ہم غمزدہ کیوں ہوجاتے ہیں

404

خاتون خاصی پریشان تھیں وہ بلاناغہ مجھے فون کرتیں اور کسی اسکول کے بچے کی طرح وہی رٹا رٹایا شروع سے آخر تک سنا دیتیں جو وہ مجھے کئی دن سے سنا رہی تھیں۔ ان کی گفتگو کا مرکز و محور ان کی ذات اور ان کے بچے تھے، ان کا خیال تھا کہ ان کو اور ان کے بچوں کو کسی ’’کاؤنسلر‘‘ کی ضرورت ہے اور یہ کمی آپ ہی پوری کر سکتے ہیں۔
ان کے بقول اب ان کے گھر کے حالات ان کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں۔ ان کی ایک بیٹی بھی ڈپریشن کا شکار ہے، گھر میں کوئی بھی مجھ سے بات نہیں کرتا ہے، بچے میری ایک بھی بات نہیں سنتے ہیں۔ جب میں نے ان سے پوچھا؛ ’’بچے آپ کی بات کیوں نہیں سنتے ہیں؟‘‘ تو وہ جواب میں کہنے لگیں کہ؛’’میرے دشمنوں نے انہیں میرے خلاف ورغلایا ہے، میرے حاسدین نے ان کے کان میرے خلاف بھرے ہیں‘‘۔
میں نے ان سے پوچھا؛ ’’صبح سے شام تک اور دن کے 24 گھنٹے آپ کے پاس اپنے بچوں کے کان بھرنے کا کا پورا وقت ہے اب آپ ان کے کان کیوں نہیں بھرتی ہیں؟‘‘ تو وہ آئیں بائیں شائیں کر نے لگیں۔ ان بے شمار فونز اور درخواستوں کے بعد میں ان سے بھی ملا اور ان کے بچوں سے بھی ملاقات کی اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ انسان جب تک صرف اپنی ذات اور صرف اپنی زندگی کے بارے میں سوچتا رہتا ہے وہ ہمیشہ پریشان رہتا ہے۔
اگر آپ انزائٹی اور ڈپریشن کے مریض ہیں۔ اگر آپ بھی ہر وقت ذہنی اور اعصابی تناؤ کا شکار رہتے ہیں، اگر آپ کی زندگی میں چین اور دل میں اطمینان نہیں ہے تو پھر آپ اپنی زندگی ضرور’’ریوائز‘‘ کریں۔ اپنی زندگی کا جائزہ لیں۔ انسانوں کو بیمار کرنے والی سب سے بھیانک چیز ان کی صرف اپنے بارے میں گفتگو اور اپنی ہی ذات کے بارے میں ہر وقت چلتی رہنے والی سوچیں ہیں۔
اس کائنات میں خوشیوں، کامیابیوں، سکون اور اطمینان کا فارمولہ بڑا عجیب ہے۔ جو دوسروں کے لیے سوچنا شروع کرتا ہے، جس کو خود سے زیادہ دوسروں کی فکر رہتی ہے، جو اپنے آپ کو خلق خدا کے لیے وقف کرتا ہے وہ اتنا زیادہ اطمینان اور سکون کی زندگی گزارتا ہے۔
آپ’’سحرش‘‘ کی مثال لے لیں۔ اس لڑکی کی عمر ابھی شاید 30 سال بھی نہیں ہوئی ہے مگر یہ کسی بھی ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر ایک بھی پیسہ لیے بغیر ساری دنیا میں صرف واٹس ایپ گروپس اور فیس بک پیج کے ذریعے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے رشتوں اور شادیوں کے لیے اپنے آپ کو کھپا چکی ہیں۔ میں اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ بات کہہ سکتا ہو کے انسانوں کو ڈیل کرنا دنیا کا سب سے دلچسپ اور سب سے مشکل کام بھی ہے اور یہ خاتون اس بیڑے کو اٹھائے گھوم رہی ہے۔ انہوں نے بہت سارے واٹس اپ گروپس بنا رکھے ہیں۔ آپ اپنے لڑکے یا لڑکی کی پروفائل اس گروپ پر اپ لوڈ کر دیں ہو سکتا ہے کوئی لڑکی والے یا پھر کوئی لڑکے والے آپ کو اپروچ کریں، معاملات ’’میچیور‘‘ ہونے کے بعد تصاویر کا تبادلہ اور گھروں پر آنے جانے کا سلسلہ بن جاتا ہے اور اس طرح آج کے دور میں اس مشکل ترین کام کو آسان بنانے کے لیے ’’فی سبیل اللہ‘‘ اس کم عمری میں ہمہ تن مصروف رہنے والی لڑکی اب تک 90 سے زیادہ خاندانوں کو صرف اللہ کی رضا اور مخلوق خدا کی خوشیوں کے لیے ایک دوسرے سے جوڑ چکی ہے۔
آپ بطور خاتون کبھی اس لڑکی سے رابطہ کریں اور پوچھیں؛
’’ کیا تمہیں ڈپریشن ہوتا ہے؟‘‘
’’ کیا تمہیں اینزائٹی ہوتی ہے؟‘‘
’’کیا تم اسٹریس فیل کرتی ہو؟‘‘
مجھے یقین ہے کہ وہ آپ کو پوری خوشی اور جوش و جذبے کے ساتھ نفی میں جواب دے گی۔ جس عورت نے سارے جہاں کا درد اپنے جگر میں پال رکھا ہو اور وہ بھی پورے اخلاص کے ساتھ تو اس کے اپنے ’’دردوں‘‘ کے لیے اس کے پاس، اس کے دل اور دماغ میں ویسے ہی جگہ نہیں بچے گی۔
یہ تو ویسے بھی سائنس کا اصول ہے کہ جیسے ہی کوئی جگہ خالی ہو گی کوئی نہ کوئی چیز اسے ضرور’’پُر‘‘ کردے گی۔ دل اور دماغ ہزاروں خیالات اور احساسات کے جنم لینے اور ان کی نشونما پانے کی جگہ ہے۔ یہ خیالات اور احساسات یا تو آپ کے اپنے لیے ہوں گے یا پھر دوسروں کے لیے ہوں گے اصول یہ ہے کہ جو دوسروں کے لیے اپنے دل اور دماغ کو مصروف رکھتا ہے، دوسروں کی بھلائی اور خیر خواہی کے لیے سوچتا ہے تو ’’قانونِ کشش‘‘ کے مطابق دوسروں کے دل اور دماغ اس کے لیے سوچنے لگتے ہیں۔
ایک دفعہ کسی نے واصف علی واصف صاحب سے پوچھا؛ ’’ہم غمزدہ کیوں ہو جاتے ہیں؟‘‘ انہوں نے فورا جواب دیا’’اصل میں تم تو خود دوسروں کا غم ہو اور تمہارا غم دوسرے اٹھا کر گھوم رہے ہیں، مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کا نام محبت، عزت اور تمیز سے لیں اور جب یہ نہیں ہوتا ہے تو وہ غم زدہ ہو جاتا ہے کہ دوسرے لوگ مجھے عزت نہیں دیتے، مجھ سے محبت نہیں کرتے وغیرہ‘‘۔
اس لیے اس دنیا میں ہر شخص دوسروں کا غم اٹھا کر گھوم رہا ہے۔ آپ دوسروں کی خوشیاں اٹھالیں آپ کے غموں کا بار ویسے ہی ہلکا ہو جائے گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی خوشیاں کسی دوسرے کے پاس گروی رکھی ہوئی ہیں اور آپ کو لگتا ہے کہ آپ کسی دوسرے کی وجہ سے اداس اور غمزدہ ہیں تو آپ دو بہت بڑی غلط فہمیوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
1) آپ نے نعوذ باللہ اس انسان کو ’’خدا‘‘ کا درجہ دے دیا ہے کیونکہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی خوشی اور غمی کا ذمہ دار خدا نہیں بلکہ کوئی دوسرا ہے۔
2) دوسرے یہ کہ اگر آپ کی بات درست مان لی جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کا انسان سے حساب لینا ظلم کے زمرے میں آتا ہے۔ جو چیز میرے اختیار میں تھی ہی نہیں بھلا اس کا حساب میں کس کھاتے میں دوں گا؟ میری خوشیوں اور غموں کا حساب تو دوسروں سے ہونا چاہیے نہ کہ مجھ سے۔
اگر آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو خوشیاں بانٹیں ورنہ دوسری صورت میں غم تو شاید ہم پہلے سے ہی بانٹ رہے ہیں۔

حصہ