سود

461

حضرت عمرؓ کا قول

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ احکام مجمل ہیں اور معاملات کی تمام جزوئی صورتوں کی ان میں تصریح نہیںہے۔ اس لیے بہت سے جزئیات ایسے پائے جاتے ہیں جن میں شک کیا جاسکتا ہے کہ آیا وہ ربوٰ کی تعریف میں آتے ہیں یا نہیں۔ یہی بات ہے جس کی طرف حضرت عمرؓ نے اشارہ کیا ہے کہ ’’آیت ربوٰ قرآن کی اُن آیات میں سے ہے جو آخر زمانہ میں نازل ہوئی ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا قبل اس کے کہ تمام احکام ہم پر واضح فرماتے لہٰذا تم اس چیز کو بھی چھوڑ دو جو یقینا سود ہے اور اس چیز کو بھی جس میں سود کا شبہ ہو۔‘‘

فقہا کے اختلاف

احکام کا یہ اجمال ہی ان اختلافات کا مبنیٰ ہے جو سودی اجناس کے تعین اور ان میں تحریم کی علّت اور حکمِ تحریم کے اجزا میں فقہائے امت کے درمیان ہوئے ہیں۔ ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ ربوٰ صرف ان چھ اجناس میں ہے جن کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے یعنی سونا‘ چاندی‘ گیہوں‘ جُو‘ خرما اور نمک۔ ان کے سوا دوسری تمام چیزوں میں تفاضل کے ساتھ بلا کسی قید کے ہم جنس اشیا کا لین دین ہو سکتا ہے۔ یہ مذہب قتادہ اور طائوس اور عثمان البتی اور ابن عقیلی اور ظاہریہ کا ہے۔
دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ حکم ان تمام چیزوں میں جاری ہوگا جن کا لین دین وزن اور پیمانہ کے حساب سے کیا جاتا ہے۔ یہ عمار اور امام ابو حنیفہؒ کا مذہب ہے اور ایک روایت کی رُو سے امام احمد ابن حنبل کی بھی یہی رائے ہے۔
تیسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ حکم سونے‘ چاندی اور کھانے کی اُن چیزوں کے لیے ہے جن کا لین دین پیمانہ اور وزن کے لحاظ سے ہوتا ہے یہ سعید بن المسیب کا مذہب ہے اور ایک ایک روایت اس بات میں امام شافعیؒ اور امام احمدؒ سے بھی منقول ہے۔
چوتھا گروہ کہتا ہے کہ یہ حکم مخصوص ہے ان چیزوں کے ساتھ جو غذا کے کام آتی ہیں اور ذخیرہ کرکے رکھی جاتی ہیں۔ یہ امام مالکؒ کا مذہب ہے۔
درہم و دینار کے بارے میں امام ابو حنیفہؒ اور امام احمدؒ کا مذہب یہ ہے کہ ان میں علتِ تحریم ان کا وزن ہے اور شافعی و مالک اور ایک روایت کے مطابق امام احمدؒ کی رائے یہ ہے کہ قیمت اس کی علّت ہے۔
مذاہب کے اس اختلاف سے جزئی معاملات میں حکم تحریم کا اجزا بھی مختلف ہو گیا ہے۔ ایک چیز ایک مذہب میں سرے سے سودی جنس ہی نہیں ہے اور دوسرے مذہب میں اس کا شمار سودی اجناس میں ہوتا ہے۔ ایک مذہب کے نزدیک ایک شے میں علتِ تحریم کچھ ہے اور دوسرے مذہب کے نزدیک کچھ اور۔ اس لیے بعض معاملات ایک مذہب کے لحاظ سے سود کی زد میں آجاتے ہیں اور دوسرے مذہب کے لحاظ سے نہیں آتے لیکن یہ تمام اختلافات اُن امور میں نہیں ہیں جو کتاب و سنت کے صریح احکام کی رو سے ربوٰ کے حکم میں داخل ہیں بلکہ ان کا تعلق صرف مشتبہات سے ہے اور ایسے امور سے ہے جو حلال و حرام کی درمیانی سرحد پر واقع ہیں۔ اب اگر کوئی شخص ان اختلافی مسائل کو حجت بنا کر ان معاملات میں شریعت کے احکام کو مشتبہ ٹھہرانے کی کوشش کرے جن کے سود ہونے پر نصوص صریحہ وارد ہو چکی ہیں اور اس طریق استدلال سے رخصتوں اور حیلوں کا دروازہ کھولے اور پھر ان دروازوں سے بھی گزر کر امت کو سرمایہ داری کے راستوں پر چلنے کی ترغیب دے وہ خواہ اپنی جگہ نیک نیت اور خیر خواہ ہی کیوں نہ ہو‘ حقیقت میں اس کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جنہوں نے کتاب و سنت کو چھوڑ کر ظنو تخمین کی پیروی کی‘ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔

جانوروں کے مبادلہ میں تفاضل

اس سلسلے میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ہم جنس اشیا کے مبادلہ میں تفاضل کی ممانعت کا جو حکم دیا گیا ہے اس سے جانور مستنثیٰ ایک ہی جنس کے جانوروں کا مبادلہ ایک دوسرے کے ساتھ تفاضل کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا ہے اور آپؐ کے بعد صحابہؓ نے بھی کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جانور اور جانور میں قدر و قیمت کے اعتبار سے بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ مثلاً ایک معمولی قسم کا گھوڑا اور ایک اعلیٰ نسل کا گھوڑا جو ریس میں دوڑایا جاتا ہے یا ایک عام کتا اور ایک اعلیٰ قسم کا کتا۔ ان کی قیمتوں میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ ایک جانور کا تبادلہ اسی جنس کے سو جانوروں سے بھی کیا جاسکتا ہے۔

معاشی قوانین کی تدوین ِ جدید اور اُس کے اصول

ہم تسلیم کرتے ہیں کہ زمانے کے حالات بدل چکے ہیں۔ دنیا کے تمدنی اور معاشی احوال میں بہت بڑا انقلاب رونما ہوچکاہے اور اس انقلاب نے مالی اور تجارتی معاملات کی صورت کچھ سے کچھ کر دی ہے۔ ایسے حالات میں وہ اجتہادی قوانین جو اسلام کے ابتدائی دور میں حجاز‘ عراق‘ شام اور مصر کے معاشی و تمدنی حالات کو ملحوظ رکھ کر مدون کیے گئے تھے‘ مسلمانوں کی موجودہ ضرورتوں کے لیے کافی نہیں ہیں۔ فقہائے کرام نے اس دور میں احکام شریعت کی جو تعبیر کی تھی وہ معاملات کی ان صورتوں کے لیے تھی جو ان کے گردوپیش کی دنیا میں پائی جاتی تھیں۔ مگر اب ان میں سے بہت سی صورتیں باقی نہیں رہی ہیں اور بہت سی دوسری صورتیں ایسی پیدا ہوگئی ہیں جو اس وقت موجود نہ تھیں۔ اس لیے بیع و شرا اور مالیات و معاشیات کے متعلق جو قوانین ہماری فقہ کی قدیم کتابوںمیں پائے جاتے ہیں ان پر بہت کچھ اضافے کی اب یقینا ضرورت ہے۔ پس اختلاف اس امر میں نہیں ہے کہ معاشی اور مالی معاملات کے لیے قانونِ اسلامی کی تدوین جدید ہونی چاہیے یا نہیں بلکہ اس امر میں ہے کہ تدوین کس طرز پر ہو؟

تجدید سے پہلے تفکر کی ضرورت

ہمارے جدت پسند حضرات نے جو طریقہ اختیار کیا ہے اگر اس کا اتباع کیا جائے اور ان کی اہواء کے مطابق احکام کی تدوین کی جائے تو یہ دراصل اسلامی شریعت کے احکام کی تدوین نہ ہوگی بلکہ ان کی تحریف ہوگی اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم درحقیقت اپنی معاشی زندگی میں اسلام سے مرتد ہو رہے ہیں اس لیے کہ وہ طریقہ جس کی طرف یہ حضرات ہماری رہنمائی کر رہے ہیں‘ اپنے مقاصد اور نظریات اور اصول و مبادی میں اسلامی طریقہ سے کلّی منافات رکھتے ہیں۔ ان کا مقصود محض کسبِ مال ہے اور اسلام کا مقصودِ اکلِ حلال۔ ان کا منتہائےمال یہ ہے کہ انسان لکھ پتی اور کروڑ پتی بنے‘ عام اس سے کہ جائز ذرائع سے بنے یا ناجائز ذرائع سے۔ مگر اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسان جو کچھ کمائے جائز طریقے سے اور دوسروں کی حق تلفی کیے بغیر کمائے‘ خواہ لکھ پتی بن سکے یا نہ بن سکے۔ یہ لوگ کامیاب اس کو سمجھتے ہیں جس نے دولت حاصل کی‘ زیادہ سے زیادہ معاشی وسائل پر قابو پایا اور ان کے ذریعے سے آسائش‘ عزت‘ طاقت اور نفوذ و اثر کا ملک ہوا۔ خواہ یہ کامیابی اس نے کتنی ہی خود غرضی‘ ظلم‘ شقاوت‘ جھوٹ‘ فریب اور بے حیائی سے حاصل کی ہو‘ اس کے لیے اپنے دوسرے انبائے نوع کے حقوق پر کتنے ہی ڈاکے ڈالے ہوں اور اپنے ذاتی مفاد کے لیے دنیا میں شر و فساد‘ بد اخلاقی اور فواحش پھیلانے اور نوع انسانی کو مادّی‘ اخلاق اور روحانی ہلاکت کی طرف دھکیلنے میں ذرّہ برابر دریغ نہ کیا ہو۔لیکن اسلام کی نگاہ میں کامیاب وہ ہے جس نے صداقت‘ امانت‘ نیک نیتی اور دوسروں کے حقوق و مفاد کی پوری نگہداشت کے ساتھ کسبِ معاش کی جدوجہد کی۔ اگر اس طرح کی جدوجہد میں کروڑ پتی بن گیا تو یہ اللہ کا انعام ہے۔ لیکن اگر اس کو تمام عمر صرف قوتِ لایموت ہی پر زندگی بسر کرنی پڑی ہو اور اس کو پہننے کے لیے پیوند لگے کپڑوں اور رہنے کے لیے ایک ٹوٹی ہوئی جھونپڑی سے زیادہ کچھ نصیب نہ ہوا ہو تب بھی وہ ناکام نہیں۔ نقطۂ نظر کا یہ اختلاف ان لوگوں کو اسلام کے بالکل مخالف ایک دوسرے راستے کی طرف لے جاتا ہے جو خالص سرمایہ داری کا راستہ ہے۔ اس راستے پر چلنے کے لیے ان کو جن آسانیوں اور رخصتوں اور اباحتوں کی ضرورت ہے وہ اسلام میں کسی طرح نہیں مل سکتیں۔ اسلام کے اصول اور احکام کو کھینچ تان کر خواہ کتنا ہی پھیلا دیجیے مگر یہ کیونکر ممکن ہے کہ جس مقصد کے لیے یہ اصول اور احکام وضع ہی نہیں کیے گئے ہیں اس کی تحصیل کے لیے ان سے کوئی ضابطہ اور دستور العمل اخذ کیا جاسکے۔ پس جو شخص اس راستے پر جانا چاہتا ہو اس کے لیے تو بہتر یہی ہے کہ وہ دنیا کو اور خود اپنے نفس کو دھوکا دینا چھوڑ دے اور اچھی طرح سمجھ لے کہ سرمایہ داری کے راستے پر چلنے کے لیے اس کو اسلام کے بجائے صرف مغربی یورپ اور اور امریکا ہی کے معاشی اور مالی اصول و احکام کا اتباع کرنا پڑے گا۔
رہے وہ لوگ جو مسلمان ہیں اور مسلمان رہنا چاہتے ہیں‘ قرآن اور طریق محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنی عملی زندگی میں اسی کا اتباع کرنا ضروری سمجھتے ہیں تو ان کو ایک جدید ضابطۂ احکام کی ضرورت دراصل اس لیے نہیں ہے کہ وہ نظام سرمایہ داری کے ادارت سے فائدہ اٹھا سکیں یا ان کے لیے قانون اسلامی میں ایسی سہولتیں پیدا کی جائیں جن سے وہ کروڑ پتی‘ تاجر‘ ساہوکار اور کارخانہ دار بن سکیں‘ بلکہ ان کو ایسے ایک ضابطہ کی ضرورت صرف اس لیے ہے کہ وہ جدید زمانے کے معاشی حالات اور مالی و تجارتی معاملات میں اپنے طرز عمل کو اسلام کے صحیح اصولوں پر ڈھال سکیں اور اپنے لین دین میں ان طریقوں سے بچ سکیں جو خدا کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہیں اور جہاں دوسری قوموں کے ساتھ معاملات کرنے میں ان کو حقیقی مجبوریاں پیش آئیں۔ وہاں ان رخصتوں سے فائدہ اٹھا سکیں جو اسلامی شریعت کے دائرے میں ایسے حالات کے لیے نکل سکتی ہیں اس غرض کے لیے قانون کی تدوین جدید بلا شبہ ضروری ہے اور علمائے اسلام کا فرض ہے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کی سعی بلیغ کریں۔

اسلامی قانون میں تجدید کی ضرورت

اسلامی قانون کوئی ساکن اور منجمد (Static) قانون نہیں ہے کہ ایک خاص زمانہ اور خاص حالات کے لیے اس کو جس صورت پر مدوّن کیا گیا ہو اسی صورت پر وہ ہمیشہ قائم رہے اور زمانہ اور حالات و مقامات کے بدل جانے پر بھی اس صورت میں کوئی تغیر نہ کیا جاسکے۔ جو لوگ اس قانون کو ایسا سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ وہ اسلامی قانون کی روح ہی کو نہیں سمجھتے۔ اسلام میں دراصل شریعت کی بنیاد حکمت اور عدل پر رکھی گئی ہے۔ تشریح (قانون سازی) کا اصل مقصد بندگانِ خدا کے معاملات اور تعلقات کی تنظیم اس طور پر کرنا ہے کہ ان کے درمیان مزاحمت اور مقابلہ (Competition) کے بجائے تعاون اور ہمدردانہ اشتراکِ عمل ہو‘ ایک دوسرے کے متعلق ان کے فرائض اور حقوق ٹھیک ٹھیک انصاف اور توازن کے ساتھ مقرر کر دیے جائیں اور اجتماعی زندگی میں ہر شخص کو نہ صرف اپنی استعداد کے مطابق ترقی کرنے کے پورے مواقع ملیں بلکہ وہ دوسروں کی شخصیت کے نشوونما میں بھی مددگار ہو یا کم از کم ان کی ترقی میں مانع و مزاحم بن کر موجبِ فساد نہ بن جائے۔ اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے فطرتِ انسانی اور حقائق اشیا کے اس علم کی بنا پر جو اس کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے زندگی کے ہر شعبہ میں چند ہدایات کو عملی زندگی میں نافذ کرکے ہمارے سامنے ایک نمونہ پیش کر دیا ہے۔ یہ ہدایات اگرچہ ایک خاص زمانے اور خاص حالات میں دی گئی تھیں اور ان کو ایک خاص سوسائٹی کے اندر نافذ کرایا گیا تھا لیکن ان کے الفاظ سے اور ان طریقوں سے جو رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم نے ان کو عملی جامہ پہنانے میں اختیار فرمائے تھے‘ قانون کے چند ایسے وسیع اور ہمہ گیر اصول نکلتے ہیں جو ہر زمانے اور ہر حالت میں انسانی سوسائٹی کی عادلانہ تنظیم کے لیے یکساں مفید اور قابلِ عمل ہیں۔ اسلام میں جو چیز اٹل اور ناقابل تغیر و تبدل ہے وہ یہی اصول ہیں۔ اب ہر زمانہ کے مجتہدین کا کام ہے کہ عملی زندگی میں جیسے جیسے حالات اور حوادث پیش آتے جائیں ان کے لیے شریعت کے اصولوں سے احکام نکالتے چلے جائیں اور معاملات میں ان کو اس طور پر نافذ کریں کہ شارع کا اصل مقصود پورا ہو۔ شریعت کے اصول جس طرح غیر متبدل ہیں اس طرح وہ قوانین غیر متبدل نہیں ہیں جن کو انسانوں نے ان اصولوں سے اخذ کیا ہے کیوں کہ وہ اصول خدا نے بنائے ہیں اور یہ قوانین انسانوں نے مرتب کیے ہیں‘ وہ تمام ازمنہ و امکنہ اور احوال و حوادث کے لیے ہیں اور یہ خاص حالات اور خاص حوادث کے لیے۔
(جاری ہے)

حصہ