سود

296

علّت ِ تحریمِ

یہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔ ان وجوہ کے علاوہ حرمتِ سود کی دوسری وجوہ بھی ہیں جن کی طرف ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں۔ وہ بخل‘ خود غرضی‘ شقاوت‘ بے رحمی اور زر پرستی کی صفات پیدا کرتاہے۔ وہ قوم اور قوم میں عداوت ڈالتا ہے‘ وہ افراد قوم کے درمیان ہمدردی اور امداد باہمی کے تعلقات کو قطع کرتا ہے‘ وہ لوگوں میں روپیہ جمع کرنے اور صرف اپنے ذاتی مفاد کی ترقی پر لگانے کا میلان پیدا کرتا ہے‘ وہ سوسائٹی میں دولت کی آزادانہ گردش کو روکتا ہے‘ بلکہ دولت کی گردش کا رُخ الٹ کر‘ ناداروں سے مال داروں کی طرف پھیر دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے جمہور کی دولت سمٹ کر ایک طبقہ کے پاس اکٹھی ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ چیز آخر کار پوری سوسائٹی کے لیے بربادی کی موجب ہوتی ہے جیسا کہ معاشیات میں بصیرت رکھنے والوں سے پوشیدہ نہیں۔سود کے یہ تمام اثرات ناقابل انکار ہیں اور جب یہ ناقابلِ انکار ہیں تو اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام جس نقشے پر انسان کی اخلاقی تربیت‘ تمدنی شیرازہ بندی اور معاشی تنظیم کرنا چاہتاہے اس اس کے ہر ہر جز سے سود کلّی منافات رکھتا ہے اور سودی کاروبار کی ادنیٰ سے ادنیٰ اور بظاہر معصوم سے معصوم صورت بھی اس پورے نقشے کو خراب کر دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں حق تعالیٰ نے اس قدر سخت الفاظ کے ساتھ سود کو بند کرنے کا حکم دیا کہ (ترجمہ) ’’اللہ سے ڈرو اور جو سود تمہارا لوگوں پر باقی ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی کی طرف سے جنگ کا اعلان قبول کرو۔‘‘ (سورۃ البقرہ: 279)۔

حرمتِ سود کی شدت

قرآن میں اور بھی بہت سے گناہوں کی ممانعت کا حکم آیا ہے اور ان پر سخت وعیدیں بھی ہیں‘ لیکن اتنے سخت الفاظ کسی دوسرے گناہ کے بارے میں وارد نہیں ہوئے۔ اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی قلم رو میں سود کو روکنے کے لیے سخت کوشش فرمائی۔ آپؐ نے نجران کے عیسائیوں سے جو معاہدہ کیا اس میں صاف طور پر لکھ دیا کہ اگر تم سودی کاروبار کرو گے تو معاہدہ کالعدم ہو جائے گا اور ہم کو تم سے جنگ کرنی پڑے گی۔ بنو مغیرہ کے سودخوار عرب مشہور تھے‘ فتح مکہ کے بعد حضورؐ نے ان کی تمام سودی رقمیں باطل کر دیں اور اپنے عامل مکہ کو لکھا کہ اگر وہ باز نہ آئیں تو ان سے جنگ کرو‘ خود حضورؐ کے چچا حضرت عباسؓ ایک بڑے مہاجن تھے۔ حجۃ الوداع میں آپؐ نے اعلان فرمایا کہ جاہلیت کے تمام سود ساقط کیے جاتے ہیں اور سب سے پہلے میں خود اپنے چچا عباس کا سود ساقط کرتا ہوں۔ آپؐ نے یہاں تک فرما دیا کہ ’’سود لینے اور دینے والے‘ اور اس کی دستاویز کے کاتب اور اس پر گواہی دینے والے سب پر اللہ کی لعنت۔‘‘
ان تمام احکام کا منشایہ تھا کہ محض سود کی ایک خاص قسم یعنی یوژری (مہاجنی سود) کو بند کیا جائے اور اس کے سوا تمام اقسام کے سودوں کا دروازہ کھلا رہے‘ بلکہ ان سے اصل مقصد سرمایہ دارانہ اخلاق‘ سرمایہ دارانہ ذہنیت‘ سرمایہ دارانہ نظام تمدن اور سرمایہ دارانہ نظمِ معیشت کا کلّی استیصال کرکے وہ نظام قائم کرنا تھا جس میں بخل کے بجائے فیاضی ہو‘ خود غرضی کے بجائے ہمدردی اور امداد باہمی‘ سود کے بجائے زکوٰۃ ہو‘ بینک کی جگہ قومی بیت المال ہو اور وہ حالات ہی سرے سے پیش نہ آئیں جن سے مقابلہ کرنے کے لیے نظام سرمایہ داری میں کو کو آپریٹیو سوسائٹیوں‘ انشورنس کمپنیوں اور پراویڈنٹ فنڈز وغیرہ کی ضرورت پیش آتی ہے اور آخر کار اشتراکیت کا غیر فطری پروگرام اختیار کرنا پڑتا ہے۔
اب یہ ہماری اپنی حماقت ہے‘ کمزوری ہے‘ بدقسمتی ہے کہ اسلام کا یہ اخلاقی‘ تمدنی اور معاشی نظام بالکل درہم برہم ہو گیا۔ سرمایہ داری ہم پر مسلط ہو گئی‘ زکوٰۃ کی تحصیل اور صحیح مصارف میں اس کو صرف کرنے کے لیے کوئی ا دارہ ہم میں باقی نہ رہا۔ ہمارے مال دار خود غرض اور نفس پرست ہوگئے‘ ہمارے نادروں کے لیے کوئی سہارا نہ رہا‘ ہم نے اسلامی اخلاق کھو دیا اور اس کی حدود کو ایک ایک کرکے توڑ ڈالا۔ شراب‘ جوئے اور زنا کاری میں ہم مبتلا ہوئے۔ عیش بندی اور اسراف کی بدترین صفات ہم میں پیدا ہوگئیں۔ فضول خرچی کے جملہ لوازم کو ہم نے اپنی ضروریاتِ زندگی میں داخل کر لیا۔ سودی قرض کے بغیر ہمارے لیے شادیاں کرنا‘ موٹریں خریدنا‘ بنگلے بنوانا‘ تزئین و آرائش اور عیش و عشرت کے سامان فراہم کرنا محال ہو گیا۔ پھر امدادِ باہمی کی اسپرٹ اور عملی تنظیم ہم میں سے یکسر مفقود ہو گئی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے معاشی حالات متزلزل ہو گئے‘ ہم میں سے ہر شخص کی زندگی کلیتاً اپنے ہی معاشی وسائل پر منحصر ہوگئی اور وہ مجبور ہو گیا کہ اپنے مستقبل کی حفاظت کے لیے اسلام کے اصولوں کو چھوڑ کر سرمایہ داری کے اصولوں کی پیروی کرے‘ بینک میں روپیہ جمع کرائے‘ انشورنس کمپنی میں بیمہ کرائے‘ کو آپریٹیو سوسائٹی کا رکن بنے اور بوقتِ ضرورت سرمایہ دار اداروں سے سود پر قرض لے کر اپنی حاجت رفع کرے۔ بلاشبہ آج یہ سب کچھ ہمارے لیے ناگزیر ہو گیا ہے مگر کیا ان حالات کو پیدا کرنے کی ذمہ داری اسلام پر ہے؟ اگر نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے‘ اور ہم ان حالات میں صرف اس وجہ سے مبتلا ہوئے کہ جس معاشی نظام کی تعلیم اسلام نے ہم کو دی تھی‘ اس کے ارکان میں سے ایک ایک کو ہم نے منہدم کر ڈالا ہے‘ تو کیا یہ جائز ہوگا کہ اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرکے جن معاسی مشکلات کو ہم نے خود اپنے لیے پیدا کیا ہے ان کا حل ہم اسلام ہی کے ایک اور قانون کی خلاف ورزی میں تلاش کریں اور پھر اسلام ہی سے مطالبہ کریں کہ وہ اس خلاف ورزی قانون کی ہم کو اجازت دے دے؟ آخر ہم کو کس نے زکوٰۃ کی تنظیم سے روکا ہے؟ امداد باہمی کی اسلامی تعلیم پر عامل ہونے سے کون ہم کو باز رکھتا ہے؟ اسلام کے قانونِ وراثت پر عمل کرنے میں کون سدِّ راہ ہے؟ سادگی‘ پرہیزگاری اور کفایت شعاری کی زندگی بسر کرنے میں کون سا امر مانع ہے؟ کون ہم کو مجبور کر رہا ہے کہ اپنی چادر سے زیادہ پائوں پھیلائیں اور مغربی تہذیب کے مسرفانہ لوازم کو اپنی ضروریات زندگی میں داخل کر لیں؟ کس نے ہم کو پابند کیا ہے کہ کسبِ معاش کے جائز ذرائع اختیار کرنے کے بجائے سرمایہ در بننے کی ہوس میں حرام خوری کے طریقے اختیار کریں؟ کس نے ہمارے مال داروں کا ہاتھ پکڑ کر ان کو اپنے رشتہ داروں‘ ہمسایوں‘ دوستوں اور اپنی قوم کی بیوائوں‘ یتیموں‘ معذوروں اور محتاجوں کی مدد کرنے سے روکا اور یورپ‘ امریکا اور جاپان کے کارخانہ داروںکی طرف اپنی دولت پھینکنے پر مجبور کیا ہے؟ کس نے ہمارے متوسط اور قلیل المعاش لوگوں پر جبر کیا ہے کہ اپنی شادی اور غمی کی رسموں میں اپنی حد سے بڑھ کر خرچ کریں‘ امیروں کی ریس کرنے میں اپنے معاشی وسائل سے بڑھ کر شان اور ٹھاٹھ جمائیں اور اپنی فضول خرچیوں کے لیے سودی قرض لیں‘ یہ سب افعال جو ہم اپنے اختیار کر رہے ہیں‘ اسلام کی نگاہ میں جرائم ہیں۔ اگر آج ہم ان جرائم سے باز آجائیں اور اسلام کے معاشی نظام کو پھر سے قائم کر لیںتو ہماری وہ تمام معاشی مشکلات دور ہو سکتی ہی جو ہم کو ایک دوسرے جرم یعنی سود کھانے اور کھلانے کے جرم پر مجبور کر رہی ہیں۔ مگرجب ہم ان جرائم سے باز نہیں آتے تو اُس جرم کو بھی جرم سمجھ ہی کر کیوں نہ کریں جو ان جرائم کے نتیجے کے طور پر پیدا ہوا ہے؟ جس شخص نے خود پاک اور طیب غذائوں کو چھوڑ کر اپنے آپ کو ایسے مقام پہنچایا ہے جہاں ناپاک چیزوں کے سوا کچھ کھانے کو نہیں ملتا‘ وہ پیٹ بھر کر نجاست کھائے اور کھلائے‘ مگر وہ اس نجاست کو پاک اور طیب قرار دینے پر کیوں اصرار کرتا ہے؟
پس جیسا ک ہم ابتدا میں لکھ آئے ہیں سود لینے یا نہ لینے کی بحث تو ایک بعد کی بحث ہے‘ سب سے پہلے تو آپ کو یہ طے کرنا چاہیے کہ اسلام کے معاشی نظام کی پیروی کرنی ہے یا سرمایہ داری نظام کی؟ اگر آپ پہلی صورت کو اختیار کرتے ہیں تو اس میں سودی لین دین کی نہ ضرورت ہے نہ گنجائش کیوں کہ اسلامی معیشت کا سارا کاروبار اُن ادارت کے بغیر چلتا ہے جو سودی لین دین کرنے والے ہیں اور یہ نظام ان لوگوں کو مجرم سمجھتا ہے جو سودی کاروبار کرکے اس کے نظم کو بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں‘ برعکس اس کے اگر آپ دوسری صورت اختیار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کا سرمایہ دارانہ نظم معیشت کو اختیار کرنا بحیثیت مجموعی اسلام کے خلاف ایک بغاوت ہے اور اس بغاوت کی حالت میں آپ کو اسلام کے معاشی قوانین میں سے وہ تمام قوانین توڑنے پڑیں گے جو اصول سرمایہ داری کے خلاف ہیں۔ اب آپ کی یہ خواہش کہ آپ قوانین اسلام کی خلاف ورزی بھی کریں‘ نظام سرمایہ داری کی پیروی بھی کریں اور اسلام کی نظر میں گناہ گار بھی نہ ہوں‘ در حقیقت یہ معنی رکھتی ہے کہ اسلام کی پیروی چھوڑ کر آپ خود اسلام کو اپنا پیرو بنانا چاہتے ہیں اور آپ کی خواہش یہ ہے کہ وہ محض آپ کو اپنے دائرہ میں رکھنے کی خاطر اپنے اصول بدل کر سرمایہ دارانہ نظم معیشت کے اصول ختیار کر لے۔

حصہ