قیوم نظر کا انٹرویو

900

آخری قسط

گفت و شنید

طاہر مسعود: قیوم نظر صاحب! مناسب ہوگا اگر میں یہاں آپ کی شاعری کے حوالے سے چند باتیں دریافت کروں۔ آپ کی شاعری کے مطالعے سے انداز ہوتا ہے کہ آپ نے شاعری میں زندگی کے لیے کوئی نہ کوئی تاریکی کا استعارہ استعمال کیا ہے بالخصوص اپ کی چند نظمیں مثلاً ’’الجھن‘‘، ’’صبح‘‘، ’’کاذب‘‘، ’’شام‘‘، ’’زندگی‘‘، ’’مآل‘‘، ’’بے بسی‘‘، ’’خلش‘‘ اور ’’تاثر‘‘و غیرہ۔ انہیں پڑھیے تو ایک تاریکی کا سا احساس ہوتا ہے جو چاروں طرف محیط ہے۔ آپ بتائیں گے کہ ایسا کیوں ہے؟ یعنی آپ کی شخصیت کی تعمیر میں وہ کون سے عناصر تھے جنہوں نے آپ سے ایسی نظمیں لکھوائیں؟
قیوم نظر: میرا یہ سفر تاریکی سے روشنی کی طرف ہے‘ جہاں تک یہ سوال کہ تاریکی کیوں ہے؟ تو بات یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں گھٹن زیادہ تھی۔ ہم انگریزوں کے غلام تھے اور لالہ صحیح نہیں تول رہا تھا۔ پھر یہ کہ ذاتی زندگی میں‘ میں یتیم ہو گیا اور کئی اعتبار سے میری زندگی بڑی تلخ گزری لیکن میں نے اسے کبھی ظاہر نہیں ہونے دیا۔

ہنستے ہیںکہ ہنس سکے زمانہ
خوش ہیں تو اسں اعتبار سے ہم

ہم نے لالٹین جلا کر اس کی روشنی میں تعلیم حاصل کی ہے۔ میرے سارے بھائیوں نے ایف ایس سی کیا۔ محض اس لیے کہ کتابیں خریدنے کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے اور جو کتابیں ایک بار خرید لی گئی تھیں‘ ان ہی کو باری باری پڑھتے تھے۔ جب میں چھوٹا تھا تو والد کے ساتھ ان کی نوکری کی وجہ سے مختلف شہروں میں گھومتا پھرا۔ دھرم شالہ اور کشمیر گیا۔ مرغ زاروں میں گھومتا رہا۔ زندگی کا کھلا پن مجھے اچھا لگتا ہے۔ گھٹن اور تنگی سے مجھے وحشت ہوتی ہے۔ مجھے زندگی میں جب بھی موقع ملا ہے میں کوہساروں میں چلا گیا ہوں۔ ایک بار میں پیدل کشمیر گیا۔ میں نے اپنے آپ کو عملی زندگی کی تلخیوں کا اظہار ڈھنگ سے کیا ہے۔ مجھے ایسے شاعر اچھے نہیں لگتے جو اپنے آپ کو مظلوم بنا کر معاشرے سے مراعات طلب کرتے ہیں اس سے میری خودداری کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ میں نے رائٹرز کانفرنس میںجانے سے اسی لیے گریز کیا حالانکہ کچھ لوگوں نے کہا کہ آجاتے تو پتا چل جاتا کہ تم بیمار ہو۔ میں نے کہا اسی لیے تو میں نہیں گیا۔ میرا غم اپنا غم ہے۔ مجھ سے خوشیاں لو‘ غم مت لو۔ میرا جی نے کہا تھا:۔

دنیا ہے بھنڈار دکھوں کا
میرے پاس خزانہ ہے

مجھ میں عجیب سی جدوجہد ہے۔ میں شہر سے جنگل کی طرف بھاگتا ہوں اور جنگل سے شہر کی طرف:۔

جانے کیسا ویرانہ بے دلی کو راس آئے
گائوں سے گریزاں ہم شہر سے ستیزاں ہم

طاہر مسعود: آپ کی شاعری میں فطرت پرستی کا احساس نمایاں ہے۔ خارجی مناظر مثلاً پھولوں‘ پودوں‘ ستاروں‘ پربتوں‘ آسمان اور کوہسار وغیرہ سے گہری وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کے باوجود آپ کو محض ایک رومانی شاعر نہیں کہا جا سکتا۔ کیا آپ بتائیں گے کہ آپ کی شاعری کی وہ کون سی خصوصیات ہیں جو آپ کو دیگر رومانی شعرا سے علیحدہ کرتی ہیں؟
قیوم نظر: میری شاعری میں تہ میں اترنے والی بات ہے‘ مثلاً میری نظم ’’شب زندہ دار‘‘ کو دیکھیے۔ یوں تو یہ نظم محض پھولوں کے بارے میں ہے لیکن مسلے اور کچلے ہوئے پھولوںکا یہ استعارہ طوائف کا بھی ہو سکتا ہے۔ اگر اختر شیرانی پھول کا ذکر کرے گا تو وہ صرف پھول ہی کی بات کرے گا۔ میرے استعارے‘ استعارے سے زیادہ کنایے ہیں۔ میں بہت سی باتیں اشارے میں کہتا ہوں۔ میری ابتدائی نظمیں مثلاً ’’برسات کی رات‘‘ کو چھوڑ دیجیے۔ اس میں استعارہ شعوری کوشش سے تراشا گیا ہے لیکن بعد کی نظموں میں‘ میں گہرائی میں اترتا ہوں۔
طاہر مسعود: آپ کی شاعری پر بعض نقادوں کا اعتراض ہے کہ اس کا علامتی افق محدود اور اس میں خارجی زندگی کے مسائل کا احساس بھی کم ہے۔ کیا آپ اس اعتراض کو درست تسلیم کرتے ہیں؟
قیوم نظر: جتنا احساس میرے یہاں ہے کسی اور کے یہاں ہے ہی نہیں۔ جو نقاد ایسا کہتے ہیں انہوں نے میری نظموں اور غزلوں کو دیکھا ہی نہیں ہوگا۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ میں زور سے نہیں چلاتا۔ میری نظم ’’آندھی‘‘ یا ’’جوانی‘‘ پڑھیے۔ ’’جوانی‘‘ میں‘ میں نے ایک عورت کے شوہر کو محاذ پر جاتے اور مختلف مقامات پر جنگ کرتے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے المیوں کی نشان دہی کی ہے۔ قارئین کو چاہیے کہ میری نظموں کے عنوان کو ’’Key‘‘ کے طور پر استعمال کریں۔
طاہر مسعود: آپ کے شعری ڈکشن کو بھی محدود قرار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ کی شاعری میں روزِ اوّل سے آج تک خصوصی لفظوں کا استعمال ملتا ہے جس کے باعث علامتوں میں تنوع نہیں ہے اور لفظوں کے معنوی سلسلے‘ ارتکاز اور انجماد کا شکار ہیں وغیرہ‘ آپ کا کیا خیال ہے؟
قیوم نظر: میری شاعری میں تنوع ایسی دنیا سے تعلق رکھتا ہے جہاں عام لوگ نہیں جاتے اس دنیا میں چڑیاں‘ مرغابیاں‘ چیتے‘ بگلے‘ چمگادڑیں‘ چیلیں اور کوے ہیں اور فضا سے نیچے پہاڑ‘ مرغ زار‘ جھیلیں‘ دریا‘ محرابیں اور ریگستان ہیں‘ سمندر ہیں‘ میری دنیا ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہے‘ انکا عام دنیا میں گزر نہیں ہے۔ میرا ڈکشن دوسروں سے الگ ہے۔ عام قاری اس تک نہیں پہنچ سکتا کیوں کہ اس کا تنوع ایسا ہے جس سے وہ آشنا نہیں ہے۔ ہمارے یہاں کتنے شاعر ایسے ہیں جنہوں نے نیچر کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ میں نے انسانی زندگی اور نیچر کے درمیان مماثلتیں ڈھونڈی ہیں۔ میرا ایک سفر شہر سے نیچر اور دوسرا نیچر سے شہر کی طرف ہے۔ انسان کا سارا سفر یہی ہے۔ اسلوب کے اعتبار سے میں حالی اور اردو کے دیگر شعرا کی نسبت انگریزی کے شعرا سے زیادہ قریب ہوں۔
طاہر مسعود: آپ کی چند نظمیں مثلاً ’’زندگی‘‘، ’’جوانی‘‘ اور ’’نئی تحریکیں‘‘ وغیرہ مکمل طور پر علامتی ہیں لیکن ان نظموں کے عنوانات علامت کی معنویت کو محدود کر دیتے ہیں کیوں عنوان کے حوالے سے ان نظموں کی معنویت پہلے سے متعین ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے نظمیں معنوی سطح پر کئی جہتوں میں پھیلنے سے رک جاتی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
قیوم نظر: بات یہ ہے کہ شروع میں مجھے اعتماد نہیں تھا کہ قاری میری نظموں کو سمجھ سکے گا۔ اس مطلب یہ نرگز نہیں ہے کہ میں نے جہلم پر نظم لکھی ہے۔ نہیں یہ تو میں نے اپنی محبوبہ پر لکھا ہے‘ میں چاہتا تو اس نظم کا عنوان ’’پروین اختر‘‘ بھی رکھ سکتا تھا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا اور نظم کی کئی جہتیں اپنی جگہ پر برقرار ہیں۔ نظم ’’شب زندہ دار‘‘ تاروں‘ عابدوں اور فاحشہ عورتوں میں سے کسی کے بارے میں ہو سکتی ہے‘ میں نے اردو شاعری کو تنوع دینے کی کشش کی ہے اور چاہتا ہے کہ نظموں کی معنویت محدود نہ کروں۔
طاہر مسعود: آپ کو اپنی شاعری کے اثرات اپنے بعد کے کن کن شعرا پر محسوس ہوتے ہیں‘ مثلاً مجھے تو آپ کی شاعری کے اثرات منیر نیازی کی شاعری پر محسوس ہوئے۔
قیوم نظر: یہ حیرت انگیز بات ہے کہ آپ نے اس بات کو محسوس کر لیا۔ میں نے منیر نیازی کو سکھایا ہے کہ نظمیں کیسے کہتے ہیں۔ 1942ء میں پہلی بار میں نے اسے ’’ادبی دنیا‘‘ میں شائع کیا۔ منیر نیازی کو مصرع نہیں سوجھتا تھا تو مجھ سے پوچھتے تھے۔ مختار صدیقی کا خط میرے نام موجود ہے کہ اس نے لکھا کہ قیوم نظر مجھے گیت لکھنے کا ڈھنگ سکھائو۔ ایک زمانے میں ضیا جالندھری مجھ سے بری طرح متاثر تھا۔ اس کے مجموعے ’’سرشام‘‘ میں آپ کو میرے اثرات با آسانی مل جائیں گے۔
طاہر مسعود: آپ کے خیال میں ن م راشد اور فیض احمد فیض میں کس کا Poetic telent بڑا ہے؟
قیوم نظر: راشد میرے نزدیک فیض سے اچھا شاعر ہے۔ فیض کی غنائیت اسے اوپر اٹھا دیتی ہے جب کہ راشد کے یہاں کرختگی ہے لیکن راشد کے موضوعات وسیع ہیں اور فیض صاحب جس جھنڈے پر چڑھے ہیں وہ راشد کو حاصل نہیں تھا۔ انہیں اپنا اشتہار دینے کا گر آتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ فیض کو جس مرتبے پر پہنچایا گیا ہے وہ اس کے سزا وار نہیں ہیں۔
طاہر مسعود: اچھا اب مختلف شعرا کے بارے میں آپ کی رائے جاننا چاہوں گا؟ حفیظ جالندھری صاحب کی شاعری کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
قیوم نظر: حفیظ کے دو ابتدائی مجموعے ’’نغمہ زار‘‘ اور ’’سوز و ساز‘‘بڑے مجموعے ہیں۔ ان میں انہوں نے جو شاعری کر دی ہے وہ بعد میں نہیں کی۔ انہوں نے ’’شاہ نامہ اسلام‘‘ لکھا ہے اور مورخ اسلام ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ یہ انہوں اچھا کیا کہ اب کچھ نہیں لکھ رہے ہیں اور جو کچھ لکھ چکے ہیں اسی پر قناعت کر رہے ہیں۔ (قہقہہ)
میرا جی اپنے ماضی میں زندہ رہا ہے اس کی نظموں کی لفظیات اور ٹریٹمنٹ ہم سب سے الگ ہے۔ اس کی آزاد نظم بہت خوب صورت ہے۔ وہ ہندو مائتھالوجی سے متاثر تھا لیکن یہ اس کا ذاتی مسئلہ ہے۔
طاہر مسعود: مجید امجد صاحب کی شاعری کے متعلق آپ کی رائے؟
قیوم نظر: ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا سے معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ وہ مجید امجد کو جتنا بڑا شاعر قرار دے رہے ہیں‘ وہ اتنے بڑے ہیں نہیں۔ وہ بے شک اچھے شاعر ہیں لیکن اگر وہ بڑے شاعر ہیں تو اتنے ہی بڑے شاعر مختار صدیقی اور یوسف ظفر بھی ہیں۔ ایک شاعر حفیظ ہوشیار پوری تھا جسے ہم نے غارت کر دیا۔
طاہر مسعود: حسن عسکری صاحب کی تنقید آپ کو کیسی لگتی ہے؟
قیوم نظر: اچھا آدمی تھا جی‘ اچھی تنقید کرتا تھا۔ مجھے 1941ء میں انہوں نے خط لکھا کہ میں نئی شاعری کا مجموعہ شائع کر رہا ہوں‘ لہٰذا اپنی نظم بھیج دیں۔ سو میں نے اپنی نظم ’’خلش تاثر‘‘ بھیج دی۔
طاہر مسعود: قیام پاکستان کے بعد اردو ادب میں تحریکیں چلانے کی کوشش کی گئی مثلاً افتخار جالب اور انیس ناگی وغیرہ نے لسانیاتی تشکیل کے حوالے سے‘ کچھ نے پروزپوئم کے حوالے سے۔
قیوم نظر: (بیزاری سے) یہ بے کار نوجوانوںکی ادب میں اپنے آپ کو Establish کرنے کے ہتھکنڈے ہیں‘ ان کی کوئی اہمیت نہیں۔
طاہر مسعود: شاعرات کی شاعری کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
قیوم نظر: کشور ناہید اور ادا جعفری اچھی شاعرہ ہیں۔ رہیں فہمیدہ ریاض تو جو خاتون خود کہے میں بدن دریدہ ہوں‘ اس کے بارے میں دوسروں کو کہنے کا کیا حق حاصل ہے۔ اسی طرح نوجوان شاعرات کے بارے میں ہم بوڑھوں سے کیا پوچھنا‘ نوجوانوں سے پوچھو۔ انہوں نے اپنی بے باک گوئی کو اپنے لیے ذریعہ شہرت بنا رکھا ہے جو شخص زاویوں کے اعتبار ٹھیک ہے‘ زاویہ نوجوانوںکا بھی ہوتا ہے نا۔ صرف ہم بوڑھوں کے زاویے تو نہیں ہیں۔
طاہر مسعود: نئے شاعروں میں کون لوگ اچھا لکھ رہے ہیں؟
قیوم نظر: اس موضوع پر سلیم احمد بہتر روشنی ڈال سکتےہیں وہ ان کے زیادہ قریب رہتے ہیں۔
طاہر مسعود: آپ نے بہت اچھے اچھے گیت لکھے ہیں۔ کچھ گیت لکھنے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایئے؟
قیوم نظر: نگار صہبائی کے گیت مجھے پسند نہیں آئے‘ اس سے اچھا گیت تو تاج سعید لکھتا ہے۔ منیر نیازی کو گیت لکھنا میں نے سکھایا ہے۔ مجھے معلوم ہے یہ سن کر مجھے برا بھلا کہے گا لیکن یہ حقیقت ہے۔
طاہر مسعود: جمیل الدین عالی نے بھی گیت لکھے ہیں‘ ان کے بارے میں کیا رائے ہے؟
زطاہر مسعود: آپ کا شمار ان گنے چنے شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے بچوں کے لیے نظمیں کہنے پر توجہ دی۔ کیا آپ بتائیں گے اس کا محرک کیا تھا؟
قیوم نظر: میری شروع سے خواہش تھی کہ میں بچوں کے لیے نظمیں لکھوں۔ میں نے بچوں کے لیے نظمیں لکھتے وقت ان کی نفسیات کا خاص خیال رکھا ہے۔ ایک پرائمری اسکول ٹیچر میری ایک نظم ’’ٹین کا بندر‘‘ پڑھ کر آیا اور کہنے لگا کہ یہ بتایئے یہ نظم آپ نے کسے دیکھ کر لکھی ہے۔ میں نے کہا بھئی میں نے لکھ دی ہے کسی کو دیکھ کر کیا مطلب؟ بگڑ کر بولے کہ ضرور یہ نظم ’’ٹین کا بندر‘‘ آپ نے مجھے دیکھ کر لکھی ہے کیوں کہ اسکول کے سارے بچے مجھے ’’ٹین کا بندر‘‘ کہتے ہیں۔ اسی طرح دس پندرہ سال پہلے میں نے ایک نظم لکھی تھی ’’چڑیا گھر‘‘ اس کی پہلی لائن تھی ’’ہم نے چڑیا گھر دیکھا‘‘
نظم کہنے کے کافی عرصے بعد میں ایک اسکول گیا‘ وہاں کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے نہایت پرتپاک استقبال کیا اور اسکول کے بچوں سے بھی ملایا اور بتایا کہ بچو! یہ ہیں پروفیسر قیوم نظر جنہوں نے تمہارے لیے نظم ’’چڑیا گھر‘‘ لکھی ہے۔ چلو جلدی سے کھڑے ہو جائو‘ انہیں سلام کرو۔ بچوں نے کھڑے ہو مجھے سلام کیا۔ اس کے بعد بچے جب بھی مجھے سڑک پر یا کسی گلی میں گزرتے ہوئے دیکھتے تھے باقاعدہ کورس کے اندازمیں چیختے تھے ’’ہم نے چڑیا گھر دیکھا۔‘‘
میں نے تنگ آکر ایک دن بچوں کو بلایا اور پیار سے سمجھایا کہ ’’بچو! میں چڑیا گھر نہیں ہوں‘ میں تو پروفیسر قیوم نظر ہوں‘ سمجھے۔‘‘
طاہر مسعود: آپ نے لکھنا کیوں ترک کر دیا؟
قیوم نظر: ایک بیمار آدمی ہوں‘ میرے ہاتھوں میں رعشا آگیا ہے۔ آپریشن بھی ہوا۔ اب کیا لکھوں؟ میری لکھی ہوئی پہلی کی اتنی چیزیں موجود ہیں جو غیر مطبوعہ ہیں۔ میرا ایک شاگرد اسد اللہ غالب بہت سی نظمیں‘ غزلیں اٹھا کر لے گیا‘ مجموعہ چھاپنے کے لیے۔ سو وہ آج تک نہیں لوٹا۔ (غیرمطبوعہ غزلوں کا مجموعہ دکھا کر) یہ مجموعہ رکھا ہے‘ پہلے یہ تو چھپ جائے‘ اسے تو کوئی چھاپ دے۔ نئی چیزیں لکھ کر کیا حاصل ہوگا؟
پیدائش: لاہور‘ مارچ 1914۔
وفات: 24 جون 1989
تصانیف: -1 قندیل (غزلیں اور نظمیں) 1945‘ -2 پون جھکولے (گیت) 1946‘ -3 سویرا (نظمیں‘ غزلیں‘ گیت) 1954‘ -4 آئیداد (اوپیرا) 1955ء‘ -5 زندہ ہے لاہور (قومی نغمے) 1966‘ -6 توتے میں (پنجابی کلام) 1978‘ -7 نعت مصطفیؐ (نعتیں) 1979۔
نثر: -8 اردو نثر‘ انیسویں صدی میں (تنقید مع منتخیات) 1953‘ -9 واسوخت امانت (تحقیق و تنقید) 1958ء‘ -10 ہم صفیر (ڈرامے) 1962
تراجم: -11 گھاس کی پتیاں (والٹ و ہٹمین کی نظمیں)1962‘ -12ایذرا پائونڈ (مقالہ از ولیم این او کور) 1966‘ -13 ٹی ایس ایلیٹ (مقالہ از لیو مارڈانگ) 1969ء
بچوں کے لیے: -14 گلگے 1977‘ -15 بلبلے 1978ء

حصہ