شعر و سخن کے فروغ میں طارق جمیل کا بھی حصہ ہے‘ رونق حیات

275

اردو زبان و ادب کے فروغ میں طارق جمیل کا بھی حصہ ہے‘ ہم جانتے ہیں کہ طارق جمیل طویل عرصے سے اربابِ سخن کی خدمت کر رہے ہیں‘ ان کے زیر اہتمام ایک جریدہ بھی شائع ہوتا ہے جس میں زندگی کے مختلف شعبوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر اور سماجی رہنما رونق حیات نے سبی بلوچستان کے ممتاز شاعر اور ماہر تعلیم عظمی جون کے اعزاز میںسجائی گئی تقریب پریزائی میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عظمی جون کا شعری مجموعہ ’’خزاں کی رُت سنہری ہے‘‘ مارچ 2000ء میں شائع ہوا جس کا آٹھواں ایڈیشن 2017ء میں ہمارے سامنے آیا۔ عظمی جون کی شاعری میں وہ سب کچھ ہے جو ایک اچھے اور تخلیقی امکانات کے حامل شاعر کے ہاں ہونا چاہیے۔ ان کی نظمیںجدید حسیت کی ترجمان ہیں‘ ان میں تازگی اور توانائی کے علاوہ جذبوں کی صداقت بھی نمایاں ہے۔ ان کی غزلیں تغزل کے اعلیٰ معیار کی آئینہ دار ہیں۔ فیروز ناطق خسرو نے کہا کہ طارق جمیل بہت خلوص کے ساتھ قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں‘ یہ بزم شعر و سخن کے صدر بھی رہے۔ انہوں نے اس دور میں کئی بڑے پروگرام مرتب کیے میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج ہم عظمی جون کے لیے طارق جمیل کی رہائش گاہ پر موجود ہیں جن کا بنیادی تعلق سبی بلوچستان سے ہے تاہم ان کے آبا و اجداد ہندوستان کی ریاست ٹونک کے رہائشی تھے یہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں‘ وہ گزشتہ کئی برسوں سے رسالوں اور اخبارات کے ذریعے متعارف ہوئے‘ ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اظہار ان کا مجموعۂ نظم و غزل ’’خزاں کی رُت سنہری ہے‘‘ ہمارے سامنے ہے‘ ان کی اٹھان بتا رہی ہے کہ یہ بہت آگے جائیں گے۔ طارق جمیل نے اپنے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ وہ بزم شعر و سخن کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں لیکن وہ کبھی کبھی اپنی ذاتی حیثیت میں بھی اپنے گھر پر شاعروں کو جمع کر لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 2 جنوری 2021ء کو میری ملاقات فاران کلب کراچی میں عظمی جون سے ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ کل آپ میرے گھر تشریف لائیں۔ انہوںنے آنے کی ہامی بھر لی تو میں نے ان کے اعزاز میں یہ پروگرام ترتیب دیا۔ عظمی جون کا شمار نوجوان شعرا میں ہوتا ہے یہ ایک تعلیم یافتہ‘ مہذب آدمی ہیں انہوں نے اپنی زندگی کا احوال شعر کی زبان میں رقم کیا اس کے علاوہ اس زمانے کی تلخیاں اور مصائب بھی ان کی شاعری میں نمایاں ہیں انہوں نے اپنی غزلوں میں زندگی کے تمام روّیوں کو برتا ہے‘ ان کی ایک نطم روسٹ فاختائیں مجھے بہت پسند ہے جس میں امن عالم کا تذکرہ ہے۔ طارق جمیل نے مزید کہا کہ ان کی تنظیم بزمِ شعر و سخن 9 جنوری 2021ء کو ایک بڑا مشاعرہ کرنے جا رہی ہے جس کے لیے ہم سامعین کی رجسٹریشن کر رہے ہیں۔ اس مشاعرے کے لیے شعراء کا انتخاب بزم شعر و سخن کی ایک کمیٹی کر رہی ہے جس کی درخواست ہے کہ جن شعرا کا نام مشاعرے کے لیے فائنل نہ ہو سکے تو وہ سامعین میں شامل ہو ہماری حوصلہ افزائی فرمائیں۔ عظمی جون نے کہا کہ وہ کراچی میں ایک ہفتے کے لیے مقیم ہیں۔ اس دوران وہ اپنے دوستوں سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ طارق جمیل ایک زندہ دل انسان ہیں‘ وہ اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید ترقی عطا فرمائے‘ مشاعرے کی نظامت عبید ہاشمی نے انجام دی اور کسی بھی موقع پر مشاعرے کا ٹیمپو ٹوٹنے نہیں دیا۔ اس موقع پر رونق حیات‘ فیروز ناطق خسرو‘ عظمی جون‘ راقم الحروف نثار احمد‘ سخاوت علی نادر‘ تنویر سخن‘ شائق شہاب‘ عاشق شوقی اور علی کوثر نے اپنا کلام پیش کیا۔

آصف رضا رضوی قادرالکلام شاعر ہیں‘ محسن اعظم ملیح آبادی

آصف رضا رضوی قادرالکلام شاعر ہیں‘ ہر صنفِ سخن میں ان کا کلام وجود ہے۔ انہوں نے مرثیہ و سلام کے علاوہ نعت‘ حمد و غزل کے میدان میں بھی نام کمایا ہے۔ رثائی ادب میں ان کے ہاں تخیل ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں‘ ان کی شاعری زندگی کے مختلف عنوانات کا حوالہ ہے‘ وہ پچاس برس سے شعر کہہ رہے ہیں‘ ان کی شاعری میں لکنت ِ اظہار نہیں ہے‘ وہ جدت اور تنوع سے ایک نیا اسلوب بنا لیتے ہیں جس کی بنا پر وہ کامیابی کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر محسن اعظم ملیح آبادی نے آصف رضا رضوی کے اعزاز میں سجائی گئی محفل پزیرائی اور مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ یہ پروگرام ادارۂ فکرِ نو کراچی کے زیر اہتمام سہ ماہی جریدے جوہر انٹرنیشنل کے تعاون سے فاران کلب کراچی میں منعقد ہوا جس میں مہمان خصوصی رفیع الدین راز اور مہمانِ اعزازی سعید الظفر صدیقی تھے جب کہ حنیف عابد اور علی کوثر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس موقع پر محمد علی گوہر نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ادارۂ فکرِ نو کے تحت اس قسم کی محفلیں منعقد کرتے رہیں گے جن لوگوں نے ادب کی خدمت کی ہے ان کا حق ہے کہ ان کی پزیرائی کی جائے۔ ہماری تنظیم کے کریڈٹ پر کئی عالی شان پروگرام ہیں۔ حنیف عابد نے کہا کہ آصف رضا رضوی ایک شاعر ہیں‘ 1986ء میں قرطاسِ غم کے نام سے ان کے مرثیوں کا مجموعہ شائع ہو چکا ہے یہ اب تک 22 مرثیے کہہ چکے ہیں۔ احمد سعید خان نے کہا کہ آصف رضا رضوی نے قصبہ کالونی اورنگی ٹائون میں ایک ادبی تنظیم ’’شعورِ ادب‘‘ کے تحت شعر و سخن کی خدمت کی ہے‘ وہ بزم شمیم ادب کے صدر بھی رہے اور آج کل بزمِ تقدیس ادب کے صدر ہیں۔ یہ منکسرالمزاج انسان ہیں۔ درس و تدریس کے آدمی ہیں۔ یہ 13 سال کی عمر سے شعر کہہ رہے ہیں۔ فیاض علی فیاض اور اختر سعیدی نے آصف رضا رضوی منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ رفیع الدین راز نے کہا کہ آصف رضا رضوی نے زندگی کے مسائل دیکھے ہیں‘ وہ ہجرتوں کی دشواریوں سے گزرے ہیں لیکن انہوں نے کسی بھی محاذ پر زندگی پر جنگ نہیں ہاری وہ ایک باہمت انسان ہیں۔ انہوں نے شعری محاسن کے ساتھ ساتھ استعاروں اور جدید خیالات سے اپنی شاعری سجائی ہے۔ سعید الظفر صدیقی نے کہا کہ آصف رضا رضوی ایک مقناطیسی شخصیت ہیں جو بھی ان سے ملاقات کرتا ہے ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے انہوں نے شاعری میں حقیقت پسندی سے کام لیا ہے جو کچھ انہوں نے دیکھا انہیں شاعری میں ڈھال کر پیش کر دیا یہ ایک علمی گھرانے کے فرد ہیں شاعری انہیں ورثے میں ملی ہے انہیں زبان و بیان پر عبور حاصل ہے۔ اختر سعیدی نے کہا کہ آصف رضا رضوی دبستان کراچی کا ایک اہم نام ہے‘ ان کی ادبی خدمات پر ہم انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔ رثائی ادب ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ اہل بیت کی زندگیاں اسلام کی تبلیغ کے لیے وقف تھیں۔ آنحضرتؐ کے نواسے حضرت امام حسینؓ نے کربلا میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ حق و صداقت کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ آصف رضا رضوی نے بڑی محنت اور لگن سے شاعری میں اپنی شناخت بنائی ہے‘ یہ P.R کے آدمی نہیں ہیں‘ یہ اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کی بنا پر آگے بڑھ رہے ہیں‘ ہمیں خوشی ہو رہی ہے کہ ہم آج ایک بڑے شاعر کے ساتھ شام منا رہے ہیں۔ تقریب میں ادارۂ فکرِ نو کی جانب سے آصف رضا رضوی کی خدمت میں نشانِ سپاس پیش کیا گیا اور اجرک پہنائی گئی اس کے علاوہ بہت سے لوگوں نے گل دستے پیش کیے۔ پروگرام کے دوسرے دور میں محسن اعظم ملیح آبادی‘ رفیع الدین راز‘ سعید الظفر صدیقی‘ اصف رضا رضوی اور مشاعرے کے نظامت کاروں کے علاوہ رونق حیات‘ اختر سعیدی‘ فیاض علی فیاض‘ ظفر بھوپالی‘ انور انصاری‘ عظمی جون‘ سلیم فوز‘ محمد علی گوہر‘ شوکت اللہ جوہر‘ علی اوسط جعفری‘ صفدر علی انشا‘ راقم الحروف نثار احمد‘ حامد علی سید‘ سحرتاب رومانی‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ کشور عدیل جعفری‘ سخاوت علی نادر‘ شاعر علی شاعر‘ شاہد اقبال شاہد‘ احمد سعید خان‘ گل انور‘ خالد رانا‘ محمود قیصر‘ ضیا حیدر زیدی‘ نظر فاطمی‘ واحد رازی‘ الحاج نجمی‘ آسی سلطانی‘ ڈاکٹر لبنیٰ سلمان‘ آفتاب عالم قریشی‘ شائق شہاب‘ یاسر صدیقی‘ عاشق شوقی‘ محمد علی سوز اور عینہ میر نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ پروگرام کی کامیابی کا سہرا اختر سعیدی کے سر ہے۔

آسی سلطانی کا نعتیہ مجموعہ کلام ’’صدائے مدینہ المنورہ‘‘ شائع ہو گیا

زآسی سلطانی نے راقم الحروف کو اپنا مجموعہ نعت ’’صدائے مدینہ المنورہ‘‘ عنایت کیا تھا کہ میں اپنے کالم میں اس کا تذکرہ کروں لیکن یہ میری کوتاہی تھی کہ اسے کہیں رکھ کر بھول گیا تھا۔ جب مجھے وہ کتاب مل گئی تو میں نے ضروری سمجھا کہ اس کتاب پر گفتگو کی جائے۔ یہ کتاب 208 صفحات پر مشتمل ہے جس میں ایک حمد کے علاوہ 180 نعتیں شامل ہیں۔ ڈاکٹر عزیز احسن نے آسی سلطانی کی نعتیہ شاعری کے بارے میں لکھا ہے کہ آسی سلطانی ایک روحانی نظام سے بھی وابستہ ہیں اس لیے ان کی نعتوں میں کہیں کہیں صوفیانہ قلبی واردات کے اثرات بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں تاہم وہ اچھا شعر کہتے ہیں۔ ڈاکٹر منصور الظفر دائود نے لکھا ہے کہ امتیاز الملک آسی سلطانی بنیادی طور پر انجینئر ہیں اور ادبی دنیا میں اپنی شناخت بنا رہے ہیں۔ ان کی نعتیں عقیدت مصطفیؐ کا آئینہ ہیں۔ تنویر پھول کہتے ہیں کہ آسی سلطانی کے نعتیہ اشعار پڑھ کر ایمان تازہ ہوتا ہے یہ شاعری کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں اپنا گھر بنا رہے ہیں۔ ڈاکٹر مظہر حامد کے نزدیک آسی سلطانی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محاسن‘ عادات و اطوار‘ سیرت و کردار کو نعتیہ شاعری میں بیان کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ ان کے کلام میں جو وجدانی کیفیت دیکھنے میں آئی ہے وہ ان کے ایمانی جذبات اور خلوص کا مظہر ہے۔ پروفیسر الحاج رحمانی خاور لکھتے ہیں کہ آسی سلطانی کی نعتیں پڑھ کر آپ ان کی نعت گوئی کے معترف ہو جائیں گے‘ یہ سہل ممتنع کے بہت اچھے نعت گو ہیں۔ صوفی شاہ محمد کمال نے لکھا ہے کہ اللہ رب العزت نے آسی سلطانی کو شاعری کے فن سے نوازا ہے‘ ان کی نعتوں میں گہرائی اور گیرائی ہے۔ ڈاکٹر خرم جہانگیری کہتے ہیں کہ آسی سلطانی کی نعتوں میں تقدیس رسولؐ شامل ہے۔ راقم الحروف نثار احمد نثار کی ملاقاتیں آسی سلطانی سے دبستان وارثیہ کے طرحی مشاعروں میں ہوئیں تاہم وہ غزل کے مشاعروں میں بھی مجھے ملتے ہیں۔ آسی سلطانی کے والدین بھارت سے ہجرت کرکے مشرقی پاکستان آئے تھے تاہم آسی سلطانی وہاں سے ہجرت کرکے کراچی آگئے۔ وہ شاعری میں پروفیسر رحمن خاور کے شاگرد ہیں۔ ان کی نعتیں پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ انہوں نے اپنی نعتوں میں آسان الفاظ استعمال کیے ہیں تاکہ ابلاغ میں آسانی رہے۔ ان کے یہاں فضائل و مناقب رسالت کے ساتھ ساتھ آشوبِ امتِ محمدی کی نشان دہی بھی نظر آرہی ہے اور عالم اسلام کے احوال و مسائل کا ذکر بھی اس یقین کے ساتھ ملتا ہے کہ اتباعِ حضرت محمد مصطفیؐ ہمارے اجتماعی اور ذاتی مسائل کا حل ہے مجھے امید ہے کہ آسی سلطانی کے نعتیہ مجموعے کی خاطر خواہ پزیرائی ہوگی۔

بس اتنی سی بات

محمد عثمان جامعی

یہ نااہلی کی بیماری نہیں ہے
بس اتنا ہے کہ تیاری نہیں ہے
حکم رانی میں دشواری نہیں ہے
بس اتنا ہے کہ تیاری نہیں ہے
یہ ذمے داری تو بھاری نہیں ہے
بس اتنا ہے کہ تیاری نہیں ہے
ترقی کا سفر جاری نہیں ہے
بس اتنا ہے کہ تیاری نہیں ہے
نہیں ایسا کہ بیداری نہیں ہے
بس اتنا ہے کہ تیاری نہیں ہے
انھیں بے عزتی پیاری نہیں ہے
بس اتنا ہے کہ تیاری نہیں ہے
جو ہوتی ختم ناداری نہیں ہے
بس اتنا ہے کہ تیاری نہیں ہے
یہ جنگ کشمیر کی ہاری نہیں ہے
بس اتنا ہے کہ تیاری نہیں ہے
وطن میں جو شجرکاری نہیں ہے
بس اتنا ہے کہ تیاری نہیں ہے
جو دہشت ظلم پر طاری نہیں ہے
بس اتنا ہے کہ تیاری نہیں ہے
کرپشن پرجو سنگ باری نہیں ہے
بس اتنا ہے کہ تیاری نہیں ہے
کوئی دعویٰ ریاکاری نہیں ہے
بس اتنا ہے کہ تیاری نہیں ہے

حصہ