اس کے ہی تحفظ میں تمدن کی بقا ہے

142

اس کے ہی تحفظ میں تمدن کی بقا ہے
اک سایۂ دیوار میں تیرا جو بھرم ہے
یہ خلعتِ زیبا جو عبایاکی ہے صورت
بے شک ہے یہ شوکتِ نسواں کی علامت
محفوظ ہے معروف سے ملبوس میں لیکن
کافی نہیں تجھ کو لبادے کی ہی طاقت
ہاں اس سے زیادہ ہے گھروندے کی ضرورت
چادر کی طرح انمول ہے اس کی بھی قیمت
اک سایۂ دیوار میں تیرا جو بھرم ہے
قرآں کی ہدایت ہے یہی رب کا کرم ہے
محفوظ سی چوکھٹ میں اور زندان میں لیکن
جو فرق مٹایا تو ابھری ہے بغاوت
ایثار و وفا صبر و رضا سے تجھے نسبت
بس جھیلتے جانا ٹھہری تری فطرت
تیرے ان اوصاف کو ٹھکرایا گیا تو
(منوانے کو نکلی ہے تو اپنی صداقت)
محفوظ احاطے میں مل جائے جو عزت
در در پھری جائے کب تیری ہے فطرت
چادر سے احاطے تک ضمانت یہ بڑی ہے
ہاں حرمتِ نسواں میں یہی بات چھپی ہے
شفقت سے کفالت ہوکہ ہو سچی رفاقت
اور خدمتِ مادر میں آدم کی ہے جنت
ہر دکھ گیں گوارا رہیں گھر جو سلامت
عورت کی حفاظت کے یہی روپ ہیں سارے
ٹھہرے ہیں اسی چھاؤں میں کئی دھوپ کے مارے
اس کے ہی تحفظ میں تمدن کی بقا ہے
رشتہ وہ حجابوں کا تمدن سے جڑا ہے

حصہ