ہم کیوں مسلمان ہوئے

حسین رؤف (انگلستان)۔

جب کوئی شخص اپنے آبائی اور نسلی مذہب کو چھوڑ کر نیا دین اختیار کرتا ہے تو اس کے پس پردہ عموماً جذباتی‘ فکری یا سماجی عوامل کار فرما ہوتے ہیں‘ لیکن جہاں تم میری افتادِ طبع کا تعلق ہے‘ میں اس معاملے میں کبھی جذباتیت کا شکار نہیں ہوا‘ بلکہ خالص فکری اور سماجی بنیادیں تھیں جنہوں نے بالآخر مجھے اسلام کی آغوش میں لا ڈالا جب کہ اس سے قبل میں نے دنیا بھر کے تمام مذاہب کے دعاوی‘ الہامی کتب اور نتائجِ فکر کا ایک ایک پہلو کھنگال ڈالا تھا۔
میرے والد رومن کیتھولک تھے جب کہ والدہ یہودی تھیں۔ تعلیم اور تربیت چرچ آف انگلینڈ کے اصولوں کے مطابق ہوئی‘ یوں بیک وقت تین مذاہب سے میرا تعارف ہوگیا۔ میری تشکیک کا آغاز اس وقت ہوا جب میں نے یہودیت اور عیسائیت کے عقائد کا موازنہ کیا۔ میرے وجدان نے مقدس اوتار کے تصور اور کفارے کے عقیدے کو ماننے سے صاف انکار کر دیا‘ بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی ذہین انسان نہ تو بائبل کے بلند آہنگ اور تہہ در تہہ دعاوی سے مطمئن ہو سکتا ہے نہ وہ خدا کے روایتی تصور پر مبنی چرچ آف انگلینڈکے ان تعلیمات کو قبول کر سکتا ہے جن میں عقل و شعور پر مبنی کسی زندہ نظریۂ عبادت کا وجود نہیں۔
جہاں تک یہودیت کا تعلق ہے اگرچہ بائبل کی مختلف کتابوں میں اس کا تناسب گھٹتا بڑھتا رہتا ہے تاہم یہاں میں نے خدا کا خاصا باوقار تصور پایا ہے اور اس کی قدیم اصلیت ابھی برقرار ہے‘ چنانچہ میں نے یہودیت کے کئی اجزا کو قبول کر لیا مگر بعض کو یکسر مسترد کر دیا۔ مثال کے طور پر اگر اس کے تمام اصولوں اور سفارشوں کو قبول کر لیا جائے تو دنیاوی و مادّی زندگی کی لیے بہت کم گنجائش رہ جاتی ہے۔ ثانیاً ذہن کو رسوم و روایات اور مصنوعی تصورات کے ایک لمبے سلسلے کا پابند بنانا پڑتا ہے اور سب سے بڑی قباحت تو یہ ہے کہ یہودیت ایک نسلی مذہب ہے اور محدود طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ مختلف انسانی گروہوں کے درمیان اختلافات کی خلیج وسیع کرتا ہے۔
میں نے چرچ آف انگلینڈ کے طریقِ عبادت اور تصورات کو قریب سے دیکھا تھا اور یہودیت کی مذہبی رسوم کا بغور مشاہدہ کیا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میرے ذہن نے دونوں میں سے کسی کو قبول نہ کیا۔ رومن کیتھولک میں‘ میں نے پُراسراریت کا غلبہ پایا اور انسانی وقار و احترام کو توہمات تلے کراہتے دیکھا۔ یہاں ایک طرف تو انسان کو پیدائشی گناہ گار کہا جاتا ہے مگر دوسری طرف پوپ اور اس کے حواری معصوم عن الخطا قراردیے گئے ہیں۔
اکتا کر میں نے ہندو فلاسفی کا مطالعہ شروع کیا اور اپنشد اور وید کو بنیاد بنایا‘ مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات یعنی کچھ چیزوں میں نے احترام کی نظر سے دیکھا مگر اکثر باتوں کو رد کر دیا۔ معاشرتی برائیوں کا ہندو تعلیمات کوئی حل پیش نہیں کرتیں۔ برہمن کو غیر معمولی تقدس اور ان گنت سہولتوں کا مستحق ٹھہرایا گیا مگر اچھوت کو زندہ درگور کر دیا گیا ہے‘ کسی مذہب میں بھی انسانی توہین کی وہ مثال نہیں کلتی جس کا نمونہ ہندو مت میں نظر آتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سارا الزام خدا کے سر تھوپا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ اس کی مرضی کے مطابق ہو رہا ہے۔
بدھ مت نے مجھے انسانی ذہن اور اس کے طریق کار کو سمجھنے میں مدد دی۔ میں نے اندازہ کیا کہ ضروری قسم کی قربانیاں دی جائیں تو مظاہر فطرت کا ادراک بالکل کسی کیمیائی تجربے کی طرح حاصل ہو سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بدھ مت ذات پات کے نظیرے کا محض ردِعمل ہے۔ لیکن اس میں ان اخلاقی تعلیمات کا فقدان ہے جو ہندو منت میں پائی جاتی ہیں۔ بدھ مت میں مافوق الانسان قوتیں تو حاصل ہو سکتی ہیں مگر مجھے بہت جلد پتا چل گیا کہ ان قوتوں کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ سائنس کا ایک شعبہ ہے جو اخلاقیات کو سہارا تو نہیں دیتا محض اعلیٰ درجے کی تفریح کا باعث بنتا ہے۔ جذبات کو دبا دینا اور تمام خواہشات کو تابع کر لینا یہ کام تو زینو (زینو یونان کا ایک فلسفی (265-336 قبل مسیح) جس کا نقطہ نظریہ ہے کہ سب انسان برابر ہیںاور مثالی زندگی یہ ہے کہ کسی شخص کو کوئی پریشانی لاحق نہ ہو۔) کے پیروکار بھی کرتے تھے۔ پھر بدھ ازم میں خالقِ کائنات کا کہیں تصور نہیں ملتا محض ذاتی نجات کی خاطر تگ و دو کی جاتی ہے اور اس کا انداز بھی سراسر غیر فطری اور مصنوعی ہے۔ ٹالسٹائی کی عیسائیت کی مانند کم از کم نظریاتی اعتبار سے بدھ ازم دنیا کی رہنمائی کر سکتا تھا‘ مگر جس طرح عیسائیت مسیح علیہ السلام کے اقوال تک محدود ہو کے رہ گئی‘ اسی طرح بدھ ازم محض زبانی جمع خرچ کا ایک نمونہ بن گیا اور بس۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کچھ مذاہب نظریاتی اعتبار سے دنیا کے لیے باعثِ نجات ہو سکتے تھے تو عملی میدان میں وہ ایسا کرنے سے کیوں قاصر رہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مذاہب ایک محدود طبقے کے لیے تھے‘ عوام تک ان کی رسائی نہیں تھی۔ عیسائیت اور بدھ ازم کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ان مذاہب کے بانیوں نے سماجی مسائل کو چھوا تک نہیں‘ وجہ یہ ہے کہ وہ انہیں اہمیت ہی نہیں دیتے تھے۔ مسیح اور بدھ دونوں نے ترکِ دنیا کی تعلیم دی ہے اور خدا کو پانے کے لیے بھی ذات کو پسندیدہ اور لازمی قرار دیا ہے۔ ’’وائرا گیام یعنی برائی کی مزاحمت نہ کرو‘ کل کی فکر نہ کرو‘ یا بھیک کے کشکول کی عظمت‘‘ جیسے خیالات کتنے ہی بلندکیوں نہ ہوں اور جو لوگ ان پر کاربند ہوتے ہیں ان کی کتنی ہی تعظیم کیوں نہ کی جائے مگر ان تعلیمات کی کوئی سماجی حیثیت یا اہمیت نہیں ہے کہ نہ تو ایک عام آدمی ان پر عمل پیرا ہو سکتا ہے نہ ان سے کسی غریب کسان یا مزدور کے دکھوں میں کوئی کمی ہو سکتی ہے‘ ان میں شاید روحانی تسکین کا کوئی پہلو تو موجود ہو‘ مگر سماجی فوائد کے اعتبار سے یہ بے کار محض ہیں۔
یہ بات آپ کو خاصی عجیب لگے گی کہ عرب ممالک میں رہنے کے باوجود اسلام سے میرا تعارف بس سرسری اور سطحی نوعیت کا تھا اور میں نے جتنی گہری توجہ دوسرے مذاہب پر صرف کی اسلام کا حصہ اس میں صفر کے برابر ہے۔ میں نے اس وقت تک صرف راڈویل کا ترجمۂ قرآن مجیید پڑھا تھا اور اس سے کوئی خاص تاثر نہیں لیا تھا۔ معاملہ تو اُس وقت آگے بڑھا جب لندن میں میری ایک بہت اچھے مسلمان مبلغ سے ملاقات ہوئی۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ غیر مسلموں کو اسلام کے قریب لانے کے لیے عرب ملکوں میں کچھ نہیں ہوا حالانکہ اگر اس سمت میں کام ہوتا تو اس ک بڑے خوش گوار نتائج سامنے آسکتے تھے۔
بہرحال میں نے مسلمان مصنفین کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور ایک مسلمان کا ترجمہ قرآن پڑھا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ مجھے میری منزل مل گئی ہے اور میں سالہا سال سے اسی گوہر مقصود کا متلاشی تھا۔
۔1945ء کی ایک عید کے موقع پر مجھے دعوت دی گئی کہ میں مسلمانوں کے طریقِ عبادت کا مشاہدہ کروں اور بعد میں کے کھانے میں بھی شرکت کروں۔ میں نے دیکھا کہ دنیا بھر سے مختلف رنگوں‘ زبانوں اور تہذیبوں کے مسلمان بھائیوں کی طرح یکجا ہیں اور ایک ہی زبان میںایک ہی طریقے سے عبادت کر رہے ہیں۔ یہاں کسی کو کسی پر فوقیت نہیں۔ یہاں مین نے ایک ترک شہزادے کو بالکل عام لوگوں سے گھلے ملے ہوئے دیکھا۔ یہاں کسی امیر میں نہ دولت کا نشہ نظر آیا نہ اس نخوت کا مشاہدہ ہوا جو ایک انگریز اپنے سیاہ فام پڑوسی سے عموماً روا رکھتا ہے۔ یہاں مجھے کسی میں مضحکہ خیز قسم کا غرور نظر آیا نہ ریا کارانہ زہد و تقوی ٰ کی کوئی جھلک دیکھی۔ ساری فضا وقار‘ توازن اور اعتدال کا حسین امتزاج پیش کر رہی تھی۔
میں بیان نہیں کر سکتا کہ اسلام سے اس باقاعدہ اور عملی تعارف نے میرے دل و دماغ پر کیا تاثرات چھوڑے۔ یہاں مجھے وہ سب کچھ نظر آیا جو کسی بھی دوسرے مذہب میں نہیں تھا۔ آپ میری سوچوں کا اندازہ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ میں نے دنیا بھر کے مذاہب کا تفصیلی مطالعہ کیا مگر کسی میں کشش نظر نہ آئی مگر اسلام نے بہت تھوڑے عرصے میں مجھے اپنی طرف کھینچ لیا اور میں مسلمانوں کی عظیم عالمی برادری کا باقاعدہ رکن بن گیا۔
متذکرہ بالا تصریحات سے یہ بات تو سامنے آگئی کہ میں مسلمان کیوں ہوا مگر یہ وضاحت نہیں ہوئی کہ مجھے مسلمان ہونے پر فخر کیوں ہے؟ دراصل فخر و ناز کا احساس مجھے وقت اور تجربے نے عطا کیا۔ میں نے اسلامی تہذیب و ثقافت کی تعلیم ایک انگریزی یونیورسٹی میں حاصل کی۔ یہاں مجھے پتا چلا کہ یورپ کو قرونِ مظلمہ (Dark Age) سے نکالنے والا اسلام تھا۔ تاریخ نے مجھے بتایا کہ دنیا میں مسلمانوں نے کتنی عظیم و پُر شوکت سلطنتیں قائم کیں اور آج کے سائنسی علوم اور ایجادات دراصل اسلام کی مرہونِ منت ہیں چنانچہ اب جب کوئی اظہارِ افسوس کتا ہے کہ تم پیچھے کی طرف لڑھک گئے ہو تو میں اس کی جہالت پر مسکرا دیتا ہوں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ لوگ اسباب و علل کو کس طرح غلط ملط کرتے ہیں۔ آخر یہ اسلام کو ان عوامل کے حوالے سے کیوں دیکھتے ہیںجنہوں نے باہر سے نفوذ کیا اور غیر فطری طریقے سے اسلام کی صورت کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔ اگر چیزوں کو جانچنے کا یہی معیار ہے تو پھر یہ لوگ نشاۃ ثانیہ کے دور کی مصوری کو کیوں دریا برد نہیں کر دیتے۔ پھر عیسائیت کو قرونِ مظلمہ اور اسپین کے حوالے سے خون آسامی اور تباہی و بربریت کا سمبل کیوں نہ مان لیا جائے۔ یورپ کے لوگوں کویہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہر دور کی منصف مزاج عظیم شخصیتوں نے اسلامی تہذیب کو بنظرِ تحسین دیکھا ہے اور اس سمندر میں ایسے موتی پنہاں ہیں جو اب بھی سارے زامنے کی تاریکیوں کو روشنیوں سے بدل سکتے ہیں۔

حصہ