لالچ کی سزا

290

ایک غریب آدمی کے مکان کی چھت ٹوٹ گئی تھی اور وہ اس پر گھاس پھونس بچھا رہا تھا کہ اتفاق سے ایک سخی امیر بھی ادھر آ نکلا اور کہا۔ ’’بھلے آدمی! اس گھاس پھونس سے بارش کیا رکے گی۔ پکی چھت بنوا لو تو ٹپکنے کا اندیشہ جاتا رہے۔‘‘
غریب نے جواب دیا۔ ’’جناب! آپ کا فرمانا تو بے شک بجا ہے اور میں بھی جانتا ہوں۔ مگر حضور! میرے پاس پکی چھت بنوانے کے لیے دام کہاں؟‘‘
امیر نے پوچھا۔ ’’پکی چھت پر کیا لاگت آئے گی؟‘‘
غریب نے جواب دیا۔ ’’جناب! ڈیڑھ سو روپے تو لگ ہی جائیں گے۔‘‘
یہ سن کر امیر نے جھٹ جیب میں سے ڈیڑھ سو روپے کے نوٹ نکال کر اس غریب کے حوالے کر دیے کہ جائو اس سے اپنا کام چلائو۔
جب امیر نوٹ دے کر چلا گیا تو غریب کے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے کہ یہ تو بڑا سخی دولت مند تھا۔ اگر میں پانچ سو کہہ دیتا تو اتنے ہی دے جاتا۔ میں نے غلطی سے کم کہہ دیا۔
یہ سوچ کر وہ امیر کے مکان پر پہنچا اور کہنے لگا۔ جناب! میں نے اندازے میں غلطی کی تھی۔ چھت پر پانچ سو روپے خرچ آئیں گے‘‘۔
امیر نے کہا۔ ’’وہ ڈیڑھ سو کہاں ہیں؟‘‘
غریب نے نوٹ نکال کر پیش کیے تو امیر نے اپنی جیب میں رکھ کر کہا۔ ’’جائو۔ مجھے اتنی توفیق نہیں کہ پانچ سو دے سکوں۔ کوئی اور اللہ کا بندہ دے دے گا۔‘‘
غریب بہت گھبرایااور بہت التجائیں کیں۔ مگر امیرنے ایک نہ سنی ۔ آخر پچھتاتا اور یہ کہتا ہوا گھر کو پلٹ آیا کہ۔ ’’امیر کی کوئی خطا نہیں۔ یہ میرے ہی لالچ کی سزا ہے۔‘‘

یہ دنیا فانی

یہ دنیا فانی ہے
پتھر میں پانی ہے

جواب اسی صفحہ پر تلاش کریں

برف

حصہ