جرم و سزا

399

جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں معاشرے کو تین چیزیں کرپشن سے روک سکتی ہیں (1) خدا کا خوف (2) قانون کا خوف (3) معاشرے کی ناپسندیدگی یا ملامت کا خوف۔ اب معاشرے میں کرپشن کی وبائی صورتِ حال ہمیں درجِ ذیل سوال سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
کیا ہمارے اندر خدا کا خوف باقی نہیں رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کیا ہمیں اپنے مذہب کی تعلیمات پر یقین نہیں ہے؟ اس سوال کی ایک اور صورت ہے۔ کیا ہم مذہب کا کوئی ایسا تصور تو نہیں رکھتے جو ہمیں کسی طرح کی اخلاقیات یا عمل صالح کی ضرورت سے بے نیاز کردیتا ہے؟
کیا قانون اس حد تک معطل ہوچکا ہے کہ ہم اس کے خوف سے بالکل بے پروا ہوچکے ہیں؟
کیا معاشرہ عمل صالح کی ضرورت اور اہمیت سے اتنا بیگانہ ہوچکا ہے کہ کرپشن سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی نہیں کرتا؟
ہمیں ان معاملات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ مذہب کے بارے میں ہم یہ مانے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ہم اس کی تعلیمات پر اپنا یقین کھوچکے ہیں۔ یقینا مذہب ہماری زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے، لیکن مذہب کے تصور کی حد تک یہ بات ماننے کی ہے کہ ہم عقائد، عبادات اور رسوم کو جتنی اہمیت دیتے ہیں عمل صالح کو اتنی اہمیت نہیں دیتے۔ ہم معاملات میں مذہب کو نظر انداز کرتے ہیں اور اپنے دل کے عمیق ترین گوشوں میں شاید یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمارا عمل جیسا بھی ہو ہمارے عقائد یا ہماری عبادات ہمیں بچالیں گی۔ بلکہ بعض اوقات ہم صرف رسوم کی ادائیگی ہی کو اپنی نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ مذہب کا یہ تصور ہمارے یہاں کیوں رائج ہوا ہے اس کی ایک ہی تاریخ ہے جس کے تجزیے کا یہ موقع نہیں۔ بہرحال یہ مذہب اپنی موجودہ صورت میں ہمیں کرپشن سے روکنے کی قوت نہیں رکھتا جیسا کہ معاشرے کی حالت سے ظاہر ہے۔
کرپشن کی روک تھام کا دوسرا ذریعہ قانون ہے۔ اور مذہب کی طرح اس کے بارے میں بھی یہ سامنے کی حقیقت ہے کہ وہ معاشرے میں کرپشن پر قابو پانے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ قانون پر اول تو عمل نہیں ہوتا کیوں کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں خود کرپشن میں مبتلا ہیں اور اگر تھوڑا بہت عمل ہوتا ہے تو صرف ایسی صورت میں جب قانون شکنی کرنے والا قانون شکنی کی قیمت ادا کرنے کا اہل نہ ہو یا کسی اور اعتبار سے کمزور ہو۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کرپشن کی روک تھام کے لیے مزید قوانین کی ضرورت ہے لیکن قانون سازی میں اضافہ قانون شکنی کے انسداد کی ضمانت نہیں ہے۔ قوانین میں اضافہ قوانین کو پیچیدبناتا ہے قوانین کو موثر نہیں بناتا۔ قانون شکنی کو روکنا صرف اس وقت ممکن ہے جب قانون پر سختی سے عمل کیا جائے۔ ہمارے یہاں یہی نہیں ہورہا ہے۔
اب رہ گئی تیسری چیز یعنی معاشرے کی ناپسندیدگی۔ اس کے بارے میں ہم کہہ چکے ہیں کہ معاشرے میں زرپرستی کا رجحان اتنا سرایت کرگیا ہے کہ ہم دولت کمانے ہی کو سب سے بڑی خوبی سمجھنے لگے ہیں اور ہم نے یہ دیکھنا چھوڑ دیا ہے کہ دولت کس ذریعے سے کمائی گئی ہے۔ ایک رشوت خور افسر ناجائز کمائی سے کوٹھی، کار اور بینک بیلنس کا مالک بن کر ہماری پسندیدگی کے معیار کو پورا کردیتا ہے اور ہم اسے عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس ایک ایمان دار، لیکن مفلس آدمی کو ہم کسی عزت کا مستحق نہیں سمجھتے۔ اسلامی معاشرے میں شخصیت کا معیار تقویٰ یا عمل صالح ہونا چاہیے، لیکن ہمارا معیار دولت اور صرف دولت ہے۔معاشرے میں کرپشن کی صورت حال کو بدلنے کے لیے دو قسم کی تبدیلیاں ضروری ہیں۔ (1) شعور کی تبدیلی (2) ماحول کی تبدیلی۔ شعور کی تبدیلی کا ذریعہ علم ہے، ماحول کی تبدیلی کا ذریعہ عمل۔ ہم اپنے علم و عمل کی تبدیلی ہی کے ذریعے اپنی زندگی کو بدل سکتے ہیں۔ اب جہاں تک شعور کی تبدیلی کا سوال ہے ہمیں نفسِ انسانی کی ایک بنیادی کیفیت کو سمجھ لینا چاہیے۔ ہمارا شعور دو سطحوں پر حرکت کرتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جھوٹ بولنا برا ہے، دھوکا دینا برا ہے، خود غرضی سے کام لینا برا ہے، لیکن ہم سب ان برائیوں میں مبتلا ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا اس کی وجہ شعور اور عمل کا تضاد ہے؟ بالفرض ہمارا جواب یہی ہو تو دوسرا سوال یہ ہوگا کہ شعور اور عمل کا تضاد کیوں پیدا ہوتا ہے، کیا انسان اپنے شعور کے خلاف عمل کرسکتا ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ آگ میں ہاتھ ڈالنے سے ہاتھ جل جاتا ہے۔ کیا ہم آگ میں ہاتھ ڈالتے ہیں؟ ہم آگ میں ہاتھ اس لیے نہیں ڈالتے کہ ہم اپنے شعور کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ پھر دوسری اخلاقی برائیوں کے سلسلے میں ہمارا عمل ہمارے شعور کے خلاف کیوں ہوتا ہے؟ دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے شعور کے دو حصے ہیں۔ ایک ہمارے شعور کا رسمی حصہ ہے ایک حقیقی۔ ہم اپنے رسمی شعور پر عمل نہیں کرتے، حقیقی شعور پر عمل کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ اخلاقی برائیوں کے سلسلے میں ہمارے شعور اور عمل میں تضاد پایا جاتا ہے۔ وہ دراصل ہمارے رسمی شعور اور حقیقی شعور کا تضاد ہے۔ ہم جھوٹ اس لیے بولتے ہیں کہ ہمارے اس رسمی شعور کے باوجود کہ جھوٹ بولنا برا ہے ہمارا حقیقی شعور یہ بتاتا ہے کہ جھوٹ بولنے میں ہمارا فائدہ ہے۔ اب شعور کی تبدیلی کے معنی حقیقی شعور کی تبدیلی ہیں نہ کہ رسمی شعور کی تبدیلی۔ معاشرے میں کرپشن کی موجودہ صورت حال ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارے رسمی شعور کے باوجود ہمارا حقیقی شعور اس کے حق میں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس حقیقی شعور کو کیسے تبدیل کیا جائے؟ ایک بچہ آگ کی مضرت سے ناواقف ہے۔ وہ آگ میں ہاتھ ڈال دیتا ہے، مگر جب ایک دفعہ وہ جل جاتا ہے تو اسے آگ کے جلانے کا حقیقی شعور حاصل ہوتا ہے اور پھر دوبارہ آگ میں ہاتھ نہیں ڈالتا، ہم حقیقی شعور اسی طرح حاصل کرتے ہیں۔ حقیقی شعور کسی عمل کے یقینی نتیجے کی پیداوار ہوتا ہے۔ کرپشن کی برائیوں کا حقیقی شعور ہمیں اس وقت حاصل ہوگا جب اس کا یقینی نتیجہ ہمارے حق میں برا ثابت ہوگا۔ ایک شخص رشوت لیتا ہے، رشوت کے مال سے تعیش کی زندگی بسر کرتا ہے، اسے زندگی کی ساری آسائشیں اور سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔ اس کے مال کی وجہ سے لوگ اُس سے ڈرتے ہیں، اور اس کی عزت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ رشوت کے بارے میں اس کا حقیقی شعور یہی ہوگا کہ رشوت اچھی چیز ہے۔ اس طرح فرض کیجیے یہ صورت حال بدل جاتی ہے، وہ رشوت لیتا ہے تو پکڑا جاتا ہے اس پر مقدمہ چلایا جاتا ہے اور سزا ملتی ہے۔
لوگ اس کی رسوائی اور ذلت کا تماشہ دیکھتے ہیں تو رشوت کے بارے میں اس کا حقیقی شعور بھی بدل جائے گا۔ اور آگ کے تجربے کی طرح وہ حقیقی طور پر جان لے گا کہ رشوت بری چیز ہے، اس لیے کرپشن کو روکنے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ کرپشن کے برے نتائج کو یقینی اور حتمی بنایا جائے۔ صرف اس طرح ہی ہم کرپشن کی برائی کا حقیقی شعور پیدا کرسکیں گے۔ دوسرے لفظوں میں کرپشن کے خاتمے کے لیے ہمیں سب سے پہلے قانون کے خوف کو موثر بنانے کی ضرورت ہے۔اب اس ضمن میں ہماری سب سے پہلی ضرورت ایک ایسی حکومت ہے جو کرپشن کے خاتمے کا تہیہ کرچکی ہو، اور اس کے لیے ہر ممکن اقدام کرنے کے لیے تیار ہو۔ ایسی حکومت کو سب سے پہلے ایک ایسا فرد ڈھونڈنا پڑے گا جو خود کرپٹ نہ ہو، کرپشن کے خاتمے کے مقصد میں یقین رکھتا ہو، یہ مقصد اس کے لیے شخصی مسئلے کی طرح زندہ اور حقیقی ہو۔ اس کے ساتھ ہی اس میں ایسے مقاصد کو حاصل کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہو۔ یہ شخص اس مرکز کی طرح ہوگا جہاں سے کرپشن کے خاتمے کی ساری توانائی پیدا ہوگی۔ ضروری ہے کہ اس فرد کو معاشرہ ایک صاحب کردار اور صاحب صلاحیت انسان کی حیثیت سے جانتا ہو۔
یہ فرد اپنے مقصد کے حصول کے لیے ایک شعبہ قائم کرے گا جو چند ایسے افراد پر مشتمل ہوگا جن میں کردار اور صلاحیت کی وہی خوبیاں ہوں گی جو خود صاحب مرکزیت میں موجود ہوں گی۔ اس شعبے کا کام کرپشن کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنا ہوگا۔ کرپشن کہاں کہاں پایا جاتا ہے، کون کون سے لوگ اس میں ملوث ہیں، کرپشن کے اسباب کیا ہیں اور یہ اس قسم کی دوسری معلومات حاصل کرنے کے لیے یہ شعبہ اخبارات، عوام اور دیگر ذرائع کو کام میں لائے گا اور ان کی روشنی میں کرپشن کے خاتمے کی تجاویز مرتب کرے گا۔ نیز یہ دیکھے گا کہ ان تجاویز پر کس حد تک عمل ہوا ہے۔
اصول ہے کہ ہر کام کی تکمیل کے لیے اس کا ایک نقطہ آغاز طے کرنا پڑتا ہے۔ کرپشن کے خاتمے کی مہم کا آغاز ان ایجنسیوں سے ہونا چاہیے جو قانون کے نفاذ کی ذمہ دار ہیں۔ مثلاً پولیس کا محکمہ ایک ایسی ایجنسی ہے جس کی اصلاح سب سے پہلے ہونی چاہیے۔ اس ایجنسی کی تطہیر کے معنی یہ ہیں کہ قانو ن کے عمل درآمد کے نظام کو درست کردیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے قانون خود موثر اور فعال بن جائے گا اور یہ مقصد کے حصول کی راہ میں نصف کامیابی کے برابر ہوگا کیوں کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو درست کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اب قانون پوری طرح بروئے عمل آگیا ہے۔ ان ایجنسیوں کے کرپشن کے بارے میں پوری معلومات شعبہ نگرانی فراہم کرے گا۔
حکومت جس شعبے کی اصلاح کرنا چاہے گی شعبہ نگرانی کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں اس کا آغاز کرے گی۔ اس کارروائی کے رہنما اصول یہ ہوں گے۔
(1) اصلاح اوپر سے شروع ہوگی۔ اس اصول کے اطلاق کے معنی یہ ہیں کہ اگر ایک ادارے میں اس کا سربراہ اور ماتحت عملہ سب کرپشن میں مبتلا ہیں تو کارروائی کا آغاز سربراہ سے ہونا چاہیے تا کہ ماتحت عملے سے اس اصول کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ قانون جب کسی طاقتور کے خلاف بروئے عمل آتا ہے تو کمزوروں کی اصلاح خود بخود ہوجاتی ہے ورنہ بصورت دیگر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ قانون صرف کمزوروں کے لیے ہے۔ اس کی وجہ سے قانون پر اعتماد پیدا نہیں ہوتا۔ اور معاشرے میں قانون کا خوف ختم ہوجاتا ہے۔
(2) جن لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی اُن کو اپنے دفاع کا پورا موقع دیا جائے گا۔ تا کہ کسی انتقامی کارروائی یا زیادتی کا احتمال نہ پیدا ہو اور یہ احساس عام ہو کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جارہا ہے۔
(3) جو لوگ قانونی کارروائی کے تحت سزا یاب ہوں گے ان کی بدعنوانیوں کی مکمل تشہیر کی جائے گی تا کہ معاشرے میں عبرت کا احساس پیدا ہو اور برائی کے برے انجام پر یقین قائم ہوسکے۔ قانون کے خوف کے بعد دوسری قوت جسے ہم معاشرے کی اصلاح کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ معاشرے کی ملامت کا خوف ہے۔ ہمارے عمیق ترین محرکات عمل میں سے ایک محرک عمل یہ خواہش ہے کہ لوگ ہمیں پسند کریں۔ ہم بچپن سے ایسے کام کرنا سیکھتے ہیں جنہیں لوگ پسندیدہ سمجھتے ہیں اور ایسے کاموں سے بچتے ہیں جنہیں لوگ اچھا نہ سمجھیں۔ ہماری سماجی اخلاقیات کی بنیاد اسی عمل پر ہوتی ہے۔ اب جیسا ک ہم کہہ چکے ہیں معاشرے میں کرپشن اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرہ کرپشن کو برا نہیں سمجھتا۔ اس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ ہم ایک زرپرست معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ ہم نے عزت اور ذلت کا معیار دولت کو بنالیا ہے۔ یہ نہیں دیکھتے کہ کس نے کس طرح کمایا ہے۔ یہ زرپرستی ہمارے اندر کیوں پیدا ہوئی ہے اس کا تجزیہ ہم کسی اور وقت کریں گے، لیکن فی الوقت ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک زرپرست معاشرے میں رہ کر ہم اسلامی اخلاقیات پر عمل نہیں کرسکتے۔ اسلام میں اخلاقیات کی بنیاد اخروی ہے اور اس سے تقویٰ کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی عزت اور فضیلت کو تقویٰ کے نقطہء نظر سے دیکھا جائے۔ ہم جب متقی لوگوں کے بجائے دولت مندوں کو عزت اور فضیلت دینے لگتے ہیں تو اسلامی معاشرے کی بنیاد متزلزل ہوجاتی ہے، ہماری موجودہ صورت حال یہی ہے۔ معاشرے میں شریف، نیک، پرہیز گار لوگ ذلیل ہیں اور دولت کے سنہری بچھڑوں کو پوجا جارہا ہے۔ ایسے میں کرپشن کا پھیلنا اس صورت حال کا فطری نتیجہ ہے۔ ہم میں سے ہر شخص جلد از جلد دولت کمالینا چاہتا ہے اور اس کے لیے ہر وہ کام کر گزرتا ہے جو وہ کرسکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کا ازالہ کس طرح ہو۔
ہم چاہتے ہیں کہ اس اصول کو واضح طور پر بیان کردیں کہ نیکی نیک لوگوں کے بغیر شروع نہیں ہوسکتی۔ آپ دنیا کا بہترین سے بہترین نظام کرپٹ لوگوں کے سپرد کردیجیے وہ اسے تباہ کردیں گے۔ اس کے برعکس ایک خراب نظام بھی اچھے لوگوں کی وجہ سے اچھے نتائج پیدا کرسکتا ہے، ہم معاشرے میں اگر کوئی تبدیلی بھی چاہتے ہیں تو اسے نیک لوگوں کی اساس پر قائم کرنا پڑے گا۔ اسی لیے ہم نے قانون کے نفاذ کے سلسلے میں اولین شرط ایک ایسی حکومت کو قرار دیا تھا جو قانون پر یقین رکھتی ہو اور اس کے نفاذ کے جذبے سے سرشار ہو معاشرے میں کرپشن کے خلاف کوئی ردعمل صرف اس وقت پیدا ہوگا جب کچھ لوگ کرپشن کو واقعی ختم کرنا چاہتے ہوں گے اور اس کے لیے ہر اقدام کرنے پر تیار ہوں گے۔ ہمیں اپنے چاروں طرف دیکھنا چاہیے۔ کیا ہمارے شہر، محلے اور خاندان میں ایسے لوگ موجود ہیں؟ اگر موجود ہیں تو انہی سے ہمارے کام کا آغاز ہوگا۔
یہ محلہ کمیٹیاں ایسے چھوٹے بڑے اجتماع کرسکتی ہیں جہاں کرپشن کی برائیوں کو واضح کیا جائے۔ اور مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی زاویوں سے اس کے فساد پر روشنی ڈالی جاسکے۔ اس کے علاوہ یہ کمیٹیاں افراد سے بھی اپنا رابطہ پیدا کرسکتی ہیں اور نیک لوگوں کی قوت کو کرپشن کے خلاف مجتمع کرسکتی ہیں۔ رائے عامہ کو کسی برائی کے خلاف منظم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ذرائع ابلاغ کی قوت کا استعمال ہے۔ اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم کو کرپشن کے خلاف مہم چلانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ڈرامے، مباحثے، تقریریں، ایک ایسی فضا پیدا کرسکتے ہیں جس سے کرپشن کے خلاف ہمارے جذبات کو تقویت دی جاسکے۔ تجاویز بہت سوچی جاسکتی ہیں، لیکن تجویز اس وقت تک بے کار ہے جب تک اس کے پیچھے زندہ انسانوں کی قوت عمل موجود ہو۔ اصل کام تو یہ ہے کہ کس طرح نیک لوگوں کو کرپشن کے خلاف اکٹھا کرلیا جائے اور پھر انہیں اجتماعی عمل پر تیار کیا جائے۔ یہ ہوجائے تو پھر تجویزیں خود بخود حل ہوجائیں گی۔

حصہ