اے کاشمیر!۔

483

تیری جنت میں آئیں گے ایک دن

ایسا لگتا ہے جیسے  ہم نے آنکھ کھولی تو اپنے آپ کو جہادِ کشمیر میں مصروفِ عمل پایا ہے۔ بچپن میں ہمارے نزدیک زندگی کا واحد مقصد مجاہدانہ زندگی گزارنا تھا۔ ہماری تربیت بھی ایسے ماحول میں ہوئی تھی کہ ہم اپنی شہہ رگ کے بارے میں ایک منفی جملہ برداشت نہ کرپاتے اور خوب روتے تھے۔ ہم اپنی الماریوں پر، کتابوں، کاپیوں، ڈائری پر ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کے اسٹیکر لگاکر خوش ہونے والے بچے تھے۔ ہمارے گھر جو رسائل آتے ان میں ”جہادِ کشمیر“،  ”مجاہد“، ”ساتھی“، ”نور“، ”ترجمان القرآن“ وغیرہ تھے، جن سے ہمارے جوان ہوتے جذبوں کو مزید مہمیز ملتی۔ ہم کشمیر میں مظالم اور بھارت کی ظالمانہ حاکمیت دیکھ کر خوب رو رو کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے تھے۔ پھر ہمارے محلے سے کچھ نوجوان لڑکے وادی کشمیر گئے۔ کچھ وہاں شہید ہوگئے، کچھ کو واپس آنا پڑا۔ اُس وقت ہم بہن بھائی فقط چند سال ہی کے تھے، لیکن میرے بھائیوں اور ان جیسے کچھ اور چھوٹے بچوں کا جذبہ قابلِ دید ہوا کرتا تھا۔ جب شہداء کے لواحقین کے لیے بڑے پروگرامات رکھے جاتے تو ان میں بھائی خوب دل سوزی سے ترانے پڑھتے۔ کبھی ہم بھی اتنے درد سے ترانے پڑھتے کہ سامعینِ محفل پر رقت طاری ہوجایا کرتی تھی۔ میرا ایک بھائی تو 3سال میں بمشکل پوری ایک روٹی اس لیے کھاتا کہ ایک مجاہد انکل نے اس سے کہا تھا کہ ”جب تک ایک روٹی نہیں کھاؤ گے جہاد پر نہیں جاسکتے“۔ اُس وقت بھی آئے روز کشمیریوں کی شہادتوں کی خبریں آتیں۔ کبھی کبھی تو مجاہدین ہمیں ملٹی میڈیا پر وہ سلائیڈز دکھایا کرتے جن میں دکھایا جاتا کہ بھارتی فوجی کس طرح دریاؤں میں کشمیریوں کی لاشیں بہادیتے ہیں۔ کتنے بہادر مجاہدین تھے جو اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے، اور صرف اللہ کے بھروسے پر ایل او سی عبور کرکے پاکستان آتے۔ اُس زمانے میں سلیم ناز بریلوی کے ترانے بہت مشہور تھے: میرے بھیا تجھ کو دعائیں دیتی ہے تیری بہنا، اے کاشمیر تیری جنت میں آئیں گے ایک دن، لہو کے قطرے، کشمیر جل رہا ہے، وادیِ سروچمن کشمیر، کشمیر کے شہیدو، ارضِ کشمیر سے آتی ہے یہ دل سوز صدا، کسی شب میں اچانک لوٹ آؤں گا، تیری وادی وادی گھوموںاور نجانے کتنے ایسے ترانےتھے جن کو سنتے، گنگناتے ہم بڑے ہوئے۔ لیکن افسوس ہمارے بڑوں کی اتنی کاوشوں، کوششوں اور محنتوں کے باوجود میرے کشمیر کو آزادی نہ مل سکی۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر منیر اکرم ڈان نیوز میں کشمیر کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں لکھتے ہیں:
”مقبوضہ جموں و کشمیر میں جنگ لڑتے بھارت کو 70 برس بیت چکے ہیں۔ اس جنگ کو 7 لاکھ بھارتی فوجی لڑتے چلے آرہے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ سوویت یونین یا امریکی و نیٹو فورسز نے افغانستان میں اگر اب تک سب سے بھاری فوج تعینات کی ہے تو وادی کشمیر میں اس سے 7 گنا زیادہ فوجی اہلکار تعینات ہیں۔ اسلام آباد میں اس خیال کو تقویت مل رہی ہے کہ بی جے پی کی جابرانہ حکمت عملی کا الٹا انہیں ہی نقصان اٹھانا ہوگا، کیونکہ مقامی کشمیریوں کی بغاوت میں ایک بار پھر جان آچکی ہے جسے زیر کرنا بہت ہی کٹھن ثابت ہوگا۔ اگر بھارت دھمکیوں تک محدود رہتا ہے یا پھر طاقت کا استعمال کرتا ہے تو پاکستان میں یہ تازہ دم اعتماد موجود ہے کہ یہ دہلی کو، اگر ضرورت پڑی تو قابلِ اعتماد ایٹمی مزاحمت سے بھی بے اثر بنا سکتا ہے۔ بھارت کا ایک عرصے سے جاری کشمیر پر قبضہ ممکن ہے کہ جلد افغان جنگ جیسی دلدل میں بدل جائے، جو بھارت کی مسلح افواج کا اعتماد توڑ کر رکھ دے گا، سیاسی تقسیم جنم لے گی اور معیشت کو ڈبو دے گی۔ ماضی کی کالونیل طاقتوں کی ہی طرح بھارت پُرعزم عوامی بغاوت کے خلاف اپنی کمزور ہوتی جنگ بالآخر ہار جائے گا۔ اس شکست میں 10 سے 20 برس لگ سکتے ہیں، لیکن مشہور ہندوکش کے پہاڑوں جیسے سخت عوام بالآخر ہندو بھارت کے سامراجی سپنوں کو نیست و نابود کردیں گے۔“
کشمیر برصغیر پاک و ہند کا شمال مغربی علاقہ ہے۔ تاریخی طور پر کشمیر وہ وادی ہے جو ہمالیہ اور پیر پنجال کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان میں واقع ہے۔ آج کل کشمیر بہت بڑے علاقے کو سمجھا جاتا ہے جس میں وادی کشمیر، جموں اور لداخ بھی شامل ہیں۔ پاکستانی کشمیر کے علاقے پونچھ، مظفرآباد، جموں کے علاوہ اس میں گلگت اور بلتستان کے علاقے شامل ہیں۔ گلگت اور بلتستان کو 1848ء میں کشمیر کے ڈوگرہ راجا نے فتح کیا تھا۔ اس سے پہلے یہ آزاد ریاستیں تھیں۔ پاکستان بنتے وقت یہ علاقے کشمیر میں شامل تھے۔ وادی کشمیر پہاڑوں کے دامن میں کئی دریاؤں سے زرخیز ہونے والی سرزمین ہے۔ یہ اپنے قدرتی حسن کے باعث زمین پر جنت تصور کی جاتی ہے۔ اس وقت یہ خطہ تنازعات کے باعث تین ممالک میں تقسیم ہے، جس میں پاکستان شمال مغربی علاقے (شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر)، بھارت وسطی اور مغربی علاقے (جموں و کشمیر اور لداخ) اور چین شمال مشرقی علاقوں (اقصائے چن اور بالائے قراقرم علاقہ) کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ بھارت سیاچن گلیشیر سمیت تمام بلند پہاڑوں پر، جبکہ پاکستان نسبتاً کم اونچے پہاڑوں پر قابض ہیں۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کی اہم ترین وجہ ہے، کیونکہ بھارت سارے کشمیر کے وسائل لوٹنا چاہتا ہے، جبکہ پاکستان کشمیر کو آزادی دلوانا چاہتا ہے۔ پاکستان پورے خطہ کشمیر کو متنازع سمجھتا ہے۔ جبکہ برصغیر کی تقسیم سے پہلے کشمیر ایک الگ آزاد و خودمختار ریاست تھی جس پر مہاراجا کی شخصی حکمرانی تھی، اور بھارت کا کہنا ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اور یہ متنازع علاقہ نہیں کیونکہ مہاراجا ہری سنگھ نے کشمیر کا بھارت سے الحاق کیا ہوا ہے۔ جبکہ الحاق مشروط طور پر کیا گیا تھا، اگر مہاراجا ایسا نہ کرتا تو بھارت اپنے قبائلیوں اور فوج کے ذریعے محب وطن کشمیریوں کو قتل اور عورتوں کی عزتیں لٹوا رہا تھا۔ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں جو مسئلہ کشمیر کو دنیا کے خطرناک ترین علاقائی تنازعات میں سے ایک شمار کرتی ہیں۔ دونوں ممالک کشمیر پر تین جنگیں لڑچکے ہیں جن میں 1947ء کی جنگ، 1965ء کی جنگ اور 1999ء کی کارگل جنگ شامل ہیں۔ 1971ء کی جنگ بنگال کی وجہ سے ہوئی تھی۔ بھارت اس وقت کشمیر کے سب سے زیادہ حصے یعنی 101387 مربع کلومیٹر پر جبکہ پاکستان 85846 اور چین 37555 مربع کلومیٹر پر قابض ہے۔
آئیے اب ہم ذرا بھارت کے نام نہاد آرٹیکل 370 پر بھی نظر دوڑائیں کہ آخر یہ آرٹیکل ہے کیا؟ بھارتی آئین کی دفعہ 370 ایک خصوصی دفعہ ہے جو ریاست جموں و کشمیر کو جداگانہ حیثیت دیتی ہے۔ یہ دفعہ ریاست جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتی ہے، جبکہ زیادہ تر امور میں وفاقی آئین کے نفاذ کو جموں و کشمیر میں ممنوع کرتی ہے۔ اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاع، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں متحدہ مرکزی حکومت مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔ دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے۔ بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست جموں وکشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔ اس دفعہ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے بہت سے بنیادی امور جن میں شہریوں کے لیے جائداد، شہریت اور بنیادی انسانی حقوق شامل ہیں، ان کے قوانین عام بھارتی قوانین سے مختلف ہیں۔ مہاراجا ہری سنگھ کے 1927ء کے باشندگانِ ریاست قانون کو بھی محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، چنانچہ بھارت کا کوئی بھی عام شہری ریاست جموں و کشمیر کے اندر جائداد نہیں خرید سکتا، یہ امر صرف بھارت کے عام شہریوں کی حد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بھارتی کارپوریشنز اور دیگر نجی اور سرکاری کمپنیاں بھی ریاست کے اندر بلا قانونی جواز جائداد حاصل نہیں کرسکتیں۔ اس قانون کے مطابق ریاست کے اندر رہائشی کالونیاں بنانے اور صنعتی کارخانے، ڈیم اور دیگر کارخانے لگانے کے لیے ریاستی اراضی پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی قسم کے تغیرات کے لیے ریاست کے نمائندگان کی مرضی حاصل کرنا ضروری ہے جو منتخب اسمبلی کی شکل میں موجود ہوتے ہیں۔ جبکہ آرٹیکل 35 اے ریاست جموں و کشمیر کے جداگانہ قومی و سیاسی تشخص کا مظہر اور ریاستی عوام کے معاشی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی مفادات کا محافظ ہے۔ یہ دفعہ بھارتی آئین میں موجود ہونے کے باوجود کشمیری اپنے ان حقوق سے بھی محروم ہیں۔ صدارتی حکم نامے کے اس آرٹیکل 35-A کے تحت ریاست جموں و کشمیر میں کوئی ایسا شخص جو ریاست کا مستقل باشندہ نہیں ہے وہ (1) ریاست میں کوئی غیرمنقولہ جائداد حاصل نہیں کر سکتا، (2) ریاست میں کوئی سرکاری ملازمت اختیار نہیں کر سکتا، اور (3) کسی ایسے پیشہ ورانہ ادارے میں داخلہ نہیں لے سکتا جسے ریاستی حکومت چلاتی ہے، اور نہ ہی ریاست کی طرف سے فراہم کردہ کوئی امداد یا وظیفہ حاصل کرسکتا ہے۔ یہ آرٹیکل نہ صرف ریاستی شہریوں کے لیے مخصوص حقوق و مراعات کا تعین کرتا ہے، بلکہ اس اصول کا بھی تعین کرتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے اندر ریاستی شہریوں کو حاصل ان حقوق و مراعات اور غیر ریاستی شہریوں کے مقابلے میں حاصل امتیازی درجے کو بھارتی آئین کی کسی اور شق کو بنیاد بناکر چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
ان تمام قوانین کے باوجود میری وادی کشمیر آج بھی لہو رنگ ہے۔ آج قاتلانہ کرفیو کو لگے کئی ماہ گزر چکے، لیکن دنیا اس کرب کو نہیں جان پائی تو میرے اللہ نے پوری دنیا کو کورونا وائرس کے خطرے سے دوچار کرکے لاک ڈاون میں مبتلا کردیا۔ اب پوری دنیا میں لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے، ہاتھ ملانے، گلے ملنے سے بھی کترانے لگے۔ ترقی یافتہ ممالک میں فرانس اور اٹلی ہو، یا برطانیہ و امریکہ کی ریاستیں۔۔۔ کینیڈا کے عوام ہوں یا آسٹریلین باشندے۔۔۔ سب ان اذیت ناک لمحات سے گزر رہے ہیں۔ یقیناً میرے رب کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ مظلوم کشمیر میں اس کرفیو کی وجہ سے وادی کے ہر فرد کا رابطہ  بیرونی دنیا سے بالکل منقطع ہے۔ میرے بھوک سے بلکتے معصوم اور مظلوم لوگ نہ جانے کس حال میں ہوں گے۔ میری ماؤں نے اپنے بھوک سے بلکتے سسکتے  بچوں کو کیا کہہ کر چپ کرایا ہوگا۔ میری بہنوں کی لٹتی عزتیں، میرے بھائیوں کے کٹے پھٹے جسم، میرے مرحومین کے بے گور و کفن لاشے ہم سے یہ فریاد کررہے ہیں کہ اے اللہ پاکستان سے کسی محمد بن قاسم کو بھیج، یااللہ طارق بن زیاد جیسا نڈر جرنیل عطا فرما جو کشتیاں جلا کر اپنی فوج کو حکم دے کہ یا تو شہید ہوجاؤ یا غالب، یااللہ اس قوم کی مدد فرما جو 70 سال سے زائد سے اپنا مقدمہ لڑرہی ہے۔ اسے شہہ رگ کہنے والے حکمران اس کے اوپر ظلم کرنے والوں سے جاملے ہیں۔ مگر اے ظلم و ستم سہنے والے وادی کشمیر کے مظلوم لوگو! ہم یہ بات بتادیں کہ ہم پاکستانی قوم کے دل آج بھی آپ کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ہماری آنکھیں آپ کے لیے ترستی ہیں۔ ہمارے دل آپ کی مظلومانہ شہادتوں پر چھلنی ہیں۔ ہماری گھڑیاں ہی نہیں ہماری ہر خوشی آپ سے منسلک ہے۔ وہ دن دور نہیں جب میری وادی آزادی کی بہاریں دیکھے گی، اِن شاء اللہ

حصہ