پروفیسر احمد علی

212

سجاد ظہیر، محمود الظفر اور ڈاکٹر عبدالعلیم ترقی پسند تحریک کو روس کی کمیونسٹ پارٹی کے مینی فیسٹو پر چلانے لگے، یہی ان سے میرا اختلاف تھا

آخری قسط

طاہر مسعود: ادیبوں کی محفل میں ان دنوں ایک لفظ ’’پبلک ریلشنگ‘‘ عام ہے۔ ادیب ایک دوسرے کی عدم موجودگی میں ایک دوسرے پر پبلک ریلشنگ کا الزام عائد کرتے رہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض ادیب ماس میڈیا سے اپنے نام مشتہر کرانے کے لیے سرکاری افسران سے خوش گوار تعلقات رکھنے کی پالیسی پر چل پڑے ہیں‘ کیا یہ رویہ ادب یا ادیب کے حق میں مفید ہے؟
پروفیسر احمد علی: اگر ادیب کو پبلک ریلشنگ کرنی پڑی تو وہ ادب کی خدمت کرے گا یا دوسروں کی خدمت کرے گا؟ یہ ادب اور ادیب دونوں کا المیہ ہے۔ اب تصور کیجیے کہ میں ٹیلی ویژن سے اپنی کوئی چیز ٹیلی کاسٹ کرانے کے لیے کسی بھی افسر کے پاس آموں کا ٹوکرا لے کر پہنچ جائوں اور کہوں ’’لو بھئی میں آگیا‘‘ لاحول ولا قوۃ‘ کیا واہیات تصور ہے۔ میں پبلک ریلشنگ پر لعنت بھیجتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ پبلک ریلشنگ کے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں لوگوں نے میرے کام کو دبا دیا ہے لیکن پچاس سال بعد میرے لیٹریری ورک (ادبی کام) کا ریوائیول (احیا) ہوگا اور لوگ مجھے یاد کریں گے۔
طاہر مسعود: آپ کو ناقدری کا گلہ کیوں ہے جب کہ ہمارے خیال میں ملک کے ادبی حلقوں میں جن چند ادیبوں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ان میں ایک آپ بھی ہیں۔
پروفیسر احمد علی: گلہ! (انہوں نے چشمے کے پیچھے سے جھانکا) ذرا ایک مضمون تو دکھا دیں جو گزشتہ چند برسوں میں احمد علی پر لکھا گیا ہو۔ اب تو شارٹ اسٹوری رائٹرز کی فہرست میں بھی میرا نام نہیں آتا جب کہ دوسروں کے نمبر نکلتے ہیں۔ میں پبلک ریلشنگ نہیں کرتا لیکن یہ سچ ہے کہ میرے بارے میں ’’ڈان‘‘ جیسا انگریزی اخبار لکھتا بھی ہے تو الٹا ہی لکھتا ہے اور کالم نگار صاحب ملتے ہیں تو بڑے تپاک اور تقدس سے اور پھر شکایت کرتے ہیںکہ ’’پروفیسر صاحب! آپ نے لکھنا کیوں چھوڑ دیا؟‘‘
طاہر مسعود: ہاں یہ تو درست ہے کہ ’’افکار‘‘نے احمد ندیم قاسمی نمبر شائع کر دیا لیکن آپ کو بھلا دیا گیا۔
پروفیسر احمد علی: یہی تو میں کہہ رہا ہوں۔ پاکستان آخر قدر و قیمت گئی۔ ہندوستان میں ہوتا تو نہ معلوم کتنی عزت ہوتی حالانکہ وہاں نہ گیا ہوں نہ جائوں گا۔ خیر مجھے اللہ نے دونوں ہاتھوں سے لکھنا سکھا دیا ہے اور اپنے ملک میں نہیں تو غیر ملک میں میری قدر و منزلت ہے۔ میری کتابیں ٹیکساس یونیورسٹی اور کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھائی جارہی ہیں۔ (کچھ دیر سوچ کر) پاکستان میں میری عزت افزائی کا حال آپ سنیں گے۔ مجھے اکیڈمی آف لیٹرز کا فائونڈنگ فیلو بنایا گیا۔ اس کے بعد اسلام آباد میں اس کا اجلاس منعقد ہوا۔ مجھے اس اجلاس میں مقالہ نہیں پڑھنے دیا گیا۔ جب میری باری آئی تو کہا گیا کہ وقت ختم ہو گیا ہے جب کہ دوسرا آدمی کھڑے ہو کر پینتالیس منٹ تک بکواس کرتا رہا اور مجھے پندرہ منٹ دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد سے آج تک اکیڈمی والوں نے پلٹ کر نہیں پوچھا۔ صدر مملکت نے اس اجلاس میں پندرہ لاکھ روپے خرچ کرکے پورے ملک سے ادیبوں کو بلایا تھا۔ غور کیجیے میں اکیڈمی کے ان نو آدمیوں میں شامل تھا جو فائونڈنگ فیلو تھے اور جب میز بچھی تو پینتیسویں یعنی آخری میز پر میرا نام تھا۔ اجلاس کے اختتام پر اکیڈمی کے سیکرٹری مسیح الدین‘ جوآج کل مسیحائے ادب ہیں‘ اچانک بھاگے ہوئے آئے اور میرا ہاتھ پکڑکر کھینچتے ہوئے لے گئے اور صدر صاحب کے سامنے کھڑا کردیا۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے یاد فرمایا ہے۔ صدر صاحب نے تعریفی انداز میں کہا کہ ’’ٹیلی ویژن پر قرآن حکیم کی آیات پر آپ کے لیکچر میں نہایت دل چسپی اور ذوق و شوق سے سنتا رہا ہوں۔‘‘ یہ سنتے ہی بے ساختہ میرے منہ سے نکلا ’’جب ہی وہ پروگرام بند ہو گیا۔‘‘ صدر صاحب نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ پروگرام دوبارہ شروع کرنے کے لیے ہدایت جاری کریں گے۔ بعد میں پتا نہیں کیا ہوا لیکن پروگرام بہرحال شروع نہیں ہوا۔ انہی حالات کی وجہ سے میں کہیں آتا جاتا نہیں۔ ادبی تقاریب میں بھی نہیں۔ ایک ادبی تقریب میں اپنے ایک عزیز کے اصرار پر چلا گیا۔ میں مضمون لکھ کر لے گیا تھا جسے کسی نے بھی نہیں سنا۔ بہ قول غالب کود ہی لکھتے تھے اٹھا رکھتے تھے۔ (جولائی 1981ء)
طاہر مسعود: چند باتیں میں آپ کی ابتدائی زندگی کے بارے میں جاننا چاہوں گا‘ مثلاً یہ کہ آپ نے لکھنے کی ابتدا کیسے کی؟ آپ کی ادبی تربیت میں کن لوگوں کا حصہ رہا؟ کن کتابوں نے متاثر کیا؟
پروفیسر احمد علی: میں نے گیارہ برس کی عمر سے لکھنا شروع کیا‘ اس وقت میں ضلع کے کانونٹ اسکول میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ یہ 1920-21ء کی بات ہے‘ اردو کی شد بد زیادہ تھی اس لیے کہانیاں اور ناول پڑھنے میں خوب دل لگتا تھا۔ گھر والوں کو پتا چلا تو سخت ناراضی کا اظہار کیا گیا کہ لاحول ولا قوۃ اس نے تو ہماری ناک کٹوا دی اور جب ان تک میرے شعر کہنے کی اطلاع پہنچی پھر توصاحب آسمان ٹوٹ پڑا ’’یہ تو غنڈہ اور بدمعاش ہو گیا ہے‘ شعر کہتا ہے۔‘‘ لیجیے اب نہ ناول پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی شعر کہہ سکتے ہیں۔ لیکن میں بھی باز نہیں آیا۔ اسکول کے سالانہ جلسے میں انعام ملا تو حوصلہ مزید بڑھا۔چھوٹی چھوٹی کاپیاں بنا کر انگریزی میں کہانیاں لکھنے لگا کیوں کہ اردو پڑھنے لکھنے پر پابندی تھی۔ اسکول کی لائبریری سے ناول لاتا اور اسے کاپی میں چھپا کر پڑھتا تھا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد چھٹیاں گزارنے والدہ کے ماموں کے پاس شملے بھیج دیا گیا۔ وہاں ہمارے سینئر دوست خواجہ منظور حسین بھی تھے۔ ان کے ساتھ میں پہاڑوں میں گھومنے نکل جاتا تھا۔ مختلف مناظر دیکھتا‘ کہانیاں اور نظمیں لکھتا۔ پندرہ سولہ سال کی عمر میں کچھ اس قسم کی ادبی سرگرمیاں رہیں۔ گھر والوں نے علی گڑھ کالج میں سائنس کے مضمون میں داخلہ دلا دیا تھا کہ لڑکا ڈاکٹر بنے گا اور اس مضمون سے ہماری دل چسپی کا یہ حال تھاکہ کلاس میں لیکچر کے دوران نظمیں پڑھتا رہتا تھا۔ یہاں ہمیں پروفیسر ڈکنسن ملے‘ انگریزی کے استاد آکسفورڈ کے گریجویٹ اور مہذب آدمی تھے۔ ایک دن انہوں نے ہماری کلاس لی اور مقابلہ مضمون نویسی کرایا۔ میرا مضمون پڑھنے کے بعد کہا کہ کسی دن شام کو گھر پر آئو اور میرے ساتھ چائے پیو۔ پھر تو پروفیسر ڈکنسن سے خوب ملاقاتیں ہوئیں۔ انہوں نے مجھ پر بہت محنت کی اور مجھے مغربی ادب‘ تہذیب و تمدن‘ موسیقی غرض کہ ہر چیز سے متعارف کرایا۔ ان کا ذاتی کتب خانہ تھا‘ میں نے ان کی رہنمائی اور ہدایت کے مطابق اس کتب خانے سے استفادہ کیا۔ اس کے علاوہ میں جو کچھ لکھتا تھا‘ علی گڑھ کالج کے میگزین میں میری نظمیں بھی چھپنے لگیں۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد علی گڑھ سے لاہور گیا اور وہاں سے لکھنؤ چلا گیا اور یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ یونیورسٹی کے علمی ماحول میں میری ادبی سرگرمیاں جاری رہیں۔ میں یونیورسٹی میگزین کا ایڈیٹر مقرر ہوا۔ سارے پروفیسر صاحبان مجھ پر خاصے مہربان تھے۔ اس عرصے میں‘ میں نے بہت لکھا۔ ’’انگارے‘‘ میں شامل میری دونوں کہانیاں 1931ء میں لکھی گئی تھیں اور اس کا قصہ کچھ یوں تھا کہ والدہ بیماری کی سبب مسوری گئی ہوئی تھیں۔ وہاں ہمارے دوستوں کا بڑا حلقہ تھا۔ ان میں ڈاکٹر محمودالظفر‘ صاحبزادہ جمیل خان‘ میاں بشیر احمد وغیرہ شامل تھے۔ صاحب زادہ سعیدالظفر کے گھر محفل جمتی تھی۔ ایک دن وہیں ادب پر گفتگو ہو رہی تھی۔ ان میں سے کسی نے مجھ سے کہانی سنانے کی فرمائش کی جسے سننے کے بعد میاں بشیر احمد نے کہانی مانگ لی اور کہا کہ وہ اسے ’’ہمایوں‘‘ میں شائع کریں گے تو سب سے پہلے یہ کہانی ’’مہاوٹوں کی ایک رات‘‘ جنوری 1932ء میں ’’ہمایوں‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ اس دوران پھر یہ ہوا کہ سجاد ظہیر آکسفورڈ سے لکھنؤ آگئے‘ ان سے ملاقات ہوئی تو انہیں ہم مزاج و ہم خیال پایا۔ ہم دونوں ہی کو ادب‘ آرٹ اور اچھے کپڑے پہننے کا شوق تھا‘ لہٰذا خوب گہری دوستی ہو گئی۔ سجاد ظہیر نے بھی کہانیاں لکھی تھیں اس لیے تجویز پیش ہوئی کہ ہم دونوں اپنی کہانیوں کی کتاب چھاپیں لیکن کہانیوں کی تعداد کم تھی۔ محمود الظفر سے ذکر ہوا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے بھی انگریزی میں ایک کہانی لکھی ہے لہٰذا اسے بھی کتاب میں شامل کرنے کا فیصلہ ہو اور اس کا اردو ترجمہ سجاد ظہیر نے کیا۔ رشید جہاں کے ہاں بھی اکثر ہم لوگوں کا جم گھٹا رہتا تھا۔ لہٰذا ان سے بھی کہانی لکھنے کی فرمائش کی گئی۔ انہوں نے ایک کہانی لکھی اور سنائی جو ہم لوگوں کو پسند آئی پھر انہوں نے دوسری کہانی بھی لکھی۔ اس طرح ہمارا مجموعہ تیار ہوگیا اور دسمبر 1932ء میں ’’انگارے‘‘ کے نام سے چھپ کر آگیا۔
طاہر مسعود: پھر اس کتاب کے خلاف طوفان برپا ہوا؟
پروفیسر احمد علی: جی ہاں‘ لکھنؤ کے تمام اخبارات صفحہ اوّل پر ہمیں برا بھلا کہنے لگے۔ ایک رسالے نے تو اپنے اداریے میں یہاں تک لکھ دیا کہ ’’لکھنؤ کی نمائش میں ہمیں دکان دار نے ایک نابکار کتاب ’’انگارے‘‘ دکھائی تو ہمارے جسم پر رعشہ آگیا اور ہم غش کھا کر گر پڑے۔‘‘ غرض کہ ایک ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔ منبروں سے مولوی صاحبان نے ہمارے خلاف تقریریں شروع کردیں اور گلیوں میں قصائی ہمیں مارنے کے لیے چھرے لے کر گھومنے لگے۔ آل انڈیا شیعہ کانفرنس میں ہم لوگوں کے خلاف قرارداد مذمت منظور ہوئی۔ کہا گیا کہ سر وزیر حسن کے لڑتے سجاد ظہیر نے سرکشی کی ہے۔ سجاد ظہیر تو ڈر کے مارے ہندوستان ہی چھوڑ گئے۔ تین مہینے کے اندر اندر کتاب پر بھی پابندی لگ گئی۔ میں نے محمود الظفر سے مشورہ کیا۔ ہمیں سخت غصہ تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہرگز نہیں ڈریں گے‘ لہٰذا 5 اپریل 1933ء کو ’’لیڈر‘‘ اخبار میں ہمارا مشترکہ بیان چھپا جس میں ہم نے کہا کہ ’’ہم ڈرنے والے نہیں بلکہ ہم کچھ اور کتابیں بھی چھاپیں گے۔‘‘ ہمارے سامنے اس وقت توہم پرستی‘ غلامی اور جہالت افلاس جیسے مسائل تھے اور ہم نے ان کے خاتمے کے لیے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اسی بیان میں ہم نے ’’سوسائٹی آف پروگریسو رائٹرز‘‘ کے قیام کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ان لوگوں سے بھی جو ہمارے خیالات سے متفق تھے‘ تعاون کی اپیل کر ڈالی اس کے بعد سجاد ظہیر کو بذریعہ خط ساری تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ وہاں سے دو سال بعد یعنی 1935ء کے آخر میں وہ واپس آئے۔ وہ کمیونسٹ خیالات کے آدمی تھے اور لندن میں ان کا کمیونسٹوں سے بڑا گہرا رابطہ تھا۔ انہوں نے لوٹنے کے بعد کہا کہ ہم تنظیم کے اکثر و نفوذ کے لیے آل انڈیا پروگریسو رائٹرز کانفرنس کریں گے۔ اس عرصے میں محمود الظفر امرتسر کے ایک کالج میں انگریزی کے لیکچرار ہوگئے تھے۔ فیض احمد فیض بھی وہیں تھے۔ سجاد ظہیر کی واپسی کے بعد پنجاب اور بنگال وغیرہ کے دورے کا پروگرام بنایا گیا۔ اس طرح پروگریسو رائٹرز کانفرنس کا یہ منصوبہ اردو زبان سے نکل کر ہند کی ساری زبانوں میں پھیل گیا۔ پریم چند کو بھی میں نے ہی خط لکھا تھا اور وہ اسی خط پر کانفرنس میں شرکت کرنے آئے۔ پھر جواہر لعل نہرو‘ مولوی عبدالحق اور دیگر بڑی شخصیات کانفرنس میں شریک ہوئیں۔ ان دنوں میرے افسانے ’’ساقی‘‘ اور دیگر ادبی رسائل میں باقاعدگی سے شائع ہو رہے تھے۔ میرے افسانوں کا مجموعہ ’’شعلے‘‘ 1934ء میں پہلی بار الٰہ آباد سے شائع ہوا تھا۔ غرضیکہ کچھ اسی قسم کے ماحول میں میری ادبی زندگی گزری۔
طاہر مسعود: آپ نے اس زمانے میں ’’ہماری گلی‘‘ اور ’’استادشمو خان‘‘ جیسے شاہ کار افسانے لکھے جو اعلیٰ درجے کی حقیقت نگاری سے تعلق رکھتے تھے۔ اس وقت تک اردو میں جتنے اور جس سطح کے افسانے لکھے گئے تھے‘ کیا آپ اس سے غیر مطمئن تھے؟
پروفیسر احمد علی:دیکھیے جب میں لکھنے بیٹھتا ہوں تو میرا تعلق اردو یا انگریزی ادب سے نہیں‘ زندگی اور اس کی حقیقتوں سے ہوتا ہے۔ ہر تخلیقی مصنف اپنا تخلیقی طریقہ کار اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے اور اس کو اپنے اندرونی نقطۂ نظر سے استوار کرتا ہے اور آگے بھی بڑھاتا ہے‘ لہٰذا اس زمانے تک جتنے افسانے لکھے جا چکے تھے ان سے نہ میں مطمئن تھا نہ غیر مطمئن۔ میں تو اپنا کام کر رہا تھا۔
طاہر مسعود: ہمارے بعض ادیب تکنیک کے معاملے میں نہایت حساس واقع ہوئے ہیں اور وہ مواد (Content) کو نظر انداز کرکے اپنی ساری توجہ تکنیک کو بہتر بنانے پر مرکوز کر دیتے ہیں‘ اس رویے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
پروفیسر احمد علی: ادیب زندگی کا مطالعہ جتنا غور سے کرے گا اس کا Content اتنا ہی درست ہوگا۔ رہا تکنیک کا معاملہ تو ہمارے ادیب تکنیک سے بالکل بے بہرہ ہیں‘ کم از کم فکشن میں۔ میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ اردو کا کوئی ناول ایسا نہیں جس کی ساری چولیں ٹھیک ٹھیک بیٹھ گئی ہوں۔ ایک ناول اتفاق سے بہتر نظر آتا ہے اور وہ ہے ’’امرائو جان ادا‘‘۔ اس کا آخری حصہ ایڈٹ کر دیا جائے تو یہ دوسرے ناولوں کے مقابلے میں خاصا بہتر ہو سکتا ہے۔ ’’آگ کا دریا‘‘ میں قرۃ العین حیدر نے ایک بہت وسیع کینوس لیا ہے۔ یہ اچھا ناول ہے لیکن اس کی بھی ساری چولیں نہیں بیٹھی ہیں۔ قرۃ العین نے اس ناول میں تاریخ کے کئی ادوار کو موضوع بنایا ہے لیکن انہوں نے ہر دور کو دوسرے دور سے الگ کر دیا ہے اور یہی اس ناول کی کمزوری ہے۔ اصولاً ان سارے ادوار میں ایک ایسی کڑی ہونی چاہیے جو ایک دورکو دوسرے دور سے اس طرح ملا دے اور دونوں کو آپس میں اس طرح سمو دے کہ یہ معلوم نہ ہو سکے کہ ہم ایک دور سے نکل کر دوسرے دور میں آگئے ہیں۔ میں اس کی ایک مثال عزیز احمد کے ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ سے دیتا ہوں۔ اس ناول کا بڑا شہرہ ہوا۔ اس کا ترجمہ رالف رسل نے کیا۔ میں نے کہا میں اس ناول کو ایک اور طریقے سے دیکھتا ہوں اور پھر میں نے اسے الٹا پڑھنا شروع کیا۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ آخری صفحے سے لے کر پہلے صفحے تک کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔ کردار جیسے تھے ویسے ہی رہے۔ زندگی جیسی تھی ویسی ہی رہی حالانکہ ماضی سے جب انسان مستقبل کی طرف بڑھتا ہے تو چیزوں کی گہرائی اور وسعت میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ مصنف کے پاس جب تک تاریخی نقطہ نظر نہ ہو‘ وہ ناول میں یہ خوبیاں پیدا نہیں کر سکتا۔ فوٹو گرافر اور تخلیقی مصنف میں یہی فرق ہے کہ فوٹو گرافر چیزوں کو ہو بہو پیش کر دیتا ہے جب کہ تخلیقی آرٹسٹ اس میں غیر شعوری طور پر تبدیلیاں پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ تکنیک کو دیدہ و دانستہ استعمال کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے تنقیدی شعور کو بھی کام میں لاتا ہے تاکہ یہ دیکھ سکے کہ اس نے تکنیک صحیح طور پر استعمال کی ہے یا نہیں۔ ہمارے ادیبوں کا مسئلہ کیا ہے؟ وہ جلدی جلدی کچی پکی روٹیاں کھا لیتے ہیں اور پھر قے کر دیتے ہیں۔ وہ اپنے تجربے کو ہضم نہیں کرتے۔ تجربہ‘ زندگی اور فکر کا خون کا جزو بننے کے بعد ہی معروضی شکل اختیار کرتا ہے۔ مسئلے کا ایک حل یہ ہے کہ ادیب جب ناول یا افسانہ لکھ لیں تو اسے چھپوانے کی عجلت نہ کریں بلکہ اسے کم از کم چھ ماہ تک محفوظ کر لیں اس کے بعد اسے پڑھیں تو آپ دیکھیں گے کہ انہیں خود اپنی تحریر پر شرم آئے گی۔
طاہر مسعود: آپ کے ناول ’’دلی کی شام‘‘ پر حسن عسکری صاحب نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ یہ ناول اس وقت مکمل ہوگا جب اس کا دوسرا حصہ پاکستان کے بارے میں لکھا جائے گا۔ اس لیے کہ شامِ دلی ہی سے صبح پاکستان نے جنم لیا ہے‘ کیا کبھی آپ نے اس حوالے سے اپنے ناول کا دوسرا حصہ لکھنے کے بارے میں سوچا؟
پروفیسر احمد علی: دلی نہ صرف میرا وطن تھا بلکہ میرے آبا و اجداد کا وطن تھا۔ وہ برصغیر کے مسلمانوں کا دل تھا اور میرا دل ان مسلمانوں کے دلوں میں سے ایک چھوٹا سا دل تھا جو ان کے ساتھ منسلک تھا۔ میں وہیں پلا بڑھا۔ میں اسی تہذیب و تمدن کی پیداوار ہوں۔ مجھے اس سے لگائو ہے اور یہ لگائو ہر ایک کو دلی کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ پاکستان آنے کے بعد میں نے بارہا سوچا کہ یہاں کے بارے میں ایک ناول لکھوں‘ میں نے اس کا نام بھی سوچ رکھا ہے ’’دی سندھ فلوز آن‘‘۔ دعا کیجیے حالات اجازت دیں تاکہ میں اسے لکھ بھی ڈالوں۔ آپ کے لیے فی الحال اتنا جان لینا کافی ہوگا کہ یہ تاریخی ناول اسی خطے کے بارے میں ہوگا۔ (اگست 1984ء)۔

حصہ