غم خوار

191

’’ابو کیا ہوا آپ کو…؟ میں اتنا ڈر گئی تھی آپ کی طبیعت کا سن کر۔ اپنا خیال رکھا کریں۔‘‘ حوریہ نے اپنے والد سے کہا، جن کی طبیعت کئی دن سے خراب تھی، آ ج ہارٹ اٹیک کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہوچکے تھے۔
حوریہ کی شادی ہوئے ابھی چند دن ہوئے تھے، اس لیے وہ بار بار اپنا سسرال چھوڑ کر میکے نہیں آسکتی تھی۔ ایک شادی شدہ بھائی تھا، وہ بھی ملک سے باہر اپنی فیملی کے ساتھ مقیم تھا۔ یہاں صرف حوریہ ہی ان کی اولاد تھی، اس لیے حوریہ کو اپنے والد کی بہت فکر تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے رخصت ہونے کے بعد وہ تنہائی کا شکار ہوگئے ہیں، انہیں ایک خدمت گزار اور غم خوار کی اشد ضرورت ہے۔
اعزاز صاحب نے بڑی محنت سے اپنے دونوں بچوں کو پالا پوسا، ان کے آرام کے لیے اپنی جوانی میں دونوکریاںکیں تاکہ بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں۔ بچوں کی شادی کے بعد ان کی اہلیہ رضیہ بھی داغِ مفارقت دے گئیں۔ بیٹے جہانگیر کو ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری مل گئی اور وہ اپنی فیملی کے ساتھ وہیں مقیم ہوگیا۔ انہوں نے اپنے بچوں کو آزادی دی تھی کہ وہ اپنی مرضی سے جیسے چاہے زندگی گزاریں، جبکہ ان کی اکلوتی بیٹی حوریہ بھی اپنی زندگی کے نئے سفر پر گامزن ہوگئی تھی، اس لیے وہ آئے دن بیمار رہنے لگے تھے۔
’’میں نے سوچ لیا ہے، اب ابو کو اکیلے نہیں رہنے دوں گی… میں اب ابو کی دوسری شادی کروائوں گی، آخر ان کو اس عمر میں زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ اس طرح تو تنہائی کا شکار ہوکر اور بیمار ہوجائیں گے۔‘‘ حوریہ نے اپنے شوہر عمر سے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
’’کیا تمھارا دماغ خراب ہے…؟ اس عمر میں شادی…! یہ تو اللہ اللہ کرنے کی عمر ہے۔ لوگ کیا کہیں گے!‘‘ عمر نے خفگی سے حوریہ کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’آخر وہ کب تک تنہا رہیں گے! جہانگیر بھائی یہاں آنے کو تیار نہیں، ان کی وہاں اتنی اچھی نوکری ہے، ہر طرح کی سہولیات مہیا ہیں، ان کی بھی مجبوری ہے۔ میں بار بارابو کے پاس جا نہیں سکتی۔ ملازم بھی کتنا خیال رکھ سکتے ہیں! میرا کوئی ساتھ دے، نہ دے، میں ابو کی شادی ضرور کروائوں گی، ہمارا مذہب ان کو اجازت دیتا ہے۔ اسلام میں بڑھاپے میں شادی کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ صرف ہماری اپنی سوچ ہے اور بس۔‘‘
حوریہ نے سسرال والوں اور جہانگیر بھائی کی مخالفت سہہ کر آخرکار اعزاز صاحب کو دوسری شادی کے لیے راضی کرلیا۔ ساجدہ نامی خاتون جوکہ جوانی میں ہی بیوہ ہوگئی تھیں، ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، بھائیوں کے در پر بیٹھی تھیں، حوریہ کو وہ پسند آگئیں۔ حوریہ نے خاصی تگ و دو کے بعد ان کو اعزاز صاحب سے شادی کے لیے راضی کیا۔ معاشی طور پر اعزاز صاحب مستحکم تھے، دو دکانوں کا کرایہ ہر ماہ آتا تھا، مکان بھی اپنا تھا، بس مکان کو گھر بنانے والی چاہیے تھی، اس لیے اعزاز صاحب راضی ہوگئے۔ نکاح سادگی سے ہوا، حوریہ کے سسرال کے چند افراد اور ساجدہ کے بھائی، بھابھیاں اس تقریب میں شریک تھے۔ تقریب نہایت سادگی سے ہوئی اور حوریہ نے نہایت عزت کے ساتھ ساجدہ خاتون کو پورے گھر کی ذمے داری دے دی، خاص طور پر اعزاز صاحب کی۔ اتنی عزت پاکر ساجدہ خاتون پھولے نہیں سماتی تھیں۔
جیسے جیسے وقت گزرا انہوں نے اعزاز صاحب اور ان کے بچوں کو عزت اور خدمت کے ذریعے اپنا گرویدہ کرلیا۔ حوریہ جب بھی میکے جاتی اسے ایک مکمل گھر لگتا۔ جیسا کہ بیٹیاں اپنے میکے آکر ناز اٹھواتی ہیں، ساجدہ بھی حوریہ کے ایسے ہی نخرے اٹھاتی تھیں۔ حوریہ اکثر سوچتی تھی کہ ہم نے رسومات کے کتنے غلط شکنجے میں اپنی زندگی کو جکڑ لیا ہے۔ جہاں والدین اولاد کے لیے اتنی قربانیاں دیتے ہیں، وہاں اولاد کو بھی اپنے والدین کے لیے دل بڑا کرنا چاہیے۔

حصہ