مہر جمالی کے شعری مجموعے ’’محبت کا سفر‘‘کی تقریب اجرا

462

مہر جمالی‘ نفیس خاتون ہیں‘ ان کی شخصیت سماجی بہبود‘ افسانے اور شاعری کا محور ہے۔ ان کا تعلق ایک ادبی و علمی گھرانے سے ہے‘ ان کی تعلیمی قابلیت ایم اے‘ بی ایڈ‘ ایل ایل بی ہے۔ سندھ پبلک سروس سے امتحان پاس کرنے کے بعد UCD کورنگی ٹائون میں سوشل ویلفیئر آفیسر تعینات ہوئیں بعدازاں اسپنسر آئی اسپتال لی مارکیٹ میں میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے کام کیا پھر ملیر سب ڈویژن میں سوشل آفیسر بنا دی گئیں۔ گلشن اقبال کراچی کے سوشل ویلفیئر انسٹی ٹیوٹ میں تدریسی فرائض انجام دیے‘ ڈسٹرکٹ جام شورو میں ڈسٹرکٹ آفیسر کے عہدہ پر کارِ سرکاری انجام دیے‘ میمن گوٹھ‘ جام گوٹھ‘ آسو گوٹھ‘ درسنہ چنا‘ گڈاپ‘ ریڑھی میاں گوٹھ‘ لٹھ بستی اور ابراہیم حیدری میں والنٹیئری طور پر عوام کی خدمت کی۔ اپنے سرکاری عہدے سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لی‘ یہ اپنی گھریلو ذمہ داریوں اور سوشل ورک سے وقت نکال کر شاعری اور افسانے لکھ رہی ہیں‘ نومبر 2020ء میں ان کی شاعری کی پہلی کتاب ’’محبت کا سفر‘‘ شائع ہوئی۔ 14 جنوری 2021ء کو مہر جمالی کے پہلے شعری مجموعے کی تقریب اجرا کا اہتمام کراچی کی ایک ادبی تنظیم نیاز مندان کراچی نے کیا۔ کے ایم سی آفیسر کلب کشمیر روڈ کراچی میں منعقد ہونے والی تقریب کی صدارت راشد نور نے کی۔ نثار سولنگی مہمان خصوصی تھے۔ مقررین میں رونق حیات‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ رانا خالد محمود قیصر اور تنویر سخن شامل تھے۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے نظامت کے ساتھ ساتھ مہر جمالی کے فن اور شخصیت پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کراچی میں جو خواتین شعر و ادب سے جڑی ہوئی ہیں ان میں مہر جمالی بھی ایک اچھی شاعرہ ہیں‘ ان کی غزلیں اور نظمیں بہت پُر اثر ہیں‘ ان کا لب و لہجہ شائستگی اور شگفتگی سے مزین ہے‘ یہ صاف ستھرے الفاظ اور سادہ زبان میں اشعار کہہ رہی ہیں تاکہ ابلاغ کے مسائل پیدا نہ ہوں۔ تقریب کے میزبان رونق حیات نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم طویل مدت سے نظر انداز قلم کاروں کے لیے کام کر رہی ہے ہم نے ایک عالمی کانفرنس بھی منعقد کی تھی جس میں قلم کاروں کو درپیش مسائل و مشکلات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا تھا ہم نے حکومت پاکستان کو تحریری طور پر بتایا ہے کہ زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے قائم شدہ حکومتی اداروں کے بارے میں ہمارے تحفظات ہیں۔ ابھی حال ہی میں حکومت پاکستان کی طرف سے ’’انصاف ہیلتھ کارڈز‘‘ جاری کیے جارہے ہیں ہم چاہتے ہیں اس سلسلے میں قلم کاروں کو بھی شامل کیا جائے اور انہیں بھی کارڈز جاری کرکے ان کی مالی معاونت کی جائے‘ ان کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کی تقریب کی صاحبِ اعزاز مہر جمالی ہیں جن کے شعری سفر میں جمود نہیں ہے‘ یہ بہت تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہیں ان کے اشعار جذبات و احساسات سے بھرپور ہوتے ہیں‘ یہ نہایت سچائی کے ساتھ معاشرتی خدمات میں بھی مصروف ہیں۔ راقم الحروف نثار احمد نثار نے کہا کہ مہر جمالی خوش فکر شاعرہ ہیں‘ انہوں نے بھرپور زندگی گزاری ہے‘ ان کے تلخ و شیریں تجربات ان کے اشعار میں نمایاں ہیں‘ ان کے یہاں لفظوں کی بنت اچھی ہے‘ ان کے افسانوں میں زندگی رواں دواں نظر آتی ہے‘ ان کے مکالموں میں گہرائی اور گیرائی ہے‘ میں نے ان کے کئی افسانے حلقہ ٔ ارباب ذوق کی تنقیدی نشستوں میں سنے ہیں‘ ان کے کلام اور نثر میں گنجلک پن نہیں ہے۔ رانا خالد محمود قیصر نے کہا کہ مہر جمالی نے سہل ممتنع میں اچھے اشعار کہے ہیں‘ وہ وسیع المطالعہ شخصیت ہیں اس لیے ان کے ہاں زندگی کے مسائل پر سیر حاصل مضامین نظر آتے ہیں۔ انہوں نے غزل کے روایتی مضامین بھی استعمال کیے ہیں اور جدید غزل کے ثمرات بھی ان کے یہاں موجود ہیں۔ تنویر سخن نے کہا کہ مہر جمالی کے اشعار عہدِ حاضر کے ترجمان ہیں‘ ان کی غزلوں میں رومانی جذبات اور ندرت خیال کی ہم آہنگی نے ان کے اشعار کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ صاحبِ تقریب راشد نور نے کہاکہ رونق حیات ایک متحرک ادبی شخصیت ہیں‘ وہ قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ہر محاذ پر قلم کاروں کی آواز بلند کر رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے ہاتھ مضبوط کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مہر جمالی کی شاعری میں تخلیقی بیانیہ پایا جاتا ہے‘انہوں نے اپنی شاعری کو خوب صورت الفاظ سے سجایا ہے‘ ان کی نظمیں بھی قابل ستائش ہیں۔ نثار سولنگی نے کہا کہ انہوں نے اپنی ملازمت میں مہر جمالی سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے‘ یہ سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کی ایک قابل فخر آفیسر کے طور پر یاد رکھی جائیں گی‘ ان کی شاعری بھی ہم سنتے ہیں جس سے ہمیں ذہنی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قلم کاروں کا طبقہ ہمارے معاشرے کا معزز طبقہ ہے‘ میں ان کے مسائل میں ان کے ساتھ ہوں۔ میرے دفتر اور گھر کے دروازے قلم کاروں کے لیے کھلے ہیں‘ وہ جب چاہیں میرے پاس آجائیں میں اپنے وسائل ان کی بہتری کے لیے استعمال کروںگا۔ صاحب ِ اعزاز مہر جمالی نے کہا کہ وہ نیاز مندان کراچی کی ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرے لیے یہ محفل سجائی‘ میں ان لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں جو میری تقریب میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر مہمانوںنے مہر جمالی‘ نثار سولنگی اور صاحبِ صدر کو گلدستے پیش کیے۔ پروگرام کے دوسرے حصے میں مشاعرہ ہوا جس میں راشد نور‘ رونق حیات‘ فیاض علی فیاض‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ مہر جمالی‘ یوسف چشتی‘ سخاوت علی نادر‘ فاروق احمد‘ واحد رازی‘ افضل ہزاروی‘ ظفر بھوپالی‘ احمد سعید خان سعد الدین سعد‘ رحمان نشاط‘ شائستہ سحر‘ تنویر سخن‘ الحاج نجمی‘ شائق شہاب‘ زرین مسعود‘ وقار زیدی‘ ضیا حیدر زیدی‘ ساجدہ سلطانہ‘ آفتاب عالم قریشی‘ محمد علی سوز‘ عفت مسعود‘ امت الحی وفا‘ عینہ میر اور مشاعرے کی ناظمہ ڈاکٹر نزہت عباسی نے اپنا کلام پیش کیا۔ طارق جمیل نے کلماتِ تشکر ادا کیے اور کہا کہ وہ اردو زبان کی ترقی کے لیے تمام تنظیموں کے پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں ان کی تنظیم شعر و سخن بھی اس سلسلے میں بہت کام کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ تمام حاضرین کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر پروگرام میں شرکت کی۔ سامعین کی موجودگی سے شعرا کا حوصلہ بڑھتا ہے‘ مجھے بے حد افسوس ہے کہ اس وقت مشاعروں سے سامعین غائب ہوتے جارہے ہیں۔ ہمیں اس طرف توجہ کرنی چاہیے۔ ناصر رضوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ کراچی میں ادبی تنظیموں نے اپنی مدد آپ کے تحت ادبی فضا بنائی ہے اس وقت شہر بھر میں مشاعرے‘ مذاکرے اور تنقیدی نشستیں ہو رہی ہیں‘ آج بھی نیاز مندانِ کراچی نے بہت اچھی محفل سجائی ہے‘ آج ہم نے بہت اچھا کلام سنا میزبان رونق حیات محبتوں کے انسان ہیں۔ مہر جمالی نے اپنے اشعار کے ذریعے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ ہم اپنے معاشرے کی بھلائی کی لیے مثبت روّیوں پر عمل کریں‘ ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کریں‘ پاکستان سے محبت اور امن وامان کی بحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔

شعرا معاشرے کے معمار ہیں‘ قادر بخش سومرو

شاعر معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو معاشرتی فلاح و بہبود کے کام میں مصروف رہتا ہے‘ یہ لوگ انتہائی حساس ہوتے ہیں‘ اپنے اردگرد کے ماحول پر گہری نظر رکھتے ہیں اور شاعری کے ذریعے ہر مشکل کا حل عوام کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ مختلف قسم کی تحریکوں میں قلم کاروں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں‘ قیام پاکستان میں شعرائے کرام نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان خیالات کا اظہار اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام اڈورنو کی جمالیات کے موضوع پر منعقدہ مذاکرے میں استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اوڈورنو کی تھیوری کا فوکس معنویت اور علمیت کے باہم نقض دو معقولات ہیں جس کی وجہ سے آرٹ کی تعبیری اپروچ اور ثقافتی اہمیت پر زور دیتی ہے‘ تاہم اس کے سماجی اور سیاسی علتوں کو تلاش کرتی ہے سماج اور آرٹ میں رشتہ جوڑتی ہے‘ اڈورونو کامطالبہ یہ ہے کہ معنی اور عملیت کے معقولات کو ایک دوسرے کے تناظر میں رکھ کر سمجھنا چاہیے باوجود اس کے کہ یہ دونوں باہمی تضاد پر مبنی ہیں۔ بہرحال جب تک آرٹ کی تعبیر معنویت کا سوال نہ اٹھایا جائے آرٹ کے عمل کی سماجی حیثیت کو نہیں سمجھا جاسکتا یوں اوڈرونو اس مفہوم کو اہمیت دیتا ہے جو سماجی وسیلے سے برآمد ہونے کے باوجود عقل و دانش سی وابستہ ہوتا ہے اڈورنو نے روشن خیالی کی جدیدیت میں کلچر انڈسٹری کے موضوع پر پورا یک باب تحریر کیا ہے جس میں اس نے استدلال کیاہے کلچر انڈسٹری صداقت کی قدر کو نظر انداز کرکے آرٹ کو مالِ تجارت کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے دفتر میں ہونے والے اس مذاکرے اور مشاعرے کی صدارت گلنار آفرین نے کی۔ مہمان خصوصی میں شاہین برلاس‘ عزیز سائر‘ فرزانہ خان اور ابرار بختیار شامل تھے۔ گلنار آفرین نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اڈورنو نے 1934ء میں جرمنی کو خیرباد کہا اور جنگ ِ عظیم دوم کے آخر تک وہ آکسفورڈ‘ نیویارک اور جنوبی کیلی فورنیا میں مقیم رہےاڈورونو مرتے دم تک فرینکفرٹ میں رہائش پزیر تھا اس نے سرمایہ داریت اور مارکسیت کو تنقیدی نشانہ بنایا اس کی خواہش تھی کہ کوئی ایسا راستہ تلاش کیا جائے جو سماجی ترقی کی راہیں روشن کرے۔ پروفیسر فرزانہ خان نے کہا کہ اڈورونو نے 20 ویں صدی کے سماجی فلسفے کی تشکیل نو کی‘ اس کی جمالیات پر اس کی کتاب Aesthetic Theory اس کے انتقال کے بعد 1969ء میں منظر عام پر آئی‘ یہ کتاب اڈورونو کی جدید آرٹ سے زندگی بھر کی وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ابرار بختیار نے کہا کہ اڈورونو نے کانٹ اور ہیکل کی فلسفیانہ جمالیات کو جدید آرٹ کے تناظر میں پیش کرنے کے علاوہ آرٹ کی سماجی اور تاریخی معنویت پر بھی بحث کی ہے اس نے سوال کیا کہ کیا ادب سرمایہ داریت کی موجودہ صورت حال میں زندہ رہ سکتا ہے۔ اکادمی ادبیات کے اس مذاکرے کے بعد مشاعرہ ہوا جس میں گلنار آفرین عزیز سائر‘ فرزانہ خان‘ شاہد برلاس‘ افروز رضوی‘ سلمیٰ رضا سلمیٰ‘ حمیدہ کشش‘ سیدہ زرین مسعود‘ اقبال سہونی‘ آفتاب عالم قریشی‘ شجاع الزماں خاں‘ نظر فاطمی‘ عبدالستار رستمانی‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ محمد علی زیدی‘ دلشاد احمد دہلوی‘ سید ضیا حیدر زیدی‘ وقار زیدی‘ جمیل ادیب سید نے اپنا کلام سنایا۔ اس موقع پر معروف شاعر نصیر ترابی اور معروف دانش ور صبا ٹوانہ کے لیے دعائے مغفرت بھی کی گئی۔

یوسف چشتی کا شعری مجموعہ’’درِ جاناں کہاں تک ہے‘‘ شائع ہوگئی

یوسف چشتی کے آبا و اجداد کا تعلق ہندوستان سے تھا جو 1966ء میں ہندوستان سے ہجرت کرکے حیدرآباد آئے اور پھر 1978ء میں وہ کورنگی ٹائون کراچی میں آباد ہوئے‘ 1947ء میں یوسف چشتی پیدا ہوئے۔ کراچی میں انہوں نے پہلا مشاعرہ 1981ء میں پڑھا جس کی صدارت حضرت کیف بنارسی نے کی۔ شاعری میں ان کے پہلے استاد ظفر اورنگ آبادی تھے۔ کراچی میں انہوں نے علیم محشر چھتاروی سے اصلاح سخن لی۔ راقم الحروف نثار احمد نثار سے ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ بیس برس پر محیط ہے‘ وہ قلندر صفت انسان ہیں اور تصوف کے ایک سلسلے سے منسلک ہیں۔ تمام اصنافِ سخن پر طبع آزمائی کرتے ہیں لیکن نعتیہ کلام اور بہاریہ کلام کے شعری مجموعوں کی طرف توجہ دی ہے‘ ان کی غزلوں کا پہلا شعری مجموعہ ’’درِ جاناں کہاں تک ہے‘‘ جنوری 2021ء میں شائع ہوا ہے جب کہ نعتوں کا مجموعہ بھی زیور طباعت سے آراستہ ہونے جا رہا ہے۔ ان کے غزلیہ مجموعے میں ایک حمد‘ ایک نعت‘ ایک سلام اور حضرت علیؓ کی منقبت شامل ہے۔ 160 صفحات کی اس کتاب میں 129 غزلیں اور 3نظمیں موجود ہیں۔ کتاب کی قیمت 400 روپے ہے لیکن فی زمانہ ادب کی کتابوں کی خریداری کا رجحان دم توڑ رہا ہے‘ اب ہر شخص چاہتا ہے کہ انہیں کتاب تحفتاً پیش کی جائے لہٰذا یوسف چشتی بھی اپنے دوستوں کو اپنی کتاب نذر کر رہے ہیں۔ یہ شعری مجموعہ یوسف چشتی کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اظہار ہے جس میں ہم صحت مندانہ شعری روایات کا نظارہ کر سکتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان کے یہاں جدید لفظیات اور نئے نئے استعارے نظر نہیں آتے لیکن ان کے اسلوب و بیاں میں کشش ہے۔ غمِ جاناں کے ساتھ ساتھ غم، دوراں کی جھلکیاں بھی بہ درجہ اتم موجود ہیں۔ ان کے کلام کا بیشتر حصہ طرحی غزلوں اور نعتوں پر مشتمل ہے۔ شفیق احمد شفیق نے یوسف چشتی کے بارے میں کہا ہے کہ ان کے یہاں فکر و خیال کے لحاظ سے تصنع اور ہمہ دانی کا شائبہ نہیں ہے بلکہ خلوص اور سادگی کی چاندنی بکھری ہوئی ہے‘ ان کے اسلوب میں قاری کشش محسوس کرتا ہے‘ ان کی شاعری جدت طرازی کا دعویٰ نہیں مگر صحت مند روایاتِ شعری کی پاسدار ہیں‘ ان کی شاعری کا پلڑا رومانیت کی طرف جھکا ہوا ہے۔ غلام علی وفا نے کہا کہ یوسف چشتی جب سے تصوف سے جڑے ہیں ان کی شاعری کے مضامین و لفظیات‘ تشبیہ و استعارے عشق مجازی کے بجائے عشق حقیقی میں ڈھل گئے ہیں لیکن ان کے ہاں ندرتِ بیاں موجودہے۔ افضل ہزاروی نے کہا ہے کہ یوسف چشتی علم عروض سے نابلد ہونے کے باوجود ایک پختہ کار شاعر ہیں‘ وہ بڑی مہارت اور سادگی سے بڑی بڑی بات کہہ جاتے ہیں۔

حصہ