پروفیسر احمد علی

1395

سجاد ظہیر، محمود الظفر اور ڈاکٹر عبدالعلیم ترقی پسند تحریک کو روس کی کمیونسٹ پارٹی کے مینی فیسٹو پر چلانے لگے، یہی ان سے میرا اختلاف تھا

پروفیسر احمد علی کا نام اردو ادب میں ترقی پسند ادب کی داغ بیل ڈالنے میں بنیادی اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ ترقی پسند افسانوں کی اوّلین کتاب ’’انگارے‘‘ (مطبوعہ: 1930ء) جس نے ہندوستان کے تعلیم یافتہ سماج میں ایک بھونچال پیدا کیا اور جس کی وجہ سے اردو ادب میں زندگی کو دیکھنے اور سوچنے سمجھنے کا ایک نیاز زاویۂ نظر ملا‘ جس نے اردو ادیبوں کو آگے چل کر ’’ادب برائے ادب‘‘ اور ’’ادب برائے زندگی‘‘ کے دو مکاتب فکر میں تقسیم کر دیا‘ اس تاریخی اہمیت کی حامل کتاب کے مرتب پروفیسر احمد علی تھے۔ یوں تو اس کتاب میں احمد علی کے علاوہ سجاد ظہیر‘ رشید جہاں اور محمود الظفر کے افسانے بھی شامل تھے لیکن مذہبی اور اخلاقی ضابطوں کے حوالے اعتراضات اور تنقید کی سب سے زیادہ بوچھاڑ احمد علی اور سجاد ظہیر کے افسانوں ہی پر ہوئی جن میں بے باکی اور بے حجابی تھی۔ فنی اعتبار سے یہ افسانے کسی طرح بہت بلند معیار کے حامل نہ تھے لیکن ان میں جرأت اور ندرت تھی جس نے چونکانے سے زیادہ جھنجھوڑنے کاکام کیا۔ ’’انگارے‘‘ کے خلاف ردعمل اتنا شدید تھا کہ حکومت نے قانون کی آڑ لے کر اس کتاب کو ضبط کر لیا۔ کتاب کی ضبطی گویا آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف تھی۔ یہ نئے ادیب خم ٹھونک کرمیدان میں آگئے ۔ چوں کہ کتاب کے نسخے بک اسٹالوں سے اٹھا کر نذر آتش کیے گئی تھے‘ مذکورہ افسانہ نگاروں کے سماجی مقاطعے کے اعلان کے علاوہ انہیں قتل کرنے کی دھمکیاں تک دی گئی تھیں لہٰذا مقابلے اور مبارزت آرائی کا بازار تو گرم ہونا ہی تھا۔ چناں چہ احمد علی اور سجاد ظہیر نے اشاعتِ کتاب کے دو سال بعد انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے لیے ابتدائی لائحہ عمل مرتب کیا۔ احمد علی کے مطابق سجاد ظہیر لندن میں تھے جب ان کے مشورے سے 1933ء میں محمود الظفر اور رشید جہاں نے انجمن پسند مصنفین کے قیام کا اعلان کیا۔ اس اعلان میں کہا گیا تھا ’’ہم ان تمام اہم مسائل پر آزادی ٔ رائے اور تنقیدی حق چاہتے ہیں جو نسل انسانی کو بالعموم اور برصغیر کے لوگوں کو بالخصوص درپیش ہیں۔‘‘ رفتہ رفتہ ترقی پسند تحریک برصغیر کی سب سے بڑی ادبی تحریک بن گئی۔ اس زمانے کا شاید ہی کوئی ادیب و شاعر ایسا ہو جو اس تحریک سے متاثر نہ ہوا ہو۔ لیکن پھر جب انجمن ترقی پسند مصنفین نے اپنے پلیٹ فارم سے اس تحریک کا رشتہ نظریاتی ہم آہنگی کی وجہ سے کمیونسٹ روس سے جوڑا تو دوسرے ادیبوں کے ساتھ خود احمد علی نے بھی اس تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی۔
احمد علی کی اہمیت بہ حیثیت افسانہ نگار بھی اپنے معاصرین میں اس اعتبار سے زیادہ ہے کہ انہوں نے مرزا حامد علی بیگ کے الفاظ میں ’’افسانے کو ابتدائی سالوں میںہی سریلسٹ انداز سے متعارف کروایا (مثلاً ’’موت سے پہلے‘‘) اور آزاد تلازمۂ خیال میں لارنس اور جوائس کی تدبیر کاری کے تحت اپنا اوّلین افسانہ ’’مہاوٹوں کی رات‘‘ (مطبوعہ ہمایوں 1933ء) تخلیق کیا اور بعد میں اسی تدبیر کاری کے تحت ’’ہماری گلی‘‘ لکھ کر آزاد تلازمۂ خیال کی تکنیک کا معیار قائم کر دیا۔‘‘ افسانوں کے بعد احمد علی نے انگریزی ناول نگاری کی طرف توجہ کی۔ ان کا پہلا ناول ’’دلی کی شام‘‘ لندن‘ بمبئی‘ نیویارک اور دہلی سے بیک وقت شائع ہوا۔ اردو میں اس کا ترجمہ ان کی اہلیہ بلقیس جہاں کے نام سے چھپا۔ ان کے دیگر دو ناول ’’اوشن آف نائٹ‘‘ اور (آف ریٹس اینڈ ڈپلومیٹس‘‘ ہیں۔ ان کے افسانوں کے ترجمہ متعدد گیر ملکی زبانوں میں بھی ہو چکے ہیں۔ انگریزی میں ان کی شاعری کے دو مجموعے بھی لندن اور کراچی سے شائع ہوئے ہیں۔ پروفیسر احمد علی نے قرآن حکیم کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔
زیر نظر کتاب میں ان کے دو انٹرویو شامل ہیں۔ پہلا انٹرویو میں نے جولائی 1981ء میں کیا تھا اور سبب یہ تھا کہ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے اپنے انٹرویو میں ’’انگارے‘‘ اور ترقی پسند تحریک کی بابت کچھ ایسی باتیں کہی تھیں جن کی وضاحت بہتر طور پر پروفیسر احمد علی ہی کرسکتے تھے۔ دوسرا انٹرویو اگست 1984ء میں کیا گیا جس کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ پہلے انٹرویو میں احمد علی اپنی ذات اور ادبی کدمات کی بابت بہت سے پہلو تشنۂ اظہار رہ گئے تھے۔
آج جب ان انٹرویو کی اشاعت کو بھی ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے‘ مجھے وہ ملاقاتیں‘ فارن سوسائٹی کی پرسکون سڑک کے کنارے قدرے اونچائی پر درختوں کے جھنڈ میں چھپا پروفیسر احمد علی کا آرٹسٹک طریقے سے سجا سجایا مکان اور پورچ میں کھڑی گرد آلود کار اور وہاں کے ماحول پر چھائی خاموشی کی دُھند اچھی طرح یاد ہیں۔ اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جب میں ان سے انٹرویو کے لیے ان کے گھر کی طرف روانہ ہوا تھا تو ذہن میں ان سے زمانۂ طالب علمی کی ملاقات کا واقعہ بھی تازہ تھا۔ ان دنوں پروفیسر احمد علی شعبہ انگریزی میں وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے تشریف لایا کرتے تھے۔ میرے سینئر دوست اور شاعر محمود کنور کی خواہش تھی کہ وہ اپنا شعری مجموعہ ’’والکینو‘‘ ان کی خدمت میں پیش کریں۔ پروفیسر صاحب نے نہایت اشتیاق سے مجموعہ لیا۔ عنوان پر چونکے۔ فرمایا ’’والکینو؟ بھلا یہ کیا نام ہوا؟‘‘ پھر انہوں نے ورق گردانی شروع کی‘ ایک نظم پر رُکے‘ با آواز بلند نظم کی پہلی لائن پڑھی:۔
’’بجھ گئے دور دور پیڑ‘‘
اور پھر کچھ ناراض سے لہجے میں فرمایا:۔
’’میاں دل بجھتا ہے‘ کیا پیڑ بھی بجھتے ہیں۔‘‘ محمود کنور صاحب اپنے زمانے یعنی نئے زمانے کے پروفیسر احمد علی تھے‘ سخت کبیدہ خاطر ہوئے۔ پروفیسر صاحب کو کتاب پیش کرنے کی سرخوشی پل بھر میں زائل ہوگئی۔ میں سوچتا ہوں وقت ہر نئے کو پرانا کر دیتا ہے۔ جو اپنے عہد میں جدید فکر اور جدید حسیت کی پہچان ہوتا ہے‘ ایک وقت آتا ہے جب آنے والی نسل اس فکر کو حسیت کو روایتی اور قدامات پسند کہہ کر مسترد کر دیتی ہے۔ یہی چلن‘ یہی طریقہ جو زندگی میں ہے‘ یہی ادب‘ آرٹ اور فنون لطیفہ کی جملہ شاخوں میں ہے۔ پروفیسر احمد علی اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ 14 جنوری 1994ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے لیکن ادب کی تاریخ میں انہوں نے جو نقوش ثبت کیے‘ وہ باقی ہیں اور جب تک اردو زبان و ادب کی زندگی ہے‘ وہ باقی ہی رہیں گے۔
پروفیسر احمد علی نے یکم جولائی 1910ء کو دہلی میں آنکھ کھولی۔ والد سید شجاع الدین سرکاری ملازم تھے۔ احمد علی نے علی گڑھ اور لکھنؤ کی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ امتیازی نمبروں سے بی اے آنرز اور ایمِ اے انگریزی کیا اور وظائف کے مستحق ٹھہرے۔ 1931ء میں درس و تدریس سے وابستہ ہوئے۔ آگرہ کالج اور الٰہ آباد یونیورسٹی میں بہ حیثیت لیکچرار تدریسی فرائض ادا کیے۔ پریذیڈنسی کالج کلکتہ میں شعبہ ٔ انگریزی کے سربراہ بھی رہے۔ نئی دہلی میں بی بی سی لندن کے نمائندے اور پھر ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا۔ پاکستان آکر انہوں نے سفارت کار کے طور پر مختلف ملکوں میںاپنے ملک کی نمائندگی بھی کی۔
…٭…
طاہر مسعود: ہم نے گزشتہ دنوں مشہور افسانہ نگار ممتاز ماہر تعلیم اختر حسین رائے پوری سے انٹرویو کیا تھا۔ ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو کے علاوہ ترقی پسند تحریک کی پہلی کتاب ’’انگارے‘‘ کے موضوع پر بھی بات چیت ہوئی تھی۔ اختر حسین صاحب کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود کہ ’’انگارے‘‘ نے برصغیر میں آزاد رجحان سے لکھنے کے رواج کو جنم دیا لیکن درحقیقت اس کتاب کی کوئی فنی اور ادبی حیثیت نہیں ہے بلکہ اسے اس وقت کی حکومت نے ضبط ہی اس لیے کیا تھا کہ یہ فحشیات اور جنسیات کا پلندہ تھی۔ ’’انگارے‘‘ میں آپ کے افسانے بھی شامل تھے‘ لہٰذا اس بارے میں آپ کچھ کہنا چاہیں گے؟
پروفیسر احمد علی: ’’انگارے‘‘ بہت اہم کتاب ہے۔ یہ لینڈ مارک ہے اور ایک طرح سے ہماری تہذیب‘ تمدن اور فکر و ادب میں ایک سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں شامل افسانوں نے برصغیر میں 1932ء سے پہلے کی زندگی اور اس کے بعد زندگی میںآنے والی تبدیلیوںکی نشان دہی کی تھی۔ رہا ادبی حیثیت کا مسئلہ؟ اس جملے کے معنی کیا ہیں؟ میں اس کے معنی نہیں جانتا۔ البتہ اس کے بارے میں میری تحریری رائے یہ ہے کہ ’’انگارے‘‘ اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک ایسی کتاب ہے جو زندگی پر دلیرانہ نگاہ سے غور کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر لڑکپن کا شائبہ لیے ہوئے ہے یعنی ’’انگارے‘‘ میں Maturity کی کمی ہے اور یہ کمی بھی جذبات کی شدت کی وجہ سے ہے۔ رہا مسئلہ اسٹائل کا‘ تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اور کون سے ایسے افسانے ہیں جن میں اتنا اثر ہو جتنا ’’انگارے‘‘ میں تھا۔ یوں کہنے کو تو لوگ شیکسپیئر کے لکھے کو بھی بکواس کہتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ ادب کو پرکھنے کا آپ کے پاس کیا معیار ہے؟ کیا گلابی اردو‘ ادب ہے اور ’’انگارے‘‘ ادب نہیں ہے۔ عبدالماجد دریاآبادی اور علامہ نیاز فتح پوری نے غالب کو غیر شاعر قرار دے دیا تو کیا غالب کا نام شاعری سے خارج ہو گیا۔ (ناراض لہجے میں) بہت خوب ’’انگارے‘‘ ادب نہیں ہے اور ’’لیلیٰ کے خطوط‘‘ ادب ہے۔ (ٹھہر کر) آپ کو پتا ہوگا ن م راشد ہمارے دشمنوں میں تھا۔ لیکن اس نے بھی لکھا کہ ’’انگارے کے بعد کوئی ادیب ایسا پیدا نہیں ہوا جس میں ’’انگارے‘‘ کا اثر نمایاں نہ ہو۔ تاریخ ہر چیز کی شاہد ہے۔وہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دیتی ہے۔
طاہر مسعود: کیا یہ بات درست نہیں ہے کہ آپ نے ’’انگارے‘‘ میں شامل اپنے افسانوں پر بعد میں معذرت چھپوائی تھی اور کہا تھا کہ یہ افسانے آپ نے ورجینیا وولف اور دیگر یورپی افسانہ نگاروں سے متاثر ہو کر لکھے تھے اور اب آپ انہیں اون نہیں کرتے؟
پروفیسر احمد علی: میں نے آج تک جو کچھ لکھا ہے اس پر کبھی معذرت نہیں کی۔
طاہر مسعود: اختر حسین صاحب کے خیال میں ترقی پسند تحریک ان کے ایک مضمون ’’ادب اور زندگی‘‘ سے شروع ہوئی جب کہ کہا جاتا ہے کہ اس تحریک کا محرک ’’انگارے‘‘ بنا۔ فریق ثانی کی حیثیت سے آپ کا مؤقف کیا ہے؟
پروفیسر احمد علی: اختر حسین صاحب کچھ بھی کہتے ہیں لیکن آپ مجھے یہ بتایئے کہ اگر میں کہوں یہ دنیا احمد علی نے بنائی ہے تو کیا آپ مان لیں گے؟ اب اصل حقیقت سنیے۔ 5 اپریل 1934ء کو ایک اخبار ’’لیڈر‘‘ میں احمد علی اور محمود الظفر کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں ہم نے بہ بانگ دہل کہا تھا کہ ہم لوگوں کے کہنے سننے سے نہیں ڈرتے اور جو جی میں آئے گا لکھیں گے۔ سچ یہی ہے کہ ترقی پسند تحریک ’’انگارے‘‘ سے شروع ہوگئی تھی۔
طاہر مسعود: یہ بتایئے کہ جس تحریک کے بانیوں میں آپ کا شمار تھا‘ اس سے آپ کو علیحدہ کیوں کر دیا گیا؟
پروفیسر احمد علی: یہ 1937ء کا واقعہ ہے‘ ترقی پسند تحریک پر سجاد ظہیر اور محمودالظفر وغیرہ حاوی ہو گئے تھے۔ ان میں ڈاکٹر عبدالعلیم بھی شامل تھے۔ ان لوگوں نے ترقی پسند تحریک کو روس کی کمیونسٹ پارٹی کے مینی فیسٹو پر چلانا شروع کر دیا تھا۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر انہوں نے اعلان کیا کہ ترقی پسند تحریریں ہمیشہ مزدور اور کسان کی زندگیوں کے بارے میں ہوتی ہیں‘ لہٰذا مزدور اور کسان کے مسائل اور موضوع سے ہٹ کر جو کچھ بھی لکھا جائے گا اسے ترقی پسند قرار نہیں دیا جائے گا۔ میں نی اس اعلان پر شدت سے احتجاج کیا۔ میرا مؤقف یہ تھا کہ زندگی کے ہر پہلو میں ترقی پسندی موجود ہے۔ خیر یہ تنازع سال بھر چلتا رہا۔ ہمارے درمیان تصفیہ کرانے کے لیے لندن سے ملک راج آنند کو بھیجا گیا لیکن تصفیہ نہ ہوسکا اور تحریک سے بالکل الگ ہو گیا اور تبھی سے میں نے اردو چھوڑ کر انگریزی زبان میں لکھنا شروع کردیا۔
(جاری ہے)

حصہ