یہ بھی نعمت ہے

297

’’ہائے اللہ! کہاں چلی گئی ہے، مل کے ہی نہیں دے رہی‘‘۔ اس نے ڈھونڈنے کے چکر میں پورا باورچی خانہ ہی کھنگال ڈالا تھا لیکن اسے وہ مل کے ہی نہیں دے رہی تھی۔ لہٰذا اس کی جھنجھلاہٹ اور غصے میں بے پناہ اضافہ ہورہا تھا، اسے لگا کہ وہ بوڑھی ہوگئی ہے کہ چیزیں رکھ کر بھولنا شروع ہوگئی ہے یا سامنے رکھی چیز اسے نظر نہیں آتی۔
اور پھر اس نے بادام کھانے کا سوچا۔ لیکن یہ بادام کھانا بھی کیسے یاد رہے گا؟
پھر اسے اُس بٹن نما ڈیوائس کا خیال آیا جو کہ چھوٹی چھوٹی اہم چیزوں پر لگا دی جاتی ہے، جیسے چشمہ، والٹ وغیرہ پر، اور ریموٹ کے ذریعے اسے کنٹرول کیا جاتا ہے کہ جب وہ چیز نہ ملے تو بٹن دباؤ اور اس چیز میں سے آوازیں آنا شروع ہوجاتی ہیں جس کے ذریعے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ چیز کس جگہ موجود ہے۔
لیکن اسے لگا کہ پھر تو نہ جانے کتنی ڈیوائسیں اسے خریدنی پڑیں گی، کہ اسے تو چیزیں رکھ کر بھول جانے کی عادت ہے۔ اور ساتھ ہی اسے اُس وقت بہت کوفت ہوتی جب سامنے رکھی چیز اسے نظر نہ آتی۔ شاید چیزوں نے تنگ کرنے کی عادت اپنے اندر پیدا کرلی تھی، یا پھر اس کا دماغ کہیں اور ہوتا تھا اور ہاتھ انھیں تلاش کرنے میں لگے ہوتے۔
بہرحال جو بھی تھا، اس وقت اسے انتہائی کوفت اور جھنجھلاہٹ کا سامنا تھا۔ اس وقت اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ یوٹیوبر ہی ہوتی کہ پہلے تمام چیزیں سامنے نکال کر رکھ لی ہوتیں اور پھر کھڑی ہوتی کام کرنے، تو شاید کچھ بچت ہوجاتی۔ لیکن ابھی تو وقت گزرے جارہا تھا، لمحے صدیوں پر محیط ہوتے جارہے تھے اور تلاش جاری تھی۔
دراصل ہوا کچھ یوں تھا کہ وہ چاول اُبال رہی تھی کہ ’’چھلنی‘‘ صاحبہ غائب ہوگئی تھیں اور باوجود کوششوں کے ملنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ اس نے سوچا کہ ململ کے کپڑے سے ہی چھان لے۔ لیکن گھر میں کوئی نیا صاف ستھرا ململ کا کپڑا بھی موجود نہیں تھا۔ اُدھر چاول کھیر بننے کی تیاری میں لگ رہے تھے، اِدھر اس کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ بچوں کی دعائیں قبول ہورہی ہیں جو کئی دن سے بریانی کے ساتھ کھیر اور فرنی کی فرمائش بھی کررہے تھے، اور وہ کبھی وقت کی کمی اور کبھی اپنے بڑھتے وزن کے سبب، بناکر نہیں دے رہی تھی۔ اور پھر اس نے سوچا کہ ساری دعائیں اب تو بچوں سے ہی کراؤں گی کہ بچوں کی دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں، جبھی تو اِس سال بھی اسکول کی چھٹیوں پر چھٹیاں آئے جارہی ہیں۔ لیکن یہ کام بعد میں کرایا جائے گا ابھی تو…
پھر اس کی نظر چولہے پر پڑتی۔ آنچ بالکل آہستہ کردی گئی تھی۔ ہاتھ تیزی سے ڈھونڈنے میں مصروف تھے۔ چھوٹے باورچی خانے کے باعث کچھ برتن کمرے میں رکھے گئے تھے۔ لہٰذا وہ کمرہ بھی کھنگال لیا گیا تھا۔ لیکن بے سود۔
پھر اب وہ اُسی کیبنٹ پر آگئی تھی جسے وہ چار بار نہیں تو تین بار تو دیکھ چکی تھی۔ لیکن اس نے سوچا چلو اب بس آخری بار دیکھ لیتی ہوں پھر سے اس میں۔ اور اِس بار اُس نے وہ کیبنٹ خالی کرنا شروع کیا۔ پلاسٹک کے برتنوں کو گرانا شروع کیا۔ دھڑم، دھڑام کی آوازوں سے وہ گرنے لگے، کیوں کہ ان برتنوں میں ہاون دستہ بھی رکھا تھا جس نے مزید pollution noise پیدا کی تھی، تو کان بھی پھٹتے پھٹتے بچے تھے، کیوں کہ وہ اسٹیل کا تھا۔ اسی میں اسے ناپنے والے چمچے بھی مل گئے تھے جن کی تلاش میں وہ کئی دن سے تھی۔ لہٰذا وہ کچھ لمحات کے لیے خوش بھی ہوئی کہ چلو کوئی تو فائدہ ہوا۔
لیکن اب گھڑی کی منٹ والی سوئی جیسے ہی آگے بڑھی ، وہ جھنجلا گئی کہ ان چاولوں میں تو موجود دار چینی، تیزپات، لونگوں پر اس کی نظر پڑ گئی تھی اور ساتھ دوسرے چولہے پر رکھے مسالہ پر بھی۔
اب کیا ہوگا…؟ وہ یہ سوچ کر ہی کانپ گئی تھی۔ اگر ان چاولوں کو کچھ ہوگیا تو…؟ اس سے آگے اس کے سوچنے کی ہمت نہیں تھی۔ اور یہ چاول بھی کوئی مٹھی بھر تھوڑی تھے، زیادہ مقدار میں تھے۔ اب اس نے مزید تیزی سے کیبنٹ میں موجود برتنوں پر ہاتھ مارنا شروع کیا تو مزید پلاسٹک کے کچھ برتنوں کو گرایا بھی، اور ساتھ ہی اس کے اندر جھانکا بھی۔ ابھی وہ یہ سب کر ہی رہی تھی کہ اسے بڑے سے تھال کے پیچھے چھپی کوئی چیز نظر آئی۔ اس نے سرعت سے اسے ہٹایا تو چھلنی صاحبہ چھپی بیٹھی تھیں۔ اب تو اس کا دل چاہا کہ کہے آج کل تو دلہنیں بھی اتنی ڈھکی چھپی نہیں ہوتیں جتنا کہ تم ہوگئی تھیں، اور بس نہ چلا کہ اسے پیار ہی کر ڈالے۔ لیکن اس نے اپنے جذبات کو قابو میں لاتے ہوئے اس وقت تو جلدی سے چولہا بند کرکے لمحوں میں اس میں چاول ڈالے اور سُکھ کا سانس لیا۔ جب یہ چاول چھلنی میں گئے تو یوں محسوس ہوا جیسے کہہ رہے ہوں شکر ہے چھلنی آپا آپ ہماری مالکن کو مل گئیں ورنہ ہم اس گرم پانی میں ہی شاید شہید ہو جاتے۔
اور وہ اس چھلنی کو دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی تھوڑی دیر غائب ہوکر اپنے وجود کا احساس دلا دیتی ہیںکہ یہ بھی ’’بہت بڑی بڑی نعمتیں ہیں‘‘۔

حصہ