سوشل میڈیا کتب بینی کو نقصان پہنچا رہا ہے،عظمی جون

396

بلوچستان کے ایک قصبہ نما شہر سبی میں اس وقت سینئر ترین شاعر عظمی جون ہیں جن کا پیدائشی نام محمد عظیم عظمی ہے‘ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’’خزاں کی رُت سنہری‘‘ مارچ 2000ء میں شائع ہوا جس کا آٹھواں ایڈیشن جنوری 2017ء میں منظر عام پر آیا۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ اگست 2006ء میں منصۂ شہود پر آیا جس کا نام نے ’’ستارے میرے آنسو ہیں۔‘‘ عظمی جون ایک تعلیم یافتہ‘ مہذب انسان ہیں۔ درس و تدریس سے وابستہ ہیں ان کی شاعری میں غم زدگی اور الم ناکی نمایاں ہے لیکن وہ اپنے گردوپیش کی زندگی اور معاشرتی مسائل پر بھی قلم اٹھاتے ہیں۔ ان کی نظمیں جدید حسیت اور موضوعات کی رنگا رنگی سے آراستہ ہیں جب کہ ان کا بہاریہ کلام تغزل کے اعلیٰ معیار کا حامل ہے۔ عظمی جون کراچی میں بھی مشاعرے پڑھتے ہیں گزشتہ ہفتے راقم الحروف نثار احمد نے ان سے جسارت میگزین کے لیے ایک مکالمہ کیا جس کی تفصیل قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔
…٭…
جسارت میگزین: اپنے حالاتِ زندگی کی کچھ تفصیل بتایئے گا۔
عظمیٰ جون: میں 1982 سے شاعری کر رہا ہوں۔ میرے والد بھارت سے ترکِ سکونت کرکے 1948ء میں پاکستان آئے۔ میرے والد کا تعلق دہلی سے جب کہ والدہ راجستھان کے شہر جے پور سے ہیں۔ میرے خاندان کے بیشتر افراد نے درس و تدریس میں نام کمایا۔ میری پیدائش سبی کی ہے۔ کالج کے زمانے میں محسوس ہوا کہ میں اپنی کیفیات کا اظہار شعر میں کر سکتا ہوں‘ چنانچہ کالج اور یونیورسٹیز میں اپنے اشعار سنائے۔ کراچی میں رہائش پذیر معروف شاعر جاوید صبا‘ کوئٹہ یونیورسٹی میں میرے ہم جماعت اور ہاسٹل فیلو رہے ہیں۔ جب جاوید صبا عازم کراچی ہوئے تو میں سرکاری وظیفے پر ایم فل کرنے جامعہ کراچی کے شعبہ حیوانات کے ایڈوانس اسٹڈیز میں داخل ہوا‘ پی ایچ ڈی کے لیے لاہور یونیورسٹی میں رجسٹرڈ ہوا‘ لیکن حکومت بلوچستان کی پالیسی کی وجہ سے بلوچستان میں اپنی ملازمت جوائن کی اور ترقی کی منازل طے کرتا ہوا پروفیسر کے عہدے تک پہنچا۔ ایجوکیشن میں اپنی عمر کے پچاس برس گزارنے کے بعد گریڈ 20 حاصل کیا‘ ریٹائرمنٹ کی عمر پوری ہونے سے دس سال قبل محکمہ تعلیم سے ریٹائرمنٹ حاصل کی اور اب شاعری ہی میرا فل ٹائم جاب ہے۔
جسارت میگزین: آپ نے کن لوگوں سے مشاورتِ سخن کی؟
عظمی جون: میں نے محسن بھوپالی سے ان کی زندگی کے آخری دو برسوں میں اصلاح لی اب ان جیسے اساتذۂ فن بہت کم ہوتے جارہے ہیں ان کی مشاورت سے میری شاعری میں نکھار پیدا ہوا‘ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
جسارت میگزین: شاعری میں علمِ عروض کی کیا اہمیت ہے؟
عظمی جون: عروض اس علم کا نام ہے جس کے تحت ہم اشعار کے اوزان جانچتے ہیں۔ اس علم کی ابتداء خلیل بن احمد نے مکہ (سعودی عرب) میں کی تھی۔ ایک طویل عرصے تک علم عروض میں پندرہ بحریں تھیں تاہم اب 19 بحریں موجود ہیں جب کہ فارسی زبان میں ان کے علاوہ بھی 9 بحریں رائج الوقت ہیں۔ بہت سے اساتذہ اپنی قابلیت دکھانے کے لیے زحاف کم یا زیادہ کرکے نئے اوزان بنا لیتے ہیں اور ان میں اشعار کہتے ہیں۔ علم عروض کی افادیت اور اہمیت سے انکار ممکن نہیں اس علم کا سیکھنا ضروری ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے شعرا علم عروض تو نہیں جانتے لیکن ان کے مصرعے بحر میں ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ گنگنا کر مصرعوں کو ٹھیک کر لیتے ہیں جہاں ردھم ٹوٹا ہے وہ سمجھ لیتے ہیں کہ کچھ گڑبڑ ہو گئی ہے۔ شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے جس کا اظہار علم عروض پر دسترس حاصل کیے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے۔ جینوئن شعرا پر ’’آمد‘‘ ہوتی ہے ان کے اوزان ایک بحر میں ہوتے ہیں۔
جسارت میگزین: فی زمانہ اردو ادب میں تنقیدی معیار کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
عظمیٰ جون: تنقید نگاری ایک فن ہے اور کسی بھی فن کی ترقی اور بہتری کے لیے تنقید نگار مددگار و معاون ہوتا ہے۔ تنقید برائے اصلاح کی ضرورت ہر زمانے میں رہی ہے‘ ہمارے ایسے بہت سے شعرا اب ہم میں نہیں رہے جو کہ نقد و نظر میں کمال رکھتے تھے‘ پہلے زمانے میں بہت کھلے الفاظ میں تنقید ہوتی تھی جس کی وجہ سے بھی شاعری کا معیار بہتر ہوتا تھا لیکن شعرا میں گروہ بندیاں موجود ہیں اس طرح کے واقعات تاریخ میں موجود ہیں کہ ہر بڑا شاعر اپنے ہم نوائوں اور شاگردوں کے ساتھ مشاعرہ گاہ میں جاتا تھا‘ مشاعرے میں ہجویہ نظمیں یا غزلیں پڑھی جاتی تھیں اس مقابلے کی فضا سے بھی شاعر میں حسن بڑھتا ہے اب یہ صورت حال ہے کہ تنقید کے بجائے لوگ صرف تعریف کرتے شاعر کی خرابیوں پر بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ ناراضی نہ ہو جائے جس کی پی آر زیادہ مضبوط ہوتی ہے وہ اپنی کتاب میں اپنی مرضی کے تبصرے لکھوا لیتا ہے کتابوں کی تقریبِ اجرا میں بھی صرف تعریف کی جاتی ہے اس طریقۂ کار میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
جسارت میگزین: زبان و ادب کی ترقی کے لیے حکومتی اداروں کے لیے آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
عظمی جون: ادب کی ترویج میں اشاعتی و نشریاتی اداروں کا بڑا عمل دخل رہا ہے‘ اعلیٰ ادبی رسائل و جرائد اور ہفتہ وار ادبی ایڈیشن نظم و نثر کو بلا تعطل ادبی تخلیقات پھیلانے کا ذریعہ تھے اور آج بھی ہیں جہاں تک نشریاتی اداروں کی بات ہے تو پرویز مشرف کے دور سے پہلے ریڈیو اور سرکاری ٹیلی ویژن ہی ہوتا تھا جس کے ملازمین ادب کے حوالے سے بڑے حرف و سخن شناس اور ذمہ دار ہوتے جو بہت چھان پھٹک کر قلم کاروں کی تخلیقات پیش کرتے تھے یہاں تک کہ ٹی وی اور ریڈیو پر خبریں پڑھنے والوں کے تلفظ بھی ٹھیک ہوتے تھے‘ ان کے شین قاف بھی صحیح ہوتے تھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بے شمار ٹی وی چینل کام کر رہے ہیں سوشل میڈیا نے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر سبقت حاصل کر لی ہے بہ طور خاص الفاظ کی املا اور حروف کی ادائی کا کوئی لحاظ نہیں ہورہا بلکہ اردو زبان کا بیڑہ غرق کرنے میں یہ سارے ادارے ذمہ دار ہیں۔ زبان و ادب کی ترقی کی قائم کردہ سرکاری اداروں پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں‘ ہمیں اپنی خرابیوں کو دور کرنا ہوگا ورنہ ہماری زبان و ادب کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔
جسارت میگزین: نثری نظم کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
عظمیٰ جون: ادب انسانی زندگی کا لازمی جز ہے۔ زندگی ادب سے ہٹ کر چنگیزیت رہ جاتی ہے۔ برصغیر ہندوپاک میں ترقی پسند تحریک نے غزل کے کینوس کو وسیع کیا اور نظم نگاری پر بہت زور دیا جس کے نتیجے میں اردو میں قابل فخر نظم کے شعرا سامنے آئے لیکن نثری نظم ابھی تک اردو ادب میں اپنا مقام نہیں بنا پائی۔ نثری نظم دراصل غزل اور نظم معریٰ سے بغاوت کا نام ہے۔ غزل اور پابند نظم ردیف‘ قافیہ‘ بحور اور اراکین کی پابند ہیں جب کہ نثری نظم ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نثری نظم نگاروں کی اکثریت ان کی ہے جو شعر و سخن کے مروجہ پیمانوں کو نہیں مانتے۔ نثری نظم کا کوئی رول ماڈل نہیں ہے بہ قول ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کہ نثری نظم اپنے ن۔ م۔ راشد کی تلاش میں ہے۔ قمیر جمیل نے اچھے مضامین پر مشتمل نثری نظمیں کہیں لیکن مستقبل میں نثری نظم کا دور نظر نہیں آرہا۔
جسارت میگزین: آپ کے نزدیک کتب بینی سے دوری کے کیا اسباب ہیں؟
عظمی جون: کتب بینی سے دوری کے اسباب کا تعین کرنے کے لیے بے شمار عوامل کو زیر بحث لانا ہوگا۔ شعری مجموعوں سے قارئین کی دوری کی وجوہات میں موادِ شاعری کا غیر معیاری ہونا۔ لایعنی موضوعات‘ بے تکی اور بے بحر شاعری پر مشتمل شاعری کی کتابیں کون پڑھے گا۔ مہنگے کاغذ اور طباعت کے اخراجات کے سبب کتابیں مہنگی ہو رہی ہیں اور عام قاری کی قوتِ خرید سے باہر ہیں اس کے علاوہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا نے کتب بینی کی ادارے کو نقصان پہنچایا ہے۔
جسارت میگزین: کیا شعرا کو مشاعرے میں اعزازیہ ملنا چاہیے اس سلسلے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
عظمی جون: سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں شعرا کو اعزازیہ ضرور ملنا چاہیے۔ پک اینڈ ڈراپ کا بندوبست بھی ہونا چاہیے کیوں کہ اکثر مشاعرے رات گئے ختم ہوتے ہیں اس وقت سواری کا ملنا بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ بہت سی ادبی تنظیمیں صاحبِ ثروت افراد پر مشتمل ہیں انہیں بھی چاہیے کہ وہ شعرا کو اعزازیہ دیں لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ شعرا کی اکثریت مسائل کا شکار ہے۔
جسارت میگزین: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ادب کے فروغ میں مشاعروں کا بھی حصہ ہے؟
عظمی جون: مشاعرے بھی ادب کو فروغ دینے کے لیے ممدومعان ثابت ہوتے ہیں۔ مشاعرہ پڑھنے سے تخلیق کار کو اپنی تخلیق کا اندازہ ہوتا ہے اور وہ اپنے اشعار میں تبدیلی بھی کرتا ہے۔ مشاعروں سے شاعری آگے بڑھ رہی ہے۔ ہر زمانے میں مشاعروں کا رواج رہا ہے۔ تقسیمِ ہند سے پہلے مختلف ریاستوں کے دربار میں مشاعرے ہوتے تھے‘ شعرا کی مالی امداد بھی کی جاتی تھی اور بہت سے شعرا کے ماہانہ وظیفے بھی مقرر تھے پاکستان بننے کے بعد ریاستوں کا وجود ختم ہو گیا ہے اب حکومتی سطح پر مشاعرے ہو رہے ہیں لیکن ان مشاعروں میں من پسند افراد کا عمل دخل زیادہ ہے کراچی شہر میں روزانہ کئی کئی مقامات پر مشاعرے ہو رہے ہیں جس کے سبب وہاں کا ادبی منظر نامہ بہت بھرپور ہے۔ کورونا کے پھیلائو کے دوران لاک ڈائون کی وجہ سے آن لائن مشاعرے بھی ادب کا حصہ ہیں لیکن ایک زمانے میں سنجیدہ اور زندگی سے بھرپور اشعار پر داد و تحسین دی جاتی تھی اب مشاعروں میں عامیانہ اشعار پر بھی شاعروں کی خوب پذیرائی ہو رہی ہے جن مشاعروں میں سامعین کا جمِ غفیر ہوتا ہے وہاں کے منتظمین زیادہ تر ایسے شعرا کو بلاتے ہیں جو اپنی ہلکی پھلکی عامیانہ شاعری سے سامعین کے لیے تفریح طبع کا سامان پیدا کر سکیں اس طرح معیاری شاعری بہت کم سامنے آرہی ہے۔

عظمی جون

تمہیں چاہا ہے شدت سے مگر تم سے نہ کہہ پائے
بسے ہو دل میں مدت سے مگر تم سے نہ کہہ پائے
تمہاری آنکھ نے چہرے پر جو لکھا ہوا دیکھا
وہی کہنا تھا فرصت سے مگر تم سے نہ کہہ پائے
یہ دل دیتے ہو ہم کو تمہیں تاکید کرنا تھی
اسے رکھنا حفاظت سے مگر تم سے نہ کہہ پائے
نصیحت یہ بھی کرنی تھی کہ ہم برباد حالوں کو
نہ دیکھو یوں حقارت سے مگر تم سے نہ کہہ پائے
عبث رسوا کیا تم نے کہ ہم اہلِ تمنا کو
نہیں کچھ کام شہرت سے مگر تم سے نہ کہہ پائے

٭
اسماء صدیقہ

کسی گماں پہ ترا انتظار کرتے رہے
یہی تھا بس میں یہی بار بار کرتے رہے
ہمیشہ وعدہء فردا سے تھے جو بہلاتے
ان ہی پہ جانِ جہاں دل نثار کرتے رہے
یہ بےوفائی کا شکوہ انھیں روا کیوں کر
وفا شناس اداؤں سے پیار کرتے رہے
وفا کی راہ تھی پر پیچ بے ثمر تو نہ تھی
ہر اک ستم کو کرم میں شمار کرتے رہے
عجیب طرز تکلم تھا ان کے ہونٹوں پر
کہانہ کچھ بھی مگر بے قرار کرتے رہے

حصہ