ہمیشہ دیر کردیتے ہیں؟۔

166

محبت دنیا کا وہ انمول، بے لوث جذبہ ہے جو زندگی کو حرارت دیتا ہے۔ جہاں یہ احساس دیا گیا وہیں اس احساس کا احساس بھی ودیعت کیا گیا۔ ہر رشتے میں محبت کی الگ انوکھی کیفیت ہوتی ہے۔ ماں باپ کی محبت لگاؤ کے ساتھ احترام کا جذبہ دیتی ہے، اور رشتے جوں جوں بزرگی کی جانب جاتے ہیں یہ کیفیت قوی تر ہوجاتی ہے۔
ماں باپ کے والدین سے محبت الگ احساس کی ترجمان ہے۔ بہن بھائی وہ معصوم رشتے ہیں جن سے وابستگی خون کا حصہ ہے۔ بھائیوں کی چھیڑ چھاڑ اور بہنوں کے لیے حصار بننا، اور بہنوں کا بھائیوں کو دیکھ دیکھ کر جینا، اور بھائی کا بھائی سے اور بہن کا بہن سے بے بدل رشتہ رب کی خاص عطا ہے۔ اور اسی طرح بالترتیب بننے والے بہت سارے رشتے جن میں ساس سسر، میاں بیوی اور دیگر سسرالی رشتے زندگی میں شامل ہوتے ہیں۔
یوں محبت کی جڑوں سے نمو پانے والے یہ حسین رشتے زندگی میں تازگی دیتے ہیں اور دنیا میں جزوِ لاینفک ہیں۔ محبت اس قدر قوی کیفیت ہے جس سے دنیا کا حسن قائم ہے، مگر ہم اس کیفیت کو مصنوعی اور غیر ضروری تکلفات کی نذر کردیتے ہیں۔ اکثر اوقات تو بھرم اور رعب کے نام پر دبا دیتے ہیں، کہیں یہ اَنا کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ اکثر تو بیٹیاں باپ کی نظروں میں الفت کے رنگ تلاش کرتے کرتے ہی میکے کی دہلیز سے رخصت ہوجاتی ہیں۔ کبھی تکلف آڑے آجاتا ہے تو کبھی لحاظ۔ یہی کیفیت مختلف رشتوں میں مختلف اعتبار سے وہ اظہار چھین لیتی ہے جو اس رشتے کو نہ صرف مضبوط کرتا ہے بلکہ آسودگی بھی دیتا ہے۔ کبھار کبھار بے جا خوف اور اندیشے بھی انسان کو اظہار سے روک دیتے ہیں۔ بچوں پر رعب، بیوی کو حد میں رکھنے کی خواہش، نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے حد سے زیادہ رعب و دبدبہ رکھنے کا نظریہ اکثر رشتوں کو بہت دور کردیتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ یہی پیارے احساسِ محرومی لیے بعض اوقات دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ محبت اظہار کی محتاج ہے۔
کیا ہی اچھا ہو اگر یہ قیمتی رشتے ایک دوسرے کو محبت اظہار کے ساتھ دیں۔ محبت اپنے اظہار سے دوچند ہوجاتی ہے… کئی گنا بڑھ جاتی ہے، دلوں میں جگہ بناتی ہے۔ تسلی، تسکین اور آسودگی دیتی ہے، وابستگی کا اظہارہے، رشتوں کی چاشنی ہے، مضبوطی اور دوام ہے۔ اظہار کیجیے کہ یہ اس جذبے کا حق ہے، اس کا تقاضا ہے، اس کا اجر ہے، کسی کے اہم ہونے کا ثبوت ہے۔ سنت سے بھی یہی ملتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رشتوں سے اظہار کیا کرتے تھے۔ بیوی، بچوں، نواسوں، ساتھیوں اور ساری امت… سب سے بے تحاشا محبت بھی کی اور اظہار بھی کیا۔ تاکید بھی تھی مسلمان بھائی سے محبت کے اظہار کی۔
خود رب العالمین، مالکِ کائنات صالح بندوں کو بڑے پیارے الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں، انبیا کی قدردانی اورذکر کرتے ہیں۔ کہیں بھی ہمیں دین میں محبت کے اظہار کو چھپا کر رکھنے کی کیفیت نہیں ملتی تو ہم کیوں خود پر خول چڑھا لیتے ہیں؟ مصنوعی تکلفات سے زندگی بوجھل اور مشکل بنالیتے ہیں؟ محبتوں کے اظہار میں دیر نہ کیجیے، ورنہ احساس یاد کی صورت رہ جاتا ہے، لوگ چلے جاتے ہیں۔

حصہ