گمان

221

’’بھائی! آپ مجھے یہ سوٹ نکال کر دکھائیں گے؟ میں آپ کو دو بار کہہ چکی ہوں۔‘‘
’’بس دو بار؟ ایک بار اور کہیں ناں۔‘‘
’’باجی اتنے سادہ پیکو کیوں کروا رہی ہیں؟ آج کل تو نت نئے فیشن آگئے ہیں پیکو میں، آپ فیشن نہیں کرتیں کیا؟‘‘
’’یہ ناپ کی قمیص تو ڈھیلی لگ رہی ہے آپ کے لیے، تھوڑی فٹنگ رکھوا لیں، آپ تو بہت اسمارٹ لگ رہی ہیں۔‘‘
سماعت پر یہ جملے ہتھوڑے کی طرح برس گئے، مگر میں اپنی عادت کے مطابق نپے تلے انداز میں دکان داروں سے بات کرکے اور اپنا کام کرواکر واپس گاڑی میں بیٹھ گئی اور میرے شوہر نے گاڑی گھر کی طرف موڑ دی۔ گھر آکر کاموں میں لگ گئی لیکن دل و دماغ میں وہی جملے گونجتے رہے۔ آخرکار جب عشاء کی نماز کے لیے تنہائی میں جائے نماز پر بیٹھی تو رو رو کر اپنے رب سے مناجات کرنے لگی کہ یاالٰہی یہ کیا ماجرا ہے، میں جو کہ ڈھیلے ڈھالے کالے عبایا اور اسکارف نقاب میں تھی، اور سینہ، کندھے، یہاں تک کہ بازو بھی اسکارف سے ڈھانپ کر رکھتی تھی اور دکان داروں سے صرف کام کی بات کرتی تھی، اِس کے باوجود بھی دکان والوں کے ’’دوستانہ رویّے‘‘ کا شکار ہوئی۔
یوں تو میں ہمیشہ اپنے شوہر کے ساتھ ہی دکان میں جاتی ہوں، لیکن اُس دن ہوا یوں کہ پارکنگ نہ ملنے کی وجہ سے میرے شوہر گاڑی میں ہی بیٹھے رہے اور میں بیٹی کے ہمراہ دکانوں کی طرف چلی گئی اور یہ ساری باتیں گوش گزار ہوئیں۔ میری ناقص سمجھ میں صرف اتنا آیا کہ کچھ عورتیں سرے سے بے پردہ ہوتی ہیں، اور کچھ عبایا پہننے کے باوجود باپردہ نہیں دکھتیں، اور یقینا دونوں صورتوں میں دکان داروں اور بازار والوں کو اپنے حلیے اور حرکتوں کی وجہ سے فری ہونے کی کھلے عام دعوت دیتی ہیں، لیکن کسی بھی صورت میں نقصان باپردہ عورتوں کا بھی ہوجاتا ہے، حالانکہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں، لیکن لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ سب ایک جیسی ہی ہوں گی۔
درحقیقت صنفِ نازک نے خود اپنے ہاتھوں پردے کی روح کا گلا دبا دیا۔ جو پردہ نہیں کرتیں اُن کا تو خیر معاملہ ہی الگ ہے، لیکن جو پردہ کرتی ہیں اور اِس کے باوجود بازاروں میں سب سے کھل کر بات چیت اور ہنسی مذاق کرتی ہیں وہ یقینا پردے کا مصرف سرے سے سمجھتی ہی نہیں۔ جسم کا پردہ تو ترجیحی بنیادوں پر کرنا ہی چاہیے، لیکن ساتھ ساتھ نظر اور زبان کا پردہ بھی ضروری ہے، کیوں کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ یقینا ہمارا پیارا دین ہمیں کسی چادر اور چاردیواری میں قید کرکے لاش نہیں بناتا بلکہ ضرورت اور مجبوری میں عورت مکمل حدود میں رہتے ہوئے گھر سے ضروری کام، یہاں تک کہ نوکری کے لیے بھی نکل سکتی ہے، لیکن یوں بازاروں کی رنگینیوں میں گم ہوکر اپنی حدود پار کرجانا پتا نہیں کہاں کی آزادی اور روشن خیالی ہے؟ اور اِس آزادی کی لاٹھی سے لوگ سب کو ہانکنے لگے ہیں۔
میں تو خود کو مکمل ڈھانپے اپنی 7 برس کی بیٹی کے ساتھ دکان پر کھڑی تھی اور یقینا وہ بھی پورے کپڑوں اور پوری آستینوں میں ملبوس تھی۔ لیکن جب یونہی وقت گزاری کے لیے اِدھر اُدھر دیکھا تو محسوس ہوا کہ گویا ہر کوئی اُسی کو دیکھ رہا ہے… ہر آتا جاتا مرد، دکان دار، گاہک۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا، ایک انجانا سا خوف محسوس ہونے لگا اور غیر محسوس طور پر میں اُسے اپنے قریب سے قریب تر کرتی گئی اور خود کو ہی کوستی رہی کہ کیوں اِسے اپنے ساتھ لے آئی، گاڑی میں ہی بیٹھا رہنے دیتی۔ بہرحال جیسے ہی پیکو والے نے دوپٹہ واپس کیا میں نے اسے پیسے تھمائے اور بجلی کی سی تیزی سے چلتے ہوئے جاکر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ بیٹی بھی کچھ حیران تھی کہ اماں کیوں پریشان ہیں! اب میں اُسے کیا سمجھاتی۔
لیکن میرے دل و دماغ میں اتنے خوف سمٹ آئے کہ میں جو اپنے لیے پریشان ہوں حالانکہ باشعور ہوں، اور جو آج کل معاشرے میں ناسمجھ بچوں کے ساتھ ہورہا ہے اُس کا کیا سدباب ہے؟ کچھ بھی تو نہیں۔ میں یا ہم سب کب تک اپنی بچیوں کو گھروں میں روک سکتے ہیں؟ ضرورتاً سہی، وہ باہر تو نکلیں گی ناں۔ اور نہ جانے آنے والے وقتوں میں یہ فتنہ کس حد تک پھیل گیا ہوگا اور کتنا اثر انگیز ہوچکا ہوگا؟ میں سوچتی ہوں کہ آخر ہم اپنے بچوں کی ایسی کیا تربیت کریں کہ وہ اِس مصیبت کا شکار ہونے سے بچ سکیں، اور کیا ساری مائیں ایسی تربیت کریں گی کہ ہمارے وہ بچے جو بڑے ہوکر شکاری بن جاتے ہیں وہ بھی بچ جائیں؟
جو نوجوان نفس کی بھینٹ چڑھ کر اِس حال کو پہنچ چکے ہیں یا آئندہ اس انجام کو پہنچنے والے ہیں، کیا وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی فوج میں شامل ہوکر دجال کا مقابلہ کریں گے؟ نہیں، کیوں کہ جب ان کے دلوں کی تہہ تک ایمان ہوگا ہی نہیں تو وہ دجال کو ہی مسیح مان کر الٹا اسی کی فوج میں شامل ہوجائیں گے۔ تو کیا ہوگا اس نوجوان نسل کا؟ کیسے بچائیں گے یہ خود کو، اور کیسے ڈھال بنیں گے ہماری؟ کیا صرف سورۂ کہف پڑھنا کافی رہے گا؟ نہیں، بلکہ اس پر عمل پیرا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہوگا۔ بے شک میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ (آلِ عمران:36)۔
اے اللہ! بنادے ہمیں ہاجرہ، آسیہ، مریم اور آمنہ جیسی مائیں، تاکہ ہم دے سکیں معاشرے کو اسماعیلؑ، موسیٰؑ، عیسیٰؑ اور محمدؐ جیسے بیٹے، اور عائشہؓ، زینبؓ اور فاطمہؓ جیسی بیٹیاں، آمین یارب العالمین۔

حصہ