۔”ارطغرل” کے بعد “ترک لالہ”

448

تحریک خلافت کے گم نام “پاکستانی” ہیرو عبدالرحمن پشاوری کی کہانی

کیا ترک ڈرامے ”ارطغرل غازی“ نے انٹرٹینمنٹ کی دنیا کی سوچ اور فکر کے زاویے کو بدلنا شروع کردیا ہے؟ یہ اہم سوال ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ڈرامے نے پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ ضرور کیا ہے۔ بچے، بڑے، مسلم، غیر مسلم سب اس کے شیدائی ہیں۔ گزشتہ سال اس ڈرامے سے متاثر ہوکر ایک میکسیکن جوڑے نے اسلام بھی قبول کیا تھا۔ اسلام قبول کرنے والے اس جوڑے کا کہنا تھا کہ ”ہم نے ترکی کے ڈرامے ”ارتغرل“ اور اس ملک کی دنیا بھر میں انسانی خدمت کے اقدامات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے“۔ اس ڈرامے کی ہمارے یہاں مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس نے کامیابی میں ترکی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے یہاں ایک زمانے میں سلیم احمد کے ڈرامے بہت مقبول ہوئے۔ ریڈیو پر ان ڈراموں کے نشر ہونے کا عرصہ اتنا طویل ہے کہ ریڈیو سننے والی کئی نسلیں سلیم احمد کے ڈرامے سنتے ہوئے پروان چڑھی ہیں۔ تحریکِ پاکستان کے پس منظر میں ”تعبیر“ پی ٹی وی سے نشر ہونے والا اُن کا مقبول ڈرامہ تھا۔ انہوں نے نسیم حجازی کے ”آخری چٹان“ سمیت کئی ڈراموں کی تشکیل بھی کی، جو پاکستان میں بے پناہ مقبول ہوئے، ان ڈراموں کی اگر آج پھر پروڈکشن ہو تو مزید مقبولت حاصل کریں گے۔
لگتا ہے تاریخ اپنے آپ کو تاریخی ڈراموں کے ساتھ دہرا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان اور پاکستانی انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے اور کئی اداکار اور اہم لوگ اس طرف متوجہ ہوئے ہیں، اور اب پاکستان اور ترکی کے تعاون سے عنقریب مشترکہ پروڈکشن شروع ہونے جارہی ہے۔ اس سلسلے میں ”ارطغرل غازی“ کے مشہور اداکار اینجن التان نے بھی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”پاکستانی ڈراموں ميں کام کرنا چاہتا ہوں“۔ اسی پس منظر میں اب ارطغرل سے منسلک کئی اہم لوگ وقتاً فوقتاً پاکستان کا دورہ کررہے ہیں، اس میں ایک سب سے اہم دورہ ڈاکٹر کاشف انصاری کی دعوت پر معروف اداکار جلال آل المعروف عبدالرحمٰن غازی اور پروڈیوسر کمال تیکدن کا تھا، جس میں وہ ڈاکٹر کاشف اور ڈاکٹر ثاقب انصاری کی زیر سرپرستی چلنے والی عمیر ثناء فائونڈیشن اور چلڈرن اسپتال بھی گئے، اور وہاں ارطغرل غازی کی بانی ٹیم کے سربراہ کمال تیکدن اور اس پروجیکٹ کے اصل روح رواں ڈاکٹر کاشف انصاری سے جو تفصیلات سامنے آئیں اُن کے مطابق وہ عنقریب تحریکِ خلافت کے مشہور کردار ترک لالہ پر سیریز کی پروڈکشن شروع کررہے ہیں، جس کے اسکرپٹ پر کام جاری ہے۔ ”ترک لالہ“ عبدالرحمٰن پشاوری جو پشاور کی سرزمین کا جری سپوت تھا جو اپنے ترک بھائیوں کی محبت میں اُن کے لیے جنگیں لڑتا رہا، اس کی پوری زندگی طاغوتی طاقت کے خلاف جہاد میں گزری۔ عبدالرحمٰن پشاوری کا مقبرہ ترکی کے شہر استنبول میں ہے، اور آج بھی ملک کے طول و عرض سے ترک شہری اپنے اس ہیرو کو خراجِ عقیدت پیش کرنے آتے ہیں۔ وہ صرف ایک مجاہد ہی نہیں تھے بلکہ ایک قابل سفارت کار اور ڈاکٹر بھی تھے۔ عبدالرحمٰن پشاوری کی پیدائش 1880ءکی دہائی میں موجودہ پاکستان کے شہر پشاور کے ایک بڑؑے خاندان میں ہوئی تھی، ان کے والد کا نام غلام صمدانی ہے۔ زمانہ طالب علمی کے دوران انگریزوں کے خلاف تحریکوں میں پیش پیش رہے۔ انگریزوں کے خلاف مضمون لکھنے کی بنا پر انہیں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ جب تحریکِ خلافت شروع ہوئی تو نوجوان عبدالرحمٰن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں میڈیکل کے طالب علم تھے۔ اُن دنوں برطانوی سامراجی حکومت برصغیر کے مسلمانوں کو اپنے ترک بھائیوں کی مسلح مدد کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ پھر جب مولانا محمد علی جوہر نے ترکی طبی وفد میں جانے کے لیے اپیل کی تو عبدالرحمٰن نے لبیک کہا اور اپنا سب کچھ فروخت کرکے ذاتی پیسوں سے جانے کے لیے بے چین ہوگئے۔ یہ طبی وفد 1912ء میں ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی قیادت میں ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل عملے کے ساتھ ترکی پہنچا۔ پھر اس مجاہد کی پوری زندگی طاغوتی طاقتوں کے خلاف مسلسل جہاد میں گزری۔ ایک رات ترکی میں راستہ چلتے ہوئے اُن پر گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی اور وہ بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں غازی حسین روف بے کے شبہ میں شہید کیا گیا جن سے وہ بہت متاثر تھے، اور چونکہ عبدالرحمٰن اس وقت کی خلق پارٹی جس کی سربراہی مصطفیٰ کمال پاشا کررہے تھے، کے مخالف تھے، اسی لیے پارٹی نے انہیں قتل کروایا۔ روف بے خلافت کے حامی تھے اور ان کی فکر ترکی اور اسلام کے گرد گھومتی تھی۔ وہ عبدالرحمٰن پشاوری سے بہت محبت کرتے تھے، ان کے حوالے سے ایک تقریب میں شرکت کے لیے 1933ء میں جامعہ ملیہ دہلی بھی آئے تھے، اور علامہ اقبال نے اس پروگرام کی صدارت کی تھی۔ بعد میں وہ پشاور اور لاہور بھی آئے تھے اور عبدالرحمٰن کے گھر بھی گئے تھے۔ عبدالرحمٰن شہید کی شخصیت اور حوالہ انقلابی کا تھا۔ وہ عالم اسلام کے داعی تھے۔ ہندوستان سے ترکی پہنچے تھے، اور ان کا صرف اسلام اور امتِ مسلمہ کا تصور حوالہ تھا۔ انہوں نے آنے والی نسلوں کے لیے قربانی اور ایثار کی بے مثال نشانی چھوڑی ہے۔ اگر اج کے مسلمان نوجوانوں میں ان کے نشانِ راہ پر چلنے کا جذبہ پیدا ہوجائے تو دنیا کا نقشہ تبدیل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ ترک صدر نے پاکستان کے دورے کے موقع پر بتایا تھا کہ ”جنگِ نجات میں پاکستانی عبدالرحمٰن پشاوری نے ہیرو کا کردار ادا کیا۔ عبدالرحمٰن پشاوری کو ماں نے واپس بلوایا لیکن انہوں نے منع کردیا۔ عبدالرحمٰن پشاوری نے تحریک خلافت کے دوران اہم کارنامہ انجام دیا، عبدالرحمٰن پشاوری تحریک خلافت کا ایسا گمنام ہیرو ہے جسے پاکستانی تو بھول گئے مگر ترکوں نے یاد رکھا“۔ ترکی میں ہر سال 30 جون ترک لالہ کے احترام میں قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ترک لالہ پر بننے والی سیریز تحریک خلافت پر آگاہی فراہم کرے گی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر کاشف انصاری جو اس سیریز کے کرتا دھرتا ہیں، اور ارطغرل غازی کی بانی ٹیم کے سربراہ کمال تیکدن سے ہونے والی مختصر گفتگو نذرِ قارئین ہے۔
…٭…٭…
سنڈے میگزین:آپ ایسا کون سا ڈرامہ لا رہے ہیں جو ڈراموں کا کلچر تبدیل کر دے گا؟
ڈاکٹر کاشف انصاری:۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
میڈیا پوری قوم کا مائنڈ سیٹ کرتا ہے۔ یہ کیوں ہے کہ ہم سب لوگ ٹرائی اینگل جیسی بے مقصد کہانیوں پر ہی کام کریں! پاکستان اور ترکی کی دوستی و تعلقات ڈھکے چھپے نہیں۔ ہم اپنی تاریخ کا ایک اہم ورق ایک بڑے سبق کے ساتھ کھولنے جا رہے ہیں۔ تحریکِ خلافت برصغیر میں چلنے والی ایک ایسی تحریک ہے جو کہ نبی پاکﷺ کی حدیث کی تصویر ہے کہ امتِ مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے جس کے اگر کسی ایک حصے کو بھی تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔ جس طرح ہماری ماؤں، بہنوں، بزرگوں نے قربانیاں دیں، اس عظیم واقعے کو آنے والی نسلوں کو بتانا ضروری ہے۔ یہ بنیادی طور پر سبق ہوگا آنے والی نسلوں کے لیے کہ ہم کس طرح ایک ہیں اور کس طرح ہمیں سرحدوں سے ماورا ہوکر ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہے۔ ہمارا کولیبریشن ہوا ہے تیکدن فلمز کے ساتھ… جو ارتغرل غازی، یونس ایمرے جیسی شاہکار سیریل کے بنانے والے ہیں۔ میرا اُن سے ایک سال قبل رابطہ ہوا اور ہم نے پاکستان و ترکی کے درمیان ایک یادگار اور مشترکہ مفادات پر مبنی پروجیکٹ کے بارے میں سوچا۔ پھر ہم نے خاصی سوچ بچار و تحقیق کے بعد یہ پروجیکٹ پلان کیا، اور اس کو اب پاکستان لے کر آئے۔ اس پروجیکٹ کو ترک صدر رجب طیب اردوان کی حمایت بھی حاصل ہے۔
سنڈے میگزین:کچھ اس پروجیکٹ کے بارے میں بتائیں کہ اس کا آپ کو کیسے خیال آیا؟
ڈاکٹر کاشف انصاری:بلاشبہ ارتغرل غازی صرف ایک ڈرامہ نہیں بلکہ یہ ایک کلچر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس نے ہر دیکھنے والے کی سوچ وفکر کو بدلا ہے۔ اس نے پاکستان کے 22کروڑ عوام کی سوچ پر جو اثر ڈالا وہ اِن شاء اللہ کئی نسلوں تک محفوظ رہے گا۔ ارتغرل غازی کی اقساط پی ٹی وی پر نشر ہوئیں اور غیر معمولی پذیرائی لے کر دلوں میں اتر گئیں۔ ارتغرل غازی کے پروجیکٹ نے بتایا ہے کہ گندگی، فحش کلچر، ساس بہو کے جھگڑے، چربہ کہانیاں یا طلاق و گھریلو سازشوں اور رنگا رنگ گلیمر کی کوئی اہمیت نہیں۔ ان سب کے علاوہ بلکہ ان موضوعات کو مائنس کرکے بھی کامیاب ترین سیریل بنائی جاسکتی ہے۔ ہمارا پروجیکٹ بھی ارتغرل کا ہی تسلسل ہے جس میں فرق یہ ہے کہ ارتغرل 800سال قبل کا کردار ہے، جبکہ ہمارا کردار ’ترک لالہ‘ 125سال قبل کا پروجیکٹ ہے۔ عبدالرحمٰن پشاوری ہمارا مرکزی ہیرو ہے جس نے علی گڑھ سے خلافتِ تحریک شروع کی۔ وہ اس کے روحِ رواں بنے اور اسے طول و عرض میں پھیلایا۔ اس کا اصل موضوع ان کی محبت، انسیت، قرآن سے ان کا پیار، علامہ اقبال اور ان کی شاعری ہے۔ ہم دکھائیں گے کہ وہ کیسے قرآن سے قریب ہوتے ہیں، پھر اقبال کی شاعری سے مدد لے کر امت کا تصور سمجھا اور پھر ان حالات میں وہ درد محسوس کرتے ہیں، ترکی جاتے ہیں۔ انہوں نے خلافت عثمانیہ کے خلاف سازشوں کا مقابلہ کیا، تین جنگوں میں حصہ لیا، غازی بن کر لوٹے، اسلام کا پرچم بلند رکھا اور سپہ سالار بھی رہے۔ جب وہ جنگوں سے واپس آئے تو ترکی میں کمال اتاترک کی حکومت تھی، اُن کو افغانستان میں ترکی کا سفیر مقرر کردیا گیا۔ وہیں ان کا انتقال ہوا۔ ان کا مقبرہ استنبول میں بنایا گیا۔ ہر سال 30 جون کو ترکی میں اُن کی خدمات کی یاد میں دن منایا جاتا ہے۔ وہ اپنی جان تو دے گئے مگر پوری امت کو سبق پڑھا گئے کہ امت کہیں بھی ہو ایک دھاگے میں ہی پیوست ہے۔

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

سنڈے میگزین:ارتغرل غازی ایک بہت بڑا پروجیکٹ تھا جو ایک معیار بن گیا ہے۔ کیا اس معیار کے مطابق ہی یہ ڈرامہ تیار ہوگا؟ کیا اس میں ارتغرل غازی کے مزید کردار بھی شامل ہوں گے؟
ڈاکٹر کاشف انصاری:ارتغرل غازی واقعی بڑا پروجیکٹ تھا، اس میں تو بہت ہیروز ہیں، مگر اِس سیریز میں ہمارا ہیرو ہی آپ کے سامنے ہوگا۔ ارتغرل غازی جیسے معیار ہی کو برقرار رکھیں گے کیونکہ دونوں کی پروڈکشن ٹیم اور کردار ایک جیسے ہیں۔ اسلامی تشخص کے ساتھ انسانوں کے تشخص کی بات کرتے ہوئے ہم دنیا کو یہ کیوں نہ بتائیں کہ حقیقی نیو ورلڈ آرڈر وہی ہے جو میرے آقا ﷺ نے مثالی عدل وانصاف سے پیش کیا۔ جب تک انصاف نہیں ہوگا کوئی نظام قائم نہیں ہوسکتا، اور یہ نظام صرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کا پیش کردہ نظام ہے۔ ارتغرل سیریز کے جو جو بڑے نام ہیں اُن میں سے 28کردار اس پروجیکٹ میں حصہ لے رہے ہیں جس میں ’جلال آل‘ بھی شامل ہیں۔ گیارہ، بارہ کرداروں سے میری بات بھی ہوچکی ہے۔ اس میں اینگن التان دزیتان اور ایسرا بیلچک بھی شامل ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کوئی ڈرامہ نہیں بلکہ ایک نظریہ، ایک مشن ہے، کہ میں اپنے بچوں کو وہ دے کر جاؤں جس پر اُنہیں فخر ہو۔ یہ قرآن صرف شادی کے موقع پر سر پر رکھنے کے لیے نہیں، مولوی صاحب سے بچوں کو پڑھوانے، یا ختم کی تلاوت کرانے کے لیے نہیں… بلکہ اس کا نظام نافذ کرنا اس کا اصل پیغام ہوگا۔ اس سیریز میں اس مقصد کو اور قرآن کے سبق کو شامل کیا جائے گا۔ یہ میں آپ سے لفاظی نہیں کررہا، بلکہ حقیقت بیان کررہا ہوں کہ ابن العربی جیسے کردار نے جس طرح مشکلات میں ارتغرل کی قرآن و سنت سے تربیت کی، اور پھر بزرگوں کا یہ سلسلہ آگے اُن کی اولادوں تک جاری رہا، وہی سبب بنا ایک عظیم سلطنت کے قیام کا، جس نے 600 سال تک کامیاب حکومت کی۔ اس سیریز میں ہم علامہ اقبال کی شاعری کا اضافہ کریں گے کہ کس طرح اُن کی شاعری سے فرد میں تبدیلی آئی۔
سنڈے میگزین: ہمارے یہاں چینل مالکان تو یہ کہتے ہیںکہ ہم تو وہ دکھاتے ہیں جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں؟
ڈاکٹر کاشف انصاری:جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں ہم اُن کو بھی اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔ میں کسی کی دکان بند کرنے نہیں آیا۔ تمہیں اپنی قبر میں جانا ہے مجھے اپنی قبر میں جانا ہے۔ یہ کام میرا یا کسی فرد کا نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے ہے اور ہم سب کا ہے۔ جو چاہے گا اس مشن میں آکر شامل ہوجائے گا۔ اس لیے اب ”لوگ جو دیکھنا چاہتے ہیں“ والا فلسفہ تو ارتغرل کے بعد دفن ہوچکا ہے۔
سنڈے میگزین: ارتغرل سیریز کے نشر ہونے پر کئی پاکستانی اداکاروں نے تنقید بھی کی، آپ اس کو کس طرح دیکھتے ہیں۔
ڈاکٹر کاشف انصاری:آپ کو سن کر حیرت ہوگی بلکہ میرے فون میں دیکھ لیں کہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کے 25بہترین اداکاروں اور اداکاراؤں نے گزشتہ پانچ دنوں میں دن رات مختلف طریقوں سے مجھ سے رابطہ کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس پروجیکٹ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔عدنان صدیقی، ہمایوں سعید نے اس بیڑے کو اپنے ہاتھ میں اٹھایا ہے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ یہ وہی کردار ہیں جو کمرشلائزڈ کام کرتے ہیں، مگر آج قرآن کے پیغام کے لیے وہ مجھ سے دو قدم آگے ہی کھڑے ہیں۔
سنڈے میگزین: وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات میں کیا بات ہوئی؟
ڈاکٹر کاشف انصاری:وزیراعظم صاحب سے ہماری ملاقات بہت شاندار رہی۔ وہ بہت خوش اور پُرجوش تھے۔ شرعی حدود میں رہتے ہوئے ڈرامے خود ان کا منصوبہ ہے۔ پاکستان میں اسلامی، پاکستانی ہیروز اور اپنی تاریخ پر ڈرامے و فلمیں بنیں۔ کئی بار انہوں نے یہ بات میڈیا انڈسٹری کے بڑے افراد کو بلا کر کہی، مگر اُن کو جواب ملتا کہ ”رنگا رنگ مصالحہ“ کے بغیر کوئی چیز نہیں بن سکتی، یا نہیں چل سکتی۔ مگر خان صاحب نے ارتغرل اور یونس ایمرے کی صورت میں ثابت کروایا کہ مصالحہ بامقصد اور اسلامی بھی ہوسکتا ہے۔ یہ قوم انتظار کررہی تھی ایسے پلاٹ کا، جس میں ان کو اپنا شاندار ماضی اور مستقبل کا وژن نظر آئے۔ یہی خان صاحب کا وژن تھا۔ ہمارے پروجیکٹ کو جب انہوں نے سنا تو نہ صرف اس کی حمایت کی بلکہ حکومتی معاونت کی پیشکش بھی کی۔ ہم تو صرف پروجیکٹ بتانے گئے تھے، مگر انہوں نے ازخود مالی معاونت کی پیشکش کی۔ اس میں کئی نجی گروپ بھی دلچسپی لے کر ہمارے ساتھ آرہے ہیں۔
سنڈے میگزین: کیا یہ ڈرامہ اردو زبان میں ہوگا اور شوٹنگ کہاں ہوگی؟
ڈاکٹر کاشف انصاری:ہم اس ڈرامے کو تین سیزن یعنی تین سال تک لائیں گے۔ پہلا سیزن پاکستان میں تیار ہوگا، دوسرا اور تیسرا سیزن ترکی میں شوٹ ہوگا۔ اس ڈرامے کو ابتدا میں تین زبانوں میں لائیں گے جس میں اردو، ترکی، انگریزی ہوگی۔ اردو زبان والے تو پاکستان، ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں بستے ہیں، اسی طرح ترک زبان صرف ترکی نہیں بلکہ البانیہ، آذربائیجان، روم، روس، ترکمانستان، ازبکستان، مقدونیا، بلغاریہ سمیت کئی ممالک میں بولی جاتی ہے۔ یہ پوری دنیا کے لیے ہم بنا رہے ہیں۔
سنڈے میگزین:ترک حکومت اس پروجیکٹ میں کہاں ہے؟
ڈاکٹر کاشف انصاری: ترک حکومت کی حمایت و اجازت کی روشنی میں ہی ترکی سے یہ تمام مہمان میرے ساتھ پاکستان تشریف لائے ہیں۔ یہ صرف ایک ڈرامہ نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے امید کا ایک پیغام ہے۔ اِن شاء اللہ اگلے سال یہ ڈرامہ اللہ کے عظیم پیغام کے ساتھ لوگ دیکھ سکیں گے۔

نظریاتی ڈرامے بنانا ہمارا ویژن ہے

ڈرامہ ارطغرل کے پروڈیوسر کمال تیکدن

تحریکِ خلافت کے مشہور کردار ”ترک لالہ“ پر عنقریب ترکی اور پاکستان میں شروع ہونے والی پروڈکشن پر جب ہم نے سلطنتِ عثمانیہ کے حوالے سے بنائے جانے والے ترک ڈرامے ”ارطغرل غازی“ کی بانی ٹیم کے سربراہ کمال تیکدن سے بات چیت کی تو ان کا کہنا تھا کہ ”ہمارا بھائی چارے کا تعلق سرحدوں کی تقسیم سے ختم نہیں ہوتا۔ عبدالرحمٰن پشاوری جو ہمارا مرکزی کردار ہیں، یہ اُن کی عظیم جدوجہد کی داستان ہے۔ یہ داستان امت کو ایک ہونے کا پیغام دیتی ہے۔ کس طرح یہاں سے عبدالرحمٰن اٹھ کر ترکی گئے اور تحریک چلائی۔ عبدالرحمٰن کا جذبہ اور علامہ اقبال کا کردار عظیم مثال ہے اس امت کو جوڑنے کے لیے۔ یہ کام آئندہ بھی جاری رہے گا۔ نظریاتی ڈراموں کی پیشکش ہی ہمارا وژن ہے۔ ہمارے ڈراموں کا مقصد تجارت نہیں بلکہ اللہ کی رضا کو پانا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹھیک ہے کہ ہر معنی میں ارتغرل ایک بڑا پروجیکٹ تھا، مگر ہم اِس پروجیکٹ کو بھی ویسی ہی اہمیت اور معیار دیں گے۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جو ڈرامے بن رہے ہیں اور دوسرے جو لوگ کام کررہے ہیں اُن کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے، جبکہ ہم امتِ مسلمہ کے تصور کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ پاکستان آکر بہت اچھا لگا، جو محبت و پذیرائی ملی وہ قابلِ فخر ہے۔ ہمارے درمیان کلمے کا رشتہ اور یہ بھائی چارہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ہم اس کے علاوہ بھی کئی پروجیکٹس پر کام کریں گے۔

حصہ