ترکی: جو میں نے دیکھا

قسط نمبر 5

۔”پروٹوکول“ تو بنتاہے

چند قدم آگے بڑھ کر امیگریشن کائونٹر پر پہنچے تو پاسپورٹ وغیرہ چیک کرکے، مہر لگا کر دو نوجوانوں نے پاسپورٹ دینے کے بجائے ایک طرف ہوجانے کا اشارہ کیا۔ میں گھبرا گیا کہ اللہ خیر! اب کیا ہوا؟ شاید ایک ’’استاد‘‘ کا ترکی جانا بھی قابلِ گرفت نہ ٹھیرے کہ اتنے اثاثے آئے کہاں سے کہ بیرونِ ملک جا سکو! یا پھر ’’استاد‘‘ کا کیا استحقاق کہ معاشرے میں اسے عزت دی جا سکے! جہاں نوٹوں کی خوشبو، ہر روز بڑھتے اور بڑھتے چلے جاتے دولت کے انبار اور اکائونٹس میں پڑی رقوم کے ہندسے ساری حدیں پار کرتے جاتے ہوں، وہاں ایک ’’معلم‘‘ ایک ’’استاد‘‘ کی آخر کیا حیثیت! جسے داعیِ الی الوی آئی پی لائونج نے مسترد کردیا ہو اور کسی حد تک ٹھکرا دیا ہو اُسے کوئی اور کیسے گوارا کر سکتا تھا! چلیے یہ تو ’’نوحہ‘‘ ہے قوم کی بے حسی، تعلیم کی بے توقیری اور اہلِ علم (جن میں، مَیں شامل نہیں) کی بے توقیری کا۔ اور اس کا نتیجہ سوائے اپنے دل کو جلانے کے کچھ اور نہیں۔ انہی وسوسوں، اندیشوں، واہموں میں، مَیں اور اہلیہ ایک جانب کھڑے ہوکر سمٹ گئے کہ ان دو نوجوانوں میں سے ایک آگے بڑھا، عقیدت سے سلام کیا، احترام سے سر جھکایا۔ کسی خاندانی باپ اور ماں کا بیٹا تھا جنہوں نے اس کی بہت اعلیٰ تربیت کی تھی۔ کہنے لگا ”سر میں نے آپ کو دیکھتے ہی پہچان لیا تھا، آپ ہمارے پرنسپل رہے ہیں، اور میں نے آپ ہی کے کالج سے دو سال تک تعلیم حاصل کی ہے“۔ اُس نوجوان نے جس کا نام عبدالرحیم تھا، بہت اچھا کیا کہ قانون اور ضابطے کی ہر کارروائی مکمل کرنے کے بعد ہی اپنی محبت کا اظہار اور تعلقِ روحانی کا اعلان کیا۔ دوستو! کیا خیال ہے اس پر فخر کرتے ہوئے استاد کی کی آنکھوں میں آنسو نہیں تیرنے چاہئیں! ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘.

شاگرد کا استاد کو پروٹوکول

عبدالرحیم ہمیں باصرار مکمل پروٹوکول کے ساتھ اپنے باس کے دفتر لے گیا۔ ہمارے بے حد منع کرنے کے باوجود چائے، کافی اور بسکٹوں کی بھرمار کردی۔ ہم نے کہا بھی کہ یار ہمارے گروپ کے لوگ ہمارے منتظر ہیں اور ہمیں نہ پاکر پریشان ہوں گے۔ اس نے ایک نہ سنی اور اپنی ’’شاگردی‘‘ کے سامنے ہماری ’’استادی‘‘ کو ہرا کر ہی چھوڑا۔ اس ہار میں بھی ایک عجیب لذت، سرور اور طمانیت تھی۔ روح ایسے سرشار ہوئی کہ بڑے بڑے دولت مند چھوٹے لگنے لگے۔ یہ اعزاز و اکرام میرا ہرگز نہیں تھا، ایک استاد کا تھا جس کے بارے میں سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا ’’انا عبد من علمنی حرفاً واجداً“۔ جو ہستی خود علم کے شہر کا دروازہ ہو وہ اپنے استاد کے سامنے اس طرح بچھی چلی جائے کہ خود کو اس کا غلام قرار دے ڈالے، خواہ اس استاد سے اس نے ایک حرف ہی کی تعلیم پائی ہو۔ جناب امام ابوحنیفہؒ کا ایک بھنگی سے کتّے کی عمر جاننے کے نتیجے میں ہزاروں علما و فضلا و شاگردوں کے مجمع میں کھڑے ہوہوکر تعظیم کرنا استاد کی عظمت کو سلام کرکے عظمت و وقار اور شان و شوکت حاصل کرنے والے افراد و اقوام کے روّیوں اور کامرانیوں کا موجب سمجھنے کی دلیل ہے۔
سنا ہے ایک بار ابنِ انشا جاپان گئے تو یونیورسٹی کے کاریڈور میں اپنے ساتھیوں سے باتیں کرنے میں محو ہوگئے، وہاں آتے جاتے طلبہ و طالبات جب ان کے قریب پہنچتے تو کود کر یعنی جمپ لگا کر کچھ فاصلہ طے کرتے۔ جب ابن انشا نے بار بار یہ مظاہرہ دیکھا تو اپنے میزبانوں سے متعجبانہ استفسار کیا کہ یہ کیا اور کیوں ایسے کررہے ہیں؟ انہوں نے بتایا گیاکہ یہ استاد کے سائے کو جو زمین پر پڑرہا ہے، روندنا نہیں چاہتے، اور اس گستاخی و بے ادبی سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں استاد کو سرِعام روند ڈالا جائے، وائس چانسلر کو ہتھکڑیاں لگادی جائیں، سرِعام بے عزت کردیا جائے، بے محابا قتل کردیا جائے، اس کی تذلیل و بے توقیری کا ہر سامان کیا جائے، وہاں ایسی حکیمانہ باتیں اور مہذب و باوقار قوموں کے نظام تعلیم و تربیت اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کی مثالیں بے معنی اور مردانِ ناداں پہ کلامِ نرم و نازک کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ہمیں لگا کہ اس گئے گزرے ماحول، معاشرے، دم توڑتی اقدار و اخلاقی روایات کے ”پاکستان“ بلکہ ’’نئے پاکستان‘‘ میں عبدالرحیم جیسے طالب علموں کی تربیت میں شاید استاد کے علمی فیض اور مکتب کی کرامت کے بجائے حلال کمانے اور پاکیزہ سوچ کو پروان چڑھانے والے اعلیٰ اخلاق و کردار کے مالک ماں باپ کی پاکیزہ تربیت اور لقمۂ حلال کے گہرے اثرات تھے جو عبدالرحیم جیسے نوجوانوں اور طالب علموں کی پاکیزہ سیرت و کردار اور اکرامِ استاد کے روّیوں میں ڈھل کر امید کے دِیوں کو اب بھی روشن کرنے کا باعث بن گئے۔ عبدالرحیم سے فوراً دوستی ہو گئی۔ ائرپورٹ پر بیٹھے بیٹھے فیس بک فرینڈ شپ قائم ہو گئی اور استاد و شاگرد کے تعلق نے ایک اور روپ دھار لیا۔
عجیب بات یہ ہوئی کہ عبدالرحیم نے ہمیں یاد رکھا۔ جب ہم ترکی سے واپس پلٹے تو امیگریشن کی قطار میں کھڑا ایک اور انجان نوجوان آگے بڑھا، ایک چھوٹی سی چٹ پر لکھا ہوا نام آہستہ آہستہ پکارتے میرے قریب آیا اور کہا کہ مجھے عبدالرحیم نے بھیجا ہے، وہ خود ڈیوٹی پر ہے، فلائٹ کے اوقات میں امیگریشن کی ڈیوٹی پر مامور ہے، میں آپ کی خدمت کروں گا۔ عبدالرحیم کا بھیجا ہوا نوجوان بڑے احترام سے ہمارا سامان ائرپورٹ سے باہر گاڑی تک لایا۔ میری اہلیہ نے بروقت فیصلہ کرکے دستی سامان میں موجود استنبول ائرپورٹ سے خریدی گئی سوئٹس اور چاکلیٹس میں سے کچھ اس کے اور کچھ عبدالرحیم کے لیے تحفتاً دے دیں۔ یہ ان کی خدمت کا معاوضہ تھا نہ اس پروٹوکول کا بدلہ جو اُس نے استاد کو دیا۔ یہ احترام، یہ چائے، کافی اور چند بسکٹ اور اُس کا ہماری واپسی کے شیڈول کو یاد رکھنا اور ہماری واپسی کی تصدیق کرکے یقین کے ساتھ ویلکم کرنا اس کا گرویدہ بنا گیا۔ یقیناً اس کی یہ محبت، یہ اکرام اس ’’خریدے‘‘ گئے پروٹوکول سے بدرجہا قیمتی، نایاب اور بھاری اثاثہ تھا جو دولت کے مظاہرے اور اے ٹی ایم یا کریڈٹ کارڈز سے ظاہر کیا جاتا، اور دولت کے وزن سے انسان کی قدر و قیمت کا تعین اور اس کی مرتبت کو تولا جاتا ہے۔
……………….
لاہور کے انٹرنیشنل ائرپورٹ پر ہم نے فلائٹ کا وقت ہونے کا انتظار کیا۔ ترکی کے دل کش آمدہ سفر کے تانے بانے بُنے اور خواب و خیال کی حسین وادیاں سجائیں۔ نمازِ فجر ادا کی اور ’’فلائٹ روانگی کے لیے تیار ہے‘‘ کے خوش کن اعلان کو سننے کے لیے مکبرالصوت یعنی لائوڈ اسپیکر کی جانب کان لگا دیے۔
ہم میاں بیوی کو اکیلا بیٹھا دیکھ کر مختلف اسٹالز کے ہرکارے چائے، کافی، سینڈوچ وغیرہ کی پیشکش لیے یکے بعد دیگرے آتے رہے۔ یہ بھی پروٹوکول کا حصہ تھا۔ مگر کاروباری… جذباتی نہیں۔ اُن احساسات و تاثرات سے خالی جو عبدالرحیم اور اس کے ساتھیوں کے اپنے ’’استاد‘‘ کے لیے تھے۔ یہ پروٹوکول ملنا تھا پاکستانی روپیے کو، جو چند منٹوں کے بعد ہمارے لیے کاغذ کے پرزے بننے والے تھے۔ دولت یقیناً بوجھ ہی ہے خواہ کسی بھی صورت میں ہو، کسی بھی ملک کی کرنسی میں ہو۔ لوگ خود بھی اس کے اثر اور بوجھ تلے دبتے جاتے ہیں اور اس کی نمائش کی صوت میں اس کے بَل پر اپنی حیثیت و شخصیت کو بلند بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اور پھر اس کے درست یا غلط استعمال، اسراف و تبزیر، نمود و نمائش کا بوجھ اپنے سر، اور اس کی قباحتوں کے طوق اپنی گردنوں میں پہن لیتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم اس کے بوجھ، لالچ، حرص، طمع اور غیر ضروری خواہشات سے آزاد ہیں۔ سیدنا علیؓ سے ہی منسوب ایک شعر کا مفہوم ہے کہ ’’ہم اللہ کی اس تقسیم پر راضی ہیں کہ ہمارے لیے علم، اور جاہلوں کے لیے مال و دولت کے انبار ہیں۔‘‘

احساسِ تفاخر

بالعموم ترکش ائرلائن کا جہاز استنبول سے پاکستانی سیاحوں کو لے کر وسط شب کے بعد صبح سے پہلے لاہور ائرپورٹ پر پہنچتا ہے، اور ایک ڈیڑھ گھنٹے کے ”قیام و آرام“ اور ”ترو تازگی“ کے بعد مسافروں کو لے کر صبح سورج طلوع ہونے سے قبل پاکستان کی فضائوں میں بلند ہوکر سنہری کرنوں کو خود آگے بڑھ کر خوش آمدید کہتا ہے۔ آنے والے جہاز کے مسافر کنکٹنگ برج یعنی لائونج اور ائر کرافٹ جہاز کو باہم مربوط کرنے والی راہ داری سے گزرتے ہوئے شیشے کی حدِّ فاصل کے پار لائونج میں بیٹھے روانگی کے منتظر مسافروں کو دیکھتے ہوئے پردیس کی کلفت اور سفر کی تھکاوٹ کے باوجود بڑے احساسِ تفاخر سے دیکھتے ہیں کہ ہم بھی ’’ارطغرل‘‘ کے دیس کو دیکھ آئے ہیں اور خوب صورت ترکی کی دل کش فضائوں اور ہوائوں میں سے اپنا حصہ سمیٹ آئے ہیں… تو شیشے کے اِس پار لائونج میں بیٹھے مسافر اور عازمینِ ترکی بھی ایسے ہی احساسِ تفاخر، ترستی آنکھوں اور مشتاق دلوں سے حکمِ سفر کا صور پھونکے جانے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں پانچ گھنٹے سفر سے لوٹنے والا ترکش ائر لائن کا جہاز بھی نظر آجاتا ہے جو زبانِ ہال سے مسافرانِ شوق کو کہہ رہا ہوتا ہے ’’کارِ جہاز دراز ہے، اب میرا انتظار کر‘‘۔ جہاز سے مسافروں کے سامان کی ترسیل، صفائی ستھرائی اور ترتیبِ نو اور دوبارہ سفر کے لیے تیاری کے مراحل کچھ وقت ضرور لیتے ہوں گے۔

حکم ِ سفر

لیجیے انتظارِ شوق ختم ہوا۔ تفاخر کی ایک اور لہر نے مسافرانِ ترکی کے ’’چال چلن‘‘ میں تحرک اور انقلاب برپا کر دیا۔ جہاز نے اپنے دروازے وا کر دیے۔ مسافرانِ شوق کے باغ و بہشتِ پاکستان سے نکل کر بین الاقوامی خطۂ اَرضی میں داخل ہو جانے اور پھر ’’اُڑن چھو‘‘ ہونے کے لیے تیار ہونے کا ’’حکم‘‘ یعنی اعلان ہو گیا کہ ترکی کا جہاز اور ترکی کی حسینائیں ہم پاکستانیوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہیں۔
رات کے تھکے ماندے یا علی الصبح ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں نے بڑی بے زاری سے بورڈنگ پاس دیکھ کر پاکستان سے نکل جانے کا اشارہ کیا اور ہم نئے احساسِ تفاخر سے سرشار جہاز کی جانب تیز تیز قدموں کے ساتھ اس طرح روانہ ہوئے کہ اپنے سے اگلوں کی چال بھی دیکھتے رہے اور پچھلے ہماری چال ملاحظہ کرتے رہے۔ ’’پیچھے پیچھے آندا میری چال ویکھدا آئیں وے سبز پاسپورٹ والیا‘‘۔ جہاز کے دروازے پر سینی ٹائزر، ماسک اور ٹشو پر مشتمل خوب صورت پیک وصول کرکے ہم ’’دوسری دنیا‘‘ میں داخل ہو گئے۔
(جاری ہے)