بھارتی ہتھکنڈے: چنگیز و ہلاکو بھی پناہ مانگیں

334

۔24دسمبر1999ء۔۔نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو سے انڈین ائیرلائن کی فلائٹ 814دہلی کی طرف محو پرواز تھی، کہ اس کو اغوا کرکے پہلے امرتسر، پھر لاہور، دبئی اور بعد میں قندھار لے جایا گیا۔ امرتسر سے روانگی کے بعد جب یہ جہاز رات کے 8بجے لاہور ایئرپورٹ پر اترا، تو دہلی میں کرائسس مینجمنٹ گروپ کی میٹنگ میں خفیہ محکمے کے ایک اہلکار نے مشورہ دیا کہ اس جہاز کو پاکستانی سرزمین پر دھماکے سے اڑا دیا جائے۔ یہ میٹنگ ابھی جاری ہی تھی کہ خبر آئی: جہاز لاہور سے پرواز کرکے کسی نامعلوم منزل کی طرف رواں ہے۔ رات کے کسی پہر جہاز نے دبئی ایئرپورٹ پر لینڈ کیا۔ اگلی صبح کرائسس مینجمنٹ گروپ کی دوبارہ میٹنگ تھی اور اِس بار وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی خود اس کی صدارت کررہے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ افسر نے دوبارہ جہاز کو بارود سے اڑانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ’’ہم دنیا میں یہ مؤقف اختیار کریں گے کہ پاکستان سے اس پر گولہ بارود لادا گیا تھا، اور اس طرح دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنے کا نایاب موقع فراہم ہوگا۔‘‘ واجپائی نے اس موقع پر مداخلت کرکے اس افسر کو ڈانٹ پلائی اور خشم آلود لہجے میں کہا کہ سفارتی منفعت کے لیے وہ 180مسافروں کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔ یہ افسر بعد میں شکوہ کناں تھا کہ واجپائی نے اپنے سیکرٹری این کے سنگھ کی ایما پر اس آپریشن کی اجازت نہیں دی، کیونکہ اس جہاز میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ انالیسس ونگ یعنی ”را“ کے ایک سینئر افسر ششی بھوشن سنگھ تومر سوار تھے جو این کے سنگھ کے بہنوئی ہیں۔ را کے ایک افسر آر کے یادو کا کہنا ہے کہ کٹھمنڈو میں را کے ایک افسر یو وی سنگھ نے تومر کو طیارے کے اغوا کے بارے میں خبردار کیا تھا، مگر اس اطلاع پر کان دھرنے اور اس کی معقولیت جانچنے کے بجائے وہ خود ہی اس جہاز پر سوار ہوگئے تھے۔ یہ شاید بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ طیارے کو اڑانے کا مشورہ دینے والا افسر اس وقت وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔ اسی طرح انعام یافتہ برطانوی صحافیوں ایڈریان لیوی اور کیتھی اسکاٹ کلارک نے کتاب The Meadow میں بتایا ہے کہ جولائی 1995ء میں جنوبی کشمیر میں ایک غیر معروف عسکری تنظیم الفاران کے ذریعے اغوا کیے گئے پانچ مغربی سیاحوں کو بچایا جاسکتا تھا، کیونکہ را اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں کے اہلکار اغوا کے پورے واقعے کے دوران نہ صرف سیاحوں اور اغوا کاروں پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے تھے بلکہ ان کی تصویریں بھی لیتے رہے تھے۔ دونوں برطانوی صحافیوں نے شواہد کی بنیاد پر لکھا ہے کہ سرکاری اداروں نے چاروں سیاحوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا تاکہ پاکستان کے خلاف ایک بڑی سرد جنگ جیتی جا سکے۔ اسی طرز پر 26 نومبر 2008ء کو بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی پر ہونے والا دہشت گرد حملہ بھی اس لحاظ سے منفرد تھا کہ امریکی سی آئی اے اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں جیسے انٹیلی جنس بیورو اور را سمیت تقریباً سبھی خفیہ اداروں، حتیٰ کہ ممبئی پولیس اور پانچ ستارہ ہوٹل تاج کی انتظامیہ کو بھی اس کی پیشگی اطلاع تھی۔ ان دونوں مصنفین نے اپنی دوسری کتاب دی سیج (The Seige) میں انکشاف کیا ہے کہ اس حملے سے پہلے ایک سال کے دوران مختلف اوقات میں 26 اطلاعات ان اداروں کو موصول ہوئیں جن میں ان حملوں کی پیش گوئی کے علاوہ حملہ آوروں کے راستوں کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ اتنی واضح خفیہ اطلاعات کے باوجود بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں نے ان حملوں کو روکنے کی پیش بندی کیوں نہیں کی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔ خفیہ معلومات اس حد تک واضح تھیں کہ اگست2008ء میں جب ممبئی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پاٹل نے شہر کے فیشن ایبل علاقے کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کا چارج سنبھالا تو اُن کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اس کے طریقہ کار پر بھی معلومات درج تھیں۔ اس افسر نے فوراً تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کرے۔ ستمبر 2008ء میں اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں دھماکے، اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات ملنے کے بعد پاٹل نے تاج ہوٹل کی سیکورٹی کے ساتھ گھنٹوں کی ریہرسل کی، کئی دروازے بند کروائے اور اس کے ٹاور کے پاس سیکورٹی پکٹ قائم کی۔ ان انتظامات کے بعد پاٹل چھٹی پر چلے گئے۔ اس دوران حفاظتی بندشیں اور سیکورٹی پکٹ ہٹوا دی گئی، تاکہ حملہ آوروں کو ہوٹل تک پہنچنے میں کوئی تکلیف نہ ہو۔
پچھلی دو دہائیوں سے زائد عرصے سے ان سبھی واقعات کا مشاہدہ اور رپورٹنگ کرنے کے بعد جب یہ خبر آئی کہ بھارت کے ایک انتہائی قوم پرست ٹی وی چینل ری پبلک کے اینکر اور منیجنگ ڈائریکٹر ارناب گوسوامی کو فروری 2019ء میں کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ہونے والے خودکش حملے اور بعد میں پاکستان کے علاقے بالاکوٹ پر بھارتی فضائیہ کے حملوں کی پیشگی اطلاع تھی، تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ دراصل ممبئی پولیس نے ٹی وی ریٹنگ یعنی ٹی آر پی میں ہیرا پھیری کے الزام میں گوسوامی اور براڈکاسٹ آڈینس ریسرچ کمپنی کے سربراہ پارتھو داس گپتا کے خلاف 3400صفحات پر مشتمل چارج شیٹ کورٹ میں دائر کی، جس میں 1000صفحات پر مشتمل ان دونوں کے درمیان واٹس ایپ پر ہونے والی گفتگو کی تفصیلات ہیں۔ ان پیغامات سے گوسوامی کی وزیراعظم مودی کے ساتھ اس قدر قربت ظاہر ہوتی ہے کہ بالاکوٹ پر ہونے والے فضائی حملوں سے سری نگر کی 15ویں کور کے سربراہ کو لاعمل رکھا گیا تھا، مگر گوسوامی کو 23 فروری 2019ء یعنی تین دن قبل ہی بتادیا گیا تھا۔ گوسوامی چیٹ پر داس گپتا کو بتارہے ہیں کہ پاکستان کے خلاف کچھ بہت ہی بڑا ہونے والا ہے، جس سے بڑے آدمی(مودی) کو انتخابات میں بڑا فائدہ ہوگا۔ اسی دن رات 10بجے وہ بتارہے ہیں کہ کشمیر پر مودی حکومت ایک بڑا قدم اٹھانے والی ہے۔ یعنی اگست 2019ء میں لیے گئے فیصلے فروری میں ہی گوسوامی کے گوش گزار کردیے گئے تھے۔ 23فروری کو جب خودکش حملے میں 40 سیکورٹی اہلکاروں کے مارے جانے کی اطلاع آئی، تو اس کے چند منٹ بعد گوسوامی واٹس ایپ پر شادیانے بجارہے تھے اور گویا کہہ رہے تھے کہ ایک بڑا معرکہ سر ہوگیا۔ یہ موڈ اس کے برعکس تھا جو شام کو ری پبلک ٹی وی کے اسٹوڈیو میں تھا، جہاں سوگواری کا عالم تھا اور لمحہ بہ لمحہ جنگی جنون طاری کیا جارہا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ 2001ء میں بھارتی پارلیمان پر حملے کے بعد دہلی یونیورسٹی کے مرحوم پروفیسر عبدالرحمٰن گیلانی کو سزائے موت بس اس بنا پر سنائی گئی تھی کہ انہوں نے کشمیری زبان میں ٹیلی فون پر بات کرکے اس حملے پر مبینہ طور پر خوشیاں منائی تھیں۔ ان کے برادر نے فون پر ان سے پوچھا تھا کہ دہلی میں آج کیا ہوگیا؟ جس کا ترجمہ ہندی میں کیا گیا تھا کہ ’’دہلی میں آج آپ نے کیا کردیا؟‘‘ پروفیسر صاحب نے ہنستے ہوئے کشمیری میں جواب دیا ’’چھایہ ضروری‘‘ یعنی ’’کیا یہ ضروری تھا؟‘‘ پولیس نے اس کو لکھا ’’یہ چھہ ضروری‘‘ یعنی ’’یہ ضروری تھا‘‘۔ یہ تو ہائی کورٹ کا بھلا ہو کہ وہ بری ہوگئے۔ اس کو اگر بنیاد بنایا جائے، تو گوسوامی کے لیے سزائے موت سے بھی بڑی سزا تجویز ہونی چاہیے۔ اس گفتگو کے تین ماہ بعد مودی نے انتخابات میں اپوزیشن کا صفایا کرکے واضح برتری حاصل کی۔ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ بالاکوٹ پر فضائی حملے کسی فوجی یا اسٹرے ٹیجک نکتہ نگاہ سے نہیں بلکہ قومی تفریح اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔ چنگیز خان اور ہلاکو خان کو فوت ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں، مگر مُردہ اجسام پر خوشیاں منانا اور ان سے انتخابات میں فائدہ اٹھانا، اور اس پر مستزاد اپنے آپ کو قوم پرست بھی جتلانا مودی اور اس کے حواریوں کا ہی خاصہ ہے۔ ان کے اس طرح کے رویوں سے چنگیز اور ہلاکو کی روحیں بھی شرم سے پانی پانی ہوتی ہوں گی۔

حصہ