“روک سکو تو روک لو مہنگائی آئی رے”

540

’’لال والا ہے ٹماٹر! دانے سے بھری ہے مٹر…‘‘سالن کی تیاری کے دوران گلی میں جیسے ہی سبزی والے نے صدا لگائی، میری بانچھیں ایک دم کھل گئیں اور میں چپل پیر میں اٹکاتی دوپٹہ سنبھالتی دروازے کی طرف لپکی۔
پیچھے سے میاں جی نے شرارت بھری آہ بھری اور بولے ’’بیگم! اتنا تو تم میرے آفس سے آنے پر خوش نہیں ہوتیں جتنا سبزی والے کی آمد پر خوش ہو۔‘‘
ان کے طنز پر میں پلٹ کر بولی’’تو پھر آپ لادیں بازار سے ٹماٹر، صبح سے تو کہہ رہی ہوں آپ سے۔‘‘ میرے جارحانہ عزائم دیکھ کر میاں جلدی سے مدافعانہ انداز میں بولے ’’ارے بھئی آج تو چھٹی منانے دو، سبزی والا دروازے پر آگیا ہے تو اب تم ہی لے لو ناں۔‘‘ وہ موبائل سے نظر ہٹائے بغیر بولے۔
’’ہونہہ…آج کیا، میں تو روز ہی لیتی ہوں۔‘‘میں بھی کہاں چوکنے والی تھی۔
’’ارے یہ کیا!‘‘دروازے کی اوٹ سے جب میں نے ٹھیلے پر نظر دوڑائی تو وہاں لال کے بجائے ہرے ٹماٹر تھے۔ میں نے برہمی سے پوچھا ’’جب لال ٹماٹر نہیں ہیں تو آواز لال کی کیوں لگارہے ہو بھائی؟‘‘
سبزی والے نے پہلے تو اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کی، پھر ٹھیلے پر ٹین کے ڈبے میں موجود پانی سے سبزی پر چھڑکاؤ کرتے ہوئے بے پروائی سے بولا ’’باجی! یہ تو ہمارا روایتی حربہ ہے گاہکوں کو باہر لانے کے لیے۔‘‘
’’کیا مطلب …؟ جھوٹ بول کر اور بے وقوف بناکر سبزی بیچو گے کیا!‘‘ سامنے والی آنٹی جو پیاز چھانٹ رہی تھیں، جھٹ سے اپنی گول آنکھیں گھما کر بولیں۔ ’’ارے باجی! آپ تو مجھ غریب پر ایسے غصہ ہورہی ہو جیسے اور جگہ تو آپ بے وقوف بنتی نہیں ہوں گی۔‘‘
’’کیا مطلب ہے بھئی تمھارا؟‘‘
’’دیکھو باجی…!‘‘ سبزی والا اپنی تول روک کر ناصحانہ انداز میں بولا ’’نیٹ کا پیکیج تو ہم سب کرتے ہیں ناں۔‘‘
’’ہاں بھائی یہ تو ضرورت کی چیز ہے، کرنا ہی پڑتا ہے۔‘‘ پڑوسی انکل جو 30 روپے کی 8 ہری مرچوں والا شاپر الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے، جھٹ سے بولے۔
’’یہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں چچا! 60 روپے پیکیج کا کہہ کر کمپنی والے سو روپے بٹور لیتے ہیں اور ہم خوشی خوشی بے وقوف بن جاتے ہیں۔‘‘
’’یہ تو ہے‘‘، پڑوسی انکل مرچوں کے تفصیلی معائنے کے بعد سبزی والے کی بات سے راضی بہ رضا لگ رہے تھے۔
’’اور تو اور، یہ جو ساری آنٹیاں برانڈڈ کپڑوں کی دو نمبر مہنگی کاپیاں پہن کر خود کو قلوپطرہ سمجھتی ہیں کیا یہ دھوکا نہیں کھا رہی ہوتیں؟‘‘
’’ہاں بھائی ٹھیک کہہ رہے ہو۔‘‘ پڑوسی انکل غیر ارادی طور پر اپنی جیب پر ہاتھ پھیر کر سرد آہ بھرتے ہوئے منمنائے کہ مبادا کہیں سردی میں ان کی ٹھنڈی آہ زوجۂ محترمہ تک نہ پہنچ جائے اور سارا نزلہ ان کے ناتواں وجود پر آپڑے۔
سبزی والے کے اس حقیقت پسندانہ تبصرے پر مجھ سمیت سبزی لینے والی تمام خواتین کھسیا کر رہ گئیں۔ اتنے میں سامنے والی اماں لاٹھی کے سہارے آکر اپنی سانسیں درست کرنے لگیں۔ ’’اری اماں تم کیوں آگئیں، خالد سے منگوا لیتیں۔‘‘
’’ارے کیا خالد سے منگواتی! وہ تو مُوا ساری رات اس ٹنٹنے (موبائل) میں لگا رہوے اور دن کو نیستی پھیلا کر سوتا رہوے ہے۔‘‘ پھر بولیں ’’بیٹا آدھا کلو بینگن تول دے اور تھوڑا دھنیا بھی ڈال دیجیو اوپر سے۔‘‘
’’اماں یہ تھوڑا دھنیا 20 روپے کا ہوتا ہے اب۔‘‘ سامنے والی آنٹی ہنستے ہوئے بتانے لگیں۔
’’اے لو بٹیا، ہمارے زمانے میں تو اس موئے دھنیے کا کوئی مول ہی نہیں تھا، ایسے ہی ہر سبزی کے ساتھ ڈال دیوے تھے سبزی والے…کیا زمانہ آگیا ہے۔‘‘ وہ سبزی کا شاپر لے کر جانے لگیں، پھر کچھ یاد آنے پر بولیں ’’ارے بیٹا دس روپے کی ادرک بھی ڈال دے۔‘‘
سبزی والا بولا ’’اماں دس روپے کی ادرک تب آتی تھی جب یہ ہمارے ہی ملک کی استعمال ہوتی تھی۔ اب تو ادرک، لہسن چین سے… ٹماٹر ایران سے اور پیاز انڈیا سے آتے ہیں۔ دس روپے کا تو اب ادرک کا چھلکا بھی نہیں آتا۔‘‘
’’لیکن انکل! ہماری مس تو کہتی ہیں کہ زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔‘‘ ننھے ببلو کی بات کا کسی کے پاس جواب نہیں تھا۔ ’’جبھی میں کہوں کہ یکایک ان نگوڑ مارے لہسن، ادرک کی گوری میموں کی طرح گوری چمڑی کیسے ہوگئی اور ذائقہ بھی نہیں۔ چل رہنے دے ادرک۔‘‘ بوڑھی اماں افسوس زدہ لہجے میں یہ کہتے ہوئے جیسے ہی پلٹیں اُن کا پاؤں گڑھے میں پڑ کر مڑگیا، وہ تو بھلا ہو ٹھیلے کا جس کے سہارے کی بدولت بچت ہوگئی ورنہ تو…
’’ارے سنبھل کے اماں جی!‘‘
’’ارے بیٹا کہاں سنبھلوں، ہر جگہ گڑھا کھودا ہوا ہے۔‘‘
’’فکر نہ کرو اماں جی، سڑکیں بن رہی ہیں، ہماری گلی کا نمبر بھی آنے والا ہے، یہ بھی جلد بن جائے گی۔‘‘ سامنے والی آنٹی نے جیسے خوش خبری سنائی۔
’’ہاں جلد بن جائے گی اور جلد ٹوٹ بھی جائے گی۔‘‘ سبزی والا پان کی پچکاری سامنے دیوار پر مارتے ہوئے بولا۔
’’کیا کہہ رہے ہو بھیا!‘‘ پڑوسی انکل سبزی والے کی ہرزہ سرائی سن کر صدمے سے بولے۔
’’اور نہیں تو کیا…یہ لو خالہ تمہاری آدھا کلو اَروی۔‘‘ پھر اِدھر اُدھر دیکھ کر رازداری سے بولا ’’یہ جو سڑکیں بن رہی ہیں ناں، یہ بھی دھوکا ہے دھوکا۔ الیکشن میں ووٹ لینے کے لیے دھوکا۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ پڑوسی انکل بھی اپنے کان اس کے منہ میں گھساکر جیمز بانڈ بننے کی ناکام کوشش میں تھے۔
’’ان سڑکوں میں مال مسالہ تو ڈالیں گے نہیں، بس اوپر سے ملم (مرہم) پٹی کردیں گے، اور بھیا بس بارش کا ایک قطرہ پڑنے دو، پھر دیکھنا ملم بہہ جائے گا، پٹی رہ جائے گی۔‘‘ وہ پودینہ جھاڑ کر تھیلی میں ڈالتے ہوئے بولا۔
’’ارے ماسک کانوں میں کیوں اڑسا ہے، پہنتے کیوں نہیں بھیا؟ پولیس نے دیکھ لیا تو…‘‘ کسی نے پوچھا۔
’’یہ تو میں نے جرمانے سے بچنے کے لیے اٹکایا ہوا ہے، اور پولیس تو بیس روپے کی مار ہے بابو!‘‘ اس نے ٹھیلے کو دھکا لگا کر آنکھ دباتے ہوئے دانتوں کی نمائش کی اور جاتے ہوئے میری طرف گھوم کر بولا ’’باجی! تول دوں ٹماٹر؟‘‘
’’آں… ہاں تول دو…‘‘ میں جو دروازے کی اُوٹ سے سب سن کر دکھ کی کیفیت میں تھی، سنبھلتے ہوئے بولی۔
بظاہر ہلکے پھلکے انداز میں کہے ہوئے جملے بڑی گہری اور دکھ بھری معنویت رکھتے تھے۔ میرے ملک کے باسی اذیت بھری زندگی گزارنے پر کس قدر مجبور ہیں… محنتی اور جفاکش، مگر ان کی محنت کا پھل کوئی اور کھا رہا ہے۔ کرپشن نے غریب طبقے کو بری طرح متاثر بھی کیا اور اُن سے وہ نعمتیں بھی چھین لیں جو خدا کا عطیہ ہیں۔
’’اب یہیں کھڑی رہوں گی… سارا سالن تو جل گیا۔‘‘ میاں جی نے گویا اطلاع دی۔
’’کیا…؟‘‘ میں باورچی خانے کی طرف بھاگی۔
’’اب چھوڑو رہنے دو، سالن تو جل گیا… اپنے دل کو مت جلاؤ۔‘‘ وہ میری دلی کیفیت کو سمجھ کر ذومعنی انداز میں بولے۔ ’’ہم اگر کرپٹ لوگوں کو چنیں گے تو کرپشن ہی پھیلے گی ناں، تو پھر دکھ کیسا؟‘‘ انھوں نے میرے ہاتھ سے تھیلی لے کر صوفے پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’پھر اس کا حل کیا ہے؟‘‘ میں بولی۔
وہ مسکراکر تسلی بھرے لہجے میں بولے ’’یہ کہ اب ہم یہ غلطی نہیں دہرائیں گے۔‘‘
’’ان شاء اللہ!‘‘ میں نے عزم سے کہا۔

حصہ