جو ہوں ارادے پختہ

258

’’کام کے لیے اپنا آپ مارنا پڑا۔‘‘ کراچی کی حفصہ نسیم ٹھیرے ہوئے لہجے میں گفتگو کررہی تھیں۔ ذرا سا خیال اُن کو کہاں سے کہاں پہنچا دے گا، انہوں نے گمان بھی نہ کیا تھا، اور آج وہ بطور کامیاب آن لائن ورکنگ وومن اپنا مقام رکھتی ہیں۔
حفصہ نسیم careeher کے نام سے ادارہ چلا رہی ہیں، اس کی اہم بات یہ ہے کہ یہ ادارہ خاص طور پر خواتین کی رہنمائی کے لیے قائم کیا گیا ہے، جہاں فری لانسنگ کے آن لائن ذرائع اور طریقۂ کار پر مکمل آگہی دی جاتی ہے۔ متعدد خواتین اس ادارے سے نہ صرف مستفید ہوئیں بلکہ گھر بیٹھے فری لانس جاب بھی کررہی ہیں۔ کام کی تفصیل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ادارے کا قیام خاص طور پر خواتین کے لیے کیا گیا، جس کا مقصد ان کو گھر بیٹھے کمانے کے ذرائع مہیا کرنا اور رہنمائی دینا ہے، جس کے ذریعے وہ ملکی و غیر ملکی ویب سائٹس پر رسائی حاصل کرکے قسمت آزمائی کرسکتی ہیں۔ یہ ادارہ کاروباری خواتین کے لیے بھی سودمند ہے، آن لائن کاروبار وسیع کرنے میں معاون اور مددگار ہوتا ہے۔
زندگی بھی بڑی عجیب شے ہے، عمومی طور پر ادا کیے گئے الفاظ بھی ایسی راہیں کھول دیتے ہیں جس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ حفصہ نسیم نے بھی زندگی کا تجربہ شیئر کیا۔ ان کی شادی چوں کہ کم عمری میں ہی ہوگئی تھی، پڑھائی بھی جاری رکھی، اکنامکس پڑھنے میں دقت تھی، اسی کے پیش نظر ان کے استاد نے اکنامکس تبدیل کرکے سہل اور کم وقت طلب مضمون چننے کی تجویز دی۔ استاد کا کہنا حفصہ نے مانا اور اکنامکس سے لگائو کے باوجود اسے خیرباد کہنے میں وقت نہ لگایا۔ قسمت مہربان رہی، انہیں یکے بعد دیگرے کئی پراجیکٹ کرنے کا موقع ملا، لوگوں نے سراہا تو سلسلہ بنتا چلا گیا۔
’’منفرد کام کے بارے میں کیسے خیال آیا؟‘‘ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پراجیکٹ کے دوران خواتین کے مسائل کا ادراک ہوا۔ اندازہ ہوا کہ خواتین کے لیے ملازمت کی غرض سے گھر سے قدم نکالنا نہایت مشکل معاملہ ہے، اس لیے میں چاہتی تھی کہ خواتین کو شعور دیا جائے اور بتایا جائے کہ آج کے دور میں کمانا آسان ہے، ٹیکنالوجی نہ صرف کمانے کا موجب بن سکتی ہے بلکہ کیریئر بنانے میں بھی کارگر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ گھر بیٹھے کام کر سکتی ہیں گھریلو اور ازدواجی زندگی کی مصروفیات کے باوجود، تو دیگر خواتین کیوں نہیں؟ یہی سوچ اس سفر کی ابتدا کی وجہ بنی، اور آج اس سفر کو ایک دہائی گزر چکی ہے۔ فخر کی چمک ان کے وجود کو اعتماد دے رہی تھی۔careeher اب تک ہزاروں خواتین کی رہنمائی کرچکا ہے، بلکہ مختلف اداروں میں بھی انہیں بطور ٹرینر مدعو کیا جاتا ہے۔
جس طرح گاڑی کے لیے پیٹرول لازمی ہے، اسی طرح کسی بھی شخص کے لیے حوصلہ افزائی ازحد ضروری ہے۔ ان کے نزدیک خواتین کو مردوں کی نسبت زیادہ مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ مشکل ترین امر ہمارے معاشرے کا خواتین کو بحیثیت کیریئر وومن قبول کرنا ہے۔ لوگ حوصلہ افزائی کے بجائے ہنسی میں ٹال دیتے ہیں۔ ’’یہ صرف شوقیہ ہورہا ہے؟‘‘ یا ’’اس سے نہیں ہوگا‘‘ وغیرہ جیسے کلمات ان کا بھی مقدر بنے۔ لیکن یہ جنون ہی تھا کہ راستے میں حائل پتھر خودبخود ہٹتے چلے گئے۔ حفصہ کے لیے مشکل ترین مرحلہ لوگوں کو کام کے متعلق سمجھانا اور قائل کرنا تھا۔ لیکن اگر لگن سچی ہو تو مسائل سے نکلنے کی راہیں مل جاتی ہیں۔ مسائل سے نمٹنے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ گھریلو زندگی کے ساتھ کام کے باعث اکثر رت جگے کرنے پڑے، صحت بھی متاثر ہوئی، کبھی گھر نظرانداز ہوتا محسوس ہوا۔ بہرکیف وہ مسائل سے نمٹنے میں کامیاب ہوئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر خواتین کو درست رہنمائی اور مواقع حاصل ہوں تو نہ صرف ان کی صلاحیتیں نکھر سکتی ہیں بلکہ وہ آگے بڑھنے کی اہل بھی ہیں۔ ان کا پُراعتماد لہجہ اس بات کا عکاس تھا کہ پختہ ارادے ہی مضبوط منزل کی ضمانت ہوا کرتے ہیں۔

حصہ