آج کا بڑا فتنہ

396

اماں: دیکھ ریشماں، اب تُو جوان ہوگئی ہے، سارا دن پڑوس میں تیرا جانا صحیح نہیں، اگر تیرے ابا اور بھائی کو پتا چل گیا کہ تُو سارا دن وہاں ٹی وی پر ڈرامے دیکھتی رہتی ہے تو ناراض ہوں گے۔
ریشماں: اماں! آج تو ڈرامے کی آخری قسط تھی۔ سچ اماں! اتنا زبردست تھا، اور اس کی ہیروئن تو اتنے خوبصورت کپڑے اور زیور پہنتی ہے کہ ہم نے کبھی خوابوں میں بھی نہیں دیکھے ہوں گے۔
اماں: اچھا اچھا اب بس کر، سارا دن تجھ پر ڈرامے اور ان کی ہیروئنیں سوار رہتی ہیں۔ تیرے بابا اور بھائی آنے والے ہوں گے، جا اُن کے لیے روٹیاں ڈال دے۔
٭…٭
اماں: اری نیک بخت ساری روٹی جلا دی، نہ جانے سارا دن کن خیالوں میں ڈوبی رہتی ہے! سارا دن محنت مشقت کرکے آتے ہیں، اور یہ جلی ہوئی روٹیاں کھائیں گے! دو وقت کی روٹی کے لیے سارا دن مارے مارے پھرتے ہیں پھر کہیں جاکر پیٹ بھرنے کو کھانا ملتا ہے۔
ریشماں: اماں! کیا ہم سدا اسی طرح صرف دو روٹیاں کھائیں گے؟
اماں: (غصے سے) کیا مطلب ہے تیرا…؟
ریشماں: اماں کیا ہم سدا اسی طرح اس کچے مکان میں رہیں گے؟ اب تو ہمارے گائوں میں زیادہ تر لوگوں نے پکے مکان بھی بنوا لیے ہیں، ان کے گھروں میں ٹی وی بھی آگیا ہے، اچھا کھاتے ہیں، اچھا پہنتے ہیں۔
اماں: کتنی مرتبہ تجھ سے کہا ہے کہ دوسروں کی حرص نہ کیا کر، اللہ نے جو دیا ہے اُس پر اللہ کا شکر ادا کر، اللہ کے کتنے بندے ایسے ہیں جنہیں دو وقت کا کھانا بھی نہیں ملتا۔
٭…٭
اماں کی باتوں کا ریشماں پر کیا اثر پڑتا! وہ ایک کان سے سنتی اور دوسرے کان سے نکال دیتی… وہ روز ضد کرکے پڑوسن کے گھر کوئی نہ کوئی ڈرامہ دیکھنے جاتی، پھر خوابوں میں ہیروئن کے بجائے اپنے آپ کو دیکھتی رہتی۔
٭…٭
گھر میں اس کی شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ تیاری تھی ہی کتنی… دو جوڑے اماں نے بڑی مشکلوں سے بنائے تھے۔ اپنے جہیز کو دیکھ کر وہ دل ہی دل میں کڑھتی رہتی، مزید غصہ اُسے اس بات پر آتا کہ اماں نے شیدے میں کیا خوبی دیکھی تھی؟ اس کے بھائی اور باپ کی طرح محنت مزدوری کرکے اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی ہی کا بندوبست کر پاتا، بلکہ اس کے گھر میں چھ بندے کھانے والے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہاں روٹیاں بھی وقت پر نہیں ملیں گی… وہ اکثر ماں سے غصے میں کہتی کہ کیا ضرورت تھی میری شادی کرنے کی؟ یہیں پڑی رہتی میں۔ اماں اسے تسلیاں دیتیں کہ نا شکری نہ بن، سب ٹھیک ہوجائے گا۔
٭…٭
گھر اور گھرداری میں ریشماں ایسی الجھی کہ اب تو کبھی کبھار ہی پڑوسیوں کے ہاں جاکر ڈرامے دیکھنے نصیب ہوتے۔ وہ اپنی مالی حالت پر کڑھتی رہتی کہ شوہر کے پاس اتنا بھی نہیں کہ میرے لیے ایک TV ہی خرید پاتا، ڈراموں میں ہیرو اپنی ہیروئنوں کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے! انہی سوچوں نے اسے اپنے شوہر سے بہت دور کردیا تھا، وہ بیزار رہنے لگی تھی۔
ماسی رحمتے: غفورا کی بیوی کو مرے اب تو پانچ مہینے ہوگئے ہیں، بیٹی دوسرے گائوں میں رہتی ہے اور بیٹا بیوی بچوں کے ساتھ شہر میں… یہ اپنے کاروبار کی وجہ سے شہر بھی نہیں جا سکتا، تیری نظر میں کوئی عورت ہو تو بتانا، غفورا دوسری شادی کرنا چاہتا ہے… اچھا کماتا ہے، دو دکانیں کرائے پر دے رکھی ہیں، اپنا بڑا سا مکان ہے۔
ماسی رحمتے ریشماں کی ساس کو غفورے کی بات بتا کر چلی گئی، لیکن ریشماں سارا دن اسی کے بارے میں سوچتی رہی کہ کتنی خوش نصیب ہوگی اس سے شادی کرنے والی، راج کرے گی۔ نہ ساس، نہ سسر، اور ہر قسم کا عیش۔ وہ کبھی کبھار سودا لینے غفورے کی دکان پر جا چکی تھی، اس کے دماغ میں شیطان نے کھلبلی مچادی۔ اگر وہ اُس سے کسی طرح شادی کرلے تو… اسے بہت عرصہ پہلے ایک ٹی وی چینل پر دیکھا ہوا ڈرامہ یاد آگیا جس میں ایک غریب لڑکی نے شوہر سے نجات حاصل کرکے ایک خوشحال بندے کو زندگی کا ساتھی بنا لیا تھا۔ اگلے دن سے وہ غفورے کی دکان پر باقاعدگی سے جانے لگی۔ جلد ہی وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی۔
٭…٭
شیدے سے طلاق لے کر وہ غفورے کی دلہن بن گئی۔ لوگوں کی لعن طعن سے اسے کیا غرض! اسے تو اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی تھی، وہ جو چاہتی تھی آج سب اس کے پاس تھا۔ ٹی وی پر سارا دن نت نئے ڈرامے، پروگرام، بننے سنورنے کے طریقے اس کے سامنے تھے… غفورے نے اس کے مطالبے پر ایک نوکرانی کا بھی بندوبست کردیا تھا۔ اب تو وہ چودھرائن تھی، بالکل فلموں کی ہیروئن… غفورا بھی اپنی اس جوان بیوی کے ناز اٹھا رہا تھا۔
٭…٭
شوکت (غفورے کا بیٹا): ابا آپ نے یہ ٹھیک نہیں کیا، وہ آپ کے ساتھ… میرا مطلب ہے جو عورت اپنے بچوں کو چھوڑ کر آپ کی دولت کی وجہ سے آپ کی زندگی میں آئی ہے ہمیں اس پر اعتبار نہیں… میں نے شاہدہ بہن سے بھی بات کی ہے، وہ بھی آپ سے ناراض ہے۔
غفورا: بیٹا تجھے غلط فہمی ہوئی ہے، ریشماں ایسی نہیں۔ اس کا شوہر اسے مارتا پیٹتا تھا، وہ میرا رشتے دار ہے، میں اس کے غصے کو جانتا ہوں… اسی لیے وہ…
شوکت: بس ابا بہت ہوچکا، اب آپ یہ کام کریں…
غفورا: کون سا کام؟
شوکت: آپ اپنی تمام جائداد ہم دونوں بہن بھائیوں کے نام کردیں، اس جائداد کے اصل حق دار ہم ہیں۔
غفورا: لیکن بیٹا… لکھنے کی کیا ضرورت ہے! وہ تو تمہاری اور شاہدہ کی ہے۔
شوکت: نہیں ابا… آپ ابھی لکھ دیں۔
٭…٭
ریشماں کے کانوں تک جب غفورے کی جائداد کے بٹوارے کی بات پہنچی تو اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی، وہ تو سوچ رہی تھی کہ یہ بڈھا زیادہ عرصے نہیں جیے گا، اور تمام جائداد اس کے مرنے سے پہلے اپنے نام کروا لے گی… لیکن اس کے ہاتھ چند کنکریوں کے سوا کچھ نہ آیا… اب اس کے پاس پچھتاوا اور دکھ تھا۔
٭…٭
مذکورہ بالا واقعہ میری ماسی نے سنایاجو اُس کی رشتے دار کا تھا کہ کس طرح اس عورت نے اپنی زندگی برباد کردی اور اپنے ساتھ ساتھ کئی اور لوگوں کی بھی۔
٭…٭
آج ہمارے چاروں طرف ایسے سیکڑوں واقعات نظر آتے ہیں جن کے پیچھے اکثر ’’اسی‘‘ نوعیت کے ڈراموں کے اثرات ہیں۔ نہ صرف شہروں، بلکہ دیہات اور قصبوں میں بھی خصوصاً خواتین اس قسم کے ڈراموں اور پروگراموں کی شیدائی ہیں، اور ان ڈراموں کے رنگ اب ان کی زندگیوں میں بھی آنے لگے ہیں۔ نت نئے فیشن، سازشیں، لہوولعب پر مشتمل سرگرمیاں، بے ہودہ رسم و رواج، لڑکے لڑکیوں کی ایک دوسرے سے دوستیاں، زنا… یعنی ہر قسم کی برائیاں معاشرے میں نظر آرہی ہیں اور ان میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ مائیں اولاد کی تربیت کرتے ہوئے اس بات کا بھی خیال رکھتی تھیں کہ بچے چاہے اسکول کے طالب علم ہوں یا کالج میں پڑھتے ہوں، ان کی صحبت، یعنی ان کے دوستوں پر ضرور نظر رکھی جائے کہ کس قسم کے ان کے دوست ہیں۔ وہ ان دوستوں سے ملتی بھی تھیں بلکہ احتیاطاً ان کے گھر والوں سے بھی ملتیں اور ان کے ماحول کو دیکھتی تھیں، کیونکہ اُس وقت بچوں کے بگڑنے کی زیادہ تر وجہ یہی سمجھی جاتی تھی۔ ایک ٹی وی چینل یعنی معصوم پی ٹی وی تھا جس سے والدین کو کم ہی خطرہ رہتا تھا، بلکہ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو یہ اکلوتا چینل تفریح کے علاوہ کچھ ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا سبب بھی تھا، مثلاً قرآنی تعلیم ناظرہ کا پروگرام، کسوٹی، طارق عزیز شو وغیرہ۔ مگر فی زمانہ میڈیا چھا گیا ہے، روز نت نئے چینلز میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اب تو ٹی وی اسکرین کی بھی محتاجی نہیں رہی ہے، موبائل پر ’’سب کچھ‘‘ مل جاتا ہے۔ ’’مثبت نشریات‘‘ اور پروگراموں کی نسبت ’’منفی چیزیں‘‘ دیکھنے کو زیادہ ملتی ہیں، جنہوں نے خصوصاً نئی نسل کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ اس جدید میڈیا کے منفی اور مثبت اثرات بچوں میں نظر آتے ہیں، بلکہ منفی اثرات نمایاں ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ’’مثبت اثرات‘‘ کون سے ہیں؟ میں اس طویل بحث میں نہیں پڑنا چاہتی، صرف ایک چھوٹی سی مثال پیش کررہی ہوں جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ میڈیا سے ہم فیض بھی حاصل کرسکتے ہیں:
میری نواسی جو آٹھ سال کی ہے، وہ موبائل پر اکثر کھانے پکانے کے پروگرام دیکھنا پسند کرتی ہے، اور اب اکثر اپنی والدہ کے ساتھ کچن میں اُن کا ہاتھ بھی بٹاتی رہتی ہے، بلکہ اس کے کھیل بھی اسی نوعیت کے ہوتے ہیں کہ وہ کبھی کیک، کبھی پزا بناتی نظر آتی ہے۔
لیکن اس بات سے انکار نہیں کہ (آج کے) بچے میڈیا کی صحبت سے بگڑ زیادہ رہے ہیں۔ وہ کیا دیکھتے رہتے ہیں، کیا سیکھتے رہتے ہیں اس کے اثرات معاشرے میں نظر آرہے ہیں۔ ایک والدہ نے کہا کہ میں اپنی بچی کے دوستوں پر تو نظر رکھتی آرہی ہوں لیکن میڈیا کی صحبت نے اسے ’’ماڈرن‘‘ (فیشن ایبل) بنا دیا ہے…
٭…٭
بولڈ مناظر اور ڈائیلاگ پر مبنی ڈرامے، ٹاک شوز پر اینکر اور شرکاء کی گفتگو کے علاوہ مختلف منفی نوعیت کی وڈیوز جو بے حیائی اور لہو و لعب مناظر و ڈائیلاگ پر مبنی ہوتی ہیں ہر خاص و عام کو دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ ان کے منفی اثرات آج معاشرے میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ خاندانوں میں سازشیں، ایک دوسرے کی حق تلفی، زنا، ڈکیتی، دھوکے بازی، جرائم کے نت نئے طریقے، ٹک ٹاکر کے نئے نئے ڈانس، انداز وغیرہ وغیرہ… جنہوں نے ہمیں اسلامی معاشرے سے بہت دور کردیا ہے، خصوصاً عورت ذات کے دن بدن مختصر ہوتے ہوئے لباس نے فحاشی عام کردی ہے۔ میڈیا پر بے ہودہ اسکینڈلز کی جس طرح تشہیر کی جارہی ہے ویسا ہی رنگ ہمارے معاشرے میں سر اٹھائے بے ہودگی کا سبب بن رہا ہے۔ میڈیا کے اس لہوولعب سے کس طرح بچا جا سکتا ہے یہ ہم سب کے لیے ایک سوال ہے۔
ابھی یہ کالم میرے ہاتھ میں ہی تھا کہ ایک اور خبر سامنے آئی:۔ ایک شخص موٹر سائیکل چوری کرنے کے لیے پڑوسی کے گھر میں داخل ہوا، اس نے پڑوسی کی بیوی کو بھی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا۔ اس نے پکڑے جانے کے بعد پولیس کو بتایا کہ اس نے جس طرح وار دات کی ہے یہ طریقہ اس نے ایک ڈرامے میں دیکھا تھا… یہ صرف ایک خبر نہیں، بلکہ اس قسم کی کئی خبریں اکثر ہم میڈیا پر سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں جس سے اس قسم کے جرائم کی مزید تشہیر ہورہی ہے، اور اس تشہیر سے معاشرہ متاثر ہورہا ہے… مثلاً معذرت کے ساتھ میں یہاں اُس شخص کی مثال دینے پر مجبور ہوں جس نے اپنے نام کے ساتھ ’’مفتی‘‘ کا لاحقہ لگاکر اپنی بے ہودہ حرکات سے علمائے کرام کی بھی توہین کی ہے۔ اس واقعے کی جس طرح میڈیا پر ’’تشہیر‘‘ کی گئی ہے، ’’لوگوں‘‘ نے نہ صرف اس سے ’’مزے‘‘ لیے ہیں بلکہ اسلامی معاشرے کی بھی تذلیل کی گئی ہے۔ ایسے واقعات سے دشمنانِ اسلام فائدہ حاصل کرتے ہیں اور عام لوگوں کو دینِ اسلام سے بدگمان کرنے کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں… اس قسم کی نشریات و ڈرامے وغیرہ معلومات و تفریح کا سبب بننے سے زیادہ خاندانوں اور معاشرے میں فساد و انتشار پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ یقینا حساس لوگ اور اخلاص و ہدایت پانے والے لوگ اس سلسلے میں مسلسل زبان، وعظ اور قلم کے ذریعے اس فتنے سے بچنے اور بچانے کے لیے اپنے اثر رسوخ کو استعمال کرتے رہیں گے، اور سرکار و متعلقہ اداروں سے بھی اس کی روک تھام کے لیے ’’التماس‘‘ کرتے رہیں گے، اس امید کے ساتھ کہ اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے (اِن شاء اللہ)تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اس فتنے سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ آمین ثم آمین
٭…٭
ساتھ ہی میں والدین سے بھی گزارش کروں گی کہ وہ اپنی اولاد کو اس فتنے کے شر سے بچانے کے لیے کوشش کریں۔ ابتدا ہی سے انہیں اچھائی اور برائی کے بارے میں اس طرح ’’آگہی‘‘ دیں کہ وہ ’’خود‘‘ اس ’’برائی‘‘ کو بڑا فتنہ سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کریں۔ کیونکہ آنے والا وقت مزید فتنوں کو لے کر تباہی کی وجہ بنے گا، اس لیے اس کا سدباب ابھی سے ہونا چاہے۔ اکثر والدین سے یہ سنا جاتا ہے کہ وقت آنے پر بچے خود سمجھ جائیں گے۔ خدارا آپ کی تربیت میں یہ جملہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ بچپن سے ہی بچوں کے نفس میں نیکی و ہدایت کی آبیاری کا بیج بوئیں تاکہ جب وہ تناور درخت بنیں تو اس کی ہریالی و خوشبو ماحول کو معطر کرے۔

حصہ