بزمِ نگار ادب پاکستان کے زیر اہتمام یک جہتی کشمیر کانفرنس اور مشاعرہ

281

۔5 فروری قومی یک جہتی ٔ کادن ہے‘ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی تحریک آزادی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بزمِ نگارِ ادب پاکستان نے کُل پاکستان یک جہتی ٔ کشمیر کانفرنس اور مشاعرے کا اہتمام کیا۔ جوہر لائبریری فاران کلب کراچی میں شام 7 بجے شروع ہونے والے اس پروگرام کے دو حصے تھے۔ سب سے پہلے پرچم کشائی کی تقریب ہوئی جس میں سلطان محمود میر‘ ڈاکٹر سلیم حیدر‘ ڈاکٹر جاوید منظر‘ ساجد رضوی‘ فہیم برنی‘ بشیر احمد سدوزئی اور خالد میر کے علاوہ دیگر حضرات نے شرکت کی۔ تقریب کے پہلے اجلاس میں کشمیر ڈے کے حوالے سے مذاکرے کی مجلسِ صدارت ڈاکٹر فاروق ستار‘ ڈاکٹر سلیم حیدر پر مشتمل تھی۔ ڈاکٹر جاوید منظر‘ ساجد رضوی‘ خالد میر‘ سلطان محمود میر اور طارق جمیل مہمانان خصوصی تھے۔ مہمانانِ اعزازی میں بشیر احمد سدوزئی اور فہیم برنی شامل تھے۔ حنیف عابد نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ نظر فاطمی نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی اور واحد رازی نے نعت رسول مقبولؐ پیش کی۔ تقریب کے پہلے مقرر بشیر سدوزئی نے کہا کہ پوری پاکستانی قوم کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی میں ان کے ساتھ ہے‘ کشمیر کے عوام پر بھارتی ظلم و ستم جاری ہے جس کا سدباب ضروری ہے۔ شعرائے کرام اپنے کلام کے ذریعے کشمیریوں کے حالات بیان کر رہے ہیں امید ہے کہ کشمیرکا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ مسلم پرویز نے کہا کہ جماعت اسلامی نے کشمیر کاز کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں ہم آج کی کانفرنس پر نگارِ ادب پاکستان کے عہدیداران و اراکین کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ڈاکٹر جاوید منظر نے کہا مسلسل لاک ڈائون نے کشمیریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے اقوام متحدہ اس سلسلے پر کوئی قدم اٹھائے اور رائے شماری کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ حل کرائے۔ سلطان محمود میر نے اس موقع پر کشمیریوں کی جدوجہد کو سلام پیش کیا اور اپنی نظم پیش کی جس میں بہت خوب صورتی سے کشمیر کا المیہ بیان کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر سلیم حیدر نے کہا کہ کشمیر میں قتل عام جاری ہے‘ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ بھارت نے حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ کی ریاستوں پر قبضہ کر رکھا ہے جب کہ ان ریاستوں کے حکمرانوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا‘۔ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ قاضی حسین احمد نے 5 فروری کو کشمیر ڈے کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا اب ہر سال یوم کشمیر پر پورے ملک میں پروگرام ہوتے ہیں اور کشمیریوں کی آواز میں آواز ملائی جاتی ہے۔یہ ایک اچھا قدم ہے اس طرح کشمیریوں کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں تاہم سفارتی سطح پر کشمیر کا مسئلہ اٹھانا حکومت پاکستان کا کام ہے ہم 70 برس سے اس مسئلے کو مختلف پلیٹ فارم پر پیش کر رہے ہیں لیکن بات نہیں بن رہی۔انہوں نے مزید کہا کہ صرف تقریروں سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا اس کے لیے مزید قربانیاں دینی ہوں گی۔ اس مذاکراتی نشست کے بعد مشاعرے کا آغاز ہوا۔ ساجد رضوی اور ڈاکٹر جاوید منظر نے صدارت کی۔ آصف رضا رضوی‘ عتیق جیلانی اور اختر سعیدی مہمانانِ خصوصی تھے۔ ریحانہ روحی اور طارق جمیل مہمانانِ اعزازی تھے۔ راشد نور نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ مشاعرے میں ڈاکٹر جاوید منظر‘ ساجد رضوی‘ آصف رضا رضوی‘ عتیق الرحمن‘ اختر سعیدی‘ ریحانہ روحی‘ راشد نور‘ فیاض علی فیاض‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ خالد میر‘ نسیم شیخ‘ حنیف عابد‘ سلطان محمود میر‘ سجاد ہاشمی‘ احمد سعید خان‘ نظر فاطمی‘ صاحبزادہ عتیق الرحمن‘ شائستہ سحر‘ ہدایت سائر‘ شہناز رضوی‘ ہما اعظمی‘ امت الحئی وفا‘ فخر اللہ شاد‘ افضل ہزاروی‘ ضیا حیدر زیدی‘ ساجدہ سلطانہ‘ ثناء سبحان‘ حمیرہ ثروت صدیقی‘ سخاوت علی نادر‘ واحد رازی اور شائق شہاب نے اپنا کلام پیش کیا۔ وقت کی تنگی کے باعث اعلان ہوا کہ ہر شاعر 5 اشعار سنائے گا لیکن بہت سے شعرا نے اس پر عمل نہیں کیا جب کہ ان کو اس ہدایت کی پاسداری کرنا تھی۔ بزم نگار ادب پاکستان کے چیئرمین سخاوت علی نادر اپنے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ شعرائے کرام بھی تحریکِ آزادی ٔ کشمیر کا ہر اوّل دستہ ہیں‘ یہ لوگ اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو گرما رہے ہیں اور کشمیریوں کے حوصلے بڑھا رہے ہیں۔ آج کی کانفرنس میں جن شخصیات نے ہماری معاونت کی ہے ہم ان کے ممنون و شکر گزار ہیں انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں امن بحال ہونے کے بعد شعر و سخن کی محفلیں پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگا رہی ہیں ہم اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے میدانِ عمل میں موجود ہیں‘ ہم سرکاری اداروں میں اردو کا نفاذ چاہتے ہیں اس کے لیے ہمیں ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا اور مزیدی قربانیاں دینی ہوں گی۔

حنیف عابد کی کتاب ’’جگ مگ تارے‘‘ کی تقریب رونمائی اور مشاعرہ

حنیف عابد معروف صحافی اور شاعر ہیں‘بچوں کے لیے بھی ان کی دو کتابیں ہیں جن میں جگ مگ تارے شامل ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی نگرانی میں نیشنل بک فائونڈیشن نے اکتوبر 2019ء میں شائع کی اس کتاب میں 21 کہانیاں ہیں جن سے بچوں کی ذہنی اور اخلاقی تربیت میں مدد ملے گی‘ ذخیرہ الفاظ میں اضافے کے علاوہ بچوں کی کردار سازی کا عمل تیز ہوگا ان میں مطالعے کا شوق پروان چڑھے گا۔ ان خیالات کا اظہار مظہر ہانی نے ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن کے زیر اہتمام حنیف عابد کی کتاب ’’جگ مگ تارے‘‘ کی تقریب رونمائی اور انجم خان کی یاد میں مشاعرے کے موقع پر اپنے خطبۂ استقبالیہ میں کیا اس موقع پر مظہر ہانی نے حنیف عابد کی کچھ کتابیں خریدیں اور اپنے طالب علموں میں تقسیم کیں تاکہ یہ طالبانِ علم و فن اس کتاب سے استفادہ کرسکیں۔ مظہر ہانی نے مزید کہا کہ انجم خان میرے محسن تھے میں ان کے احسانات کا مقروض ہوں انہوں نے انسانیت کی بھلائی کے لیے بہت سے اہم کام کیے ۔ تقریب کے صدر اختر سعیدی‘ مہمان خصوصی حامد الاسلام خاں اور مہمان اعزازی ضیا حیدر زیدی تھے۔عاشق بلوچ اور رضا حیدر زیدی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ محمد علی گوہر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔انہوں نے اس موقع پر کہا کہ مظہر ہانی ایک سماجی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی ہیں۔ مظہر ہانی نے سمندری مشاعرے کی روایت ڈالی‘ شعرا کو سمندر کی سیر کرائی اور کشتی میں ہی مشاعرے کرائے۔ ہانی بھائی شعرا کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور اپنے اسکول میں شعر و سخن کی آبیاری بھی۔ ان کے ٹیچرز اور طالب علم مشاعرہ سنتے ہیں اور شعرا کو داد و تحسین سے نوازتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ادبی محفلوں کے انعقاد سے بھی پرورش لوح و قلم ہوتی ہے۔ تقریب کے پہلے مقرر عبدالصمد تاجی نے کہا کہ حنیف عابد ایک بڑے قلم کار اور شاعر کی حیثیت سے ادبی منظر نامے کا حصہ ہیں انہوں نے صحافت کے میدان میں بھی نام کمایا ہے ان کی تحریریں ہمارا سرمایہ ہے ان کی شاعری میں زبان و بیان کی خوبیوں کے علاوہ غزل کے روایتی مضامین نظر آتے ہیں انہوں نے بچوں کے لیے جو کہانیاں لکھی ہیں ان میں ہمارے عہد کی جھلک نظر آتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی تحریریں زندگی سے جڑی ہوئی ہیں۔ ضیا حیدر زیدی نے کہا کہ حنیف عابد نے بچوں کے لیے جو کتابیں لکھی ہیں ان کی پزیرائی ہو رہی ہے ان کے شعری مجموعے نے بھی قارئین ادب میں شہرت پائی ہے ایسے باصلاحیت قلم کار کی حوصلہ افزائی کرنا بہت ضروری ہوتا ہے جو ادارے یہ کام کر رہے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ حامد الاسلام خان نے کہا کہ مظہر ہانی نے ایک پسماندہ علاقے میں اسکول‘ مدرسہ اور اسپتال قائم کیا ہے جہاں عوام کی خدمت جاری ہے اللہ تعالیٰ انہیں اس کا اجر عطا فرمائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حنیف عابد کی کتاب جگ مگ تارے بچوں کے ادب میں گراں قدر اضافہ ہے میں نے اس کتاب کا سرسری مطالعہ کیا ہے خوب صورت گیٹ اَپ کے ساتھ اس میں سبق آموز کہانیاں موجود ہیں۔ اختر سعیدی نے کہا کہ حنیف عابد پہلے لانڈھی میں رہتے تھے ان سے تقریباً روزانہ ملاقات ہوتی تھی‘ یہ شریف النفس انسان بہت سی خوبیوں کا مالک ہے میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید ترقی عطا فرمائے۔ ان الفاظ کی ادائیگی کے علاوہ اختر سعیدی نے حنیف عابد کو منظوم خراج تحسین پیش کیا ان کی نظم میں حنیف عابد کی شخصیت اور فن کا بھرپور اظہار تھا۔ صاحبِ اعزاز حنیف عابد نے کہا کہ وہ مظہر ہانی کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میری کتابیں اپنے اسکول کے لیے خریدیں اگر تعلیمی ادارے ہمارے جیسے قلم کاروں کی کتابیں حاصل کریں تو ہمیں حوصلہ ملتا ہے ورنہ آج کل ہر شخص مفت میں کتاب چاہتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ وہ 45 برس سے لکھ رہے ہیں میرے لیے لکھنا معمول کی بات ہے‘ لیکن جب میں نے بچوں کے لیے لکھنا شروع کیا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ کام معمول سے ہٹ کر ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ میرے الفاظ بچوں کی ذہنی سطح سے بلند نہ ہوں ناقدینِ فن اس کا فیصلہ کریں گے کہ میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں۔ مظہر ہانی آرگنائزیشن کے اس پروگرام میں عاشق بلوچ کو دس ہزار روپے کیش دیے گئے اور مہمانوں کو اجرکیں پیش کی گئیں۔ مشاعرے میں اختر سعیدی‘ حنیف عابد‘ ضیا حیدر زیدی‘ انورانصاری‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد‘ یوسف چشتی‘ خالد عمران اطہر‘ محسن سلیم‘ اسحاق خان‘ مظہر ہانی‘ عامر ثانی‘ عاشق بلوچ‘ افضل ہزاروی‘ گل انور‘ عبدالصمد تاجی‘ جمیل ادیب سید‘ تاج علی رانا اور عاشق شوکی نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

آزاد نظم

قافیے کی قید سے آزاد ہونے کی خاطر مغربی ادب سے استفادہ کر کے اردو نظم کی جو اصناف مقبول ہوئیں وہ “آزاد نظم” اور “معری نظم” ہیں۔ لیکن یہ وزن اور بحر پر مبنی ہوتی ہیں۔ معری نظم blank verse قافیے سے عاری ہوتی ہے، لیکن سارے مصرعے ایک ہی بحر اور ایک ہی وزن میں ہوتے ہیں۔ جیسے جانثار اختر کی نظم “مہکتی ہوئ رات” ۔
یہ ترے پیار کی خوشبو سے مہکتی ہوئی رات
اپنے سینے میں چھپائے ترے دل کی دھڑکن
آج پھر تیری ادا سے مرے پاس آئی ہے
آزاد نظم free verse بھی کسی ایک بحر میں لکھی جاتی ہے، لیکن اس کے مصرعے چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔
آزاد نظم میں ہم قافیہ مصرعے بھی شامل کئے جاتے ہیں۔ فیض کی نظم ”تم مرے پاس رہو“ دیکھئے۔
تم مرے پاس رہو
مرے قاتل مرے دلدار مرے پاس رہو
جس گھڑی رات چلے
آسمانو ں کا لہو پی کے سیہ رات چلے
مرہمِ مشک لئے نشترِالماس لئے
بین کرتی ہوئی ہنستی ہوئی گاتی نکلے
درد کے کاسنی پازیب بجاتی نکلے
تصدق حسین خالد ، میرا جی اور ن۔ م۔ راشد آزاد نظم کے سرخیل مانے جاتے ہیں۔ فیض احمد فیض، سردار جعفری اور اختر الایمان بھی اس صنف کے ممتاز شاعر ہیں۔

طاہرہ سلیم سوز خوش فکر شاعرہ تھیں‘ قادر بخش سومرو

طاہرہ سلیم سوز خوش فکر شاعرہ تھیں‘ ان کا شعری مجموعہ شائع ہو چکا ہے یہ اپنے اسلوب و بیان کے سبب ادبی حلقوں میں جانی پہچانی جاتی تھیں‘ ان کا انتقال ادبی سانحہ سے کم نہیں ہے۔ ان خیالات کا اظہار اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے طاہرہ سلیم سوز کی یاد میں ہونے والے تعزیتی ریفرنس اور مشاعرے کے موقع پر اپنے خطبہ استقبالیہ میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ وہ شعرائے کرام کی پزیرائی کے لیے بھی محفلیں سجاتی تھیں۔ طاہرہ سلیم سوز ہمارے پروگراموں میں شریک ہوتی تھیں ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔ پروگرام کے صدر ڈاکٹر جمال نقوی تھے‘ مہمانانِ خصوصی میں ریحانہ روحی‘ پروفیسر خیال آفاقی‘ ڈاکٹر لبنیٰ عکس‘ ناہید اعظمی‘ ثبین سیف تھیں۔ جمال نقوی نے کہا کہ طاہرہ سلیم سوز کی شاعری میں گہرائی اور گیرائی موجود ہے‘ ان کا انداز بیاں بہت دل کش تھا۔ ریحانی روحی نے کہا کہ طاہرہ سلیم سوز کے کلام میں شاعرانہ خوبیاں نظر آتی ہیں۔ ثبین سیف نے کہا کہ طاہرہ سلیم سوز ایک اچھی شاعرہ تھیں انہوں نے بہت کم عرصیٔ میں اپنی شناخت بنائی تھی۔ ڈاکٹر لبنیٰ عکس نے کہا کہ طاہرہ سلیم سوز نے زندگی کے تمام مسائل رقم کیے ہیں ان کی شاعری شعری محاسن کی آئینہ دار ہے۔ افروز رضوی نے کہا کہ طاہرہ سلیم سوز کے اشعار میں خوشی و غم کے مناظر نظر آتے ہیں وہ کامیاب شاعرہ تھیں۔ پروفیسر خیال آفاقی نے کہا کہ طاہرہ سلیم سوز کے لیے تعزیتی اجلاس کا انعقاد اچھا قدم ہے ہمیں اپنے شعرا کو یاد رکھنا چاہیے۔ اجلاس کے دوسرے حصے میں مشاعرہ ہوا جس میں صاحب صدر‘ مہمانان خصوصی اور قادر سومرو کے علاوہ جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں عرفان عابدی‘ امت الحی وفا‘ عشرت حبیب‘ شہناز رضوی‘ افروز رضوی‘ سلمیٰ رضا‘ نصیر سومرو‘ نظر فاطمی‘ وحید محسن‘ اقبال سہوانی‘ قمر جہاں‘ علی اوسط جعفری‘ مشرف علی‘ عارف شیخ‘ محمد علی‘ ضیا حیدر زیدی‘ علی کوثر‘ عبدالستار رستمانی‘ رفیق مغل‘ صدیق راز‘ جمیل ادیب اور ساجد علی شامل تھے۔

حصہ