مضبوط عورت مستحکم خاندان اور معاشرے کی بنیاد

قرآن اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی وہ آسمانی ہدایت ہے جس میں مرد اور عورت کی فلاح کا راستہ بتایا گیا ہے۔ قرآن میں بار بار عورت کا ذکر آیا ہے، کبھی ایک پہلو سے کبھی دوسرے پہلو سے، کبھی حیاتیاتی شخصیت کے اعتبار سے، کبھی اجتماعی زندگی کے ایک رکن کی حیثیت سے۔
سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 35 سے 39 تک عورت کا ذکر حضرت آدم ؑ اور بی بی حوّا کے حوالے سے آیا ہے۔ سورہ اعراف کے دوسرے رکوع میں بھی حضرت آدم ؑ اور بی بی حوّا کا ذکر تفصیل سے کیا گیا۔ قرآن کے ان بیانات سے معلوم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کی ابتدا میں آدم اور حوّا کو جنت کے باشندے کے حیثیت سے پیدا کیا اور دونوں کو جنت کے ماحول میں رہنے کی اجازت دے دی، مگر وہ دونوں اس کے اہل ثابت نہ ہوسکے۔ انہوں نے جنت میں ممنوع درخت کا پھل کھا کر اپنے آپ کو اس حق سے محروم کرلیا۔ اس کے بعد اللہ کے فیصلے کے مطابق ان کو جنت سے نکال کر موجودہ زمین پر آباد کیا گیا۔ اللہ نے انہیں زمین پر رہنے اور اپنی نسل بڑھانے کا حکم دیا۔ عورت اور مرد کے درمیان نکاح کے ذریعے نسل بڑھانے پر زور دیا۔ نکاح کا رشتہ اسلام میں کوئی تفریح نہیں ہے بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔ ایک مرد اور عورت نکاح کے ذریعے یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے رفیق بن کر زندگی کی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔ وہ انسانیت کے قافلے کے صحت مند ممبر بنیں گے۔ نکاح کے اس مقصد کو سامنے رکھا جائے تو ظاہری خوش نمائی کی تمام چیزیں غیر اہم اور اضافی بن جاتی ہیں۔ اہمیت صرف دونوں کی معنوی صفات کی ہوتی ہے۔
اسلامی شریعت میں عورت اور مرد کے درمیان طلاق کی حیثیت استثنائی ضرورت کی ہے، نہ کہ عمومی حکم کی۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ حلال چیز طلاق ہے۔‘‘
زوجین کے درمیان طلاق کا معاملہ غصے کی حالت میں پیش آتا ہے۔ قرآن میں اس کی صورت اس طرح بیان کی گئیً ’’طلاق دو بار ہے، پھر یا تو قاعدے کے مطابق رکھ لینا ہے یا خوش اسلوبی کے ساتھ رخصت کردینا‘‘ (البقرہ 220)۔ کچھ مسلمان ایسا کرتے ہیں کہ وہ ایک ہی مجلس میں اور ایک ہی بار تین طلاق دے دیتے ہیں۔ یہ شرعی قانون کا غلط استعمال ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ ایسے لوگوں کی پیٹھ پر کوڑے برساتے تھے۔
قرآن کے مطابق جب دو آدمیوں کے درمیان لین دین کا کوئی معاملہ ہو تو اس کو کاغذ پر تحریر کرلیا جائے، اور دو آدمیوں کو گواہ بنانے کا حکم دیا گیا۔ اگر دو مرد نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں، تاکہ اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دلا دے۔ ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی کا سبب یہ نہیں ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں کم تر حیثیت رکھتی ہے۔ یہ دراصل ایک فطری ضرورت ہے کہ اگر دونوں میں سے کوئی ایک بات کو بھول جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دلا دے۔
قرآن میں مرد اور عورت دونوں ایمان کے لحاظ سے یکساں اجر کے حق دار ہیں۔ اسلام میں عورت اور مرد دونوں کے حقوق بھی یکساں ہیں اور ذمہ داریاں بھی۔ سورۃ الاحزاب کی 36-35 آیات میں مرد اور عورت میں اللہ دس صفات دیکھنا چاہتا ہے: -1 اسلام، -2 ایمان، -3 قنوت، -4 صدق، -5 صبر، -6خشوع، -7صدقہ، -8روزہ، -9عفت، -10ذکر اللہ۔ ان آیات میں اسلامی عقیدے اور اسلامی کردار کے تمام پہلو سمٹ آتے ہیں۔ یہ تمام اوصاف مرد اور عورت دونوں میں یکساں مطلوب ہیں۔
قرآن کے مطابق زندگی ایک امانت ہے۔ مرد اور عورت دونوں کو اس امانتِ الٰہی کی حفاظت کرنا ہے۔ امانت سے مراد اختیار اور اپنے آپ کو خدا کے کنٹرول میں دے دینا اور اس کے تابع بنانا ہے۔ یہ امانت بے حد نازک ذمہ داری ہے، کیوں کہ اسی کی وجہ سے جزا و سزا کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ دوسری مخلوقات مجبور اور بے اختیار ہیں۔
قرآن میں عورت کو ماں کی حیثیت سے بنیادی کردار سونپا گیا۔ ماں کی حیثیت گویا نسلِ انسانی کے لیے شیرازے کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتابِ زندگی کے تمام اوراق ماں کے وجود سے جڑتے ہیں۔ ماں کا وجود نہ ہو تو زندگی کے تمام اوراق منتشر ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کی حیثیت سے عورت کے حقوق کی اسلام میں بے حد تاکید کی گئی ہے۔ ماں کی حیثیت سے عورت کے حقوق کی ادائیگی تمام انسانی اخلاقیات کا سرچشمہ ہے۔
اجتماعی اخلاقیات میں ایک دوسرے کا مذاق اڑانا، طعنہ دینا، عیب لگانا، کسی کو برے لقب سے پکارنا ناپسندیدہ عمل ہے۔ سورہ تحریم میں ارشاد ہوا: ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو، اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچائو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوںگے، اس پر تند خو اور زبردست فرشتے مقرر ہیں، اللہ ان کو جو حکم دے اس میں وہ نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے ہیں جس کا ان کو حکم ملتا ہے۔‘‘ (التحریم: 6)۔
قرآن کے مطابق اللہ تعالیٰ کے یہاں کسی کو جو مقام ملے گا وہ ذاتی عمل کی بنیاد پر ملے گا، نہ کہ کسی رشتے داری کی بنیاد پر۔ جنت میں بھی داخلے کے مستحق صرف وہ مرد اور عورت قرار پائیں گے جو دنیا میں اعتدال اور تواضع کے اصول پر قائم رہیں گے۔ ہر حال میں خدا کے پرستار اور سچائی کا راستہ اختیار کرنے والے ہوں گے۔ حضرت عائشہؓ نے عورتوںکو بلاشبہ مرد کا شقیقہ کہا۔ ’’شقیقہ‘‘ عربی زبان میں کسی چیز کے درمیان سے پھٹے ہوئے دو برابر برابر حصوں کو کہتے ہیں۔ یہ عورت کی انتہائی معتبر اور صحیح تعبیر ہے۔ اسلام کے مطابق مرد اور عورت دونوں ایک کُل کے دو برابر برابر اجزا ہیں۔ اس کُل کا آدھا عورت اور آدھا مرد ہے، اس لیے عورت کو نصف انسانیت کہنا درست ہوگا۔ عورت اور مرد عزت اور مرتبے کے لحاظ سے برابر کا درجہ رکھتے ہیں، مگر زندگی کے نظام میں دونوں کے درمیان تقسیمِ کار کا اصول رکھا گیا ہے۔ مرد پر نسبتاً سخت کام کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے، جبکہ عورت کو مقابلتاً نرم کام کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اس لیے کہ مرد جسمانی اعتبار سے زیادہ قوی اور عورت غیر قوی ہے۔ اسی بنا پر وہ مرد کی چیرہ دستی کا شکار ہوجاتی ہے۔ خدا کی شریعت کا اصول یہ ہے کہ شریف انسان وہ ہے جو کمزور کے مقابلے میں شریف ثابت ہو۔ اور وہ انسان انتہائی کمینہ ہوتا ہے جو کسی کو کمزور پاکر اپنی زیادتی کا نشانہ بنائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہے، اور تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا ہو۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ عورتوں میں سب سے بہتر عورت کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: وہ عورت کہ مرد جب اُسے دیکھے تو وہ اس کو خوش کردے، اور مرد جب کسی کام کے لیے کہے تو وہ اس کی اطاعت کرے، اور اپنے نفس اور مال میں وہ مرد کی مرضی کے خلاف کچھ نہ کرے‘‘ (مسند احمد، جلد 2، ص: 251)۔ صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’دنیا کی ہر چیز سامان ہے، اور دنیا کا سب سے اچھا سامان نیک عورت ہے۔‘‘
دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے عورت اور مرد دونوں کو بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ شوہر اور بیوی کی صورت میں دونوں کو جو سرمایہ ملتا ہے وہ دوسری تمام چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ مرد کے لیے عورت صرف اس کی گھریلو ساتھی ہی نہیں ہے بلکہ وہ اس کے لیے سب سے بڑے خزانے کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ اس کی قابلِ اعتماد ذہنی رفیق ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’سب سے افضل چیز خدا کو یاد کرنے والی زبان اور خدا کا شکر ادا کرنے والا دل ہے، اور مومن بیوی ہے جو اس کے ایمان پر اس کی مدد کرے‘‘۔ گھر کی کامیابی کا راز سادگی اور کفایت شعاری میں ہے۔ کسی بھی گھر کو سادگی کے اصول پر چلانا عورت کا کام ہے۔ وہ مال کے حُسنِ انتظام کے ذریعے سادگی کو اپنا سکتی ہے، جو بااصول زندگی کی علامت ہے۔ بے مقصد، فضول طریقۂ زندگی کو چھوڑ کر بامقصد زندگی کو اپنا سکتی ہے۔ ایسی بیوی جس کے نفس اور اپنے مال میں مرد کو کوئی ڈر نہ ہو، جس پر اسے پورا اعتماد ہو، دونوں کا باہمی اعتماد زندگی کے سفر کو خوش گوار بنا دیتا ہے۔ مرد اور عورت محبت اور الفت کے ذریعے انسانی سماج کو مستحکم بناتے ہیں۔ عورت ماں کی حیثیت سے اپنی اولاد کی سب سے بڑی محسن ہوتی ہے، اس اعتبار سے انسانوں میں ماں کا درجہ سب سے بڑا ہے۔ اولاد کے لیے باپ کا سب سے بہتر عطیہ مال نہیں ہے بلکہ تعلیم ہے۔ ایک باپ کے لیے اپنی اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ شادی کے بعد بیوہ ہوجانے والی بیٹی کی ذمہ داری، اس کو معاشرے میں دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کردینا، یا اُس کی اولاد کی پرورش کرنا جنت میں داخلے کا ضامن ہے۔ تین بیٹیوں کی پرورش کرنے والے باپ کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی ضمانت دی ہے۔ عورت خواہ ماں ہو، بیوی ہو یا بیٹی… ہر حیثیت میں قابلِ تکریم ہے۔ موجودہ ترقی یافتہ معاشرے میں عورت ایک ڈیکوریشن پیس کی حیثیت میں بازار میں کھڑی کردی گئی ہے۔ یہ مسلمان معاشرے میں رہنے والے مردوں کے لیے بے غیرتی کی ایک علامت ہے۔ قرآن اور سنت کے خلاف روش اپنانے والی عورتیں اور مرد دونوں ہی قابلِ تعزیر ہیں اِس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ ہر وہ کام جو فطرت کے خلاف کیا جائے باعث ِ آزار ہوتا ہے۔ ترقی کے نام پرجو کچھ اسلامی معاشرے میں ہورہا ہے وہ رسوا کن ہے۔ موجودہ معاشرے میں طلاق کی شرح میں حیرت انگیز حد تک اضافہ ہوا ہے، اس کی وجہ صبر و تحمل اور برداشت کی کمی ہے، مرد کی ناانیت اور عورت کی طرف سے اس کی بڑھی ہوئی انفرادیت ہے۔ اس پر قابو پانا انتہائی ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ عورت سے نسلِ انسانی کی تربیت کرانا چاہتا ہے، اس کے اندر شفقت، صبر، نرمی، جذباتیت جیسی صفات رکھی گئی ہے۔ قدیم زمانے میں یہ فطری اوصاف ہی کافی تھے، مگر اب عورت کے لیے مقامِ عمل کو بدل دیا گیا ہے، اس کا ڈگری والی تعلیم حاصل کرنا، جدید علوم سے آشنا ہونا ضروری ہو گیا ہے۔ اس لیے خواتین کو اب جدید تعلیم میں مہارت پیدا کرنا چاہیے۔ موجودہ دور میں نئے وسائل کی ایجادات نے عورت کے کردار کو اور زیادہ مؤثر بنادیا ہے۔ انسانیت کی ذہنی اور اخلاقی تعمیر کرکے، انسانی نسلوں کی معلم اور مربی بن کر وہ معاشرے کی ترقی میں بہتر کردار ادا کر سکتی ہے۔
فطرت کے تخلیقی نقشے کے مطابق عورت نصف انسانیت ہے۔ عزت اور مرتبے کے اعتبار سے عورت اور مرد دونوں کا درجہ مکمل طور پر برابر ہے۔ اسلام کے مطابق موجودہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ دونوں کی اپنی تفویض کردہ ذمہ داریوں کی ادائیگی ہی کامیابی کی دلیل ہے۔