سماجی الجھن

238

سوشل میڈیا نیٹ ورکس ہمارے دماغ کی پروگرامنگ کررہے ہیں

(دوسرا اور آخری حصہ)
فیس بک کے سابقہ ایگزیکٹو، پرنٹ رسٹ کے سابقہ صدر اور موومنٹ کے سی ای او ٹم کنڈال کہتے ہیں کہ ’’2006ء میں مجھ سمیت فیس بک پر موجود ہر شخص گوگل سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ اس نے جس طرح اپنے آپ کو ترقی دی اور جس طرح وہ پیسہ بنانے کی ایک مشین سا بن چکا تھا ہمیں اس پر رشک آتا تھا۔ اُس وقت فیس بک کو لانچ ہوئے دو برس گزر چکے تھے، تب مجھے وہاں بہ طور مونیٹائزیشن ڈائریکٹر لایا گیا تاکہ میں فیس بک کو مونیٹائز کرسکوں۔‘‘
ورچوئل رئیلٹی کمپیوٹر سائنس کے بانی جیرن لینیئر کہتے ہیں ’’فیس بک یا گوگل وغیرہ جیسی کمپنیاں دنیا کی امیر ترین اور کامیاب ترین کمپنیاں ہیں۔ ان کی کامیابی کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اِن کمپنیوں کے ملازمین کی تعداد کوئی بہت زیادہ نہیں ہے، کیوں کہ یہ سپر کمپیوٹرز پر انحصار کرتی ہیں۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِن کو پیسہ کس چیز کا مل رہا ہے؟ یہ کیا بیچتی ہیں؟‘‘
راجر میکنیم فیس بک میں ابتدائی سرمایہ لگانے والوں میں سے ایک ہیں، اُن کے بقول سلیکون ویلی کے پہلے پچاس سال میں کمپنیاں پراڈکٹس بناتی اور بیچتی تھیں۔ پراڈکٹس جیسا کہ ہارڈ ویئر، سافٹ ویئرز وغیرہ اپنے کسٹمرز کو بیچتی اور پیسہ کماتی تھیں، لیکن اب پچھلے دس سال سے سلیکون ویلی میں موجود ٹیکنالوجی کمپنیاں اپنے صارفین کو فروخت کررہی ہیں۔‘‘
موزیلا فائر فوکس اینڈ موزیلا لیبس کے سابق ملازم، سینٹر فار ہیومن ٹیکنالوجی کے مشترکہ بانی ایزا رسکن کہتے ہیں کہ چوں کہ ہم یعنی صارفین جو پراڈکٹس استعمال کررہے ہیں اُن کے لیے ہم کچھ ادائیگی نہیں کرتے بلکہ ایڈورٹائز کرنے والے اُن پراڈکٹس کے لیے ادائیگی کرتے ہیں، تو سیدھی بات یہ ہے کہ ایڈورٹائزرز اِن پراڈکٹس (سوشل میڈیا) کے کسٹمر ہیں اور ہم یعنی صارفین وہ اشیا ہیں جن کو بیچا جارہا ہے، جیسے کہ ایک پرانی کہاوت ہے ’’اگر آپ کسی شے یا پراڈکٹ کے لیے ادائیگی نہیں کررہے ہیں تو دراصل آپ ہی وہ پراڈکٹ یا شے برائے فروخت ہیں۔
“If you are not paying for the product then you are the product”
گوگل کے سابق ڈیزائننگ ایگزیکٹو کہتے ہیں کہ لوگوں کی زیادہ تعداد یہی سمجھتی ہے کہ فیس بک اپنی اور دوستوں کی تصاویر لگانے کا نام ہے، اور گوگل محض ایک سرچ انجن ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ دراصل یہ تمام کمپنیاں ایک طرح کی ریس میں ہیں کہ کس طرح آپ کا زیادہ سے زیادہ وقت اسکرین پر حاصل کیا جا سکے اور آپ کی توجہ لی جائے۔
ٹوئٹر کے سابق ایگزیکٹو جیف سیبرٹ کے مطابق یہ سب مارکیٹنگ کی دنیا ہے جہاں آپ کی توجہ کو بطور پراڈکٹ بیچا جارہا ہے، اور یہ سب کرنے کے لیے ڈیٹا درکار ہے… آپ کا ڈیٹا۔ آپ کیا سوچتے ہیں، کیا پسند کرتے ہیں، کیسی ویڈیوز دیکھتے ہیں، کیا پڑھنا پسند کرتے ہیں، کس ویڈیو یا کس فوٹو کو آپ نے کتنی دیر تک دیکھا۔ یہ سب ڈیٹا ہے اور یہ سب آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا اے آئی ہے جو آپ کا یعنی بلامبالغہ ہر انسان کا ایک ورچوئل امیج بناکر اپنے پاس رکھتی ہے۔ یہ مستقبل کی پیش گوئی کرنا ممکن بنارہی ہے، یعنی آپ کب کیسے سوچتے ہیں، کب کیسا ری ایکٹ کرسکتے ہیں، کیا پہننا پسند کرتے ہیں۔ اْنھیں معلوم ہے کہ آپ کب خوش ہیں، کب افسردہ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ اْن کا ڈیٹا فروخت کیا جاتا ہے۔ فیس بک سمیت بڑی کمپنیوں کو یہ سوٹ ہی نہیں کرتا کہ وہ ڈیٹا فروخت کریں، بلکہ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ وہ اِس ڈیٹا کے ذریعے آپ کا ورچوئل ماڈل تیار کرتی ہیں، اور جس کا ماڈل جتنا بہتر ہوگا وہ اتنا ہی کامیاب ہوگا۔
آپ کسی انسان کو کس طرح اور کتنی کامیابی سے قائل کرسکتے ہیں، اور اس قائل کرنے کی ’’خوبی‘‘ کو ٹیک جائنٹس نے کس قدر مہارت کے ساتھ اپنی ٹیکنالوجی اور ایپس میں استعمال کیا ہے،یہ قابلِ رشک و قابلِ تعریف ضرور ہے لیکن یہی اصل کہانی ہے اور یہی گیم ہے۔ فیس بک کی مثال لے لیں، ہر بار جب آپ اپنی انگلی کے ساتھ اِس ایپ کو یعنی ’’اپنی‘‘ نیوز فیڈ کو فریش کرتے ہیں تو کچھ نیا ہی سامنے آتا ہے۔ ایسا ہونا اس لیے بھی ضروری تھا تاکہ یوزر ’’بور‘‘ ہوکر کہیں اور منتقل ہونے کا نہ سوچ لے۔ پازیٹو ری انفورسمنٹ کا سہارا لے کر یوزرز کو اِن ایپس کے ساتھ جیسے باندھ دیا گیا ہے، اور ہم یوزرز اِس فیڈ بیک (لائیک، کومنٹ اور شیئر) کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اِس فیڈ میں کمی ہمیں ڈپریس کرتی ہے، جب کہ فیڈ بیک کی زیادتی ہمارے ڈوپامین میں اضافہ، جس سے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کچھ اچھا کیا ہے۔ ایک ہی دن میں بار بار اپنی تصاویر لگانا، ایک ہی جیسی باتوں کو بار بار لکھنا، کرنا… یہ سب ایسے ہی ہے جیسے کوئی ماہر مداری اپنی انگلیوں پر اپنی کٹھ پتلیوں کو نچا رہا ہو، لیکن کٹھ پتلیاں یہ سمجھ بیٹھیں کہ وہ اپنی مرضی سے سب کچھ کررہی ہیں۔ تصور کریں کہ آپ یا میں جب اپنی حقیقی زِندگی میں دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں یا کہیں فیملی کے ساتھ، تو ہمارا ہاتھ بار بار اپنی ڈیوائس کی طرف اْٹھتا ہے کہ چیک کیا جائے کہیں کچھ ’’نیا‘‘ آیا ہو! یہ ڈیزائن تکنیک ہے۔ فوٹو ٹیگنگ بھی ایسا ہی ایک فیچر ہے، مینشن کرنا بھی۔ جب آپ کسی کو ٹیگ کرتے ہیں یا مینشن کرتے ہیں تو سو فیصد چانس یہی ہے کہ وہ اس کو لازمی چیک کرے گا بھلے کچھ ری ایکشن دے یا نہ دے۔ البتہ اگر آپ کسی فلم اسٹار یا نہایت مشہور انسان کو ٹیگ یا مینشن کررہے ہیں تو شاید وہ زیادہ مصروفیت اور زیادہ ٹیگنگ یا مینشنز کی وجہ سے اِس کو چیک نہ کرپائے۔
کیتھی اونیل ڈیٹا سائنٹسٹ ہیں، پی ایچ ڈی ہیں اور ویپنز اوومیتھ ڈسٹرکشن نامی مشہور کتاب کی مصنفہ ہیں۔ کیتھی کے بقول الگورتھمز کو آپ محض کمپیوٹر میں انسٹال شدہ حسابی طرز کے فارمولے نہ سمجھیں۔ یہ رائے قائم کرنے، رائے بنانے اور رائے تبدیل کرنے کے فارمولے ہیں۔ الگورتھمز آبجیکٹو نہیں ہیں بلکہ یہ ایک خاص لیول کی کامیابی حاصل کرنے کی یقین دہانی رکھتے ہیں۔ یہ تمام فارمولے تجارتی بنیادوں پر اور منافع حاصل کرنے کا ٹارگٹ ذہن میں رکھ کر بنائے جاتے ہیں اور یہ فارمولے ہر بار اپنی استطاعت کو بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سینڈی پاراکلاس جو فیس بک کے سابق آپریشن منیجر اور اُوبر کے پراڈکٹ منیجر رہے ہیں‘ اُن کے بقول فیس بک، ٹوئٹر یا دیگر کمپنیوں میں بس مٹھی بھر لوگ ہی سمجھ رکھتے ہیں کہ یہ سسٹم کیسے کام کرتے ہیں، اور یہ لوگ بھی مکمل طور پر اس نظام کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کسی خاص فارمولے کا خاص حصہ کیسے کام کر پا رہا ہے یا کام کر رہا ہے۔ اِس کا منطقی نتیجہ یہ سمجھ لیں کہ بہ طور انسان ہم اِن سسٹمز پر کنٹرول تقریباً کھو چکے ہیں اور ہم سے زیادہ سسٹم ہمیں کنٹرول کر رہے ہیں اور چلا رہے ہیں۔

حصہ