سماجی الجھن

630

سوشل میڈیا نیٹ ورکس ہمارے دماغ کی پروگرامنگ کررہے ہیں

نیٹ فلیکس پر ایک ڈاکیومنٹری ”دی سوشل ڈیلیما“ یا سماجی اُلجھن نے خاصی مقبوليت حاصل کی۔ اِس ڈاکیومنٹری میں بات چِیت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو گوگل، فیس بک، یوٹیوب اور دوسری سوشل نیٹ ورک کمپنیوں میں بڑے عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں، ان کے خیالات، تجربات اور تجزیوں کو کسی صورت رد نہیں کیا جاسکتا۔
ڈاکیومنٹری کی ابتدا میں ایک فیملی کی کہانی دکھائی گئی ہے کہ کس طرح سوشل میڈیا ہماری زندگیوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ڈاکیومنٹری کے شروع میں سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا میں مثبت تبدیلیوں کی بات کی جاتی ہے، مگر سوشل میڈیا کا دوسرا رخ جس کو ہم منفی رخ کہتے ہیں وہ بہت ہی ڈراؤنا ہے، اور اگر ہم نے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش نہ کی تو یہ ہمارے حال کے ساتھ مستقبل کو بھی خراب کرسکتا ہے، ہماری موجودہ نسلیں خراب ہوسکتی ہیں اور ان کا مستقبل بھی خطرے میں ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے بچے ذہنی مسائل کا زیادہ شکار ہوجاتے ہیں، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں فلٹرڈ سیلفیز کا استعمال اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ پلاسٹک سرجنز نے ایک نئی اصطلاح متعارف کروائی ہے جس کو اسنیپ چیٹ ڈسمورفیا کا نام دیا گیا ہے، کیونکہ یہ نوجوان بچے اور بالخصوص بچیاں پلاسٹک سرجری کے ذریعے اپنا چہرہ اپنی فلٹرڈ سیلفیز کی طرح بنوانا چاہ رہے ہیں۔
دوسری چیز جس کے بارے میں اس ڈاکیومنٹری میں بتایا گیا ہے وہ فیک نیوز ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں کروڑوں کی تعداد میں لوگ سوشل میڈیا سے جُڑے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں بظاہر لوگ ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں، جبکہ درحقیقت یہ ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔ سوشل میڈیا میں تواتر سے آنے والی خبریں ہمارے ہیجان میں اضافہ کرتی ہیں اور بہت زیادہ تعداد ایسی خبروں کی ہے جو فیک نیوز کہلائی جاسکتی ہیں، اور یہی فیک نیوز سوشل میڈیا کے ٹرینڈز بناتی ہیں۔
گوگل کے سابقہ ڈیزائن ایتھسسٹ ٹریسٹان ہیرس کہتے ہیں کہ ”اگر آپ لوگوں سے پوچھیں کہ آج کی ٹیکنالوجی سے انھیں کیا شکایت ہے، تو ان کا جواب کیا ہوگا؟ ان کا جواب ہوگا: فیک نیوز زیادہ ہوگئی ہیں، ان کا ڈیٹا اور ذاتی معلومات چوری کی جارہی ہیں، الیکشن چوری کیے جارہے ہیں۔ الیکشن چوری کرنے کی مثال شاید ہمارے ممالک میں اور قسم کی ہے یا ہوسکتی ہے، لیکن ماڈرن جمہوری ممالک میں رویوں اور ری ایکشن کو ایک خاص سمت میں موڑ لینا ہی دراصل الیکشن مینپولیشن ہے۔ میٹریکس فلم اکثر لوگوں نے دیکھی ہوگی؟ اس فلم میں لوگ ایک جناتی میٹریکس میں زِندہ ہوتے ہیں، لیکن اُنھیں اِس کا احساس نہیں ہوتا، بالکل اِسی طرح ہم سب بھی ٹیکنالوجی کے میٹریکس میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں، لیکن ہمیں اِس کا احساس نہیں۔
تیسری بات جو ڈاکیومنٹری میں بتائی گئی ہے وہ سوشل میڈیا ایڈکشن ہے، کہ سوشل میڈیا ہمیں اپنا عادی بنادیتا ہے، ہمیں پتا بھی نہیں چلتا اور ہم اس کے عادی بن جاتے ہیں۔ جو کیمیکل نشہ آور اشیاء استعمال کرنے پر دماغ سے نکلتے ہیں، وہی کیمیکل سوشل میڈیا استعمال کرنے سے ہمارے دماغ سے خارج ہوتے ہیں۔ جب کوئی ہماری پوسٹ کو لائیک کرتا ہے، اس پر اچھے تبصرے کرتا ہے تو ہمارے دماغ میں ڈوپامین ہارمون خارج ہوتا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ ہر وقت ہماری سب پوسٹ سب کو پسند آئیں۔ جب ہمیں اپنی مرضی کے تبصرے اور پسندیدگی نہیں ملتی تو ہم ڈپریس ہونا شروع ہوجاتے ہیں، کیونکہ ہم پسندیدگی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں۔ آپ نے شاید سوچا بھی نہ ہو کہ زیادہ تر سوشل میڈیا یوزرز کے لیے لائیکس، کوومنٹس اور تعریف کسی آکسیجن سے کم نہیں، اور لائیکس کی کمی اُنھیں نفسیاتی طور پر ڈپریس کرسکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر عدم توجہی کا شکار خودکُشی تک کرسکتے ہیں۔ ایک نئی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال نفسیاتی اور دماغی عارضوں کا براہِ راست سبب بنتا ہے۔
اس ڈاکیومنٹری میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اگر آپ کسی پروڈکٹ کے لیے قیمت ادا نہیں کرتے تو آپ خود ایک پروڈکٹ ہیں۔ آپ کا گزارا ہوا وقت سوشل میڈیا پر ان کے لیے پروڈکٹ ہے جسے وہ سیل کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا نیٹ ورک آپ کے دماغ میں اپنی مرضی کے خیالات داخل کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے آپ کے رویّے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے، آپ کے نظریے اور آپ کی سوچ کو بدلا جا سکتا ہے۔
اور چوتھی چیز جو اس ڈاکیومنٹری میں دکھائی گئی ہے وہ یہ کہ ہمیں پتا ہی نہیں ہے کہ وہ ہمارا ڈیٹا، ہماری معلومات حاصل کرکے انہیں ہمارے ہی خلاف استعمال کرتے ہیں۔
آپ جو چیز بھی سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ہوتے ہیں اس پر نظر رکھی جاتی ہے، اسے ٹریک کیا جاتا ہے اور اس کو ناپا جاتا ہے، جانچا جاتا ہے۔ آپ کی ہر چھوٹی سے لے کر بڑی ایکٹیویٹی کو ریکارڈ کیا جاتا ہے، اسے مانیٹر کیا جاتا ہے۔
جب آپ کسی بھی سوشل میڈیا نیٹ ورک، فیس بک وغیرہ پر اسکرول کررہے ہوتے ہیں تو یہ بھی نوٹ کیا جارہا ہوتا ہے کہ آپ کیا چیز دیکھ کر کتنی دیر کے لیے رکے، کیا پسند کیا، یا کیا ناپسند کیا، کیا شیئر کیا، تاکہ وہ آپ کی شخصیت کو سمجھ سکیں۔ وہ اس کے ذریعے آپ کو جانچتے ہیں۔ وہ آپ کے موڈ کو جان رہے ہوتے ہیں کہ کب آپ خوش ہیں، کب ناخوش ہیں، کب ڈپریس ہیں۔ وہ سب سے واقف ہوتے ہیں۔ یہ سوشل میڈیا نیٹ ورکس ہم سے زیادہ ہمارے بارے میں جانتے ہیں۔
سوشل میڈیا نیٹ ورکس آپ کے نیٹ ڈیٹا کا تجزیہ کرکے آپ کی معلومات استعمال کرکے آپ کا ایک ڈیجیٹل خاکہ تیار کرتے ہیں جسے Artificial Intelligence (AI) کہا جاتا ہے جو آپ کے آن لائن نظریے کی پیشگوئی کرتا ہے، اور پھر اسی لحاظ سے تجویز کرتا ہے کہ آپ کو کون سا کونٹینٹ دکھانا چاہیے۔ اور اسے آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔
اور جو سوشل میڈیا کمپنی ہمارا جتنا مکمل ڈیجیٹل ماڈل تیار کرتی ہے اُس کی کمائی اتنی اچھی ہی ہوتی ہے۔ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم کب کیا کرنے والے ہیں۔
Artificial Intelligence ایک کمپیوٹر پروگرام ہے جو خود سے سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور خود سے مزید آگے بڑھتا جاتا ہے، اور یہ سسٹم سوشل میڈیا کمپنيوں کو پیسے کما کر دے رہا ہے۔
اکثر یہ AI ہمیں ایک ہی جیسا کونٹینٹ باربار دکھاتا ہے، اور انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کا اثر ہم پر مثبت ہورہا ہے یا منفی؟ ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے: ہمیں اسکرین کے ساتھ مصروف رکھنا، جس میں وہ کامیاب رہتے ہیں۔ آپ نے نوٹ کیا ہوگا کبھی ہم ایک منٹ کا سوچ کر فون استعمال کرنے کے لیے اٹھاتے ہیں لیکن ایک گھنٹہ استعمال کرلیتے ہیں اور ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ دراصل ان چیزوں کو ڈیزائن ہی کچھ اس طرح سے کیا جاتا ہے کہ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ان پر اپنا وقت لگادیتے ہیں۔
گوگل کے سابقہ ڈیزائن ایتھسسٹ ٹریسٹان ہیرس کہتے ہیں ”جس وقت میں گوگل میں تھا اُس وقت جی میل کے سیکشن میں تھا، اور وہاں ہر وقت ہم یہی ڈسکس کرتے تھے کہ اس کا اِن باکس کیسا دِکھنا چاہیے، اس کا فرنٹ کیسا ہو، اس کا بیک گراؤنڈ کلر کیسا ہونا چاہیے۔ اِس کی وجہ یہی تھی کہ لوگ زیادہ سے زیادہ اپنا وقت جی میل پر گزاریں۔ وہاں موجود لوگوں کے فیصلے دنیا کے اربوں لوگوں کو اپنی انگلیوں پر نچاتے ہیں۔ میرا معمول تھا کہ روزانہ آفس سے گھر آکر لگ بھگ دو سے تین گھنٹے لگا کر جی میل کے اوپر پریزنٹیشن بناتا تھا کہ جی میل ایسا دِکھے کہ ہم لوگوں کو مصروف رکھیں مگر اس کے عادی نہ ہوں، اور میرے کولیگز بھی اس سوچ سے متفق تھے، اور یہ بات کسی نہ کسی طرح گوگل کے سی ای او ”لیری پیج“ تک پہنچی، جنھوں نے میری سوچ کی تائید بھی کی۔ مگر دن گزرتے گئے اور اس پر کوئی عمل نہ ہوسکا۔ “
گوگل پر آپ کچھ سرچ کرنے کے لیے ٹائپ کریں تو گوگل آپ کو مختلف آٹو فِل آپشنز دیتا ہے جسے آپ سرچ کریں۔
درحقیقت جو آپ سوچ رہے ہوتے ہیں وہی تلاش کرتے ہیں، وہی پڑھتے یا پڑھنا چاہتے ہیں… تو یہ کیا ہے؟ پہلے سے طے شدہ ہر شے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گوگل بھی ہر خطے کے اعتبار سے سرچ رزلٹس الگ الگ دکھاتا ہے۔ یہی حال ہماری یوٹیوب پر سامنے آنے والی ویڈیوز کا ہے، کیونکہ یہ AI ہمارے رجحانات کی خبر ہم سے بھی بہتر رکھتا ہے۔
پانچویں چیز کے بارے میں اس ڈاکیومنٹری میں بتایا گیا ہے کہ ہمارے دماغ کی کنڈیشننگ کی جارہی ہے۔
سوشل میڈیا نیٹ ورکس ہمارے دماغ کی پروگرامنگ کررہے ہیں۔ یہ لوگ ہمارے لاشعور کی بھی پروگرامنگ کررہے ہوتے ہیں اور ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ ہم بار بار اپنا انسٹاگرام، اپنا فیس بک، اپنا واٹس ایپ چیک کررہے ہوتے ہیں، اور اپنا بہت قیمتی وقت لگا رہے ہوتے ہیں، اور ہمیں پتا بھی نہیں ہوتا کہ کتنا وقت لگا چکے ہیں۔ جو عمل آپ غیرارادی طور پر کرتے ہیں یہ تب تک ممکن نہیں جب تک آپ کی لاشعوری طور پر پروگرامنگ نہ کی گئی ہو۔ آپ کے دماغ کو کنٹرول کرکے آپ کے رویّے کو تبدیل کردیا جاتا ہے۔ آپ کے خیالات، نظریات اور سوچ کو تبدیل کردیا جاتا ہے اور آپ کو اس کا احساس بھی نہیں ہوپاتا۔ اور یہ سوشل میڈیا نیٹ ورکس اپنے فائدے کےلیے آپ کا استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ کہنا ہے اُن افراد کا، جو سوشل میڈیا کے ان اداروں میں بہت عرصے تک اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔
(جاری ہے)

حصہ