تخریبی رجحانات اور معاشرہ

535

آخری حصہ

مذہب کی قوت کے ضعف سے ان طبقات میں جن پر مغربی تہذیب کا اثر نسبتاً زیادہ گہرا تھا‘ ایک نئی ضرورت کے احساس کا تازیانہ لگا۔ یہ ضرورت ایک نئے نظامِ تصورات کی تھی جو مذہبی تصورات کی جگہ لے سکے جہاں وہ حیات و کائنات کے مظاہر کی ایک نئی تعبیر کر سکے اور یہ کام نئی سائنس کی مدد سے کیا جانے لگا۔ گلیلیو‘ کوپرنیکس‘ نیوٹن‘ ڈراون سب کے نظریات نئی تعلیم کے ذریعے نوجوانوں میں عام ہونے لگے اور نوجوان ان کے ذریعے زندگی اور اس کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔ یہ تھا وہ پس منظر جس میں مارکس کے نظریات ہمارے معاشرے میں داخل ہو گئے اور علیحدگی اور تفریق کے اس حیاتیاتی اور نفسیاتی مرحلے میں‘ جس کا ذکر ہم کر چکے ہیں‘ ہمارے نوجوان اس کے زیر اثر آنے لگے۔
برصغیر کے پڑھے لکھے مسلمانوں میں جو رجحانات انیسویں صدی میں پھیلے ان میں بیسویں صدی تک آتے آتے کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ان تبدیلیوں کا رُخ اسی طرف تھا جدھر مغرب کے اثرات انہیں لے جا رہے تھے ایک زاویے سے کہا جاسکتا ہے کہ انیسویں صدی کے رجحانات ہی آگے بڑھ کر بیسویں صدی کے رجحانات بنے۔ ہمیں ان رجحانات کو سمجھنے کے لیے چند بڑے بڑے مسلمانوں کے ذہن و فکر کا مطالعہ کرنا چاہیے مثلاً اقبال کے ذریعے ہمیں معلوم ہو سکتا ہے کہ جب 1918ء میں روس میں اشتراکی انقلاب آیا تو اسلامی دنیا نے اُسے کس طرح محسوس کیا۔ جو لوگ عہدِ حاضر کے افکار کی تاریخ سے واقف ہیں ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اشتراکی انقلاب اس سیکولر دنیا کے لیے جو نشاۃ الثانیہ کے بعد پیدا ہوئی تھی‘ کتنی بڑی امید لے کر آیا تھا۔ساری دنیا کے بڑے بڑے ادیب اور مفکر اس انقلاب کو عالمی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک سمجھنے لگے تھے اور اس سے توقع کرنے لگے تھے کہ وہ عالمِ انسانیت کی تقدیر بدل دے گا۔ اقبال اس انقلاب سے جس طرح متاثر ہوئے اس کا اظہار ان کے کلام میں واضح طور پر ہوتا ہے۔ انہوں نے اس انقلاب کو ’’آفتابِ تازہ‘‘ کی پیدائش قرار دیا اور ’’سلطانی ٔ جمہور‘‘ کے قیام کی شہادت دی۔ اقبال کے ذہنی و فکری ارتقا کے مطالعے میں اس انقلابی اثر کی موجودگی کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک دوسری شہادت مولانا حسرت موہانی کی ہے جنہوں نے اشتراکیت کے نظام کو اسلامی نظام قرار دیا ہے اور کہا کہ اشتراکیت میں اگر خدا کے تصور کو شامل کر لیا جائے تو وہ عین اسلام ہے۔ مولانا کے نزدیک دنیا کی تقدیر یہ تھی کہ وہ اس نظام کو قبول کرے اور ’’آئین سوویت‘‘ کا غلبہ ہو۔ ایک تیسری گواہی ایک مستندِ عالم دین کی ہے جنہیں شیخ الہند مولانا محمود الحسن کا دماغ قرار دیا جاتا ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی اشتراکی انقلاب کے بڑے مداحوں میں تھے اور اس کی روح میں اسلامی اصولوں کی بازیافت کے قائل تھے۔ انہوں نے اسلام کی تشریح اس انقلاب کی روشنی میں شروع کی جسے وہ روس میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ آئے تھے۔ ان تین علامتی شخصیتوں کے ذریعے ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ مسلمانوں میں اشتراکی انقلاب کس طرح ایک گہری تبدیلی کا باعث بنا۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ دنیائے اسلام میں بیسویں صدی میں جو رجحانات پروان چڑھے ہیں اور اسلام کی جو انقلابی تشریحات رونما ہوئی ہیں وہ اس انقلاب کے بغیر ممکن نہیں تھیں۔ ابھی اس بات کا اعتراف نہیں کیا گیا لیکن مولانا مودودیؒ کے فکری ارتقا کو بھی اس حوالے کے بغیر پوری طرح نہیں سمجھا جاسکتا اور غلام احمد پرویز تو کھلم کھلا اشتراکی اسلام کے داعیوں میں سے ہیں۔ ان مختصر سے حوالوں سے معلوم ہو سکتا ہے کہ انقلابِ روس کے بعد سے اب تک مسلمان نوجوانوں پر اس انقلاب کے اثرات کس طرح پڑتے رہے ہیں۔
ہم نے یہ حقائق اس لیے بیان کیے ہیں تاکہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے کہ نوجوانوں میں اشتراکی رجحانات ایک مخصوص پس منظر کے بغیر نہیں ہیں اور انہیں سطحی طور پر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ 1936ء میں ترقی پسند تحریک نے ان اثرات کو ہوا دینے میں زبردست کردار ادا کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر میں اشتراکی نظریات جنگل کی آگ کی طرح پھیلے اور ہر پڑھا لکھا آدمی خود کو ’’ترقی پسند‘‘ کہنے اور ظاہر کرنے میں فخر محسوس کرنے لگا۔ تاہم ہمیں اس ردعمل سے بھی غافل نہیں رہنا چاہیے جو اشتراکی انقلاب سے مایوسی کی صورت میں ساری دنیا میں پھیلا۔ دنیا کے بڑے بڑے ادیب اور مفکر جو اشتراکی انقلاب کے وقت اس کے حامی اور موئید بن گئے تھے‘ اس سے منحرف ہونے شروع ہوئے اور آندرے ژید‘ آرتھر کونسلر اور رآندولے مارلو اور ان جیسے کتنے ہی لوگوں نے اس انقلاب کو ایک جھوٹا انقلاب کہہ کر مسترد کر دیا۔ ہمارے یہاں علامہ اقبال نے بھی بعد میں اس انقلاب پر کڑی نکتہ چینی کی اور اس کے اساسی تصورات پر حملے کیے۔ ہمارے ادب میں بھی اشتراکیت کے مخالفوں کا ایک طبقہ پیدا ہوا جس نے ترقی پسند تحریک سے باقاعدہ جنگ کا آغاز کر دیا اور اس کے اثر کو زائل کرنے میں نمایاں حصہ لیا ان میں محمد حسن عسکری اور ممتاز شیریں کا نام پیش پیش ہے۔ بعد میں فلسفہ ٔ وجودیت کی مقبولیت نے ان اثرات کو اور مدہم کر دیا اور نوجوان تین طبقوں میں بٹ گئے۔ ایک طبقہ پر اشتراکی اثرات اب بھی غالب ہیں۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو فلسفۂ وجودیت اور آزاد خیال یا جدیدیت کے زیر اثر ہے اور تیسرا طبقہ وہ ہے جو اقبال اور مولانا مودودیؒ کے زیر اثر اپنا حوالہ اسلام کو بناتا ہے اور انقلابی رویے کے ساتھ اسلام کے ایک جدید کردار کی بات کرتا ہے۔ ہمیں اپنے فکری ماحول کے تجزیے کے لیے ان سب باتوں کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔
محمد حسن عسکری کے تجربے نے یہ بات ثابت کی ہے کہ اگر عہدِ حاضر کی پوری آگاہی کے ساتھ بات کی جائے تو اشتراکی نظریات کی ایسی تنقید کی جاسکتی ہے جو نوجوانوں میں مؤثر ثابت ہو۔ دوسری طرف خود اشتراکی انقلاب کی تاریخ ہمیںٍ بتا رہی ہے کہ اب یہ نظریہ لوگوں میں ایک ’’آدرش‘‘ کی حیثیت سے دَم توڑ رہا ہے۔ اشتراکی انقلاب اب ایک ’’انسپریشن‘‘ نہیں ہے صرف ایک سیاسی اور انتظامی قوت ہے۔ چین اور روس کی کشمکش‘ یورپ کی اشتراکی ملکوں میں بے چینی اور بے اطمینانی اور روسی سامراج کے مایوس کن کردار نے اشتراکی نظریات کی روز افزوں مقبولیت پر کاری ضرب لگائی ہے‘ لیکن ہمیں اس کے ساتھ ہی یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ اشتراکی نظریات کی عدم مقبولیت کے رجحانات سے مذہب کو اتنا فائدہ نہیں پہنچا ہے جتنا جدیدیت کے رجحانات کو۔
ہمیںاس طبقے کی صورتِ حال کو بھی واضح طور پر سمجھنا چاہیے۔ یہ وہ طبقہ اشتراکیت کے خلاف ہے اور کبھی کبھی مذہب کی بات بھی کرتا ہے‘ لیکن اشتراکیت کی مخالفت وہ جن بنیادوں پر کرتا ہے وہ بھی مغربی اثرات ہی کی پیداوار ہیں اور اس کا مذہب بھی وجودیت کی کسی نہ کسی شکل سے پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً ان میں سے جو لوگ مذہب کی بات کرتے ہیں وہ شریعت کے اتنے ہی مخالف ہیں جتنے اشتراکیت کے۔ ان کے نزدیک مذہب کو سسٹم نہیں بنانا چاہیے اور اسے انسان اور خدا کے درمیان ایک شخصی رشتہ ہونا چاہیے۔ کیرکے گور‘ باسپر اور مارٹن بوبر کے زیر اثر یہ لوگ مذہب کو صرف ایک ’’شدید جذبے‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور جذبے کو اس کا حاصل سمجھتے ہیں۔ محمد حسن عسکری نے اپنی کتاب ’’جدیدت‘‘ میں لکھا ہے کہ مغرب میں بھی آج کل یہی رجحانات غالب حیثیت رکھتے ہیں اور مذہب کے لیے ان نظریات سے زیادہ خطرناک ہیں جن کی بنیاد واضح طور پر مذہب سے انکار پر ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے ہمارے لیے اشتراکی نظریات اور جدیدیت دونوں کی فکر کرنا ضروری ہے۔ ہم نے ابتدا میں کہا تھا کہ ہم سخت گیر قانون کے ذریعے بیرونی ایجنٹوں کا قلع قمع کر سکتے ہیں۔ لیکن عام طور پر پہلے والے اشتراکی‘ نیم اشتراکی یا جدیدیت کے رجحانات کی روک تھام قانون اور سخت گیری کے ذریعے نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے ہمیں پوری صورت حال کو سنجیدگی سے سمجھنا ہوگا اور اس کی مکمل تفہیم کے بعد ایک لائحہ عمل طے کرنا ہوگا جس سے ہم مؤثر طور پر ان کا سدباب کرسکیں۔ اب ہم اپنی بات کے اس پہلو پر گفتگو کریں گے۔
مذہب‘ اخلاق‘ معاشرتی اقدار ان سب کے خلاف انحرافی روّیوں کا اظہار کرنے والے متعدد گروہوں میں منقسم ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ مذہب سے کھلم کھلا مخالفت رکھتا ہے اور برملا اس کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے نزدیک مذہب نہ صرف توہمات کا مجموعہ ہے بلکہ انسانیت کے لیے انتہائی مضر بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مذہب کو ختم کیے بغیر نہ استحصال کا خاتمہ ہو سکتا ہے نہ انسانیت ترقی کر سکتی ہے۔ اخلاق کے بارے میں اس گروہ کا کہنا ہے کہ مذہبی اخلاق جاگیردارانہ نظام کی یادگار ہے اور طبقاتی مقاصد پر مبنی ہے۔ یہ عہد جدید کی ضروریات کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ رہ گئیں معاشرتی اقدار تو اس گروہ کے نزدیک وہ ایک گزارے ہوئے تاریخی دور کی پیدار کردہ ہیں اور عہدِ جدید میں انہیں یکسر تبدیل کیا جانا چاہیے۔ اس طرح یہ گروہ دراصل پورے معاشرے سے ہی منحرف ہے اور جڑ سے لے کر کونپل تک وہ ہر چیز کو بدلنا چاہتا ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو عام طور پر مذہب کی مخالفت نہیں کرتا‘ لیکن مذہب سے واسطہ بھی نہیں رکھتا۔ اس کی زندگی کا پورا نظام سیکولر ہے اور وہ کسی چیز کے مذہبی حوالے سے کوئی سروکار نہیں رکھتا۔ یہ گروہ عام طور پر مذہب سے بے تعلق رہتا ہے‘ لیکن اگر کسی وقت اسے یہ اندیشہ ہو کہ مذہب اس کی زندگی میں کوئی مداخلت کرے گا تو وہ بھی اوّل الذکر گروہ سے مل جاتا ہے اور مذہب کی مخالفت میں زبان کھولنے لگتا ہے۔ اس گروہ کا اخلاق اور رہن سہن کی اقدار معاشرے سے مختلف ہیں اور وہ انہیں معاشرے سے الگ رکھنے پر اصرار بھی کرتا ہے۔ تیسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو بظاہر مذہب کی حمایت کرتے ہیں اور اس کی تعریف میں بہت کچھ کہتے ہیں‘ لیکن دراصل ان کا مذہب ایک شخصی چیز ہے جو انہوں نے خود اپنے ذہن سے ایجاد کر لیا ہے اور اس کا معاشرے کے مستند مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ تینوں گروہ آپس میں کئی اختلافات رکھتے ہیں اور کبھی کبھی لڑتے جھگڑتے بھی ہیں‘ لیکن جب انہیں مذہب سے کوئی مشترک دکھ ہو تو تینوں ایک ہو جاتے ہیں۔ اس وقت آپ دیکھیے تو اشتراکی‘ آزاد خیال جدیدیئے سب ایک بولی بولنے لگتے ہیں اور ان میں تمیز کرنی مشکل ہو جاتی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ یہ ایک ہی درخت کی مختلف شاخیں ہیں اور اس کا درخت کا بیج ہے مغربیت۔ یہ سب ہمارے معاشرے میں مغرب کے اثرات سے پیدا ہوئے ہیں اور براہِ راست مغربی تعلیم‘ مغربی تہذیب اور مغربی تربیت کے اثر و نفوذ کا نتیجہ ہیں۔ ہم ایک بار ان کی مشترک بنیاد کو سمجھ لیں تو ہمیں الگ الگ ان کے تجزیے کی ضرورت نہیں رہتی۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے معاشرے میں جب تک مغربیت کی درآمد ہوتی رہے گی یہ گروہ اسی طرح موجود رہیں گے اور ان کا سدباب اس طرح کرنا ناممکن ہوگا جس طرح آپ کسی دریا کے سوت کو بند کیے بغیر اس کے پانی کو خشک کرنا چاہیں۔ مغرب جس راہ پر جارہا ہے سو برس سے وہ ہمیں بھی کشاں کشاں اپنے راستے پر لے جا رہا ہے اور یہ صورت قائم رہی تو ہماری منزل مغرب کی منزل سے مختلف نہیں ہوگی۔
یہ ایک مختصر سی بات ہے‘ لیکن جو لوگ تفصیل سے اس نقطہ ٔ نظر کا مطالعہ کرنا چاہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ محمد حسن عسکری کی تحریروں سے استفادہ کریں جنہوں نے اس مسئلے پر بہت کچھ لکھا ہے۔ ان کا مرکزی حوالہ ادب ہے‘ لیکن ان کی تحریروں سے مذہبی‘ اخلاقی اور معاشرتی نتائج بھی نکالے جا سکتے ہیں۔
اب اگر یہ بات درست ہے کہ یہ سب مغربیت ہی کا نتیجہ ہے تو ہمارے سامنے سب سے بڑا اور سب سے پہلا مرکزی سوال یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں مغربیت کی یلغار کو کس طرح روکیں اور اس کے مقابلے پر اپنے مذہب‘ اپنے اخلاق اور اپنی معاشرتی اقدار کے قیام اور بقا کے لیے کون سا راستہ اختیار کریں۔
جو لوگ سو‘ سوا سو سال کی تاریخ سے واقف ہیں‘ انہیں معلوم ہے کہ ہمارے معاشرے میں مغربیت کے داخلے کا راستہ تعلیم کے ذریعے کھولا گیا تھا۔ اس وقت تک معاشرے پر مغربیت کے جو اثرات پڑ رہے تھے معاشرہ ان کا مقابلہ کر رہا تھا مگر جب سرسید نے تعلیم کے ذریعے لوگوں کی ذہنیت کو بدلنا شروع کیا تو مغربیت کے اثر کو پَر لگ گئے اور وہ جنگل کی آگ کی طرح معاشرے میں پھیلنے لگی۔ اکبر الٰہ آبادیؒ نے مغربی تعلیم کے اثرات کو اپنے ملک میں وضاحت سے بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تعلیم الحاد سکھاتی ہے‘ اپنی تہذیب کے بارے میں احساسِ کمتری پیدا کرتی ہے‘ معاشرتی تسلسل کو توڑتی ہے۔ جو لوگ اس تعلیم کی زد میں آجاتے ہیں وہ مغرب کی نقالی پر فخر کرنے لگتے ہیں وغیرہ خاص طور پر نوجوانوں میں اس تعلیم کے اثرات کو انہوں نے بڑی شدت سے محسوس کیا اور اسے نوجوان نسل کے قتلِ عام سے تعبیر کیا۔ اوپر جن گروپوں کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ اسی تعلیم کا نتیجہ ہیں۔ چنانچہ اس کا سدباب بھی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک مغربی طرزِ تعلیم کے پورے نظام کو ایک سرے سے بدل نہ دیا جائے۔ اس کا مطلب صرف اتنا نہیں ہے کہ نوجوان نسل کو مذہب کی تعلیم بھی دی جانے لگے جیسا کہ اس وقت بعض لوگ تجویز کر رہے ہیں کیوں کہ دینیات کی تعلیم تو سرسید کے نظامِ تعلیم میں بھی شامل تھی۔ یہ تعلیم کتنی بے اثر رہی ہے‘ یہ ہمارے تجربے میں آچکا ہے۔ اب اس تجربے کو دہراتے رہنا یا اشک شوئی کے لیے اس میں کچھ تاروں پھندوں کا اضافہ کرتے رہنا کسی طرح ہمارے مرض کا علاج نہیں ہے‘ ہمیں سوچنا ہے کہ مغربی تعلیم کی بنیاد کس چیز پر ہے اور ہمیں اس بنیاد کو بدلنا ہے۔ مثال کے طور پر میں اکثر سوچتا ہوں کہ جو بچے فلکیات‘ حیاتیات‘ عمرانیات‘ نفسیات اور معاشیات کے نئے نظریات پڑھ کر آتے ہیں کیا وہ کسی طرح بھی مذہبی تصورات کو تسلیم کر سکتے ہیں۔ یہ ایک اہم اور قاتلانہ سوال ہے۔ یہ ذہن کی شریانوں کو جَلا دیتا ہے۔ اس کا جواب سادہ دلانہ خوش اعتقادی نہیں ہے۔ ہمیں ہمت اور جرأت سے اس سوال پر غور کرنا پڑے گا اور اس کا جواب تلاش کرنا پڑے گا۔
تعلیم کے بعد مغربی اثرات کو پھیلانے کا دوسرا بڑا ذریعہ ذرائع ابلاغ ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مغرب اثرات ذرائع ابلاغ کی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑھے ہیں۔ فلم‘ اخبار‘ ریڈیو اور ٹیلی ویژن نے اس میں کیا کردار ادا کیا ہے‘ وہ اب دیکھنے اور سوچنے سمجھنے والوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ عوام براہِ راست ان کی زد میں ہیں اورچونکہ یہ ذرائع صرف ذہنوں ہی کو نہیں ہماری حیات تک کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس لیے ان کے قوتِ کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔ ہمارے نوجوان ان سے خیالات بھی اخذ کرتے ہیں اور جذباتی اور کرداری سانچے بھی۔ ہم اگر مغربی اثرات کے اثر و نفوذ کو روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں ذرائع ابلاغ کو کھلا نہیں چھوڑ دینا چاہیے اور ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے جس سے یہ معاشرے میں مطلوبہ اثرات پیدا کر سکیں۔
مغربی اثرات کا تیسرا بڑا ذریعہ ادب ہے۔ جن لوگوں کو ترقی پسند تحریک کے اثرات کا کچھ بھی اندازہ ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس تحریک نے کس طرح مذہب‘ اخلاق اور معاشرتی اقدار کے بارے میں ہمارے ذہنوں کو بدلا اور کس قسم کے جذباتی اور کرداری رویے پیدا کیے۔ یہ ادب اب بھی ہمارے معاشرے میں زہر گھول رہا ہے اور اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ادب کی طرف پوری توجہ کرکے اس کے مثبت اثرات سے پورا فائدہ اٹھایا جائے اور معاشرے کی تعمیر نو میں اس سے پوری مدد لی جائے۔ اقبال جیسے ایک شاعر کا اثر سیکڑوں لیڈروں کی تقاریر سے زیادہ ہی ہوتا ہے۔
آخر میں ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ یہ سب تجاویز اپنی اہمیت کے باوجود ضمنی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ خود معاشرے میں اتنی قوت ہونا چاہیے کہ وہ تخریبی اثرات کی مزاحمت کر سکے اور خود اپنی قوت سے اپنے خلاف پیدا ہونے والے اثرات کو روک سکے۔ معاشرے میں یہ قوت پیدا ہوتی ہے اقدار کے حقیقی تحفظ سے۔ اس سے میری مراد یہ ہے کہ ایک ایسا معاشرہ جس میں عدل ہو‘ مساوات ہو‘ جو اخوت کی بنیادوں پر قائم ہو‘ جس میں افراد کی صلاحیتوں کو پھولنے پھلنے کے مواقع حاصل ہوں‘ خود اپنی قوت سے اپنی حفاظت کر سکتا ہے اور اس وقت کوئی چھوٹا موٹا خطرہ اس کے لیے خطرہ نہیں بن سکتا تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم معاشرے کو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر حقیقی معنوں میں ایک مثبت معاشرہ بنا سکتے ہیں یا نہیں اور یاد رہے کہ اسلامی اصولوں سے میری مراد صرف نماز روزہ نہیں ہے۔

حصہ