ہم کیوں مسلمان ہوئے

315

اسمٰعیل جزائرسکی (پولینڈ)۔

میں 8 جنوری 1900ء کو پولینڈ کے شہر کراکوف میں پیدا ہوا۔ میرا تعلق پولینڈ کے اونچے درجے کے ایک گھرانے سے ہے۔ اگرچہ میرے والد پکے اور سچے دہریے تھے مگر بڑے روادار تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں سے رومن کیتھولک مذہب کی تعلیم حاصل کرنے پر کوئی تعرض نہیں کیا۔ اصل میں یہ مذہب ہماری والدہ کا تھا اور والد صاحب ان کی خواہشات میں مزاحم نہیں ہوتے تھے۔ یوں بھی انہیں پتہ تھا کہ یہ تعلیم محض رسمی اور سطحی قسم کی ہے اور اس کوئی اثر انسان کی ذاتی یا اجتماعی زندگی پر نہیں پڑتا، مگر جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے یہی وہ مرحلہ تھا جبکہ مذہب کا احترام میرے ذہن پر نقش ہوگیا اور میں انفرادی و معاشرتی سطح سطح پر اس کی زبردست اہمیت کا قائل ہوگیا۔
ہمارے گھر کی دوسری خصوصیت اس کا بین الاقوامی قسم کا ماحول تھا، میرے والد نے اپنی جوانی میں یورپ کے بہت سے ممالک کی سیاحت کی تھی اور وہ اپنے سفر کے تاثرات مزے لے لے کر بیان کرتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نسلی، قومی اور ثقافتی تعصبات میرے نزدیک بے معنی ہو کر رہ گئے اور میرا ذہن بین الاقوامی طور پر سوچنے لگا۔ میں اپنے آپ کو دنیا بھر کا شہری سمجھتا تھا۔
میرے خاندان کی تیسری خوبی یہاں کی میانہ روی میں پنہاں تھی۔ میرے والد اگرچہ ایک امیر اور نواب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر وہ اس طبقے کے عام افراد کے برعکس بیکار وقت ضائع کرنے سے سخت متنفرر ہے، وہ ان لوگوں سے بھی بیزار اور گریزاں رہے جو تشدد یا آمریت کے قائل ہوتے ہیں۔ وہ بڑے زمیندار تھے اور معاشرتی روایات کے خلاف بغاوت کو مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ وہ ایسی ترقی کی تحسین کرتے تھے جس کی بنیاد ماضی کی روایات پر استوار ہو۔ غرض وہ میانہ روی کی بہترین مثال پیش کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کو یہ سن کر ہرگز تعجب نہ ہوگا کہ جب میری سوچوں میں بلوغت آئی اور جب خصوصاً میں نے عام معاشرتی مسائل میں دلچسپی لینا شروع کی، تو جب بھی کوئی سماجی، سیاسی، اقتصادی یا ثقافتی الجھن پیدا ہوئی تو میں نے ہمیشہ درمیانی راستہ اختیار کیا۔ میںنے اکثر محسوس کیا کہ انتہا پسندی عوام کے اکثریتی مزاج سے متصادم ہے اور صرف میانہ روی اور اعتدال و توازن ہی میں نوعِ انسان کی بھلائی کا راز مضمر ہے۔ میرا ہمیشہ سے یقین رہا ہے کہ انسانی معاشرے کا نظم ایسی آزادی پر مبنی ہونا چاہیے جو اصول و ضوابط کی پابند ہو۔ دوسرے لفظوں میں انسانی آزادی اور روایات کا احترام تو ہو مگر ساتھ ہی فضا اور ماحول کے پیش نظر لچک کا انداز ضرور اختیار کیا جائے۔ مدعا عرض کرنے کا یہ ہے کہ میری پرورش میانہ روی کے ماحول میں ہوئی، اس لیے بھی مستقل طور پر میانہ روی پر کار بند ہوگیا۔ چنانچہ مجھے بجا طور پر ترقی پسند روایت پرست قرار دیا جاسکتا ہے۔
میری عمر ابھی سولہ سال ہی کی تھی کہ رومن کیتھولک چرچ کے مختلف توہمات نے مجھے مذہب سے نفرت کی حد تک بیزار کردیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان توہمات کا پرچار حتمی و بنیادی عقاید کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر تثیلت کا فارمولا میرے نزدیک احمقانہ تھا۔ یہ تصور بھی وحشت ناک تھا کہ عشائے ربانی میں روٹی اور شراب حضرت عیسیٰؑ کے خون اور گوشت میں بدل جاتے ہیں۔ اسی طرح پادریوں کا خدا اور مخلوق کے درمیان واسطہ بننا، پوپ کا معصوم عن الخطا ہونا اور پُراسرار طلسمی نوعیت کے لفظوں اور اشاروں کی تاثیر کا تصور اور اسی طرح کے دوسرے توہمات میرے دل میں بیزاری کا شدید احساس بیدار رکھتے تھے۔ پھر میں اپنے ذہن کو کبھی بھی مریم، مختلف بزرگوں، تبرکات، تصویروں، بتوں وغیرہ کی پرستش پر آمادہ نہ کرسکا۔ ان سب خرافات کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں مذہب پر سارا اعتماد کھو بیٹھا اور اعتقادی معاملات سے بالکل بے تعلق ہوگیا۔
دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو میرے اندر ایک نئی مذہبی اُمنگ کروٹیں لینے لگی۔ خدا نے میری آنکھیں کھول دیں۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ انسانیت کو کسی اعلیٰ وارفع نصب العین کی ضرورت ہے اور اگر وہ مثالی نصب العین نہ ملا تو بنی آدم مکمل تباہی کے عمیق غاروں میں ڈوب جائے گا۔ یہ حقیقت بھی میرے آئینہ دل پر روشن ہوگئی کہ صرف مذہب ہی مطلوب حیات بخش نصب العین فراہم کرسکتا ہے لیکن یہ ناقابل تردید اور عبرت ناک منظر نظروں کے سامنے تھا کہ عصر حاضر کا انسان اس مذہب سے کسی طرح بھی مطمئن نہیں ہوسکتا، جس کی بنیاد خلافِ عقل رسوم و رواج اور توہمات پر کھڑی ہو۔ میرا وجدان کہتا تھا کہ نوعِ انسان کی رہنمائی وہی مذہب کرسکتا ہے جو انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایک مکمل اور جامع ضابطہ حیات پیش کرتا ہو۔
روحانی پیاس بہت بڑھ گئی تو میں نے تلاشِ حق کی خاطر مختلف مذاہب کا مطالعہ شروع کیا۔ ابتداء میں میرے قریب کو اکرزم (QUAKERISM) UNITARIANISM یعنی توحید پرستی، بدھ ازم اور بہائی ازم تھے، مگر سچی بات ہے ان میں سے کسی مذہب اور نظریے نے بھی مجھے مطمئن نہ کیا۔
بالآخر فروری 1949ء میں میں نے اسلام کو ’’دریافت‘‘ کرلیا۔ ایک انگریز نو مسلم اسماعیل کولن ایونز کا اسلام پر لکھا ہوا ایک پمفلٹ میرے ہاتھ لگ گیا۔ اس کے بعد دارالتبلیغ الاسلام قاہرہ کی مطبوعہ کچھ کتابیں اور کتابچے مجھ تک پہنچے۔ میں ولجمعی سے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اسلامی تعلیمات نے میرے دل کی آنکھیں روشن کردیں۔ اس کی تعلیمات میرے ذہنی تصورات سے مکمل ہم آہنگی رکھتی تھی۔ میں نے اسلام کی صورت میں ایک مکمل اور بے عیب قسم کا ضابطہ حیات پالیا۔ جو زمین پر اللہ کی شہنشاہیت قائم کرنے میں ذاتی اور اجتماعی سطح پر انسان کی پوری رہنمائی کرتا ہے اور جس میں اتنی لچک بھی ہے کہ ہر لحظ تغیر پذیر زمانے کے تقاضوں کا ساتھ دے سکے۔ میں ثقافت اور سماجی علوم سے خصوصی دلچسپی رکھتا تھا، چنانچہ مجھے اسلام کے مختلف معاشرتی اداروں نے بہت متاثر کیا خصوصاً نظام زکوٰۃ، نظام وراثت، حرمت سود، جارحیت پر مبنی جنگوں کی ممانعت، حج کا عالمگیر اجتماع‘ اور تعدادِ ازدواج کی اجازت نے مجھے مسحور کردیا۔ یہ ساری خصوصیات سرمایہ دارانہ تہذیب و نظام اور کمیونزم کے درمیان انصاف، عدل، اور میانہ روی کی بہترین مثالیں تھیں۔ پھر اسلام مختلف ریاستوں کے درمیان پیدا ہونے والے جھگڑوں کا جو عقلی حل پیش کرتا ہے اس کا کہیں کوئی جواب نہیں۔ سارے اہل اسلام کو نسل، زبان، ثقافت، رنگ اور علاقے کی حد بندیوں سے نکال کر ایک رشتہ اخوت میں پرو دیا گیا ہے۔ جہاں تک شادی اور ازدواجی زندگی کا تعلق ہے، اسلام میں اس کی بنیادیں بڑی گہری ہیں اور سماجی و حیاتیاتی حقائق نے ان کے مبنی برحق ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ مغرب کی سطحی، غیر سنجیدگی، اور نام نہاد یک زوجیت کے مقابلے میں اسلام کے یہ خاندانی اصول و ضوابط کہیں زیادہ بہتر اور عملی خوبیوں کے حامل ہیں۔
بہر حال میں خدائے عزوجل کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے کفر و ضلالت کے اندھیروں سے نجات دی اور اسلام کی روشن صراطِ مستقیم پر لاکھڑا کیا۔ الحمدللہ ربّ العالمین۔

حصہ