انگریزی زبان اور سوشل میڈیا

231

کیا خبر جس کا یہاں اتنا اڑاتے ہیں مذاق
خود ہمیں بھی کبھی اس رنگ میں ڈھلنا پڑ جائے

غصہ ایک ایسی جذباتی کیفیت کا نام ہے جوآپ کو نامعلوم رستوں کی جانب لے جاتی ہے ، لیکن ہمیں ایک ’احتیاطی غصہ ‘ کابھی پتہ چلا ہے جوکہ شاید سوشل میڈیا پر نکالا جاتاہے۔سوشل میڈیا پر ویڈیو لیک ہونا یا وائرل ہونا اب تو معمول کی بات ہے۔ اس میں حریم شاہ کے تھپڑ کو بھی جگہ مل جاتی ہے اور پیسٹری کی دکان والی کو بھی۔چلیں اس ’احتیاطی غصہ‘کو جاننے کا تجربہ آپ سے بھی شیئر کرتے ہیں۔کینولی ویسے تو اٹلی کی خاص پیسٹریوں کوکہتے ہیںجوکہ ٹیوب نما ہوتی ہیں۔تقلید مغرب سے پیدا شدہ سرمایہ دارانہ روح کے زیر اثر اسلام آباد میں اِسی نام سے اپنی جیسی ’ایلیٹ کلاس ‘کے لیے ایک کیفے 9سال سے کام کر رہا ہے۔ اس ہفتہ اس کیفے کی خواتین مالکان نے اپنے ہی کیفے کے منیجر کے ساتھ گفتگو ریکارڈ کی اور انسٹا گرام پر جاری کی۔ بنیادی مقصد تو انہوں نے اپنے اسٹاف کا تعارف کروانا ظاہر کیا مگر88 سیکنڈ کی وڈیومیں  خواتین نے اپنے ہی کیفے میں کام کرنے والے اوّلین منیجر کے تعارف تک ہی وڈیو شیئر کی۔ 30 سیکنڈکے بعد مالکان کی جانب سے سارا موضوع اپنے کیفے کے منیجر کی کمزور انگریزی کو ہدف ِتنقید و مذاق بنانے کی جانب اختیاری طور پر چلا گیاتھا۔ اْن کے سوالات، قہقہے اور تبصرے بتا رہے تھے کہ وہ یہ ویڈیو ’اپنے جیسوں ‘کی تفریح کے لیے شیئر کرنا چاہتی تھیں۔اب سوشل میڈیا پر جب ویڈیو نے جگہ بنائی تو ناظرین نے تفریح کے بجائے اس کو اپنے پاکستانی بھائی کی تذلیل قرار دیا اور انگریزی ، انگریز کلچر، اشرافیہ کلاس پر جو کچھ رد عمل میں سامنے آیا اْسے میں نے ’احتیاطی غصہ‘ کا نام دیا۔ٹوئٹر پر ساراد ن ’بائیکاٹ کینولی‘ کا ہیش ٹیگ مستقل ٹرینڈ لسٹ میں اپنی جگہ بناکر کھڑا رہاسوشل میڈیا صارفین نے دونوں ایلیٹ خواتین کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ انہیں سامنے کھڑے شخص کی عزت نفس کا ذرا بھی خیال نہیں۔مالکان خواتین کی خوفناک میمز بنائی گئیں اور پوری کوشش کی گئی کہ مذاق اڑانے کا بدلہ بھی مذاق اڑا کر ہی لیا جائے۔کسی نے یہ بھی لکھا کہ ’اصل ورک پلیس ہراسمنٹ یہی ہے ، مگر کوئی بولے گا نہیں کیونکہ یہ تو مرد ہے۔ جو لوگ کہتے تھے کہ کیسے خاتون کسی مرد کو ہراساں کر سکتی ہے اْن کے لیے یہ مثال پیش کی گئی۔‘ کسی نے پڑھے لکھے جاہل کہا ، کسی نے کینولی کو ’کولونیل ازم‘ قرار دیا ، کسی نے بتایا کہ خلیل الرحمن قمر کی ’دو ٹکے والی عورت‘ یہ ہیں، کسی نے شیطانی اَپر کلاس ، سستے انگریز بھی کہا۔یہ مثال بھی دی گئی کہ’ انگلش آنے یا نہ آنے سے کسی کا ٹیلنٹ جج نہیں کیا جاسکتا۔ہماری ٹیم میں بہت سے ایسے کھلاڑی گزرے ہیں جو انگریزی نہیں بول سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنی پرفارمنس سے کرکٹ میں خوب نام کمایا۔‘اسی طرح ایک اور اہم انداز یہ بھی تھا کہ ’ جو خواتین پینتیس، چالیس سال میں تہذیب نہیں سیکھ سکیں، ان کو اویس کے ڈیڑھ سال میں انگریزی نا سیکھ پانے پر ہنسی آ رہی ہے۔ ہے نا تعجب کی بات؟‘پھر ویڈیو کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے لوگوں کو وہ منیجر اویس زیادہ تعلیم یافتہ نظر آیا کہ وہ ماسک بھی پہنا ہوا تھااور ایس او پی پر عمل کرتا نظر آیا۔اہم بات یہ محسوس کی گئی کہ وہ اِسی زبان کے ساتھ 9 سال سے اْن کا ریسٹورنٹ چلا رہا ہے۔ کہیں اْس طبقہ کو inferiority complexed souls کہا گیا تو کہیں Shame on you low lifes کہا گیا۔مذکورہ منیجر کے لیے مالکان کی جانب سے مالی حرجانہ ادا کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ایک اور دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اِسی نام سے ایک ریسٹورنٹ لاہور میں بھی ہے ، اْسے معلوم ہوا کہ بائیکاٹ کا ٹرینڈ چل رہا ہے تو اْس نے اپنی وضاحت پیش کر دی کہ اْس کا اسلام آباد والے ریسٹورنٹ سے کوئی تعلق نہیں۔لاہور ریسٹورنٹ نے اْن کے رویے و عمل کی مذمت کی اور ایسے ہر عمل سے لا تعلقی و برأت کا اظہار کیا جس میں انسان خصوصاً ملازمین کی تحقیر ہو۔اسی طرح انگریزی زبان کے بارے میں وضاحتیں کی جاتی رہیں کہ انگریزی صرف زبان ہے قابلیت نہیں۔اچھا یہ سب میرے نزدیک احتیاطی غصہ تھا کیونکہ لوگوں نے تمسخر تو محسوس کر لیا مگر اس کی وجہ یا جڑ پر ضرب نہیں لگا سکے۔ایسے میں فوری طور پر بائیکاٹ کا نعرہ تو بالکل ٹھیک ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ روح کا خاتمہ تو ممکن ہی سرمایہ کے خاتمے و زوال سے ایک درجہ میںممکن ہو سکتا ہے۔اسی لیے تو لاہور والے ریسٹورنٹ کو وضاحت کرنی پڑ گئی کہ اْس کی دکان نہ بند ہو جائے۔بہر حال یہ سب سطحی اعتراضات تھے جو یہ پیغام دے رہے تھے کہ یا تو بیماری کی اصل کی جانب لوگ خود جانا ہی نہیں چاہتے یا وہ جانتے ہی نہیں۔

ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
واں کنٹر سب بلوّری ہیں یاں ایک پرانا مٹکا ہے

اس شعر میں حکیم الامت علامہ اقبالؒنے مسکین کا مطلب ’’یتیم الفکر‘‘ لوگوں کو قرار دیا ہے۔مغرب اور اس کی اقدار پر وہی لوگ فریفتہ ہوسکتے ہیں جو یتیم الفکر ہوں۔ بدقسمتی سے مغرب بالخصوص مسلم دنیا میں یتیم الفکر لوگوں کی کمی نہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریزی صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ پوری تہذیبی شناخت کے ساتھ آئی ، جس نے فارسی، عربی جیسی فصیح و بلیغ زبانوں کو دیس نکالااردو تو بعد میں آئی مگر اردو کو ایسا نکو بنادیا کہ مت پوچھیں۔آزاد اقوام ( چین، جاپان، فرانس، ترکی ) کی مثالیں بھی آنی چاہیے تھیں، اس لیے کہ جن مظاہرکو ہم ’مغربی تہذیب ‘ کا نام دیتے ہیں وہ پوری روح کے ساتھ ہمارے معاشرے کی رگوں میں زہر کی مانند سرایت کر چکے ہیں اور اثرات دکھارہے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں درست اور جامع اردو بولنے والے بھی نہیں بچے۔ہونا تو یہی چاہیے کہ ایسے واقعات یا وائرل ویڈیوز میں جب اتنی بڑی تعداد میں عوام شامل ہو رہے ہوں تو باشعور ، نظریاتی افراد یا گروہوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور احتجاج کی درست سمت دینی چاہیے۔
اس ہفتہ بھی قومی تعلیمی پالیسی پر احتجاج جاری رہا جس میں سال بھر آن لائن کلاسزکی وجہ سے امتحان بھی آن لائن لینے کا مطالبہ تھا۔StudentsWantOnlineExams, #OnlineExamOrWeProtest, ، #OnlineExamOrWeProtest،SayNotoPhysicalExams #، #NUMLians_under_Police_torture #NumliansReject_OnCampuExams، #StudentsWantOlineExams
اور ’ہمارامطالبہ آن لائن امتحانات ‘جیسے ہیش ٹیگ ٹرینڈ لسٹ میں ہفتہ بھر چلتے رہے۔ملتان سمیت دیگر شہروں میں کئی احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے گرفتاریاں، پولیس اقدام بھی ہوئے۔اسلامی جمعیت طلبہ نے نمائندہ طلبہ تنظیم کے طور پر معاملات کو بہتر انداز سے ہینڈل کیا۔بہر حال قومی سطح کا اہم معاملہ تھا جو آگے بھی جاری رہے گا۔
نو منتخب امریکی صدر نے سابق صدر ٹرمپ کی جانب سے تمام تر اٹھائے گئے اعتراضات کے باوجودامریکہ کے 46ویںصدر کے عہدے کا حلف اٹھا کر دفترسنبھال لیا۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ٹاپ ٹرینڈ لسٹ میں نظر آئے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے عہدہ سنبھالتے ہی سابق صدر ٹرمپ کی متعدد پالیسیاں منسوخ کردیں جن میں مسلم ممالک پر عائد سفری پابندیاں شامل ہیں۔بائیڈن انتظامیہ اگلے کچھ دنوںمیں مزید احکامات جاری کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جن میں سے کئی کا مقصد سابق صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو واپس لینا ہے۔مبشر زیدی امریکہ سے لکھتے ہیںکہ ’جو بائیڈن 78 سال کے ہیں۔ صبح 7بجے ان کی مصروفیات شروع ہوگئی تھیں۔ حلف برداری کی تھکا دینے والی تقریب کے بعد وہ وائٹ ہائوس کے رہائشی حصے کے بجائے دفتر گئے اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر کام شروع کردیا۔
اوّلین گھنٹوں میں انھوں نے 17 صدارتی حکم نامے جاری کیے۔ یہ وہ وعدے تھے جو انھوں نے انتخابی مہم کے دوران امریکی عوام سے کیے۔ جس بات کے بارے میں انھوں نے کہا کہ صدارت کے پہلے دن ایسا کروں گا، ویسا کردیا۔ بہانہ نہیں بنایا کہ ابھی تو پہلا دن ہے۔ ابھی تو صدارت کی مدت شروع ہوئی ہے۔بائیڈن نے کہا تھا کہ جن مسلمان ملکوں کے شہریوں کے امریکا داخلے پر پابندی ہے، وہ پہلے دن ختم کروں گا۔ وہ حکم نامہ بھی جاری ہوگیا۔جن لوگوں کو وائس آف امریکا سے نکالا گیا، وہ جاننا چاہتے تھے کہ ٹرمپ کے بندے مائیکل پیک کو کب فارغ کیا جائے گا۔وائس آف امریکا کے سینئر صحافیوں سے میری بات ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر سے زیادہ مصروف کون ہوگا! صدر کی ترجیحات میں وائس آف امریکا بہت نیچے ہوتا ہے۔ اس تک پہنچتے پہنچتے کئی ماہ لگ جائیں گے۔ فی الحال کوئی امید نہ رکھیں۔
یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ بائیڈن انتظامیہ نے پہلے دن مائیکل پیک سے استعفا لے لیا۔اس استعفے کا مطلب ہے کہ غلط پالیسیاں ختم ہوں گی۔ غیر ملکی صحافیوں کے جے ون ویزا بحال ہوں گے۔ بیوروکریٹس کی دخل اندازی کا خاتمہ ہوگا۔ نیوز ایڈیٹرز پر دبائو ختم ہوگا۔ تعصب اور جھوٹے الزامات کی بنیاد پر نکالے گئے صحافیوں کو واپس ملازمت دی جائے گی۔ڈارک ونٹر ختم ہوگی۔ اگلا موسم، بہار کا ہے۔‘دوسری جانب بائیڈن کے ماضی کی روشنی اور دعوؤں کی روشنی میں واضح کیا گیا کہ ’بائیڈن کا دعویٰ کہ وہ ’سب سے پہلے امریکا‘ کے نعرہ کو ترک کرے گا مطلب وہ کورونا کے خلاف عالمی اقدام کو ایک سامراجی ہتھیار بنانے کا خواہاں ہے۔ وہ ٹرمپ کی پیدا کردہ امریکی تنہائی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ ‘ یہی نہیں بلکہ بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ عالمی نظام کو منظم کرنے کی ذمے داری بھی کسی دوسری قوت کو حاصل نہیں کرنے دے گا مطلب وہ روس کی معاشی مشکلات میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے روس اور چین میں عداوت بڑھائے گا‘۔اپنے دور نائب صدارت (2004ء تا 2012ء ) میں بائیڈن اپنی ایران دشمنی کے لیے مشہور تھا۔اوباما کے جانشین کے طور پر بائیڈن طالبان کا بھی پرانا دشمن ہے۔2009ء میں بائیڈن نے وہاں امریکی مستقل فوجی اڈے کے قیام کی خوب وکالت کی تھی۔ بقول ٹرمپ، بائیڈن مستقل جنگ جاری رکھنے کا خواہاں ہے۔

حصہ