظلم ڈھا رہی ہو۔‘‘
’’بس میں نے کہہ دیا آج ناشتہ کیا،کھانا بھی یا تو باہر سے آئے گا یا آپ میری دعوت کریں گے۔‘‘
’’مگر کس خوشی میں یہ بھی تو بتاؤ کیا ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جو تمہاری دعوت کروں میں؟‘‘
’’ارے آ پ کو نہیں پتا کہ آ ج ہمارا عالمی دن ہے۔ اس دن عورت کے حقوق کے لیے بڑی بڑی تنظیمیں میدان میں آ جاتی ہیں۔آپ کیا ان سب سے ٹکر لیں گے۔‘‘
’’ارے جاؤ جاؤ کیا خواتین کا عالمی دن اور کیا ان کی تنظیمیں۔ جائو اور جلدی سے زبردست سا لچھے دار پراٹھا اور بہترین آ ملیٹ بنا لاؤ۔‘‘
’’کیا مطلب ہے آ پ کا ،یعنی ہمارے دن کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ ہم کو آرام کرنے کا کوئی حق نہیں؟‘‘ ہم نے منہ بسور کر کہا کہ شاید میاں کو ترس آجائے۔ لیکن نہیں جناب وہ تو تولیہ کندھے پر ڈال کر باتھ روم سدھار گئے اور ہم شرافت کے سارے عالمی ریکارڈ توڑتے ہوئے باورچی خانے میں آ گئے۔
ناشتہ کرتے ہوئے ہمارے میاں جی کہنے لگے ’’بیگم دعا کرنا کہ آ پ کی ماسی کو آج کے دن کا پتا نہ چلے ورنہ کہیں وہ بھی چھٹی کر گئی تو آپ کا عالمی دن آ ج یوم سوگ بن جائے گا۔‘‘
’’ارے اللہ نہ کرے ،کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ ماسیوں کا کون سا عالمی دن؟‘‘
’’کیوں وہ عورت نہیں ہے کیا…‘‘میاں نے مسکرا کر ہمیں چڑایا۔
’’اچھا بھئی معاف کریں اور آ پ تو جائیں اپنے آ فس۔‘‘
لیکن ہم یہ سوچنے لگے کہ برسوں سے یہ عالمی دن منایا جا رہا ہے لیکن کیا دنیا میں خواتین کی حالت میں کوئی تبدیلی آ ئی۔ہمیں تو اب صورت حال زیادہ بدتر لگتی ہے۔ ان کے معاشی حالات میں تو تھوڑی بہت تبدیلی ضرور آ ئی ہے لیکن مجموعی صورت حال مزید خوف ناک ہو گئی ہے۔ جس طرح عورتوں میں ڈپریشن اور ذہنی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے‘ جنسی استحصال بڑھ رہا ہے، جس طرح نہ صرف خواتین بلکہ ننھی ننھی بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے تو یہی پتا چلتا ہے کہ عورت کی عزت میں اضافہ تو نہیں اس کی عزت کو پامال ضرور کیا جا رہا ہے۔ گھر کی عورت کو نوکری کے سبز باغ دکھا کر جس طرح اس کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے وہ بھی ایک علیحدہ عنوان ہے۔ میڈیا پر عورت کو جیسے دو کوڑی کا کر دیا گیا ہے‘ اس کو بکاؤ مال بنا دیا گیا ہے۔ میڈیا نے تو خواتین کا سر جھکا دیا ہے اگر ہم اپنی ان خواتین کو دیکھیں جو ہمارے اسلاف کے زمانے میں تھیں تو ان سے زیادہ بہادر، مضبوط اور محفوظ توکوئی عورت نہ تھی۔ وہ خواتین جو اپنے مردوں کے جہاد پر جانے کے بعد مہینوں، برسوں نہ صرف اپنی عزت کی حفاظت کرتی تھیں بلکہ اپنے بچوں کی بہترین پرورش بھی کرتی تھیں، جوکہ تیر اندازی، تلوار بازی، گھڑ سواری اور ہر وہ کام کر سکتی تھیں جو آ ج کی نام نہاد ماڈرن عورت سوچ بھی نہیں سکتی۔ اپنی طرف اٹھنے والی گندی نظروں کو وہ نوچ کے پھینک دیتی تھیں‘ اپنی طرف بڑھتے ہاتھوں کو وہ کاٹ ڈالتی تھیں۔ کسی میں اتنی جرات نہیں تھی کہ ان خواتین پر میلی نگاہ ڈال سکے۔ آج بھی پاکستانی معاشرے میں عورت کو جو تحفظ حاصل ہے مغرب کی عورت اس کے لیے ترستی ہے ۔
کچھ عورتیں این جی اوز کے فنڈ پرغلیظ نعرے لگا رہی ہیں‘ وہ عورت کو گھر سے بے گھر کر کے طلاق کو بڑھاوا دے کر نہ جانے کون سی خدمت کر رہی ہیں۔ ہم تو آج بھی اپنے ہر کام کے لیے اپنے شوہر، بھائی،ابا اور بیٹے پر بھروسہ کر کے بے فکر ہو جاتے ہیں۔ مقابلہ بازی کر کے ہم فطرت سے کیسے جنگ کر سکتے ہیں؟ عورت اور مرد کے بغیر یہ دنیا کیسے چل سکتی ہے؟ عورت اور مرد ایک ہی ادارے (گھر)کے رکن ہیں جو ایک دوسرے کو مضبوط بناتے ہیں۔ ہمیں مضبوط اورخاندان کے سائے میں محفوظ و مامون عورت چاہیے لیکن اپنے مرد کے تحفظ میں۔

حصہ