آرٹس کونسل کراچی میں سالگرہ مشاعرہ

451

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر احمد شاہ کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوزا ہے۔ انہوں نے گزشتہ سال شعرا کی سال گرہ منانے کا اہتمام کیا تھا اس حوالے سے وہ شعرا کے ساتھ سالگرہ مشاعرہ شیئر کرتے ہیں۔ 2020ء میں کورونا وائرس نے زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کیا جس کے سبب سال گرہ مشاعرے کا شیڈول مکمل نہ ہو سکا اس سال جنوری 2021ء میں احمد شاہ نے ان شعرا کے لیے سال گرہ مشاعرہ ترتیب دیا جو جنوری کے مہینے میں پیدا ہوئے ہیں۔ یہ مشاعرہ 30 جنوری 2021ء کو آرٹس کونسل پاکستان کراچی کے اسپیشل یونٹ کمیٹی کے زیر اہتمام آرٹس کونسل کراچی میں ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کی۔ فاضل جمیلی مہمان خصوصی تھے جب کہ شکیل خان نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ انہوںنے اپنے خوب صورت جملوں سے محفل میں دل چسپی پیدا کی اور مشاعرے کو بہت اچھے انداز سے چلایا۔ اس مشاعرے میں احمد شاہ نے شعرا کے ساتھ کیک کاٹا‘ سب کو کیک کھلایا اور اپنے خطبۂ استقبالیہ میں کہا فنونِ لطیفہ کے تمام شعبوں کی ترویج و ترقی کے لیے اپنی ٹیم کے ساتھ میدانِ عمِل میں موجود ہیں ہم نے اس آرٹس کونسل میں جو ترقیاتی کام کیے ہیں وہ ریکارڈ پر ہیں ہم آئندہ بھی اسی طرح خدمات انجام دیتے رہیں گے میںآپ کے تعاون پر آپ کا شکر گزار ہوں۔ فاضل جمیلی نے کہا کہ اسپیشل یونٹ کمیٹی کے چیئرمین کاشف گرامی اور وائس چیئرمین منصور ساحر نے آج سال گرہ مشاعرہ سجایا ہے وہ اس حوالے سے تمام لوگوں کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ آج جن شعرا نے کلام سنایا وہ سب کے سب بہت خوش ہیں کہ ان کی سالگرہ کے تناظر میں احمد شاہ نے ایک اسٹیج فراہم کیا جہاں انہوں نے اپنی پرفارمنس پر داد و تحسین حاصل کی۔ اس موقع پر سامعین کی ایک بڑی تعداد ہر اچھے شعر پر شاعر کی پزیرائی کر رہی ہے‘ اسٹیج بھی شاندار ہے اور کورونا کی وجہ سے حفاظتی تدابیر بھی اختیار کی گئی ہیں۔ مشاعرے میں ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ فاضل جمیلی‘ قمر وارثی‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ صبیحہ صبا‘ خلیل اللہ فاروقی‘ وحید نور‘ ظفر بھوپالی‘ سہیل احمد‘ سیمان نوید عباس‘ امت الحیٔ وفا‘ تبسم صدیقی‘ سعد الدین سعد‘ ارشاد احمد بھٹی اور پروفیسر منہاج العارفین نے کلام پیش کیا اس کے علاوہ سکینہ اور اُمِ ہانی نے انگریزی نظمیں سنائیں۔ مشاعرے کے بعد تمام شرکا کے لیے ڈنر کا اہتمام تھا۔ راقم الحروف کے نزدیک یہ ایک اچھا پروگرام تھا‘ تمام انتظامت بہترین تھے۔ امید ہے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

ادارۂ دستک میر پور خاص کا مشاعرہ

ادارۂ دستک میرپور خاص ایک ایسی ادبی تنظیم ہے جو نامساعد حالات کے باوجود بھی اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس تنظیم کے تحت ہر ماہ مشاعرہ اور تنقیدی نشست کا اہتمام کی جاتا ہے۔ اس ادارے نے 23 جنوری 2021ء کو ماہر اجمیری کی صدارت میں ایک مشاعرہ منعقد کیا جس کے مہمانان خصوصی راقم الحروف نثار احمد اور رانا خالد محمود قیصر تھے جب کہ صفدر علی انشاء اور عارف شیخ مہمانانِ اعزازی تھے۔ نوید سروش نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ زبان و ادب کی حفاظت اور ترقی ہمارے ادارے کے منشور میں شامل ہے‘ آج ہم نے کراچی کے چار شعرا کو بلایا ہے ہم آئندہ اس شہر کے دوسرے شعرا کو بھی مدعو کریں گے۔ زبان و ادب کی ترقی میں جو لوگ ہمارے ساتھ مددگار ہیں ہم انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں مشاعرے کا انعقاد بھی ایک مشکل کام ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ ہم اپنے لوگوں کے تعاون سے آگے بڑھتے رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ معاشرے کی فلاح و بہبود میں شعرائے کرام کا عمل دخل ہوتا ہے یہ وہ ادارہ ہے جو زمانے کے حال و مستقبل پر بات کرتا ہے‘ اچھائیوں کی تعلیم دیتا ہے اور برائیوں کی بیخ کنی کرتا ہے۔ ادب کے منشور میں یہ بات تحریر ہے کہ شعرائے کرام ہر ظلم کے خلاف آواز بلند کریں جو شعرا یہ کام نہیں کرتے وہ ادب سے مخلص نہیں ہیں۔ میرپور خاص میں موجودہ حکومت کے نمائندے آفتاب حسین قریشی نے کہا کہ ہمارے شہر میں ادارۂ دستک نے شعر و سخن کو زندہ رکھا ہوا ہے ہم ان کی کارکردگی کو سراہتے ہیں اور ہم ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرتے ہیں‘ ہمارے علاقے کا ادبی سرمایہ ماہر اجمیری ہیں اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت عطا فرمائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ حکومتی سطح پر کوشش کریں گے کہ قلم کاروں کی ترقی کے لیے راہیں ہموار ہوں‘ ہماری حکومت قلم کاروں سے محبت کرتی ہے‘ شعرائے کرام ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو ہمیں اچھے اچھے خواب دکھاتا ہے‘ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی ہدایات پر عمل کریں۔ جس معاشرے میں اربابِ سخن کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی وہ معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ میرپور خاص کی ایک اور علم دوست شخصیت غلام نبی میئو ایڈووکیٹ نے کہا کہ ادارہ دستک کا ہر پروگرام بہت کامیاب ہوتا ہے کیوں کہ اس ادارے میں پڑھے لکھے افراد شامل ہیں‘ اس کے سربراہ پروفیسر نوید سروش ایک قابل اور متحرم استاد کی حیثیت سے جہالت کے اندھیروں میں علم و فن کی روشنی پھیلا رہے ہیں ۔ نوید سروش نے بہت اچھی نظامت کی‘ مشاعرے کے ٹیمپو کو قائم رکھا اور تقدیم و تاخیر کے مسائل بھی پیدا نہیں ہوئے ان کی دعوت پر آج میرپور خاص کے علم دوست افراد یہاں موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شعر و سخن کے میدان میں میئو فائونڈیشن کی ادبی محرکات سب کے سامنے ہیں‘ یہ میرپور خاص کے ادبی منظر نامے میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ یادِ رفتگان کے حوالے سے بھی پروگرام کرتے ہیں فی الحال ہم نے ماہر اجمیری کے لیے ایک پروگرام بنایا ہے‘ آپ تمام سے اس میں شرکت کی درخواست ہے۔ نوید سروش نے کلماتِ شکر ادا کیے اور یہ اعلان بھی کیا کہ آفتاب حسین قریشی نے ہمیں یہ پیشکش کی ہے کہ ہم ان کے فارم پر کُل سندھ مشاعرہ آرگنائز کریں‘ ہم بہت جلد آفتاب بھائی کی خواہش کو پائیۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ کراچی کے شعرا کی نمائندگی کرتے ہوئے رانا خالد محمود نے کہا کہ وہ یہاں آکر بہت خوشی محسوس کر رہے ہیں‘ یہاں کے لوگوں نے ہمارے ساتھ جس خلوص و محبت کا اظہار کیا ہے ہم اس کے لیے ان کے شکر گزار ہیں۔ اس موقع پر مشاعرے میں مہمانوں کو اجرک پیش کی گئی اور کتابوںکے تحائف دیے گئے۔ محفل میں صاحب صدر‘ مہمانانِ خصوصی‘ مہمانان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ ندیم بابو خان‘ اشعر بیگ‘ ذیشان عثمانی‘ عدنان قمر‘ انور خان‘ حبیب اللہ طبیب‘ جاوید شیخ‘ ولید احمد خان‘ اسد شوکت‘ مرزا عاصی اختر‘ احمد سعید قائم خانی‘ لاریب رحمن اور نعمان سعید نے اپنے کلام سے نوازا۔ مشاعرے کا ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا اور کچھ لوگ ہال کے دروازے پر کھڑے ہو کر مشاعرہ سن رہے تھے۔ مشاعرے کے تمام شرکا قابل تحسین ہیں۔ سامعین میں فیصل زئی‘ احمد سعید قائم خانی‘ پروفیسر عزیز احمد‘ پروفیسر شکیل الرحمن‘ پروفیسر محمد علی‘ سمیع اللہ خان بھی شامل تھے۔ مشاعرے کا انتظام و اہتمام ہر اعتبار سے اچھا تھا۔

ادارۂ پاسبانِ دبستان کراچی کا مشاعرہ

انجینئر الحاج نجمی علم دوست شخصیت ہیں اور شعر و سخن کی ترقی کے لیے مصروف عمل ہیں‘ ان کی تنظیم نے کئی بڑے اہم اور شان دار مشاعرے کرائے ہیں۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے اقبال رضوی کی رہائش گاہ پر رفیع الدین راز کی صدارت میں مشاعرہ کیا جس میں فیاض علی فیاض مہمان خصوصی اور سعید ساجد مہمان اعزازی تھے جب کہ نظامت کے فرائض الحاج نجمی نے انجام دیے اس موقع پر انہوں نے کہا کہ وہ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں ہماری خواہش ہے کہ اردو زبان مزید عزت و شہرت حاصل کرے اور تمام سرکاری اداروں میں عملی طور پر نافذ ہو جائے اس کے علاوہ ہم شعرا کے مسائل بھی حل کرنا چاہتے ہیں‘ ہماری درخواست ہے کہ حکومت سندھ ہمارے شعرا کے ساتھ رابطہ کرے اور شعرا کی ہر ممکن مدد کی جائے‘ ان کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اس مشاعرے میں رفیع الدین راز‘ فیاض علی فیاض‘ سعید ساجد‘ الحاج نجمی‘ ڈاکٹر مانوس ناطقی‘ حیدر رضا زیدی‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ محمد علی سوز‘ قمرالزماں پیبم‘مہتاب عالم مہتاب اور اکرام اکرمِ نے کلام پیش کیا۔

ملک محمد اختر کی کتاب ’’خاموش آوازیں‘‘ کی تقریب رونمائی

عبدالصمد تاجی کی صدارت میں کاروانِ ادب کے تحت ملک محمد اختر کی نئی کتاب ’’خاموش آوازیں‘‘ کی تقریب رونمائی ہوئی جس میں ندیم ہاشمی‘ جہانگیر سید‘ یامین وارثی اور معین اللہ شاہ نے ملک محمد اختر کی کتاب پر سیر حاصل گفتگو کی۔ عبدالصمد تاجی نے کہا کہ ملک اختر نے روشن لمحوں اور سنہری یادوںکو رقم کرکے ہمیں کتابی شکل میں ایک تحفہ دیا ہے جو کہ ان کی سچی قلبی کیفیت کا اظہار ہے ان کے اندر ایک بڑا قلم موجود ہے جو معاشرے میںپھیلے ہوئے کرب اور زیادتیاں ختم کرنا چاہتا ہے‘ دیگر مقررین نے کہا کہ معاشرے سے جرائم کا خاتمہ ہونا چاہیے تاکہ انسانیت پُرسکون ہو سکے‘ ہم سب اس معاشرے کا حصہ ہیں‘ ہمیں مل جل کر اپنے حصے کا چراغ جلانا چاہیے تاکہ علم و عمل کی روشنی سے تیرگی کا صفایا ہو سکے۔ اس موقع پر قاری گل محمد نے تلاوتِ کلام مجید پیش کی۔ سلطان صلاح الدین نے نعت رسولؐ کی سعادت حاصل کی اور عبدالخالق کے ساتھ تمام شرکائے محفل نے دعا مانگی کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر رحم فرمائے‘ ہمیں دشمنوں سے بچائے‘ کشمیر کو آزادی نصیب ہو اور عالمِ ا سلام کا بول بالا ہو۔ تقریب میں مشتاق تنولی‘ نصرت شیخ‘ حاجی عبدالمجید قریشی کے علاوہ شہر کے بہت سے معززین شامل تھے۔

نظم

اردو ادب کی دو اصناف ہیں، اردو نثر اور اردو نظم یعنی اردو شاعری۔ نظم کے لغوی معنی ہوتے ہیں موتیوں کو پرو کر ہار بنانا۔ غزل کے علاوہ ساری اصناف شاعری نظم کے ہی دائرے میں آتی ہیں یعنی قصیدہ مرثیہ اور مسدس وغیرہ۔ نظم کی چار قسمیں ہیں پابند، آزاد، معریٰ اور نثری نظم۔
پابند نظم ہئیت کی پابند ہوتی ہے۔ اس میں قافیے ردیف کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ تمام مصرعے ہم وزن ہوتے ہیں اور شروع سے آخر تک ایک ہی بحر کی پابندی کی جاتی ہے۔ نظم کا ایک عنوان ہوتا ہے اور اس میں کسی ایک خیال، موضوع یا کیفیت کو پیش کیا جاتا ہے۔ یہ اگر چار مصرعوں میں لکھی جائے تو مربع، پانچ میں لکھی جائے تو مخمس اور اگر چھ مصرعوں کا ایک بند لکھا جائے تو اس کو مسدس کہتے ہیں۔
موضوع کے اعتبار سے اردو میں پابند نظم کی ایک رنگا رنگ دنیا آباد ہے۔ نظیر اکبر آبادی اس صنف سخن میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے ہندوستان کے موسموں، تہواروں اور عوامی زندگی سے متعلق موضوعات پر بہت دلچسپ نظمیں لکھیں۔ ان کے بعد عرصے تک نظم کی دنیا سونی رہی بعد میں محمد حسن آزاد، حالی، شبلی نے اس صنف میں حسن فطرت، اخلاقیات، حب الوطنی کے موضوعات پر بیش بہا نطمیں لکھیں۔ اقبال نے اس صنف سخن کو بام عروج تک پہنچایا۔ ساحر، کیفی اعظمی، سردار جعفری اور اخترالایمان کی پابند نظمیں بھی اردو شاعری کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ شکریہ ریختہ

حصہ