نتھیا گلی کی سیر

1046

ہم ہر سال گرمیوں میں اپنی دادی جان اور نانی جان سے ملنے پاکستان جاتے ہیں۔ اس بار ہم نے سردیوں میں پاکستان جانے کا پلان بنایا، کیونکہ ہم برف باری دیکھنا چاہتے تھے۔ ہم سب اپنی خالہ سے ملنے ایبٹ آباد گئے۔ وہاں سب نے نتھیا گلی جانے کا پروگرام بنایا۔ کچھ دن پہلے ہی موسم کی پہلی برف باری ہوئى تھی، اس لیے ہم بہت خوش تھے۔ ایبٹ آباد سے نتھیا گلی جانے میں دو گھنٹے لگتے ہیں۔ ہم سب دو گاڑیوں میں روانہ ہو گئے۔ راستے میں “ہرنوئی” بھی آتی ہے۔ ہرنوئی ایک نہری علاقہ ہے،جہاں پہاڑوں سے پانی آتا ہے۔ وہاں سیر گاہ بنائی گئی ہے اور بجلی کے جھولے بھی لگے ہیں۔ مگر سردی کی وجہ سے وہاں سیاح نہیں تھے اس لیے وہ جھولے بند تھے۔ راستے میں “ڈولی چیئر لفٹ” بھی دیکھی جو سامنے پہاڑوں پر رہنے والوں کے لیے سوزوکی کے اوپری حصے کو مضبوط کیبل سے منسلک کر کے بنائی گئی ہے۔ اس سے آمنے سامنے آمد و رفت کا کام لیا جاتا ہے۔ مگر مجھے یہ بہت خطرناک لگی کیونکہ وہ بہت اونچائی پر تھی اور نیچے ہرنوئی کی نہر تھی۔ پھر پہاڑی راستہ شروع ہوا۔ نتھیا گلی کا راستہ زیادہ چڑھائی والا ہے۔ مگر میرے ابو اور بھائی بہت اچھی ڈرائیونگ کرتے ہیں۔ سڑک کے اطراف میں بہت خوبصورت اور اونچے اونچے درخت تھے۔ ہم جیسے جیسے بلندی پر جا رہے تھے،سردی بڑھ رہی تھی اور برف قریب آتی جا رہی تھی۔ ہم سب کی خوشی دیدنی تھی۔ پھر کالا باغ میس کے پاس ہم نے گاڑی روکی اور وہاں پر برف میں کچھ دیر کھیلا۔ برف کے گولے بنائے مجھے تب پتا چلا کہ یہ برف تو آئس کریم سے بہت زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے۔ ميرے بھائى عباد اور میں نے برف کے گولوں سے سنو فائیٹ بھی کی۔ ایک جگہ بہت سے بندر سڑک کے کنارے بیٹھے تھے اور لوگ ان کو کھانے کی چیزیں دے رہے تھے۔ بندر بہت مزے سے کھا رہے تھے۔ راستے میں ایک ہوٹل تھا جس میں گھر کا کھانا ملتا ہے اوپر گھر اور نیچے ہوٹل ہے۔ مگر ابھی نتھیا گلی دور تھا،ہم چڑھائی چڑھتے گئے۔ پھر نتھیا گلی آ گئی۔ نتھیا گلی کے آغاز میں سڑک کے دونوں طرف ہوٹل اور دکانیں ہیں ، اسے نتھیا گلی کا بازار کہا جاتا ہے۔ بازار میں سیاحوں کی دلچسپی کی بہت سی چیزیں تھیں ان میں ٹوپیاں، سوئیٹر، دستانے، مفلر، دستاکاری کے بیگ وغیرہ ۔ سب کو بہت بھوک لگی تھی۔ وہاں ہم نے “پٹاخہ چکن” کھایا۔ اس کے ساتھ بہت سی مرچیں ہوتی ہیں سب بڑوں نے تو مرچیں بہت شوق سے کھائیں۔ مجھے تو دال بہت پسند ہے تو ہم بچوں نے وہ بھی کھائی۔ کھانا کھانے کے بعد ہم نے تھوڑا سا بازار دیکھا۔ پھر زیادہ برف دیکھنے ڈونگا گلی روانہ ہو گئے۔وہاں بہت سردی تھی تو ہم نے وہاں گرما گرم چائے پی پھر ہم ڈونگا گلی پائپ لائن ٹریک کی طرف بڑھے۔ یہ ٹریک ایوبیہ تک جاتا ہے۔ یہ جنگل کے بیچ میں بہت ہی خوبصورت راستہ بنایا گیا ہے۔ اس میں ایوبیہ وائلڈ لائف پارک بھی ہے۔ اس راستے پر بہت برف تھی۔ برف پر چلنا بہت مشکل ہے۔ اس لیے لوگ اپنے جوتوں پر جرابیں چڑھا لیتےہیں تاکہ پھسلنے سے محفوظ رہیں۔ ہم سب ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے گزرے۔ ہم سنو مین بنانے کے لئے چیزیں گھر سے لائے تھے پھر ہم نے برف سے سنو مین بنایا۔ سنو مین کی آنکھیں چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بنائیں اور اس کی ناک گاجر سے بنائی۔ اس کے بازو درختوں کی ٹہنیوں سے بنائے۔ سنو مین کو عباد نے اپنی ٹوپی پہنائی اور میں نے اپنا مفلر پہنایا۔ ابھی ہم سنومین کے ساتھ تصویر بنانے ہی والے تھے کہ داؤد نے اس پر حملہ کر دیا اور اس کا سر ٹوٹ گیا۔ پھر ہم نے شہاب بھائی اور حماد بھائی کی مدد سے جلدی سے دوسرا سر بنایا اور اس کو فکس کیا۔ سنو مین بنانے میں بہت مزہ آیا۔ ہم نے اس کے ساتھ تصویریں بھی لیں۔ سورج غروب ہو گیا تھا اس لیے خالو جان نے واپسی کا کہا تو ہم اداس ہو گئے مگر وہاں جنگل میں اندھیرا بھی ہو رہا تھا اور وہاں جنگلی جانور بھی رہتے ہیں۔ اس لیے ہم واپسی کے لیے روانہ ہو گئے۔ واپسی میں اترائی تھی اس لیے سفر جلدی گزر گیا۔ نتھیا گلی کا یہ سفر ہمیں ہمیشہ یاد رہے گا۔
دوستو !ہمارا پاکستان بہت خوبصورت ہے۔ یہ اللہ تعالی کا عظیم تحفہ ہے۔ اس کا خیال رکھیں۔ کھانے کی چیزیں ساتھ لے جائیں، مگر کچرا کوڑے دان میں ڈالیں۔ وہاں دوسرے ملکوں سے بھی لوگ آتے ہیں وہ ہمارے ملک کو گندا دیکھیں گے تو کتنی بری بات ہو گی۔

حصہ