منتخب غزلیں

334

علامہ اقبال

انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں
علاجِ درد میں بھی درد کی لذت پہ مرتا ہوں
جو تھے چھالوں میں کانٹے نوکِ سوزن سے نکالے ہیں
پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی
نرالا عشق ہے میرا نرالے میرے نالے ہیں
نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی
نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں
نہیں بیگانگی اچھی رفیقِ راہِ منزل سے
ٹھہر جا اے شرر ہم بھی تو آخر مٹنے والے ہیں
امیدِ حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو
یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادھے بھولے بھالے ہیں
مرے اشعار اے اقبالؔ کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو
مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ دردانگیز نالے ہیں
٭٭٭

ابن انشا

انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا
پھر ہجر کی لمبی رات میاں سنجوگ کی تو یہی ایک گھڑی
جو دل میں ہے لب پر آنے دو شرمانا کیا گھبرانا کیا
اس روز جو ان کو دیکھا ہے اب خواب کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی وہ بات بھی تھی افسانا کیا
اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا وہ خزانا کیا
اس کو بھی جلا دکھتے ہوئے من اک شعلہ لال بھبوکا بن
یوں آنسو بن بہہ جانا کیا یوں ماٹی میں مل جانا کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستا دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا
٭٭٭

افتخار عارف

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
ڈوب جاؤں تو کوئی موج نشاں تک نہ بتائے
ایسی ندّی میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
کبھی مل جائے تو رستے کی تھکن جاگ پڑے
ایسی منزل سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
وہی پیماں جو کبھی جی کو خوش آیا تھا بہت
اسی پیماں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے
٭٭٭

بشیر بدر

آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے مرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
یاروں کی محبت کا یقیں کر لیا میں نے
پھولوں میں چھپایا ہوا خنجر نہیں دیکھا
محبوب کا گھر ہو کہ بزرگوں کی زمینیں
جو چھوڑ دیا پھر اسے مڑ کر نہیں دیکھا
خط ایسا لکھا ہے کہ نگینے سے جڑے ہیں
وہ ہاتھ کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا
پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا
میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا
٭٭٭

آشفتہ چنگیزی

برا مت مان اتنا حوصلہ اچھا نہیں لگتا
یہ اٹھتے بیٹھتے ذکرِ وفا اچھا نہیں لگتا
جہاں لے جانا ہے لے جائے آ کر ایک پھیرے میں
کہ ہر دم کا تقاضائے ہوا اچھا نہیں لگتا
سمجھ میں کچھ نہیں آتا سمندر جب بلاتا ہے
کسی ساحل کا کوئی مشورہ اچھا نہیں لگتا
جو ہونا ہے سو دونوں جانتے ہیں پھر شکایت کیا
یہ بے مصرف خطوں کا سلسلہ اچھا نہیں لگتا
اب ایسے ہونے کو باتیں تو ایسی روز ہوتی ہیں
کوئی جو دوسرا بولے ذرا اچھا نہیں لگتا
ہمیشہ ہنس نہیں سکتے یہ تو ہم بھی سمجھتے ہیں
ہر اک محفل میں منہ لٹکا ہوا اچھا نہیں لگتا
٭٭٭

امجد اسلام امجد

یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے
جو زخم تو نے دیے ہیں بھرا نہیں کرتے
ہزار جال لیے گھومتی پھرے دنیا
ترے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے
یہ آئنوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں
کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے
وفا کی آنچ سخن کا تپاک دو ان کو
دلوں کے چاک رفو سے سلا نہیں کرتے
جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں
سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے
ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی
مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے
جو ہم پہ گزری ہے جاناں وہ تم پہ بھی گزرے
جو دل بھی چاہے تو ایسی دعا نہیں کرتے
ہر اک دعا کے مقدر میں کب حضوری ہے
تمام غنچے تو امجدؔ کھلا نہیں کرتے
٭٭٭

شکیل بدایونی

میرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میں ہوں دردِ عشق سے جاں بہ لب مجھے زندگی کی دعا نہ دے
میرے داغ دل سے ہے روشنی اسی روشنی سے ہے زندگی
مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر یہ چراغ تو ہی بجھا نہ دے
مجھے چھوڑ دے مرے حال پر ترا کیا بھروسہ ہے چارہ گر
یہ تری نوازشِ مختصر مرا درد اور بڑھا نہ دے
میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتشِ گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے
وہ اٹھے ہیں لے کے خم و سبو ارے او شکیلؔ کہاں ہے تو
ترا جام لینے کو بزم میں کوئی اور ہاتھ بڑھا نہ دے
٭٭٭

لالہ مادھو رام جوہر

حال دل یار کو محفل میں سنائیں کیوں کر
مدعی کان ادھر اور ادھر رکھتے ہیں
٭٭٭

الطاف حسین حالی

بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
٭٭٭

باصر سلطان کاظمی

گلا بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی
وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ
٭٭٭

امیر مینائی

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
٭٭٭

جون ایلیا

کہیں باہر سے نہیں گھر سے اٹھا ہے فتنہ
شہر میں اپنے ہی دفتر سے اٹھا ہے فتنہ

حصہ