تخریبی رجحانات اور معاشرہ

323

حصہ اوّل
دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو نام تو بہترین انسانی اقدار کا لیتے ہیں‘ مثلاً امن‘ انصاف‘ مساوات وغیرہ لیکن اُن کا حصول چاہتے ہیں تشدد کے ذریعے۔ حالانکہ تشدد کے پیچھے عموماً بلکہ اصولاً غصہ‘ نفرت‘ حسد اور اسی قسم کے دو سرے منفی جذبات کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ یہ منفی جذبات ویسے تو بجائے خود معاشرے کے لیے مضر ہوتے ہیں‘ لیکن اگر ا نہیں کسی نظریے یا عقیدے کی پُشت پناہی حاصل ہو جائے تو اُن کی تخریب کاری کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔ مثلاً بیسویں صدی میں فسطائیت‘ نازی ازم اور اشتراکیت ایسے ہی نظریات تھے جنہوں نے منفی جذبات کو بھڑکایا اور بدترین تخریب کاری کے مرتکب ہوئے۔ ان میں سے فسطائیت اور نازی ازم تو خود اپنی ہی آگ میں جل کر ختم ہوچکے ہیں‘ لیکن اشتراکی نظریہ ابھی تک چل رہا ہے۔ اس نظریے کے ماننے والے کھلم کھلا تشدد پر اپنے یقین کا اظہار کرتے ہیں اور ایسے انقلاب کا نعرہ لگاتے ہیں جو بندوق کی نالی سے جنم لیتا ہے۔
ماضی قریب میں انسانیت بہت سے تجربات سے گزری ہے‘ ان سے معلوم ہوا ہے کہ ایسے نظریات جس معاشرے میں پیدا ہو جاتے ہیں وہ خود کو تشدد سے نہیں بچا سکتا اور جلد یا بدیر خانہ جنگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اب دنیامیں ایسی قوتیں بھی پیدا ہوگئی ہیں جو اپنے نظریات کی پشت پناہی کرتی ہیں‘ اس لیے ایسے ملک داخلی انتشار کے علاوہ بیرونی مداخلت اور بین الاقوامی سازشوں کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ ابھی افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہ ملک صرف اس بات کی سزا بھگت رہا ہے کہ اس نے اپنے اندر ایسے لوگوں کو پیدا کیا جو اشتراکیت کے تشدد پرستانہ نظریے پر یقین رکھتے تھے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں‘ اس لیے ہمارے سامنے سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ ملک کو اس کینسر سے کیسے نجات دلائی جائے اور جو عناصر ایسے پیدا ہو گئے ان کا کیا علاج کیا جائے۔
پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں دو قسم کے عناصر میں فرق کرنا چاہیے۔ ایک عنصروہ ہے جس کو اس کے نظریات کی قیمت ملتی ہے۔ یہ لوگ بیرونی قوتوں کے ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرتے ہیں اور اپنے مخصوص مفادات کے باعث قطعی طور پر لاعلاج ہوتے ہیں۔ دوسرا عنصر وہ ہے جو معاشرے سے مایوس ہو کر یا غلط پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر یا کچی عمر کی تصور پرستی میں مبتلا ہو کر ان نظریات کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مناسب تدابیر کے ذریعے راہِ راست پر لائے جاسکتے ہیں۔ ہمیں ان دونوں عناصر کو سمجھ کر ان کی نوعیت کے مطابق ان کا بندوبست کرنا چاہیے۔
اب جہاں تک بیرونی ایجنٹوں کا تعلق ہے‘ ان سے صرف سخت گیر قانون کے ذریعے ہی نپٹا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری سرگرمی کے ساتھ ایسے عناصر کا سراغ لگایا جائے اور پھر ثبوت کے بعد ان سے کسی قسم کی رعایت نہ کی جائے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایسے عناصر ہمیشہ تحفظ کی چھتری کے نیچے چھپے رہتے ہیں اور خود حکومت کی مشینری میں ان کی پشت پناہی کرنے والے موجود ہوتے ہیں۔ ایک بار اگر معلوم ہو جائے کہ یہ پشت پناہی کرنے والے لوگ کون ہیں تو سختی کے ساتھ اُن کا احتساب بھی ہونا چاہیے۔
لیکن جہاں تک دوسرے عنصر کا تعلق ہے‘ اس کا علاج صرف قانون سے نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ ایسے لوگ جو ان نظریات کا شکار ہیں‘ معاشرے کے ہر طبقے میں موجود ہیں اور ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان سب کے خلاف قانونی کارروائی ممکن نہیں ہوسکتی۔ دراصل ایسے لوگوں کے خلاف مخالفت کا جذبہ رکھنا ہی ایک فضول بات ہے۔ یہ ہماری مخالفت کے نہیں ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ ان کا علاج نشتر نہیں مرہم ہے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم توجہ اور ہمدردی سے ان اسباب کو سمجھیں جو ان نظریات کے پسِ پشت کام کر رہے ہیں۔ ہمیں خاص طور پر ان نظریات کی مقبولیت کا تجزیہ کرنا چاہیے اور ان کے پیچھے کام کرنے والے معاشی‘ اخلاقی‘ ذہنی‘ جذباتی اور نفسیاتی عوامل کو سمجھنا چاہیے۔ ان کی بہتر تفہیم ہی ان کے علاج کی کوئی صورت پیدا کر سکتی ہے۔
ہمارے نزدیک معاشرہ‘ بالخصوص نوجوانوں میں اشتراکیت کی مقبولیت کے تین بڑے اسباب ہیں۔
-1 تصور پرستی‘ (2) ماحول سے مایوسی‘ (3) اشتراکی پروپیگنڈہ۔ ہر انسان فطری طور پر کسی نہ کسی قدر میں یقین رکھتا ہے۔ انسانی فطرت کے لیے اقدار کی موجودگی بھی اتنی ہی ضروری ہوتی ہے جتنی مادّی ضروریات کی تسکین۔ جس طرح انسان روٹی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا‘ اسی طرح وہ اقدار کے بغیر بھی زندگی بسر نہیں کر سکتا۔
اشتراکی نظریہ سازوں نے اس بنیادی انسانی ضرورت کو بڑی اہمیت دی ہے‘ وہ امن‘ انصاف‘ مساوات جیسی اقدار پر زور دیتے ہیں اور شد و مد سے اس امر کا دعویٰ کرتے ہیں کہ بہترین انسانی اقدار صرف اشتراکی نظام ہی میں بروئے کار آسکتی ہیں۔ ایک مفکر نے کہا ہے کہ اشتراکی نظریے کی مقبولیت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ وہ دنیا کو جنت بنا دینے کا خواب دکھاتا ہے۔ یہ خواب جھوٹا سہی‘ مگر خواب ضرور ہے اور لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے لیے بڑی زبردست اپیل رکھتا ہے۔ اشتراکی اس اپیل سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ اشتراکی نظریات کی مقبولیت کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔
اقدار کی طرح حاضرالوجود سے بے اطمینانی بھی انسانی فطرت کا ایک پہلو ہے۔ ہر شخص کو‘ اگر وہ حساس اور ذہین ہے‘ تو اپنے ماحول سے ناآسودگی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ اس سے بہتر ماحول کی تمنا کرتا ہے اور ایک ایسے مستقبل کے خواب دیکھتا ہے جو اس کی خواہشات اور تمنائوں کو بہتر طور پر پورا کرسکے اب اگر معاشرے میں ایسے حالات موجود ہوں جن میں یہ بے اطمینانی اپنا کوئی مثبت حل نہ ڈھونڈ سکے تو اس سے لوگوں میں غصہ اور مایوسی پیدا ہوتی ہے‘ اشتراکی نظریہ ساز اس صورت حال سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور لوگوں کو یقین دلاتے ہیں ماحول کی تبدیلی صرف اشتراکیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ غصہ اور مایوسی کا شکار عناصر اس فریب میں آجاتے ہیں اور ایک ایسے مستقبل کے خواب دیکھنے لگتے ہیں جو شاید عمل میں تو کبھی نہ آسکے مگر جذبات کی تسکین کا زبردست ذریعہ بن جاتا ہے۔
اشتراکی نظریات کی مقبولیت کا تیسرا بڑا سبب معاشرے میں اشتراکی پروپیگنڈے کی اجازت کا موجود ہونا ہے۔ برصغیر میں چالیس‘ پچاس سال میں یہ کام ایک ایسے ادب کے ذریعے لیا گیا ہے جس میں لوگوں کے جذبات کو متاثر کرنے کی صلاحیت موجود تھی‘ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ایسی نظمیں‘ غزلیں اور افسانے لکھے گئے جن میں جذبات انگیزی کے ذریعے اشتراکیت کو مقبول بنانے کا کام کیا لیا گیا۔ یہ ادب خاص طور پر نوجوانوں کو پیش نظر رکھ کر لکھا گیا اور انہی میں مقبول ہوا۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں اس ادب کا اثر و نفوذ جاری و ساری ہے۔
پاکستانی معاشرہ اپنے ساری خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود بنیادی طور پر ایک اسلامی معاشرہ ہے‘ ہم عملاً جیسے بھی مسلمان ہوں‘ لیکن بہرحال اسلام میں یہ یقین رکھتے ہیں اور ہماری اقداربھی وہی ہیں جو اسلام نے ہمیں بتائی ہیں۔ یہ اقدار ہم اپنے بچوں کو بھی سکھاتے ہیں اور عام لوگوں کے لیے بھی ان کی تبلیغ و اشاعت کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس آموزش اور تعلیم کے باوجود معاشرے میں ایسے نظریات کیسے پھیلتے ہیں جو ہمارے مذہب اور اقدار کے قطعاً منافی ہیں۔ یہ سوال اتنا اہم ہے کہ اس پر جتنا بھی غور کیا جائے کم ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر تصور پرستی‘ ماحول سے مایوسی اور غلط پروپیگنڈے کے اثرات کا ذکر کر چکے ہیں‘ اب ہم نوجوانوں کے حوالے سے اس کے ایک خاص پہلو پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔
بچہ اپنی پیدائش کے وقت سے ماں باپ کے زیر اثر ہوتا ہے۔ عمر میں تدریجی اضافے کے ساتھ ماں باپ اسے ادب‘ آداب‘ شائستگی‘ عقائد اور اقدار کی تعلیم دیتے ہیں۔ بچہ عمر کے ایک حصے تک ماں باپ کو مثالی انسانی سمجھتا ہے اور ہر معاملے میں ان کی تقلید و پیروی کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ والدین اور بچے کی ایسی مطابقت ہوتا ہے جس میں بچہ مکمل طور پر ماں باپ کے نمونے کو قبول کرتا ہے۔ یہ کیفیت عفوانِ شباب کے پہلے مرحلے تک قائم رہتی ہے‘ لیکن بچہ جب جوان ہونے لگتا ہے تو اس میں جسمانی تبدیلیوں کے ساتھ زبردست ذہنی اور نفسیاتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اب وہ اپنی خودی اور شخصیت کی تلاش شروع کرتا ہے اور مطابقت کے بجائے ایک طرح کی علیحدگی اور تفریق کا عمل شروع ہوتا ہے بچہ اور ماں باپ کے تعلق میں یہ مرحلہ بڑا فیصلہ کن ہوتا ہے اور بچے کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ ماں باپ اگر ہوش مند اور تجربہ کار ہوں تو اولاد کی نئی ضرورتوں کو سمجھتے ہیں اور ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جس میں بچہ اس مرحلے سے آسانی سے گزر جاتا ہے اور ایک نئی مطابقت پیدا کر لیتا ہے‘ لیکن بعض صورتوں میں ایسا ابھی ہوتا ہے کہ والدین اولاد کی کئی ضرورتوں کو نہیں سمجھ پاتے اور نتیجہ ایک ایسی کشمکش کی صورت میں برآمد ہوتا ہے جو اولاد کو ماں باپ سے بغاوت پر مجبور کر دیتی ہے اور صغیر سنی کی مطابقت نہ صرف ٹوٹ جاتی ہے بلکہ اپنے پیچھے ایک طرح کی مخاصمت چھوڑ جاتی ہے۔ بچے کی زندگی میں عام طور پر یہ عمر تنقیدی شعور کی بیداری کی بھی ہوتی ہے‘ وہ بچپن کے مادّی تصورات کو ایک نئی نظر سے دیکھنے لگتا ہے اور ردّ و قبول کے نئے تجربے سے گزرتا ہے۔ تصورات‘ اقدار‘ عقائد سب یا تو بچے کے شعور میں ایک نئی معنویت اختیار کرکے زیادہ گہرے ہو جاتے ہیں یا پھر بچہ ان سب کو مسترد کر دیتا ہے اور ہر چیز پر شبہ کرنے لگتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب ایک کلچر کی مخصوص صورت حال کا سوال اٹھتا ہے۔ ایک زندہ اور توانا کلچر میں ایسے رویے اور ذہنی و فکری سالمے موجود ہوتے ہیں جو عفوانِ شباب کے اس مرحلے میں نئے نوجوان کے کام آتے ہیں اور وہ اپنے تمام مسائل کو ایک وسیع تر تناظر میں دیکھنے لگتا ہے۔ اس تمام صورت حال کو انجیلِ مقدس کی ایک تمثیل میں بیان کیا گیا ہے جس میں لڑکا اپنے باپ کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور ایک مدت کے بعد واپس ہوتا ہے۔ واپسی پر جب اس سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کہاں گیا تھا تو وہ کہتا ہے کہ میں یہ معلوم کرنے گیا تھا کہ میں کون ہوں۔ ایک کلچر میں اگر جان ہو تو وہ نوجوانوں کو اپنی شناخت کے اس مرحلے سے گزار کر اسے پھر اپنی روایت سے وابستہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ورنہ صورتِ دیگر علیحدگی اور تفریق کی خلیق اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اسے پاٹنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ صورت حال معاشرہ اور نوجوان طبقہ دونوں کے لیے خطرناک ہو جاتی ہے۔ ایک طرف معاشرے میں باغی اور نامطیع نوجوانوں کی تعداد اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ معاشرے کے اندر ایک تخریبی قوت بن جاتے ہیں۔ دوسری طرف خود نوجوان طبقہ منفی رجحان کی شدت میں گرفتار ہو کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو زائل کرنے لگتا ہے اور خود اپنی شخصیت کو مثبت بنیادوں پر پروان نہیں چڑھا سکتا۔
ہم نے معاشرہ اور نوجوان طبقے کے تعلق کو اگر صحیح طور پر بیان کیا ہے تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارے کلچر کی موجودہ حالت کیا ہے۔ برصغیر میں انگریزوں کی آمد سے پہلے ہمارا کلچر ایک ’’ہم آہنگ کُل‘‘ کی حیثیت رکھتا تھا جو داخلی اور خارجی طور پر مربوط تھا۔ اس کلچر میں زوال اور انحطاط کی بہت واضح نشانیاں ظاہر ہو چکی تھیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ کلچر داخلی طور پر کچھ بیمار سا ہے۔ یہ ایک یرقان زدہ کلچر تھا اور یرقان کی یہ کیفیت اس کی تمام سیاسی‘ تہذیبی‘ اخلاقی مظاہر میں موجود تھی۔ انگریز اس کلچر میں مغربی کلچر کے اثرات لے کر داخل ہوئے اور دونوں کلچروں کے درمیان جیسا کہ ہونا چاہیے تھا ایک تصادم اور کشمکش کی صورتِ حال پیدا ہوئی۔ ابھی ہمارے یہاں اس صورتِ حال کا پورا تجزیہ نہیں کیا گیا ہے‘ لیکن ہمارے سامنے جو شواہد موجود ہیں ان سے ہم اس کشمکش اور تصادم کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ غالب نے اس کشمکش کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:۔

ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

سرسید تحریک میں یہ کشمکش اور نمایاں ہو کر سامنے آجاتی ہے اور اکبر اور سرسید کے اختلاف میں علامتی طور پر اس تضاد کا اظہار کرنے لگتی ہے جو ہمارے کلچر میں انگریزوں کی آمد سے پیدا ہوگیا تھا۔ غالب نے اس بات کو تاڑ لیا تھا کہ نئی صورت میں سے بڑی ضرب مذہبی تصورات پر پڑنے والی ہے۔ یہ ضرب کتنی شدید تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرسید اور حالی جیسے لوگوں کو مذہب کے لیے ایک نئی معذرت خواہی کی ضرورت پڑی اور وہ مجبور بھی ہوئے کہ مذہب کو مغرب کے تصورات سے ہم آہنگ کرکے پیش کریں۔ ہمارے موضوع کے اعتبار سے یہ بات اہم ہے کہ سرسید اور حالی کا مرکزی حوالہ بھی نوجوان طبقہ ہی تھا۔ بعد میں اقبال نے اس پوری صورتِ حال کو اس طرح بیان کیا:۔

ہم نے سمجھا تھا کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

یقینا یہ تعلیم جو اپنے ساتھ الحاد کو بھی لائی تھی‘ نئے مغربی کلچر ہی کا ایک جزو تھی۔
مغربی کلچر ہمارے اندر جتنی جڑ پکڑتا گیا‘ ہمارے کلچر کے تمام اجزا اس کی زد میں آتے چلے گئے۔ ہمارے معاشرتی ادب آداب سے لے کر اقدار اور عقائد تک ہر چیز ایک نئی تشکیک اور بے اطمینانی کی بڑھتی ہوئی رو میں بہنے لگی اور بہت جلد معاشرے کے اندر ایک ایسی صورتِ حال پیدا ہوگئی جس نے تضاد و تفریق کے عناصر کو بہت مضبوط کر دیا۔ (جاری ہے)

حصہ