کشمیر، بھارتی کسان اور سوشل میڈیا پر طوفان

338

بات کہاں کی کہاں نکل گئی اور نکلتی جا رہی ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تبصرہ بھی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بھارت کی نفسیاتی کیفیت کا اندازہ اس ہفتے ہیجان خیزی، خوف، بزدلی اور شدت پسندی کی صورت پھر سامنے آیا۔ سب جانتے ہیںکہ چار ماہ سے بھارت میںکسانوں کا احتجاج بھر پور موضوع بنا ہوا ہے۔
بھارت دنیا کی ایک بڑی معیشت اور جمہوریت کہلاتا ہے‘ اس لیے اس بات کی اہمیت عالمی تناظرمیں بھی ہو جاتی ہے۔ اس احتجاج کی ایک خاص بات دارالحکومت تک پہنچنا ہے، عوام کے تحفظ کا نام دے کر دارالحکومت کا انٹرنیٹ سمیت بہت کچھ ڈسٹرب کر دیا گیا۔ اس احتجاج یا گزشتہ احتجاجوں کا مطلب یہ نہیں کہ کشمیر میں کچھ معاملہ نرم ہے‘ وہاں بدستور ان سب سے کہیں زیادہ ظلم جاری ہے۔ کسان ایشو پر بھارت کی سپریم کورٹ نے نئے زرعی قوانین کے نفاذ کوغیر معینہ مدت کے لیے روک کر احتجاج کرنے والے کسانوں اور حکومت سے بات چیت کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔
بھارت میں کسانوں کے ساتھ زیادتی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بھارت میں خصوصاً جنوب بھارتی فلم انڈسٹری میں اکثر اس موضوع پر فلمیں بنتی ہیں جو بہرحال پورے بھارت میں دیکھی جاتی ہیں اور کسانوں پر مختلف مظالم کا ابلاغ کرتی ہیں۔ اس کی شدت دہلی کے لال قلع پر سکھ خالصا تحریک کے و دیگر پرچموں کے لگنے کی تصاویر اور وڈیوز سوشل میڈیا پر بھر پور وائرل رہیں۔
موضوع کیا ہے؟ انتہا پسند بھارتی حکومت نے کورونا کی صورت حال کے باوجود اچانک اچانک سے 3 نئے زرعی قوانین منظور کر لیے جن کا تعلق زرعی اجناس کی قیمت، فروخت اور ذخیرہ کرنے کے قواعد کو نرم کرنے سے ہے اور نجی پارٹیوں کو منڈی سے باہر فصل خریدنے کی آزادی ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت بھارتی سرمایہ دار گروپوں انبانی اور ایڈوانی کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے اور زراعت کو کارپوریٹ گروپوں کے حوالے کر رہی ہے۔ کسان سمجھتے ہیں کہ بڑی کمپنیاں کسانوں کی مقررہ قیمت نہیں دیں گی جس کا نقصان وہ اگلی فصل تک برداشت کریں گے۔ اس احتجاج میں 20 سے زیادہ کسان تنظیمیں شامل ہیں اور 24 اپوزیشن جماعتیں بھی کسانوں کے مؤقف کی حمایت میں ہیں۔ مذاکرات کی کئی نشستوں کی ناکامی بتاتی ہے کہ نریندر مودی ابھی تک کسانوں کے خلاف اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ نئے قوانین کسانوں کو زیادہ آزادی دیں گے، ان کی اجناس کی اچھی مارکیٹنگ ہوسکے گی اور ریگولیٹری بندشیں دور ہوں گی۔
2018ء میں خودکشیوں سے تنگ آکرکسانوں نے قرضوں اور سود کے بوجھ سے نکلنے کے لیے دہلی کا رُخ کیا تھا۔ 20 سال میں 3 لاکھ کسان اپنی جانیں انہی بدترین حکومتی پالیسیوںکی وجہ سے ختم کرچکے ہیں۔ 2019 سے شہریت قانون پر جاری مسلمانوں کا سخت احتجاج تو کورونا لاک ڈائون لے بیٹھا۔ اب کسانوں کااحتجاج کب کیسے بیٹھے گا یہ دیکھنا ہے۔
اب اس میں تازہ تازہ یہ ہوا کہ سات سمندر پار براعظم شمالی امریکا کے ایک ملک بارباڈوس سے تعلق رکھنے والی فحش گلوکارہ روبن ریحا نہ فینٹی اچانک بیچ میں آگئیں۔ دیکھا دیکھی ٹرینڈ لسٹ اور سارے معیارات ہی بدل گئے۔ لاکھوں کسانوں کا احتجاج ایک (فحش )گلوکارہ کی 7 لفظی ٹوئیٹ پر بھڑک اٹھا۔ اب کیا معلوم خاتون نے خود ٹوئیٹ کی یا اُس کے ٹوئٹر ہینڈلر نے یا واقعی صورت حال دیکھ کر تبصرہ کیا۔ بس ایک ’نامعلوم‘ سوچ کے مطابق 7 لفظی ٹوئیٹ کر دی کہ ’’ہم اس پر کیوں بات نہیں کرتے؟‘‘ ساتھ ہی CNN میں شائع شدہ خبر ’’کسانوں کے احتجاج میں پولیس سے جھڑپ پر دہلی میں انٹرنیٹ کٹ گیا‘‘ کا لنک شیئر کردیا۔ اب اس ٹوئیٹ سے وہ اتنا مقبول ہو گئیں جتنا وہ اپنی گلوکارہ و کاروبار سے بھی نہیں ہوئی تھیں۔ ٹوئٹر پر خاتون کے 101 ملین یعنی دس کروڑ فالوورز ہیں جس میںکوئی 8 لاکھ تو اس ذومعنی ٹوئیٹ کو پسند کر بیٹھے‘ کوئی ساڑھے تین لاکھ اس کو من و عن ری ٹوئیٹ کر بیٹھے اور کوئی ڈیڑھ لاکھ کے قریب جواب دیتے رہے۔ مطلب 2 اور 3 فروری کو وہ بھارت کے لگ بھگ ڈیڑھ ارب کی آبادی کے ٹاپ ٹرینڈ میں رہیں۔ بات یہاں پر رکی نہیں‘ دو دن بعد چلتے چلتے پاکستان کی ٹاپ ٹرینڈ لسٹ حدود میں بھی موصوفہ پہنچ گئیں۔ اُدھر بھارت میں اس ٹوئیٹ پر کیا وزیر کیا مشیر کیا بالی ووڈ اسٹار سب ہی حب الوطنی کا جھنڈا لے کر کود پڑے تھے۔ پروپیگنڈے کا کمال دیکھیں کہ مذکورہ 7 الفاظ پر اتنا سخت ردعمل کہ ’گلوکارہ‘ کو آئی ایس آئی ایجنٹ قرار دے دیا گیا۔ دو شکار کے مصداق یہ سمجھانے کے لیے کہ بھارت میں کسانوں کا احتجاج، بھارت کو کمزور کرنے کے لیے پاکستان کروا رہا ہے اور مذکورہ گلوکارہ نے پاکستان کی حمایت میں ایسا ٹوئیٹ کیا ہے۔ بس پھر کیا تھا سوشل میڈیا بھی میدان جنگ ٹائپ کا منظر پیش کرنے لگا۔ پاکستان کو اس ایشو میں ڈالنے پر جوابی کارروائی کے لیے پاکستانی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ بھی ایکٹیو ہو گئے‘ گلوکارہ سمیت بھارتی کسانوں کے حق میں اور مودی و بھارتی حکومت کے خلاف مواد اگلنا شروع کر دیا۔ اس میں کچھ عقل مندوں نے 5 فروری قریب جان کر کشمیر میں بھارتی مظالم کو بھی موضوع بنا کر اچھا کام کیا کیوں کہ ٹرینڈ مستقل ٹاپ پر تھا۔ بھارتی جواب دے رہے تھے اور گلوکارہ کی وجہ سے امریکا و دیگر ممالک میں بھی بات پہنچ رہی تھی۔ بات پہنچنا اس لیے اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ یقین جانیے باہر کی دنیا خصوصاً ’لہو و لعب‘ یا دنیا بھر کی ’انٹرٹینمنٹ انڈسٹری‘ کو واقعی کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ ہاں ایسے مواقع پر اپنے سماجی میڈیا پر ایکٹیو رہنے سے کچھ نہ کچھ معلومات پہنچ جاتی ہیں۔ بہر حال بھارتی حکومت کے کہنے پر جن بالی ووڈ شخصیات نے احتیاطی ٹوئیٹ کی تھی وہ سب نشانے پر آگئے۔
یاد رہے کہ بھارتی اداکاروں نے صرف بھارت کی یکجہتی اور حکومتی مؤقف کی دبے لفظوں حمایت کی تھی، ’گلوکار ہ‘ کی جانب کوئی اشارہ نہیں دیا تھا۔ جبکہ بھارتی وزارت خارجہ نے گلوکارہ کے رد عمل کو غیر ذمہ دارانہ اور حساس قرار دیا تھا۔ میں نے کہا نا بات رکی نہیں۔ گلوکارہ تو 4 فروری تاک خاموش رہی البتہ سوئیڈن کی ایک 18سالہ ماحولیات کی ایکٹیوسٹ اور سماجی میڈیا پر کوئی 48 لاکھ فالوورز رکھنے والی ’گریٹا تھن برگ‘ میدان میں آگئی۔
3 فروری کی رات ایک بجے سی این این کی اسی خبر کے لنک کے ساتھ اپنی ٹوئیٹ میں ’’بھارتی کسانوں کے احتجاج سے باقاعدہ اظہار یکجہتی کر بیٹھی‘‘ رد عمل آیا تو 4 فروری کو دوبارہ ٹوئیٹ کر دی کہ
I still #StandWithFarmers and support their peaceful protest.No amount of hate, threats or violations of human rights will ever change that.
اب تو یہ ٹوئیٹ جا کر دل پر لگ گئی تو دہلی پولیس نے ’گریٹا تھن برگ‘ کے خلاف کیس رجسٹر کرلیا کہ بیرون ملک بیٹھ کر سازش اور گروپوں میں نفرت بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بھارت اس کیفیت سے نمٹ ہی رہا تھا کہ ایک اور لبنانی نژاد امریکی بدنام فحش اداکارہ ’’میا خلیفہ‘‘ نے بھی بھارت میں انسانی حقوق کے خلاف ایک نہیں دو دو ٹوئیٹ کر دی۔ اب اس عمل کی کیا تعبیر کی جائے کہ بھارت میں جاری کسانوں کے احتجاج پر ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بھارت کے خلاف ’’کون‘‘ کس طرح کے افراد بات کر رہے ہیں۔ نوٹ کریں کہ تینوں خواتین ہیں جن میں سے دو تو عالمی سطح پر ’’فحش‘‘ کہلاتی ہیں۔
اب ٹرینڈز کی صورت حال دیکھیں تو کچھ یوں رہی کہ Farmersprotest، indiaagainstpropaganda، indiawithModi، indiastandtogether شروع میں چلتے رہے پھر مخالف سمت سے برآمد ہوئے ۔
#Greatthunberg#ShameonBollywood،Rihannaاور miakhalifa۔
اب یہ کیا معاملہ ہوا کہ 5 فروری سے عین ایک دن قبل بھارت پر تنقید کرنے کے لیے دو ایسی خواتین کا انتخاب ہوا جن کی بات، جن کی قدر کو مکمل نظر انداز کرنے کے بجائے بھارت نے دل پر لے لیا اور اپنے جھوٹے بھرم کی خاطر وزارت خارجہ سے لے کر دہلی پولیس، بالی ووڈ انڈسٹری سب کو جھونک دیامگر سب بے سود رہا۔
میری دعا ہے کہ اس اتفاقی پھیلتی سرگرمی کے نتیجے میں 5 فروری یعنی ’’یوم کشمیر‘‘ کو کسی طرح عالمی توجہ مل جائے کیوں کہ جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے وہ 48 گھنٹے کے انٹرنیٹ کٹنے سے کہیں زیادہ ہے۔ لاکھوں معصوم کشمیری مسلمان بھائی مستحق ہیں کہ بھارتی درندگی کا چہرہ دنیا کو دکھایا جائے۔
ویسے تو سوشل میڈیا پر پاکستان جنوبی افریقہ کی سیریز بھی مستقل جگہ لیے ہوئے ہے، عمران خان کے حق میں اور اپوزیشن کی جانب سے مخالف ٹرینڈ جار ی ہیں مگر ہمیں اپنی شہ رگ کے لیے اس بار کچھ بڑھ کر کرنا ہوگا۔ اس کے لیے اپنے بھائی بھابھی پر سرعا م ہاتھ اٹھانے والے گلوکار بلال سعید یا سڑک پر چار معصوموں کو کچلنے والی کشمالہ طارق کے بچوں کو زیادہ دھونے کے بجائے بھارت پر توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے عوام سے گفتگو کرنے کا ارادہ پسند کیا گیا گو کہ تمام کالز صاف پلانٹڈ محسوس ہوئیں لیکن امکان ہے آگے چل کر قدرے شفافیت آ جائے۔
خلیفہ بلا فصل حضرت ابو بکر صدیقؓ کے یوم وفات پر عام تعطیل کا مطالبہ بھی سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کی صورت نظر آیا۔

حصہ