صبح اُميد

242

کشمیرکی فضائوں میں فجرکی اذان کی آوازگونجی تو احمد صاحب اپنی بیگم اور بیٹی کو اٹھاتے ہوئےوضوکرنےچل دیے۔داداپہلےہی وضو کرکے تخت پر بیٹھ چکے تھے۔ضعیفی کے پیش نظر وہ سردیوں میں گھر پہ ہی نماز ادا کرلیا کرتے تھے۔گھر سے باہر نکلتے ہوئے انہوں نے بیگم سے کہا ’’آج ذرادیر سے آئوںگا۔تم ناشتہ تیار رکھناساتھ ہی کریں گے۔‘‘وضوکرتی ثمینہ بیگم نے اثبات میں سر ہلادیا۔لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ لوگ ناشتے پر احمد صاحب کا انتظار ہی کرتے رہ جائیں گے۔
نماز سے فارغ ہو کر باہر نکلتے ہوئے احمد صاحب نے امجد صاحب سے کہا ’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مسجد کا کام بارش سے پہلے ہی کروا لینا چاہیے ورنہ چھت ٹپکنے كکا خدشہ ہے۔‘‘ ابھی وہ كچھ اورکہتے كہ پیچھے سے ایک بھارتی فوجی نے احمد صاحب كے سر پر كلاشنکوف كا دستہ مارا اور غرایا’’ہماری کئ دنوں سے تم پر نظر ہے۔ہمارے خلاف دہشت گردی کی سازش تیار کرو گے؟۔‘‘امجد صاحب احمد صاحب کو اٹھانے آگے بڑھے ساتھ ہی بولے’’آپ كو غلط فہمی ہوئی ہے ہم تو۔۔۔۔‘‘ بھارتی فوجی نے ان كو ٹھوکر مار کر پیچھے کیا اور دھاڑا ’’ڈالو اسے جیپ میں اور لے جاؤ۔ اس كو سزا ملنی چاہیے تاکہ کوئی آئندہ ایسا سوچ بھی نہ سکے۔‘‘ باقی سب روکتے رہ گئے مگر وہاں سننے والا كوئی نہ تھا۔اور اس دن کے بعد سے احمد صاحب کو کسی نے نہیں دیکھا ۔
آج احمد صاحب کو گئے پورا ۱سال بیت چکا تھا۔سمیر کو صبح سے شدید بخار تھا کرفیو کی وجہ سے دوا لانا مشکل تھا۔نسرین نے فکرمندی اس کو دیکھتے ہوئے ڈائری نکالی اور پنسل گھسیٹنے لگی۔ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ اپنے بابا كو خط لکھ رہی تھی۔
“پیارے باباجان!۔
السلام علیکم!۔
آج آپ کو گھر سے گئے پورا ایک سال ہوچکا ہے ۔اس کے ہمیں آپ کا انتظار ہے ہم ہرصبح اسی امید پر بیدار ہوتے ہیں کہ آج آپ آن ملیں گےاور ہر رات اسی امید پہ سوتے ہیں کہ صبح آپ آجائیں گے۔سمیر کو شام میں اچانک تیز بخار چڑھا اور تیز ہوتا جارہا ہے۔کرفیو کی وجہ سے دوائی لانا مشکل ہے۔اگر آپ ہوتے تو دوائی کا انتظام کرلیتے۔ہمیں آپ کی بےحد ضرورت ہے بابا ۔کل امجد چچا نے پھر احتجاجی مظاہرے کا انتظام کیا ہے ہم بھی جائیں گےاور مجھے امید ہے اس بار آپ کا اور باقی لاپتا افراد کا سراغ مل جائے گا۔انشاءاللہ۔لکھتے لکھتے اس کی آنکھوں میں امید کی کرن جاگی اور اس کی مایوسی کی جگہ حوصلے نے لے لی۔اب اس کو آنے والی صبحِ روشن کا انتظار تھا۔

حصہ