ٹیلی ڈرامے کی تباہ کاری

420

عصرِ حاضر میں انسان کی زندگی اتنی دھماکا خیز ہو گئی ہے کہ اسے ڈرامائی عنصر کے بغیر بیان ہی نہیں کیا جاسکتا۔ ٹیلی وژن کی 24 گھنٹے کی نشریات انسانی تاریخ کا بالکل انوکھا واقعہ ہیں، اور ان نشریات نے انسانی زندگی کو اطلاعات کے سمندر میں دھکیل دیا ہے۔ اس صورت حال نے کروڑوں انسانوں کے تناظرکو ’’اطلاعاتی‘‘ یا’’ خبری‘‘ بنادیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پہلے ذرائع ابلاغ زندگی کا حصہ تھے اور اب زندگی ذرائع ابلاغ کا حصہ بن گئی ہے۔ شیکسپیئر نے کہا تھا کہ مسئلہ انسان کے ’’ہونے یا نہ ہونے‘‘ کا ہے۔ شیکسپیئر ہمارے دور میں ہوتا تو کہتا کہ مسئلہ صرف ہونے یا نہ ہونے کا نہیں ٹیلی وژن پر ہونے یا نہ ہونے کا ہے۔ جو ٹیلی وژن پر موجود ہے حقیقی وجود اسی کا ہے، جو ٹیلی وژن پر موجود نہیں وہ موجود ہو کر بھی موجود نہیں۔
ہندوستان کا تفریحی تشخص اگر فلم ہے تو پاکستان کا تفریحی تشخص ٹیلی ڈراما ہے۔ اس ڈرامے کو تشخص عطا کرنے والوں میں اشفاق احمد، سلیم احمد، بانو قدسیہ، حسینہ معین، امجد اسلام امجد، اصغر ندیم سید، نور الہدیٰ شاہ، عبدالقادر جونیجو، فاطمہ ثریا بجیا، حمید کاشمیری اور ڈینس آئزکی کے نام نمایاں ہیں۔
عام خیال یہ تھا کہ پاکستان میں آزاد ٹیلی وژن چینلز کے آغاز سے ٹیلی صحافت ہی نہیں ٹیلی ڈراما بھی ترقی کرے گا مگر ہوا اس کے برعکس ہے۔ پاکستان میں اس وقت ٹیلی ڈرامے کا کیا حال ہے۔ اس کا اندازہ پاکستان کے ممتاز ڈراما نویسوں کے خیالات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی ممتاز ڈراما نگار حسینہ معین نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اب پاکستان میں ایسا ٹیلی ڈراما تخلیق ہورہا ہے جسے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔ ممتاز ڈراما نگار امجد اسلام اس سے بھی آگے چلے گئے۔ انہوں نے فرمایا کہ اب ہمارے بعض ڈرامے شوہر اور بیوی بھی ایک ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔
ممتاز ڈراما نگار اصغر ندیم سید سے جنگ سنڈے میگزین میں شائع ہونے والے انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا آپ پاکستان کے ٹیلی ڈرامے سے مطمئن ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ ڈرامے سے قطعی غیر مطمئن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مارکیٹنگ کی آڑ میں عورت کے امیج کو شدید نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ پاکستانی خواتین کی توہین کی جارہی ہے۔ انہیں عقل سے عاری اور بے وقوف دکھایا جارہا ہے۔ خاندانی اقدار کا مذاق اُڑایا جارہا ہے۔ کیا ہماری لڑکیوں کا مسئلہ صرف محبت، عشق، منگنی، شادی اور طلاق ہے؟ اصغر ندیم سید نے کہا کہ ڈراموں کے نتیجے میں ہمارے معاشرے کا تانا بانا تار تار ہورہا ہے۔ (سنڈے میگزین، یکم تا 7 نومبر 2020ء)۔
ہر معاشرے کی کچھ اقدار ہوتی ہیں اور معاشرے کے ابلاغی مواد کو معاشرتی اقدار سے ہم آہنگ ہونا چاہیے مگر حسینہ معین کا کہنا ہے کہ اب ہمارا ڈراما خاندان کے سب لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے ڈرامے میں ایسی خرابی در آئی ہے جو خاندان کے ادارے کے لیے باعث شرم ہے۔ ڈراما پورے معاشرے کے لیے ہے لیکن اگر پورا خاندان بیٹھ کر ایک ساتھ ڈراما نہیں دیکھ سکتا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا ڈراما زہر آلود ہوگیا ہے۔ ہم نے آج تک نہیں سنا کہ کسی نے اشفاق احمد، حسینہ معین، امجد اسلام امجد یا سلیم احمد کے کسی ڈرامے کے بارے میں یہ کہا ہو کہ ان کا ڈراما خاندان کے تمام افراد ایک ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ مگر امجد اسلام امجد کا اعتراض تو اور بھی سنگین ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے بعض ڈرامے شوہر اور بیوی بھی ایک ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔
شوہر بیوی کا تعلق ایسا ہوتا ہے کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے سے وہ باتیں بھی کرلیتے ہیں جو وہ کسی اور کے ساتھ نہیں کرسکتے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے ڈرامے کا مواد اخلاقی اعتبار سے اتنا گر گیا ہے کہ وہ شوہر اور بیوی کی گفتگو کے دائرے سے بھی نکل گیا ہے۔ اصغر ندیم سید کا کہنا ہے یہ ہے کہ ہمارا ڈراما عورت کی توہین کررہا ہے اسے بے وقوف بنا کر پیش کررہا ہے۔ پاکستانی معاشرے کے سیکولر اور لبرل عناصر مذہبی طبقات پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے عورت کو دبایا ہوا ہے۔ وہ اس کی شخصیت کو نکھرنے اور اُبھرنے نہیں دیتے مگر پاکستان میں اس وقت پورا ڈراما سیکولر اور لبرل عناصر کے ہاتھ میں ہے لیکن یہ عناصر اصغر ندیم سید کے بقول عورت کی تذلیل کررہے ہیں اسے احمق بنا کر پیش کررہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ سیکولر اور لبرل عناصر کا تصورِ عورت تو مذہبی طبقات کے تصورِ عورت سے بھی زیادہ پست ہے۔
سیکولر اور لبرل عناصر اشتہارات میں عورت کو Sex Symbol بنا کر پیش کررہے ہیں اور ڈرامے میں وہ عورت کو احمق کے طور پر سامنے لارہے ہیں۔ یہ عورت کے ساتھ ظلم کی انتہا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ہمارے ڈرامے اتنے ہولناک کیوں ہوگئے ہیں؟۔ روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے انٹرویوز میں ملک کے بعض اہم ڈراما نگاروں نے شکایت کی ہے کہ پاکستان میں ڈرامے کو این جی اوز نے اُچک لیا ہے۔ ان کے بقول اب ڈراموں کی کہانی اور ان کی کردار نگاری این جی اوز کے ہاتھ میں چلی گئی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری اکثر این جی اوز کا پس منظر مغربی ہے اور کون نہیں جانتا کہ اہل مغرب ہماری روحانی، اخلاقی، تہذیبی اور معاشرتی اقدار کو تہہ و بالا کرنا چاہتے ہیں اور ان کا ایجنڈا یہ ہے کہ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بجائے سیکولر جمہوریہ پاکستان بنا دیا جائے۔
چوں کہ ملک میں ڈرامے کو کروڑوں لوگ دیکھتے اور اس سے اثر قبول کرتے ہیں اس لیے ڈرامے کے موضوعات اور مواد پر این جی اوز کی خاص نظر ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہمارا ڈراما معاشرتی تعمیر کے لیے بروئے کار آتا تھا اور ایک وقت یہ ہے کہ وہ معاشرے کی تخریب کے لیے بروئے کار آرہا ہے۔ لیکن مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ این جی اوز نے ڈرامے کو اُچک لیا ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ٹی وی چینلز کے مالکان نے سرمائے کو اپنا خدا بنالیا ہے۔ بلاشبہ پی ٹی وی بھی ایک تجارتی ادارہ تھا مگر یہ تجارتی ادارہ معاشرے کی اخلاقیات کو بڑی حد تک سامنے رکھتا تھا۔ اس ادارے کا قصہ یہ تھا کہ اگر اس کی انائونسر کے سر سے دوپٹا اُتر جاتا تو پی ٹی وی سینٹر کے باہر احتجاجی مظاہرہ ہوجاتا تھا مگر اب ہمارے پرائیویٹ چینلز عورت کا لباس اُتارنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی احتجاج نہیں ہوتا۔
ان چینلز کے مالکان کی ہوس دولت کو کوئی نشانہ نہیں بناتا۔ تو کیا فحاشی بھی ’’سرکاری‘‘ اور ’’غیر سرکاری‘‘ ہوتی ہے؟ کیا پی ٹی وی کی اسکرین ہی پر عورت کی تذلیل ہوتی ہے؟ پرائیویٹ چینلز کی اسکرین پر عورت کو احمق بنا کر پیش کیا جائے تب بھی اس کی تذلیل نہیں ہوتی؟ آخر ہمارے معاشرے میں اخلاقیات کے ٹھیکے داروں کا مسئلہ کیا ہے؟ یہ حقیقت راز نہیں کہ ہمارے پرائیویٹ چینلز کے لیے ’’ریٹنگ‘‘ ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ ریٹنگ ہے تو سب کچھ ٹھیک ہے، ریٹنگ نہیں تو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ خواہ ریٹنگ سے معاشرے کی تباہی کی راہ ہی کیوں نہ ہموار ہو رہی ہو۔ یہ صورت حال سرمائے کو خدا بنائے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا ڈراما تخلیقی نہیں رہا بلکہ وہ ’’فارمولا ڈراما‘‘ بن گیا ہے۔ ادب کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ ادب فارمولا ادب نہیں ہوتا اور جو فارمولا ادب ہو وہ بہرحال ادب کہلانے کا مستحق نہیں ہوتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا ڈراما دراصل اب ڈراما نہیں رہا۔ اس پر تجارتی نفسیات کا غلبہ ہو گیا ہے اور اسے نظریہ ٔ سازش نے اُچک لیا ہے۔ آپ اشفاق احمد اور حسینہ معین کے ڈرامے سے اختلاف کرسکتے تھے مگر آپ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ ان کے ڈرامے فارمولا ڈرامے ہیں۔ یہ ڈرامے سماج سے جنم لیتے تھے اور سماج کی عکاسی کو اپنا فرض خیال کرتے تھے۔ یہاں ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہمارا لکھنے والا معاشرے سے جڑا ہوا تھا۔ معاشرے کی صحت اس کی صحت تھی۔ معاشرے کی بیماری اس کی بیماری تھی۔ معاشرے کا جمال اس کا جمال تھا اور معاشرے کی بدصورتی اس کی بدصورتی تھی۔
اس کا دل ہر وقت معاشرے کے لیے دھڑکتا تھا اور وہ معاشرے کے دفاع کو اپنا دفاع خیال کرتا تھا مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے یہ صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ ادیب کا سماج کے ساتھ رشتہ کمزور پڑ گیا ہے اور ادیب اپنی انا اور اپنی شخصیت کے خول میں بند ہوگیا ہے۔ سلیم احمد نے کہا تھا۔

ہر طرف سے انفرادی جبر کی یلغار ہے
کن محاذوں پر لڑے تنہا دفاعی آدمی
میں سمٹتا جارہا ہوں ایک نقطے کی طرح
میرے اندر مر رہا ہے اجتماعی آدمی

بدقسمتی سے ہمارے ادیب کے دل و دماغ میں اجتماعی آدمی کی موت واقع ہوچکی ہے۔ اسے اب صرف دو چیزیں متاثر کرتی ہیں۔ پیسہ اور شہرت۔ یہی ہمارے بیش تر ادیبوں کی اقدار ہیں۔ ظاہر ہے کہ صرف پیسے اور شہرت کے لیے کام کرنے والے ادیب ہی ایسا ڈراما لکھ سکتے ہیں جس کے بارے میں حسینہ معین کو کہنا پڑے کہ یہ ڈراما خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا جاسکتا اور امجد اسلام امجد کہیں کہ بھائی اس ڈرامے کو تو شوہر اور بیوی بھی ایک ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔
رسول اکرمؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ بُرائی کو طاقت سے روک دو۔ یہ ممکن نہ ہو تو اسے زبان سے بُرا کہو، یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسے دل میں بُرا جانو۔ مگر یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے علما اور مذہبی طبقات کے نمائندوں کی اکثریت بُرائی کے سلسلے میں ایمان کے کمزور ترین درجے کی حامل ہے۔ اس لیے کہ وہ برائی کو نہ طاقت کے زور سے روک رہے ہیں نہ اس کے خلاف زبان سے جہاد کررہے ہیں۔
وہ صرف برائی کو دل میں برا خیال کررہے ہیں اور یہ بھی ایک قیاس ہے۔ ایک مفروضہ ہے۔ ہمارے علما چھوٹی چھوٹی باتوں پر دوسرے فرقے اور مسلک کو مطعون کرتے ہیں مگر پاکستان میں ٹیلی ڈراما کروڑوں لوگوں کی اخلاقیات کو تباہ کررہا ہے اور ان کے تصورِ عورت کو تباہ کررہا ہے مگر ہمارے علما اور مذہبی طبقات خاموش ہیں۔

حصہ