اردو کے سب سے بڑے نثرنگار سید مودودیؒ کا اسلوب

692

(آخری قسط)
اردو کے نثری اسلوب کی تعمیر و ترقی میں ان صاحب طرز ادیبوں نے جو ادبی روایت قائم کی اس کے پس منظر میں مولانا مودودیؒ کے قلم نے ضَوفشانیاں کیں۔ کسی ادیب کی طرز نگارش پر ماقبل اور ہم عصر اسلوبیاتی رجحانات کا براہ راست اثر دیکھا جاسکتا ہے۔ مولانا مودودیؒ ایک ذہین و فطین شخصیت تھے اور صحافی و انشاپرداز ہونے کی حیثیت سے انہیں اردو ادب میں نثری میلانات کا گہرا شعور تھا۔ انہوں نے اپنے معاصرین کی طرزِ نگارش کو بھی پیشِ نظر رکھا اور نثر اردو کے اسلوبی پس منظر سے بھی شعوری یا غیرشعوری طور پر استفادہ کیا۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بنیادی طور پر ایک صاحب طرز ادیب تھے اور ان کا ایک منفرد اسلوب تھا جو مختلف تصنیفات میں بہ تقاضائے ضرورت مختلف انداز میں اجاگر ہوتا رہا۔ ان کے اسلوب کی گہری چھاپ ان کی تمام تحریروں میں نظر آتی ہے بالخصوص اپنی اہم تصنیفات الجہاد فی الاسلام، تفہیم القرآن، دینیات، خطبات، سیرت سرورِ عالمؐ، سود اور مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمش وغیرہ میں انہوں نے اپنے منفرد اسلوب کی ضیا پاشی کی ہے۔ ان کے مکاتیب ان پر مستزاد ہیں، جو اپنی سادگی و شگفتگی اور ظرافت کے اعتبار سے بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں چونکہ سید مودودیؒ کی شخصیت مختلف حیثیتوں کی حامل اور مرتب شخصیت تھی، اس لیے ہر تحریر ان کے مزاج و میلانات کا آئینہ نظر آتی ہے۔ ایک صاحب طرز ادیب کی کامیابی کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ وہ تحریر کی ابتدا ہی سے قاری کے ذہن و دل کو اپنی گرفت میں لے لے۔ مولانا مودودیؒ کے طرز نگارش کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اپنی تحریر کی ابتدا ہی میں قاری کو ندرت استدلال اور لذتِ تاثیر سے اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں اور جس طرف چاہتے ہیں، لے جاتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں افسانویت یا ڈرامائیت نہیں ہوتی بلکہ وہ سنجیدہ شعور کی حامل ہوتی ہیں۔ ذیل کے دو اقتباسات ملاحظہ ہوں، جو اپنی کشش اور دل چسپ اندازِ بیان کی وجہ سے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ ان اقتباسات میں ان کا مخصوص طرزِ تحریر واضح ہوگیا ہے۔
مضامین کے سلسلے میں ’’تفہیمات‘‘ اردو نثر نگاری میں بڑا کارنامہ ہیں۔ یہ ہمیں سرسید کے تہذیب الاخلاق کے ٹھوس مضامین کی یاد دلاتے ہیں ان کا نام ہی ان کے فن اور طرز کا پورا پورا اشارہ ہے ان میں ’’فہم‘‘ کی کارفرمائی ہر ہر قدم پر نظر آتی ہے۔
’’جدید تہذیب جن عظیم الشان گمراہیوں کا سیلاب نوع انسانی پر امڈا لائی ہے اس کے فکری اور نظری سرچشموں میں سے ایک بڑا سرچشمہ وہ فلسفہ تاریخ ہے جس کو ہیگل نے پیش کیا اور جس کے مقدمات پر بعد میں کارل مارکس نے اپنی مادی تعبیر تاریخ کی بنا رکھی ہے‘‘۔
اس جملہ میں سیلاب کی تشبیہ اور پھر سرچشمہ کا استعارہ کچھ رنگ پیدا کردیتا ہے مگر ہمارا خیال اس رنگ کی طرف نہیں جاتا بلکہ ہماری عقل یہ سمجھ لیتی ہے کہ جس نظریہ کی یہاں وضاحت ہوگی وہ کتنا اہم ہوگیا ہے یہ جملہ خود کوئی وضاحت نہیں کرتا بلکہ وضاحت کے لیے ہمیں تیار کرتا ہے۔
’’خطبات‘‘ کی نثر میں کچھ ایسی خصوصیات نمایاں ہوگئی ہیں جو مضامین اور کتابوں کی نثر میں اہم نہیں ہیں۔ مولانا کے طرز میں شترگربگی نام کو نہیں ہے وہ اس قسم کے طراز ہیں جو اپنی سطح سے گرنا جانتے ہی نہیں۔ سب خطبات کی نثر کا معیار ایک ہے مگر پھر بھی مثال کے لیے چھوٹے خطبات بڑے خطبات سے بہتر ٹھہرتے ہیں ان میں توضیح کے لیے تمثیل کا استعمال بڑے دلکش طریقہ پر ملتا ہے۔
’’آپ کے پاس اگر کوئی خط کسی ایسی زبان میں آتا ہے جسے آپ نہ جانتے ہوں تو آپ دوڑے ہوئے جاتے ہیں کہ اس زبان کے جاننے والے سے اس کا مطلب پوچھیں، جب تک آپ اس کا مطلب نہیں جان لیتے آپ کو چین نہیں آتا۔ یہ معمولی کاروبار کے خطوط کے ساتھ آپ کا برتائو ہے جن میں زیادہ سے زیادہ چار پیسوں کا فائدہ ہو جاتا ہے مگر خداوندِ عالم کا جو خط آپ کے پاس آیا ہوا ہے اور جس میں آپ کے لیے دین و دنیا کے تمام فائدے ہیں، اسے آپ اپنے پاس یونہی رکھ چھوڑتے ہیں، اس کا مطلب سمجھنے کے لیے کوئی بے چینی آپ میں پیدا نہیں ہوتی، کیا یہ حیرت اور تعجب کا مقام نہیں؟ (خطبات: ص۔ ۳۴۔۳۵)
’’یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اتری ہے۔ ہوا کے رخ پر اڑنے والے خس و خاشاک اور پانی کے بہاؤ پر بہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگے جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ یہ شریعت ان بہادر شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہوں۔ جو دریا کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہاؤ کو پھیردینے کی ہمت رکھتے ہوں جو صبغۃ اﷲ کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں‘ مسلمان جس کا نام ہے وہ دریا کے بہاؤ پر بہنے کے لیے پیدا نہیں ہوا ہے اس کی آفرنیش کا مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریاکو اس راستے پر رواں کردے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہ راست اور صراط مستقیم ہے۔‘‘(تنقیحات۔ کیش مرداں نہ کہ مذہب گو سفنداں ص ۳۰۷)۔
’’یہ محمد عربی ﷺکی امت کا ملک ہے۔ یہ مارکس اور مائوزے تنگ کی امت کا ملک نہیں ہے۔ اگر اﷲ کے دین کے لیے ہمیں لڑنا پڑا تو ہم خدا کے فضل سے دس محاذوں پر بھی لڑنے سے نہیں چوکیں گے۔ ہم بیک وقت آمریت کا بھی مقابلہ کریں گے اور بے دینی سے بھی لڑیں گے جب تک ہم زندہ ہیں اور ہمارے سر ہماری گردنوں پر قائم ہیں اس وقت تک کسی کی ہمت نہیں کہ وہ یہاں اسلام کے سوا کوئی اور نظام لاسکے۔‘‘ (۲۹؍دسمبر ۱۹۶۸ء لاہور‘ کارکنوں اور طلبہ سے خطاب) ۔
سید مودودیؒ کے افکار، تحریک اور اسلوب سے متاثر ادیب، شاعر اور صحافی
مولانا مودودیؒ کی فکر اور تحریک نے پڑھے لکھے نوجوانوں، صحافیوں، ادیبوں، شاعروں ماہرین تعلیم، اور بیسویں صدی کے دیگر اہل قلم کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ ان کے اسلوب نے اہل قلم کا ایک حلقہ ادب اسلامی کے نام سے قائم کیا۔ مردِ اہلِ قلم میں ملک نصر اللہ خاں عزیز، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا ابوالحسن ندوی، مولانا یوسف اصلاحی، اسعد گیلانی، نعیم صدیقی، ماہر القادری، حفیظ جالندھری، شاعر لکھنوی، شورش کاشمیری اور کوثر نیازی نے ابتدائی دور میں اس حلقے کو پروان چڑھایا بعد میں ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر امیر حسن صدیقی، ڈاکٹر ضیا امجد بدایونی، ڈاکٹر غلام جیلانی برق، ڈاکٹر احسن فاروقی، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر ابوللیث صدیقی، ڈاکٹر سید محمد یوسف، ڈاکٹر خالد علوی، نسیم حجازی، آباد شاہ پوری، مظفر وارثی، عاصی کرنالی، عبدالکریم عابد، صحافی صلاح الدین، حافظ لدھیانوی، لالہ صحرائی، جیلانی بی۔ اے، طفیل ہوشیارپوری، عبدالعزیز خالد، فرخ احمد، حفیظ تائب، الطاف حسین قریشی، خرم مراد، پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر انیس احمد، سید ابوالخیر کشفی، رفیع الدین ہاشمی، عبدالغنی فاروق، مجیب شامی، سلیم منصور خالد، عبدالغفار حسن، ہارون رشید، عبدالقادر حسن، پروفیسر عنایت علی خاں، اعجاز رحمانی، انوار عزمی، اقبال حیدر، حافظ محمد ادریس، شاہنواز فاروقی، اطہر ہاشمی، مظفر اعجاز، ثروت جمال اصمعی، یحییٰ بن ذکریا، جلیس سلاسل، سعود ساحر اور دیگر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین ادیبوں اور شاعرات کا ایک حلقہ الگ سے پروان چڑھا جس میں محترمہ حمیدہ بیگم، امّ زبیر، بنت الاسلام، محترمہ مجتبیٰ مینا اور دیگر خواتین قلم کار شامل ہیں۔
نعیم صدیقی صاحب اس بارے میں فرماتے ہیں کہ
’’اللہ کے فضل و کرم سے آج اس ملک میں بیسیوں شاعر اور سینکڑوں نثرنگار ایسے موجود ہیں جو ادبی دائرے میں اسلامی قدروں کو اجاگر کرنے کے جذبے کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ اسلامی مزاج کا جو بھی ادب اس سرزمین سے ابھرے گا اس کا کریڈٹ سارے کا سارا علامہ اقبال اور مولانا مودودیؒ کو جائے گا۔

حروف آخر

مودودیؒ صاحب کی نثر ان تمام خصویات کا مجموعہ ہے جنہیں اردو نثر کا بنیادی اسلوب کہا جاسکتا ہے اور جس کا مختصر مگر جامع بیان پروفیسر رشید احمد صدیقی نے اس طرح کیا ہے۔
’’اچھی نثر کی خصوصیات یہ ہیں کہ اس کا دروبست منطقیانہ ہو اور براہ راست و بے کم و کاست سوچنے اور اظہار مطالب کا وسیلہ ہو۔ جو کچھ بیان کیا گیا ہو وہ کانٹے پر نپا تلا ہو۔ جتنے اور جو الفاظ آئے ہوں وہی اور اتنے ہی معنی ہوں نہ کم نہ بیش۔ ٹھنڈے دل سے سارے نشیب و فراز پر نظر رکھ کر لکھی گئی ہوں، ذاتی ردعمل سے پاک ہو، جامد نہ ہو متحرک و بے ساختہ ہو۔ نثر میں اسالیب کے تنوع پر نظم میں الفاظ سے جذبات کو ابھارنے کا کام لیا جاتا ہے۔ نثر میں اس کا مقصد مطالب کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے۔ نثر میں جذبات کی گنجائش سطح کے نیچے ہوسکتی ہے لیکن اس کو فکرِ سلیم کی گرفت سے باہر نہ ہونے دینا چاہیے۔ نیز یہ کہ زبان کو مقصد کا پابند ہونا چاہیے، اس میں شک نہیں کہ زبان کے تقاضے بھی بجائے خود کچھ کم نہیں ہوتے لیکن وہ اسی لیے ہیں کہ زبان مطالب کے اظہار و ابلاغ کا موثر آلہ بن سکے۔ (پروفیسر رشید احمد صدیقی ’’اردو نثر کا بنیادی اسلوب‘‘، تنقیدی مقالات، مرتبہ مرزا ادیب، لاہور اکیڈیمی، لاہور ۱۹۶۵ء صفحہ ۹۰)

حصہ