نگارِ ادب پاکستان کراچی کی اردو کانفرنس اور مشاعرہ

302

نگارِ ادب پاکستان کے تحت اردو کانفرنس کا انعقاد خوش آئند ہے‘ اس پُر آشوب دورمیں علم و ادب کی خدمت ایک مشکل عمل ہے تاہم نگارِ ادب پاکستان شعر و سخن کے فروغ کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے نفاذ میں بھی اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ آج کی اردو کانفرنس اسی سلسلے کا تسلسل ہے۔ ان خیالات کا اظہار وائس چانسلر آف وفاقی اردو یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر روبینہ مشتاق نے اردو ڈکشنری بورڈ کراچی میں منعقدہ اردو کانفرنس کی افتتاح کرتے ہوئے کیا انہوں نے مزید کہا کہ اردو کا نفاذ پاکستان کے مفاد میں ہے‘ یہ بین الاقوامی زبان ہے اس کو حکومتی اداروں میں نافذ العمل ہونا چاہیے۔ نگار پاکستان کے بانی ٔ و چیئرمین سخاوت علی نادر نے اپنے استقبالیہ خطبے میں کہا کہ قائداعظم کی خواہش تھی کہ اردو سرکاری زبان بن جائے لیکن اب تک ایسا نہ ہو سکا اس کی بے شمار وجوہات ہیں ہم اردو کے مستقبل سے مایوس نہیں ہیں ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے‘ ہم اردو زبان کے شہداء کو سلام پیش کرتے ہیں کہ جن کی تحریک آج زندہ ہے۔ ہم نے کانفرنس کے انعقاد سے قبل ان کی قبور پر حاضری دی ہے۔ نگارِ ادب پاکستان کے تحت اس دو روزہ پروگرام کی مجلس صدارت میں محسن ملیح آبادی‘ معراج الہدیٰ صدیقی‘ ڈاکٹر سلیم حیدر زیدی شامل تھے۔ ڈاکٹر جاوید منظر‘ رونق حیات‘ شاہد ضمیر مہمانان خصوصی تھے۔ سید آصف رضا رضوی اور حنیف عابد مہمانان اعزازی تھے۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ نظر فاطمی نے تلاوتِ قرآن کی سعادت حاصل کی جب کہ سعد الدین سعد نے نعت رسولؐ پیش کی۔ اس کانفرنس کا موضوع تھا ’’قومی زبان اردو کے نفاذ میں مشکلات‘‘ اس موضوع پر محسن اعظم ملیح آبادی نے کہا کہ جب تک پاکستان میں انگریزوں کے غلام موجود ہیں‘ جب تک انگریزی ذہنیت ہم پر حاوی ہے اردو کا نفاذ ممکن نہیں۔ ہماری بیورو کریسی اردو کے لیے مخلص نہیں ہے۔ رونق حیات نے کہا کہ اردو کی ترقی کا سفر جاری ہے یہ زبان ختم نہیں ہو سکتی یہ پاکستان کی قومی زبان ہے اس کا علاقائی زبانوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے‘ ریس کورس کراچی کے گرائونڈ سے پلٹن میدان ڈھاکا تک اردوکے لیے قائداعظم کے فرمودات ہمارے سامنے ہیں لیکن اردو کا نفاذ متعصبانہ روّیوں کے باعث نہیں ہو رہا جب کہ دنیا بھر میں قومی زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر جاوید منظر نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناح کے اردو ویژن کی وضاحت کے باوجود بھی اردو کو صحیح مقام نہ مل سکا‘ آئین پاکستان کی شقیں اور کورٹ کے احکامات کے بعد بھی اردو کا نفاذ نہیں ہورہا۔ ڈاکٹر شاہد ضمیر نے کہا کہ فیوڈرل لارڈز اور مفاد پرست سیاست دان اردو کے نفاذ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں انہوں نے مزید کہا کہ اردو نعت بورڈ نے اپنے حصے کا مشکل ترین کام مکمل کرکے ایک شان دار ریکارڈ قائم کیا ہے اس ادارے نے اردو زبان کی فرہنگ اور لغات شائع کرکے اردو کو دنیا کی تیسری بڑی زبان بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر سلیم حیدر زیدی نے کہا کہ اردو زبان ترقی اور نفاذ کے لیے حکومتی سطح پر کوئی قابل قدر کام سامنے نہیں آیا۔ ہم موجودہ حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اردو کے نفاذ کے لیے عملی قدم اٹھائے۔ معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ اردو کے نفاذ میں حائل مشکلات کو دور کرنے کے لیے ہمیں ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا جب تک ہم متحد نہیں ہوں گے اردو نافذ نہیں ہوگی۔ نفیس احمد خان نے کہا کہ اردو ہمارے لہو میں دوڑ رہی ہے ہم اس کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔ حنیف عابد نے کہا کہ اردو زبان اس وقت دنیا بھر کے تمام ممالک میں پھیل چکی ہے اس کے نفاذ کے لیے کوششیں جاری ہیں ان شاء اللہ اردو ایک دن ضرور سرکاری زبان بنے گی۔ اس موقع پر سید شہاب شائق نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔ اس پروگرام کے بعد غزل مشاعرہ ہوا جس کی مجلس صدارت میں محسن ملیح آبادی اور رفیع الدین راز شامِل تھے۔ مہمان خصوصی میں ڈاکٹر جاوید منظر‘ رونق حیات‘ آصف رضا رضوی تھے۔ سحر تاب رومانی‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ سکندر علی رند اور عبیدالرحمن ہاشمی مہمانان اعزازی تھے۔ حنیف عابد نے نظامت کی۔ مشاعرے میں محسن ملیح آبادی‘ رفیع الدین راز‘ ڈاکٹر جاوید منظر‘ رونق حیات‘ آصف رضا رضوی‘ سحر تاب رومانی‘ ڈاکٹر نزہب عباسی‘ وسیم ساغر‘ فیاض علی فیاض‘ احمد سعید خان‘ حنیف عابد‘ سعد الدین سعد‘ حامد علی سید‘ سخاوت علی نادر‘ آسی سلطان‘ یاسر سعید صدیقی‘ ثمر کوثر گل‘ شائق شہاب‘ ضیا حیدر زیدی‘ الحاج نجمی‘ شجاع الزماں شاد‘ نظر فاطمی‘ تنویر سخن‘ ڈاکٹر شمع افروز‘ ندا اطہر‘ چاند علی چاند‘ کاشف سومرو‘ ہما اعظمی اور ناز عارف نے اپنا کلام پیش کیا۔ اس موقع پر طاہر سلطان پرفیوم والا اور فاروق عرشی کو شیلڈز پیش کی گئیں۔

اکادمی ادبیات پاکستان کا مذاکرہ و مشاعرہ

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو ہیں جو کہ خلوص نیت کے ساتھ شعر و سخن کی آبیاری میں مصروف ہیں‘ وہ کبھی سندھی زبان و ادب کے لیے پروگرام ترتیب دیتے ہیں اور اکثر و بیشتر اردو مذاکرے اور مشاعروں کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ معروف قلم کاروں کے ساتھ ’’شام‘‘ بھی مناتے ہیں۔ راقم الحروف نثار احمد نثار بھی ان کی دعوت پر وہاں جاتا ہے قادر بخش سومرو کی محفلیں قابل ستائش ہیں‘ وہ کراچی کے ان شعرا کو بھی اکوموڈیٹ کرتے ہیں جو شاعری میں نووارد ہیں۔ اس طرح نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ان میں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے حفیظ جالندھری کی یاد میں مذاکرہ اور معروف شاعرہ مہ جبین غزل کے ساتھ ایک شام کا اہتمام کیا۔ پروگرام کی صدارت معروف شاعر ڈاکٹر آفتاب مضطر نے کی۔ قادر بخش سومرو نے نظامت کے فرائض دیے اس موقع پر مہ جبیں غزل انصاری نے کہا کہ پاکستانی قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کی غزلیں‘ نظمیں اور گیتوں کے علاوہ افسانے بھی اردو ادب میں موجود ہیں لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ ’’شاہ نامہ اسلام‘‘ اور پاکستانی قومی ترانے کی تخلیق نے انہیں شہرت دوام عطا کی ہے۔ ان کا انتقال 1982ء میں ہوا‘ وہ مینار پاکستان کے سائے تلے آرام فرما ہیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں پاکستانی حکومت نے ہلال امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ معروف شاعر اقبال سہوانی نے کہا کہ حفیظ جالندھری قادرالکلام شاعر تھے تاہم ان کا شاہ نامہ اسلام تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ نظمیہ شاعری کی یہ دستاویز چار جلدوں پر مشتمل ہے جس کی تخلیق کاری پر حفیظ جالندھری کو ’’فردوسیِ اسلام‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ ان کے شعری مجموعوں میں نغمہ یار‘ تلخابۂ شیریں اور سوز‘ افسانوں کا مجموعہ‘ ہفت پیکر گیتوں کا مجموعہ ہندوستان ہمارا‘ بچوں کی نظموں پر مشتمل کتاب چیونٹی نامہ بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ قادر بخش سومرو نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ حفیظ جالندھری نے دوسری جنگ عظیم کے موقع پر فوجی گیت بھی لکھے تھے ان میں استعمال شدہ الفاظ اپنی جگہ پر نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں ان کے کریڈٹ پر بے شمار گیت‘ نظمیں‘ غزلیں بھی ہیں لیکن ان کا ایک اہم کام پاکستانی قومی ترانہ ’’پاک سر زمین شاد باد‘‘ قیامت تک ہر پاکستانی کے لبوں کی زینت بنا رہے گا ان کی عزت و شہرت میں اضافہ ہو رہا ہے‘ ان کے کلام میں غنائیت اور محاسنِ شعری کے ساتھ ساتھ زمانے بھر کے مسائل ہیں اور واقعات نظر آتے ہیں ہم نے آج کی محفل میں ان کے کارناموں کا مختصر جائزہ لیا ہے بلاشبہ وہ ہمارے محسن تھے‘ ہم انہیں خراج عقیدت پیش کرتے رہیں گے۔ صاحب صدر ڈاکٹر آفتاب مضطر نے کہا کہ قادر بخش سومرو علم دوست انسان ہیں قلم کاروں کی پزیرائی کا سلسلہ ان کے منشور کا حصہ ہے آج کی صاحبِ اعزاز شاعرہ مہ جبیں غزل انصاری نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک میں بھی اردو ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ان کا شمار عہد حاضرہ کی اہم شخصیات میں ہوتا ہے ان کے ہاں فصاحت و بلاغت‘ گہرائی و گیرائی پائی جاتی ہے۔ ان کے شعری مضامین اس زمانے کی ضروریات کے عین مطابق ہیں۔ صاحب صدر نے مزید کہا کہ حفیظ جالندھری کو یاد کرنا ہماری ذمہ داری ہے جو قومیں اپنے محسنوں کو بھول جاتی ہیں ان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ لاہور سے تشریف لائی شاعرہ رخشندہ نوید نے کہا کہ مہ جبیں کی شاعری توانائی فکر و فن اور جمالیاتِ حسن کی آئینہ دار ہے وہ پوری توانائی کے ساتھ ادبی منظر میں ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہیں ان کے اشعار سامعین و قارئین سے داد پا رہے ہیں۔ مہ جبین غزل نے کہا کہ قادر بخش سومرو کی ادبی خدمات پر انہیں سلام پیش کرتی ہیں‘ ان کی تحریک سے اکادمی ادبیات پاکستان اہم ادبی محور بن چکا ہے جو قابل تحسین ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر آفتاب مضطر‘ مہ جبین غزل‘ رخشندہ نوید‘ شہناز انصاری‘ اقبال سہوانی‘ ماورا سید‘ کاشف رضا صدیقی‘ نظر فاطمی‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ محمد علی زیدی‘ عبدالستار شمانی‘ سید رضا حیدر زیدی‘ ہما اعظمی‘ دلشاد احمد دہلوی‘ غنی الرحمن انجم‘ سید سخاوت الوری اور الحاج نجمی نے اپنے اپنے اشعار پیش کیے۔ اس محفل میں محسن نقی بھی موجود تھے جو کہ اپنی فوٹو گرافی کے ساتھ ساتھ مختلف پروگراموں کی تفصیل بھی فیس بک پر شامل کرتے ہیں یہ اداکار بھی ہیں اور مختلف ڈراموں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا چکے ہیں۔ میں انہیں ادب کی پرموشن پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

ریاض حسین زیدی کا نعتیہ مجموعہ’’اے رسولِ امیں‘‘ شائع ہو گیا

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت دین اسلام کا بنیادی محور ہے۔ آنحضرت کی اطاعت دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے‘ شعرائے کرام اپنے اشعار کے ذریعے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبت کرتے ہیں۔ عہد حاضر میں نعتیہ ادب نے بہت ترقی کی ہے۔ نعتیہ مشاعروں کے علاو نعتیہ شعری مجموعے تواتر کے ساتھ منظر عام پر آرہے ہیں۔ نعتیہ ادب میں پی ایچ ڈی کا سلسلہ بھی جاری ہے اور نعتیہ مراکز بھی فروغِ نعت میں سرگرم ہیں۔ اس تمہید کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ اس وقت میں انٹرنیشنل نعت مرکز (رجسٹرڈ) کا شائع کردہ نعتیہ مجموعہ ’’اے رسولِ امیں‘‘ پڑھ رہا ہوں۔ 240 صفحات پر مشتمل اس نعتیہ کتاب کے حُسن ترتیب میں چار حصے شامل ہیں 58 صفحات پر مشتمل 13 قلم کاروں نے سید ریاض حسین زیدی کی نعت گوئی کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کیے ہیں۔ 14 حمد‘ 63 نعتیں اس کتاب کی زینت ہیں شاعر کا تعلق ساہیوال سے ہے‘ 80 گرام کے عمدہ وائٹ پیپر پر طبع شدہ کتاب میں عشقِ رسولؐ کے جلوے نمایاں ہیں۔ ریاض زیدی مکمل شاعر ہیں‘ سخن شناسی اور سخن وری ان کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے‘ وہ غزل میں اساسی عناصر کے ساتھ خوب صورت استعارے برت کر تغزل میں نئے امکانات پیدا کرنے کا ہنر آزماتے ہیں اور نعت میں روایتی مضامین سے بڑھ کر محبت وعقیدتِ رسولؐ سے فنی لوازمات کا اہتمام کرتے ہیں اس مجموعہ نعت میں حمد‘ مناجات اور منظومات‘ شرف و حاضری اور قصیدہ آمد مسعود شامل کیا گیا ہے یہ ریاض زیدی کا چوتھا شعری گل دستۂ مدحت ہے۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو پروفیسر حسن عسکری کاظمی نے ریاض زیدی کے بارے میں لکھے ہیں۔ ڈاکٹر ریاض مجید کہتے ہیں ریاض زیدی کا نعت کا تخصص ان کا نعتیہ لب و لہجے سے جو سادہ و سلیس ہونے کے ساتھ قرآن و احادیثِ رسولؐ کے مفاہیم کا ترجمان ہے۔ ان کے اس نعتیہ مجموعہ میں ایک غیر مردّف چھوٹی بحر میں طویل نعتیہ قصیدہ بھی ہے جو تقریباً پونے دو سو اشعار پر مشتمل ہے۔ ایک بڑی نظم Canto کے چھوٹے ٹکڑے Mosiac طرز پر ہیں۔ یہ نعتیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت کی آئینہ دار ہیں۔ مرزا خورشید بیگ میلسوری نے ریاض زیدی کے لیے لکھا ہے کہ ان کے ہاں روایتی نعت اور جدید نعت گوئی کی علامتیں نظر آتی ہیں۔ ان کے نعتیہ مجموعے ریاض مدحت کو قومی سیرت ایوارڈ اور دوسرے نعتیہ مجموعے ذکر شہ والا کی صوبائی سیرت ایوارڈ حاصل ہے۔ جمیل احمد عدیل نے کہا کہ پروفیسر سید ریاض حسین زیدی کا ہر لفظ حمد و نعت ابدی صداقتوں کا امین ہے‘ ان کی شاعری محمد مصطفی کے حسن و کمال سے آراستہ ہے۔ ڈاکٹر محمد افتخارشفیع کہتے ہیں کہ ریاض زیدی اردو زبان و ادب کے ایک باوقار اور صاحبِ طرز شاعر و نثر نگار ہیں ان کی ادبی خدمات کا ایک پہلو ادبی مجلس’’ادب سرائے‘‘ ہے جس کی 25 سال میں تسلسل سے ہونے والے ادبی محرکات میں ریاض زیدی کا حصہ ہے‘ ان کی حمد و نعت گوئی اللہ ا ور اس کے رسولؐ کے ارشادات سے منورہے۔ احمد جلیل کہتے ہیں کہ ریاض زیدی کی نعتیں جو بھی پڑھتا ہے وہ جذب و شوق رسول سے مالا مال ہو جاتا ہے۔ ریاض ندیم کہتے ہیں کہ ریاض زیدی نے نعتیہ شاعری میں کسی قسم کی بدا احتیاطی نہیں کی بلکہ نہایت سلیقے سے آسان الفظ میں نعتیں کہی ہیں‘ ان کے اشعار میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مختلف پہلو رواں دواں ہیں اور حسن و شمائل رسول بھی ان کی شاعری کا حصہ ہیں۔ رشید آفریں نے کہا کہ ریاض زیدی عجز و انکسار کے ساتھ عیقدتِ رسول میں ڈوب کر نعت گوئی کر رہے ہیں یہی ان کا کمالِ فن کا ثبوت ہے۔ پروفیسر نوید عاجز کہتے ہیں کہ ریاض زیدی نے اپنی نعتیہ شاعری میں اسلام کے خدوخال‘ سیرت طیبہ کے پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے اہل و عیال کی آسودگی اور مغفرت طلب کی ہے اس کے علاوہ وہ کشمیر و فلسطین کے مسلمانوں کے لیے بھی دعا گو ہیں۔ اکرم کنجاہی نے ریاض زیدی کے بارے راقم الحروف سے کہا کہ وہ قادر الکلام شاعر ہیں۔ انہوں نے ہر صنف سخن میں اشعار کہے ہیں ان کی نعتیں رسالت مابؐ کی شخصیت اور اسلامی تعلیمات کی مظہر ہیں انہوں نے اپنی نعت گوئی میں تقدسِ نعت کا اہتمام کیا ہے انہیں لفظوں کے دروبست کا سلیقہ آتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان کا نعتیہ مجموعہ اردو زبان کے چاہنے والوں میں پسند کیا جائے گا۔

حصہ