علم و عمل کی کہانی

165

آسیہ بنت ِ عبداللہ صدیقی نے ابتدا سے ہی اپنے نام کے ساتھ والد کا نام رکھا، ہمیں اب یہ معلومات آرہی ہیں کہ خواتین اپنے نام کے ساتھ والد کا نام ہی رکھیں تو مسنون ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آسیہ ابتدا ہی سے درست معلومات سے آگاہ رہیں۔ میرے ہاتھ میں ان کا ناولٹ ’’گم نام سپاہی‘‘ ہے۔ منفرد انداز اور زبان کی چاشنی ان کا وتیرہ ہے۔ میں یہ پڑھ رہی تھی تو ان کا مسکراتا چہرہ میرے سامنے تھا۔ ہم اکثر دین کی بات کرتے ہیں تو انہی پرانے طریقوں اور اصولوں کو برتتے ہیں۔ انہوں نے کراٹے اور تیراکی جیسی مہارت کو دین کی خدمت کے لیے چُنا۔ پھر ذہن آپؐ کی تیراکی کی صفت، کشتی، ورزشیں اور صحت اور عادتوں کو دین کے حساب سے ڈھالنا یاد آیا۔
اب یوں لگتا ہے کہ ان چیزوں کو سیکھ کر ہم اپنے اللہ کو مختلف طریقوں سے بھی راضی کر سکتے ہیں۔ ورنہ کُشتی کو ایک کھیل، اور تیراکی اور گھڑ سواری کو ایک تفریح سے زیادہ مقام نہ ملا۔ انہوں نے بچوں کو دل چسپ انداز سے آگاہ کیا، ورنہ اس کے دوررس نتائج کو محسوس کرنا ہر کسی کی بس کی بات نہیں ہے، اور ساتھ ہی ہر کام اوقاتِ نماز کے لحاظ سے مرتب کرنا، محبتوں کے ساتھ بچوں کو جماعت کا عادی بنانا، حمنہ(پوتی) کو اپنے ساتھ نماز میں شریک کرنا… یہ ظہر کے بعد کریں گے اور یہ عشاء سے پہلے… ورنہ ہمارے ہاں ہر پروگرام میں 4 بجے، 5 بجے استعمال ہوتا ہے۔ کوئی خیال نہیں کہ نماز درمیان میں آئے گی یا بعد میں۔
بچوں کے ہنسی مذاق تہذیب کے دائرے میں ہیں۔ بھونڈے مذاق، بدلہ لینے، بے عزتی کرنے کا تصور نہیں۔ اور بچوں کو ان چیزوں کا خوگر بنانا، ان کے اندر اچھائی کو اتار دینا آسان نہیں ہے۔ آسیہ نے ایک عمدہ پلاٹ منتخب کیا ہے۔
والدین کو درمیان سے ہٹا دینا بھی ایک مجبوری ہے، ورنہ بچے کلیتاً دادی کے ہاتھ نہیں لگتے۔ سوچ سوچ کر دادی، دادا نے بچوں کے لیے بہترین منصوبہ تیار کیا، مثلاً تیراندازی اور رائفل کی مشق کرانا یہ سب گھر سے باہر نکلنے کے کام ہیں، جسمانی مشقت اور ذہنی بالیدگی کے لیے اکسیر کا حکم رکھتے ہیں۔ فی زمانہ ان باتوں کا عادی بنانا ناقابلِ بیان تصور ہے۔ اس دور میں ایک گیم خرید کر کرسی پر بیٹھو، دو تین ماہ اس سے دل بہلائو، اس کے بعد نیا کھیل شروع ہوجائے گا، اور کرسی سے اٹھے بغیر بچے اس سے بھی دل بہلا لیتے ہیں۔
گیم میں نشان زدہ لوگوں کو مارتے جائو، عمارت تباہ کرتے اور پل گراتے جائو، اسکور بڑھاتے جائو کرسی سے اٹھے بغیر۔
بچوں کو ایسی تربیت اور محبت دینا جس سے نہ صرف وہ استفادہ کریں بلکہ دوسروں کے بھی کام آئیں، یہ نئے نئے خیال تجربہ کار ذہنوں میں ہی آتے ہیں۔ دادی کی تربیت ایک طرف بچوں کو درگزر کرنے اور دوسری طرف بڑوں کی عزت اور لوگوں کے کام آنے کے گر سکھاتی ہے۔
جیب کترے لڑکے کو درست بات بتائی، درگزر سے کام لیا اور اس کی رہنمائی کرکے اسے نیکیوں کا راہی بنا دیا۔ یہ صبر اور برداشت بچوں کے اندر اتارنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ پھر اپنے گھر میں تیراکی کا تالاب بنانا دوسرے بچوں کو یہ فن سکھانے کے لیے۔ اگر سوچ مثبت ہو تو راہیں کھلتی جاتی ہیں۔

حصہ