اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی

436

زندگی میں سب چیزیں سو فیصد نہیں ہوسکتیں ہمیں کچھ چیزیں قبول کرنا ہوتی ہیں۔ جو چیزیں قبول کرنی ہوں ان کو اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر قبول کرنا چاہیے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ پہلے کے مقابلے میں ہمارے پاس زیادہ آسائشیں موجود ہوتی ہیں لیکن اس کے باجود زبان پر شکوے ہیں۔ اس کی ایک وجہ دین کے متعلق ہمارے غلط نظریات ہیں۔ ہمیں اپنے نظریات کو قرآنی حوالوں سے دیکھنا چا ہیے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اور ہم تمہیں آزمائیں گے خوف سے، بھوک اور مال و اولاد کے نقصان سے اور صبر کرنے والوں کے لیے خوش خبری ہے۔ وہ لوگ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تووہ کہتے ہیں بے شک یہ اللہ کی طرف سے ہے اور ہم نے اسی کی طرف لوٹ کر جاناہے۔ ان لوگوں پر اللہ کی رحمت اور سلامتی ہے اور یہی ہدایت پانے والے ہیں۔‘‘ (سورۃ البقرۃ)۔
ہماری زندگیوں کے بارے میں ہمیں سب کچھ پہلے سے قرآن پاک میں بتا دیا گیا ہے کہ ساری مرضی ہماری نہیں ہوگی، ساری چیزیں ہمارے مطابق نہیں ہوں گی، جب سب کچھ ہمارے مطابق نہیں ہونا تو پھر کیوں نہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہا جائے۔ ہم ان آزمائشوں پر پورا نہیں اترتے اور کہتے رہتے ہیں کہ میرے ساتھ ہی ایساکیوں ہے؟ یہ ایک مزاج ہے اور اس مزاج کا نام ’’شکوہ‘‘ ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔ ہمیں اس مزاج کو بدلنے اور شکوے کی جگہ ’’شکر‘‘ لانے کی ضرورت ہے۔
ایاز‘ محمود غزنوی کا انتہائی فرماں بردار غلام تھا وہ اس قدر فرماں بردار تھا کہ ’’محمود و ایاز‘‘ محاورہ بن گیا۔ ایک دفعہ محمود غزنوی نے اپنے دربار میں اپنے وزیروں اور مشیروں کو بلایا اور انہیں اپنے ہاتھ سے خربوزہ کاٹ کر دیا اور کہا کہ اس کو کھائو اور بتائو کہ یہ کیسا ہے۔ ایک مشیر نے ابھی منہ میں ڈالا ہی تھا کہ اُگل دیا اور برا سا منہ بنا لیا دوسرے نے بھی ایسا ہی کیا، تیسرے نے بھی ایسا ہی کیا غرض سب نے ایسا ہی کیا۔ جب ایاز کے پاس خربوزے کا ٹکڑا آیا تو اس نے مسکراتے ہوئے اس کو کھا لیا۔ محمود غزنوی نے سب سے پوچھا بتائو یہ خربوزہ کیسا تھا تو سب نے جواب دیا کہ’’اتنا کڑوا خربوزہ زندگی میں ہم نے کبھی نہیں کھایا۔‘‘ جب ایاز سے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ’’اتنا مزیدار خربوزہ میں نے زندگی میں کبھی نہیں کھایا۔‘‘
محموز غزنوی نے کہا ’’یا تو تم جھوٹ بول رہے ہو یا پھر یہ سب، میں ان کو مانوں یا تمہیں؟‘‘
ایاز نے کہا ’’بادشاہ سلامت حقیقت تو یہی ہے کہ یہ پھل کڑوا ہے لیکن میں نے آپ کے ہاتھوں سے اتنے میٹھے پھل کھائے ہیں اس لیے میرا دل نہیں چاہا کہ میں آپ کو کہوں کہ یہ کڑوا ہے۔‘‘
ہماری زندگی میں اللہ تعالیٰ کی اتنی نعمتیں، اتنی کرم نوازیاں، اتنی آسانیاں اور اتنا فضل ہے جن کو شمار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کے باوجود بجائے شکرادا کرنے کے ہم کہتے ہیں کہ یہ ہماری محنت کا صلہ ہے۔ دوسری طرف اگر ہمیں تھوڑی سی تکلیف ہوتی ہے تو ہم فوری طور پر شکوہ شروع کر دیتے ہیں۔ راضی رہنا ایک طرزِِ فکر اور طرزِ زندگی کا نام ہے اسی کو اپنانا اور راضی رہنا چاہیے۔

حصہ