خلیفہ اوّل ابوبکر صدیق ؓ۔

حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ وہ پہلے انسان ہیں، جنھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھا اور آپﷺ کے ایسے ساتھی بنے کہ نبی کے بعد جس ہستی کا تصور ذہنوں میں آتا ہے، وہ آپ ہی کی ہستی ہے۔ آپ کا قبولِ اسلام بھی غیبی اشارہ تھا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ربیعہ بن کعبؓ فرماتے ہیں: حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسلام آسمانی وحی کی مانند تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ: اسلام سے قبل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار علاقے کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ تجارت کے سلسلے میں آپؓ ملک شام تشریف لے گئے۔ یہاں قیام کے دوران ایک رات آپ ؓنے خواب دیکھا کہ چاند اور سورج آسمان سے نیچے اتر آئے ہیں اور آپ کی گود میں داخل ہوگئے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے ایک ہاتھ سے چاند اور ایک ہاتھ سے سورج کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور انھیں اپنی چادر میں چھپا لیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ بیدار ہوئے تو اس عجیب و غریب خواب کی تعبیر پوچھنے کے لیے قریب ہی ایک راہب کے پاس تشریف لے گئے۔ اس راہب نے سارا خواب سن کر آپؓ سے پوچھا: تم کہاں سے آئے ہو؟ آپ ؓ نے فرمایا: مکہ سے۔ اس نے پھر پوچھا: کون سے قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ فرمایا: قریش سے۔ اس نے پوچھا: کیا کرتے ہو؟ فرمایا: تاجر ہوں۔ وہ راہب کہنے لگا: اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے خواب کو سچافرمادیا تو تمہاری قوم میں ہی ایک نبی مبعوث فرمائے گا، اس کی زندگی میں تم اس کے وزیر ہوگے اور وصال کے بعد اس کے جانشین۔حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓنے اس واقعے کو پوشیدہ رکھااور کسی کو نہ بتایا، اور جب سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو آپؓ نے یہی واقعہ بطورِ دلیل ان کے سامنے پیش کیا۔ یہ سنتے ہی آپؓنے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گلے لگالیا اور پیشانی چومتے ہوئے کہا: میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔(ریاض النضرۃ:جلداول،صفحہ:183)۔
آپؓ اپنے نام عبداللہ سے زیادہ’’صدیق‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے، اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے اُم المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں: جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد ِحرام سے مسجد ِاقصیٰ کی سیر کرائی گئی،تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری صبح لوگوں کے سامنے اس مکمل واقعہے کو بیان فرمایا، مشرکین دوڑتے ہوئے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے:کیا آپ اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں جو آپ کے دوست نے کہی ہے کہ انہوں نے راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کی؟آپؓنے فرمایا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واقعی یہ بیان فرمایا ہے؟انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپؓنے فرمایا:اگرحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے، تو یقیناً سچ فرمایا ہے اور میں ان کی اس بات کی بلا جھجک تصدیق کرتا ہوں۔انھوں نے کہا: کیا آپ اس حیران کن بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ آج رات بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آگئے؟آپ ؓنے فرمایا:جی ہاں! میں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آسمانی خبروں کی بھی صبح و شام تصدیق کرتا ہوں اور یقیناً وہ تو اس بات سے بھی زیادہ حیران کن اور تعجب والی بات ہے(مستدرک حاکم،حدیث نمبر:4515)۔ اس واقعے کے بعد آپؓ صدیق کے لقب سے مشہور ہوگئے۔(مستدرک حاکم)۔
آپؓ کاایک لقب عتیق بھی ہے،بمعنی جہنم کی آگ سے آزاد۔حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم اللہ رب العزت کی طرف سے آگ سے آزاد ہو۔ اس دن سے آپؓ کالقب ’’عتیق ‘‘پڑ گیا۔(ابن حبان)۔

حضرت صدیق اکبرؓ اپنی نرم دلی،رقتِ قلبی اور تحمل مزاجی کے حوالے سے عالم گیر شہرت رکھتے ہیں،لیکن یہ نرم دلی،رقت ِقلبی اور تحمل بھی شریعت کے تابع تھا،کوئی خلاف ِشریعت کام دیکھتے،توان سے زیادہ جلال وغیرت والا بھی کوئی نظر نہ آتا تھا۔اقبالؒ کے لفظوں میں

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

چناں چہ کفار کے ایک مذہبی پیشوا فنحاص بن عازوراء نے اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کی،تو صدیقؓ نے اس زور سے تھپڑ رسید کیاکہ وہ گرگیا،حالاں کہ اس وقت آپ ؓ اُس کے ادارے بیت المدارس میں تشریف فرما تھے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے والد ابوقحافہ نے (قبول ِاسلام سے پہلے)ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات کہہ دیے، تو حضرت سیدنا ابوبکرؓ نے انہیں اتنے زور سے دھکا دیا کہ وہ دور جاگرے۔ بعد میں آپؓ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سارا ماجرا سنایا،تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: اے ابوبکرؓ! کیا واقعی تم نے ایسا کیا؟ عرض کیا: جی ہاں! فرمایا: آئندہ ایسا نہ کرنا۔ عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اگر اس وقت میرے پاس تلوار ہوتی تو میں ان کا سرقلم کردیتا۔ اسی وقت آپ کے حق میں سورۃالمجادلہ کی آیت نمبر22 نازل ہوئی۔(تفسیر روح المعانی)۔
اسی طرح آپؓکے بیٹے عبدالرحمٰن بن ابوبکرؓ،جب وہ اسلام لے آئے تو ایک روز حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ سے کہنے لگے: ابا جان! میدانِ بدر میں ایک موقع پر آپ میری تلوار کی زد میں آئے لیکن میں نے آپ کو باپ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ یہ سن کر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے غیرتِ ایمانی سے بھرپور جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:لیکن اگر تُو میرا ہدف بنتا تو میں تجھ سے اعراض نہ کرتا۔یعنی میں کبھی یہ نہ دیکھتا کہ تُو میرا بیٹا ہے، بلکہ اُس وقت تجھے دشمن ِرسول سمجھ کر تیری گردن اڑادیتا۔(نوادرالاصول، امام ترمذی، الرقم:710، 1:496)۔
آپؓجب اسلام میں داخل ہوئے تو آپؓ کے پاس گھر میں چالیس ہزار درہم موجود تھے، لیکن جب آپؓ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے لیے نکلے تو اُس وقت آپؓ کے پاس صرف پانچ ہزاردرہم رہ گئے تھے، آپ ؓنے یہ کثیر رقم غلاموں کو آزاد کرانے اور اسلام کی خدمت پر خرچ کر دی۔(ابن عساکر)۔
عبد اللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ابوبکر صدیق ؓ اس حال میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے عبا پہنی ہوئی تھی جس کو اپنے سینے پر لکڑی کے ٹکڑے، جس سے سوراخ کیا جاتا ہے،سے جوڑا ہوا تھا، اُس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا : اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ ابوبکر ؓنے عبا پہن کر اسے اپنے سینے پر ٹانکا ہوا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے جبرئیل ؑ! انھوں نے اپنا سارا مال مجھ پر خرچ کر ڈالا ہے۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : اللہ رب العزت آپ کو سلام فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ ابوبکر ؓ سے کہیں، کیا تُو اپنے اِس فقر میں مجھ سے راضی ہے؟ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابوبکرؓ!اللہ رب العزت تم پر سلام فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں، کیا تم اپنے اس فقر میں مجھ سے راضی ہو ؟ ابوبکرؓنے عرض کی: میں اپنے ربِ کریم پر ناراض ہوں گا؟ میں تو اپنے رب سے(ہر حال میں)راضی ہوں۔یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا۔(تفسیرابن کثیر)۔
حضرت زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا : میں نے حضرت عمرؓ بن الخطاب کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اس حکم کی تعمیل کے لیے میرے پاس مال تھا۔ میں نے کہا، اگر میں ابوبکر صدیقؓ سے کبھی سبقت لے جا سکتا ہوں،تو آج سبقت لے جاؤں گا۔فرماتے ہیں کہ میں اپنا نصف مال لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ ا؟ میں نے عرض کی : اتنا ہی مال اُن کے لیے چھوڑ آیا ہوں۔ اتنے میںحضرت ابوبکرؓ، جو کچھ ان کے پاس تھا وہ سب لے کر حاضرِخدمت ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکرؓ ! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کی : میں ان کے لیے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ آیا ہوں۔ (ترمذی۔مسندبزار) شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال ؒ نے اس بات کوبڑے خوب صورت انداز میں شعر کا روپ دیا ہے،کہتے ہیں:۔

پروانے کو چراغ تو بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس

یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی کے مال نے کبھی مجھے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے دیا۔(ترمذی)۔
 حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرضِ وصال میں باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سرِانور کپڑے سے لپیٹا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبرِ مبارک پر جلوہ افروز ہوئے، اللہ رب العزت کی حمد و ثنا بیان کی، پھر ارشاد فرمایا : ابوبکرؓ ابن ابی قحافہؓ سے بڑھ کر اپنی جان و مال قربان کرنے کے اعتبار سے مجھ پر زیادہ احسان کرنے والا کوئی نہیں(صحیح بخاری)۔حضرت سہل بن سعدؓ روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ابوبکرؓسے محبت اور ان کا شکر ادا کرنا میری امت پر واجب ہے۔
صحابہ کرام ؓبیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکرؓ کے مال میں اسی طرح تصرف فرماتے تھے جس طرح اپنے ذاتی مال میں۔(فیض القدیر)۔
سیدنا صدیق اکبرؓ کو اپنی حیاتِ طیبہ میں سترہ نمازوں کا امام بنا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی خلافت کا عملی اعلان فرمادیا تھا،سو وصال نبوی کے بعد صحابہ ؓ نے آپؓ کے دستِ حق پرست پربیعتِ خلافت فرمائی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا سے تشریف لے جانا تھا کہ پورے عرب میں یکایک بغاوت کا طوفان اس زور سے اٹھا کہ اسلام کی عمارت کے درو دیوار ہل کررہ گئے۔ تاریخ طبری میں ہے: مسلمانوں کی حالت اُس وقت اُس بکری کی سی تھی،جو موسم سرما کی بار ش والی رات میں کھڑی ہو۔ جو لوگ مرتد، باغی یا مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہوئے، یہ زیادہ تر وہ نو مسلم تھے جنہوں نے کسی لالچ یا دبائو میں آ کر اسلام قبول کیا تھا،لیکن ابھی اسلام اُن کے دلوں میں راسخ نہیں ہوا تھا۔جب اسلام کا جھنڈا بلند ہوا اور پے در پے فتوحات کے باعث اس کے قدم حجاز میں جب مضبوطی سے جم گئے اور مدینہ میں ایک بااقتدار اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آ گیا تو ایران و روم کو اپنی فکر ہوئی۔ اس لیے انہوں نے اُن عرب قبائل کو جو اُن کے دستِ نگر اور احسان مند تھے، اسلام کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا، اور آخر کار انہیں بغاوت پر آمادہ کر لیا۔ غزوئہ موتہ کا اہتمام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی لوگوں کی سرکوبی کے لیے کیا تھا۔ ابھی اس مہم کا اصل مقصد حاصل نہیں ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں کا جو لاوہ اندر ہی اندر پک رہا تھا، بغاوت کے آتش فشاں کی شکل میں اچانک پھٹ پڑا۔ اس فتنے کی آگ کو بجھانے کے لیے عزم کی ضرورت تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ لشکرِ اسامہ کے منتظر تھے۔ جونہی لشکر فاتحانہ واپس آیا،آپؓ نے سرکش قبائل کی سرکوبی کے لیے گیارہ دستے بنائے جو درج ذیل ہیں:۔
1… امیر لشکر حضرت خالدؓ بن ولید کو طلیحہ کی سرکوبی کے بعد مالک بن نویرہ کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔
2 …حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل کومسیلمہ کذاب کے خلاف بھیجا۔
3… حضرت شرحبیل بن حسنہؓ کو حضرت عکرمہؓ کی امداد اور اس کے بعد حضرموت کے مر تدین کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔
4 …حضرت عمروؓ بن العاص کو مرتدین کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔
5…حضرت خالدؓ بن العاص کو سرحد شام کے مرتدین کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔
6 …حضرت حذیفہؓ بن محصن کو مرتدین ربا کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔
7… حضرت طریفہ ؓبن حاطر کو بنو مسلم اور بنو ہوازن کے مرتدین کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔
8 …حضرت مریدؓ بن مقون کو اہلِ تہامہ یمن کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔
9…حضرت علا ء حضرمیؓ کو بحرین کے مرتدین کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔
10…حضرت عرفجہ ؓ بن ہرتمہ کو مہرہ کے مرتدین کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔
11… حضرت مہاجر بن امیہ کو اسود عنسی کے پیرووں کی سرکوبی پر مامور کیا گیا۔ان لشکروں کی روانگی سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق ؓنے قاصدوں کے ذریعے ایک عام اعلان تمام مرتد قبائل کی طرف بھیج دیا، جس میں ان سے وعدہ کیا گیا تھا : اگر وہ سرکشی سے باز آ جائیں اور احکامِ اسلام کی پابندی اختیار کریں، تو ان سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح ہر سپہ سالار کو جاتے وقت اس کے متعلق مختلف ہدایات دیں۔ مدینہ منورہ میں تین دن اور تین راتین ایسی گزریں کہ عورتوں اور بچوں کے سوا کوئی مرد شہر میں موجود نہ تھا۔ اللہ پاک نے حضراتِ صحابہ کرام ؓ کی اس قربانی کو قبول فرما کر مخالف فضا کو اسلام کے حق میں ہموار کردیا اور لوگوں کے لیے ہدایت کے عمومی فیصلے فرما دئیے۔ (پچاس صحابہؓ، از طالب ہاشمی)۔
خلیفہ بننے کے باوجود سیدنا صدیق اکبرؓ کے معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔بیعت ِخلافت کے دوسرے روز کاواقعہ ہے کہ آپ ؓ کچھ چادریں لے کر بازار جارہے تھے، حضرت عمر فاروقؓ نے دریافت کیا : آپؓ کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟ فرمایا: تجارت کرنے کے لیے بازار جارہا ہوں۔ حضرت سیدنا عمر فاروق ؓ نے عرض کیا: اب آپؓ یہ کام چھوڑ دیجیے، اب آپؓ لوگوں کے خلیفہ ہوگئے ہیں۔ یہ سن کر آپؓنے فرمایا: اگر میں یہ کام چھوڑ دوں تو پھر میرے اہل و عیال کہاں سے کھائیں گے؟ حضرت سیدنا عمر فاروقؓ نے عرض کیا: آپؓ واپس چلیے، اب آپؓکے یہ اخراجات بیت المال کے ناظم طے کریں گے۔ پھر یہ دونوں حضرات حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ کے پاس تشریف لائے اور ان سے حضرت سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا: آپ،خلیفہ اور ان کے اہل و عیال کے واسطے ایک اوسط درجے کے مہاجر کی خوراک کا اندازہ کرکے روزانہ کی خوراک اور موسم گرما و سرما کا لباس مقرر کیجیے، لیکن اس طرح کہ جب پھٹ جائے تو واپس لے کر اس کے عوض نیا دے دیا جائے۔ چنانچہ انھوںنے سیدنا صدیق اکبرؓ کے لیے آدھی بکری کا گوشت، لباس اور روٹی مقرر کردی(تاریخ الخلفاء، امام سیوطی، ص59)۔ یہ واقعہ بھی مشہور ہے کہ اسی وظیفے میں سے کچھ بچاکر جب اہلیہ محترمہ نے حلوہ بنایا،تواتنی مقدار وظیفے میں سے کم کرادی کہ یہ ہماری ضروریات سے زائد ہے۔
حضرت حسن ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓسے فرمایا: دیکھو! یہ اونٹنی جس کا ہم دودھ پیتے ہیں اور یہ بڑا پیالہ جس میں کھاتے پیتے ہیں اور یہ چادر جو میں اوڑھے ہوئے ہوں یہ سب بیت المال سے لیا گیا ہے۔ ہم ان سے اسی وقت تک نفع اٹھاسکتے ہیں جب تک میں مسلمانوں کے امورِ خلافت انجام دیتا رہوں گا۔ جس وقت میں وفات پاجائوں تو یہ تمام سامان عمرؓ کو دے دینا۔ چنانچہ جب آپؓ کا انتقال ہوگیا تو اُم المومنین ؓنے یہ تمام چیزیں حسبِ وصیت واپس کردیں (تاریخ الخلفا، امام سیوطی، ص60)۔ حضرت عمرؓ یہ دیکھ کر رو پڑے اور روتے روتے فرمایا: ابو بکرؓ پر اللہ کی رحمتیں ہوں، انہوں نے اپنے بعد والوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔(صفۃ الصفوۃ:ابن الجوزی 265،جلداول)۔
حضرت سیدنا عمر فاروقؓرات کے وقت مدینہ منورہ کے کسی محلے میں رہنے والی ایک نابینا بوڑھی عورت کے گھریلو کام کاج کردیا کرتے تھے۔ آپؓ اس کے لیے پانی بھرکر لاتے اور اس کے تمام کام سرانجام دیتے۔ حسب معمول ایک مرتبہ بڑھیا کے گھر آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سارے کام ان سے پہلے ہی کوئی کرگیا تھا۔ بہر حال دوسرے دن تھوڑا جلدی آئے، تو بھی وہی صورت حال تھی کہ سب کام پہلے ہی ہوچکے تھے۔ جب دو تین دن ایسا ہوا تو آپ کو بہت تشویش ہوئی کہ ایسا کون ہے، جو مجھ سے نیکیوں میں سبقت لے جاتا ہے؟ ایک روز آپ دن میں ہی آکر کہیں چھپ گئے، جب رات ہوئی تو دیکھا کہ خلیفۂ وقت امیرالمومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ تشریف لائے اور اس نابینا بڑھیا کے سارے کام کردیئے۔عمر ؓ بڑے حیران ہوئے کہ خلیفہ وقت ہونے کے باوجود آپ اس بوڑھی خاتون کے تمام امور خوش دلی سے انجام دے رہے ہیں۔ ارشاد فرمایا: ابوبکر( صدیقؓ )سے نیکیوں میں کوئی نہیں بڑھ سکتا۔(کنزالعمال، کتاب الفضائل، الرقم: 35602)۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : سیدنا ابوبکر ؓکی بیماری کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ انہوں نے سخت سردی والے دن غسل کیا تو انہیں بخار ہوگیا جو پندرہ دن تک جاری رہا۔ بیماری کی شدت کے باعث آپ ان دنوں مسجد نہ جا سکتے تھے، اس لیے سیدنا عمرؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دیتے تھے۔ صحابہ کرامؓ آپ کی تیمارداری کرنے آتے تھے۔ جب ان کی بیماری شدید ہوگئی تو ان سے عرض کیا گیا: ہم آپ کے لیے طبیب بلائیں؟ تو فرمایا: طبیب نے مجھے دیکھ لیا ہے اور وہ کہتا ہے بیشک میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں (ترتیب و تہذیب:ص 33)۔ سیدنا ابوبکر کا مرض پندرہ دن جاری رہا، حتیٰ کہ جب 13 ہجری 22 جمادی الثانی کو پیر کا دن ہوا، تو انہوں نے مجھ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس دن رحلت فرمائی تھی؟ میں نے جواب دیا پیر کے دن، تو ابوبکر نے فرمایا:مجھے امید ہے کہ میں آج دن کو یا رات کو کسی وقت فوت ہوجاؤں گا(مسند احمدجلد6،132)۔ پھر پوچھا: تم لوگوں نے رسول اللہ کو کتنی چادروں میں کفن دیا تھا؟ میں نے جواب دیا: یمن کی دھاری دار تین چادروں میں۔ اس میں قمیص اور عمامہ نہیں تھا۔ سیدنا ابوبکر نے فرمایا: میری چادر میں زعفران یا گیرو کا نشان ہے، اسے دھو دینا اور دیگر دو چادریں ملا کر میرا کفن بنادینا۔ ان سے عرض کیا گیا: اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے، خوب احسان فرمایا ہے۔ ہم آپ کو نئی چادروں میں کفن دیں گے۔ انھوں نے فرمایا: زندہ شخص کو نئے لباس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے، جبکہ میت کا انجام تو گلنا سڑنا اور لباس کا بوسیدہ ہونا ہوتا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓنے سفرِ زندگی کے آخری دنوں میں حضرت علی ؓ کو بلا یا اور وصیت فرمائی کہ اے علی! جب میری وفات ہوجائے تو مجھے تم اپنے ہاتھوں سے غسل دینا ،کیوںکہ تم نے ان ہاتھوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا ہے، پھر مجھے میرے پرانے کپڑوں میں کفن دے کر اس حجرے کے سامنے رکھ دینا جس میں حضور ﷺ کا مزار ہے۔ اگر بغیر کنجیوں کے حجرے کا قفل خودبخود کھل جائے تو اندر دفن کردینا، ورنہ عام مسلمانوں کے قبرستان میں لے جا کر دفن کردینا۔ آپؓ کی وصیت کے مطابق آپؓ کے جنازے کو حجرے کے سامنے رکھ کر عرض کیا گیا:یارسول اللہ ﷺ! یہ آپ کے یارِ غار ابوبکررضی اللہ عنہ آپ کے دروازے پر حاضر ہیں اور ان کی تمنا ہے کہ انھیں آپؐ کے حجرے میں دفن کیا جائے۔ یہ سن کر حجرے کا دروازہ جو پہلے سے بند تھا، خودبخود کھل گیا اور آواز آئی: ’’حبیب کو حبیب سے ملا دو،کیونکہ حبیب کو حبیب سے ملنے کا اشتیاق ہے‘‘۔ جب حجرے سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دفن کرنے کی اجازت مل گئی، تو جنازے کو اندر لے جایا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر میں آپؓ کو دفن کردیا گیا۔(سیرت الصالحین )۔