میں اب جامعہ نہیں جاؤں گا

185

سیلف فنانس کے نام پر تعلیمی تجارت کی کوکھ سے جنم لینے والی المناک داستان

میں پڑھنا چاہتا ہوں۔ میں معاشرے میں جدوجہد کرنا چاہتا ہوں۔ میں معاشرے میں کامیاب لوگوں کے درمیان رہ کر مقابلہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔ میں روزانہ اپنے والدین کی لاچاری نہیں دیکھ سکتا۔ روزانہ میں اپنے والدین کے خوابوں کو ٹوٹتے بکھرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا۔ اب تو ٹی وی پر بھی دکھایا جاتا ہے کہ ’’پڑھو گے تو آگے بڑھو گے‘‘۔
مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ میں اپنی تعلیم کیسے جاری رکھوں۔ بوڑھے ماں باپ ان کی لاچاری، بیماری، بھوک، چھوٹے بہن بھائیوں کی خواہشات کے ساتھ کیسے آگے بڑھوں۔ پھر بے رحم معاشرے کے تھپیڑے ناؤ کو اپنی منزل سے دور لے جاتے ہیں۔ میرا حق ہے کہ تعلیم حاصل کروں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے اپنے آپ کو سنواروں۔ اپنے سے وابستہ رشتوں کو سنوار سکوں۔ ماں باپ کے خوابوں کی تعبیر بنوں۔ ملک و قوم کا ستارہ بنوں۔ اقبال کا وہ نوجوان بننا چاہتا ہوں کہ جنہیں نظر آتی ہے منزل آسمانوں میں۔
میں آسمانوں میں کمند ڈالنا چاہتا ہوں تاکہ اقبال ؒ کو مجھ سے بھی محبت ہو۔ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق قبر تک علم حاصل کرنا چاہتا ہوں، ماں کی آغوش سے ہی مجھے یہ بیداری ملی ہے کہ میں اس اندھیرے کو چیر کر آگے بڑھوں۔ خدارا مجھے یہ حق دیجئے۔ میں آج تمام باشعور دنیا سے یہ حق مانگنا چاہتا ہوں۔
میرا کیا قصور ہے کہ میں ایک غریب کا بیٹا ہوں جس معاشرے میں پیٹ کی آگ بجھانا مشکل ہو جائے وہاں اعلی تعلیم کا حصول کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے۔ محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاکر انٹر تو پاس کیا جاسکتاہے لیکن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہے۔ اس ملک میں اعلی تعلیم کا حصول اس قدر مہنگا بنا دیا گیا ہے کہ ہم جیسے لاکھوں اے ون اور اے گریڈ حاصل کرنے والے طلبہ تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ پھر کیوں کر اس ملک میں تبدیلی آسکے گی۔مدینہ جیسی ریاست کا قیام کیوں کر عمل میں لایا جاسکے گا۔ اس ملک و قوم میں ہر ادارے میں پروفیشنلزم رواج پا چکا ہے لہٰذا تعلیم بھی برائے فروخت ہے۔ بڑے بڑے مہنگے اداروں سے ہائی سوسائٹی کے لوگ اعلیٰ اور انگلش میڈیم میں تعلیم حاصل کر کے آگے لائن میں لگ جاتے ہیں اور ہم جیسے اسکالرشپ کے چکر میں رہتے ہیں۔
جھوٹ کی بنیادپر اسکالرشپ بھی انہی زمیندار اور اعلیٰ سوسائٹی کے لڑکوں کو مل جاتی ہے جو اس کے اہل نہیں ہوتے اور غریب پھر پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ٹیسٹ پاس کر لینے کے بعد اصل مرحلہ تو بھاری فیسوں کا ہے۔ روزانہ جامعہ کا رخ کر کے کسی چمتکار اور اسپانسرز کی تلاش میں سرگرداں فیس نہ ہونے کا بوجھ لے کر پوائنٹ سے واپس گھر آجاتا ہوں۔ یہ بہت صبر آزما حقیقت ہے کہ اب میں جامعہ نہیں جائوں گا۔ میرے اور جامعہ کے راستے الگ ہیں ہم جیسے غریب لڑکے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔
میں معاشرے سے یا جامعہ سے بھیک نہیں مانگتا۔ آپ اپنا معیار دیجئے کہ امیر اور غریب ہر طرح کا بچہ یکساں نمبر لاکر ایک بینچ پر بیٹھ سکے۔ دولت کی بیساکھی کے بغیر ہم جیسے لاکھوں طلبہ اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں اور فریج، ٹائر اور سبزی کا ٹھیلہ لگا کر اپنے خوابوں کو دفن کر کے اپنی ایک علیحدہ دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ اے خدا میری آواز سن اور یکساں تعلیمی نظام اور فیسوں اور کتابوں کے حصول میں آسانیاں پیدا کر تاکہ ہم جیسے جھونپڑپٹی سے گدڑیوں کے لال پیدا ہوں اور ہمارے معاشرے میں غربت میں کمی آئے اور لوگ اپنے خواب کو پورا ہوتا دیکھیں۔ ماں باپ اپنے بچوں سے جو امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں انہیں پورا ہوتا دیکھیں اور مشکل زندگی کے بعد چند روز آرام کے گزار سکیں نہ کے اولڈ ایج ہاؤس میں۔

حصہ